مقالات

شہادت حضرت علی علیہ السلام

ہمارا آئمہ کے بارے میں عقیدہ ہے مامنا الا مقتول او مسموم ہم میں سے جو کوئی اس دنیا سے جاتا ہے یا مقتول ہو کے جاتا ہے یا مسموم ہوکے جاتا ہے یا تلوار سے شہید ہوتا ہے یا زہر سے شہید ہوتا ہے جو تلوار اور زہر دونوں سے شہید ہوا وہ فقط مولاعلی ؑ ہیں کیونکہ وہ ملعون قاتل کہتا تھا اشتریتہ بالف وشممتہ بالف  یہ تلوار کہ جس سے میں نے علی ؑ کے سر پر وار کیا ہے یہ تنہا تلوار نہیں ہے بلکہ ہزاردرہم سے میں نے اس تلوار کو خریدا اور ہزار درہم کی میں نے اسے زہر پلائی تھی

ماہ رمضان المبارک میں ایک بہت بڑا واقعہ شہادت مولائے متقیان علی ؑ ہے ۱۹ ماہ مبارک کی رات شب قدر کی رات ہے یہ وہ شب ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے اس رات میں انسانوں کی تقدیر بدلتی ہے اسی شب کو جب مولاعلی ؑ کی افطاری کاوقت آیا روزہ افطارکیا اور جب کھانا تین قسم کا لایاگیا تو فرمایا بیٹی آج تک پہلے بھی کبھی تین اکٹھے کھانے علی ؑنے کھائے ہیں ان میں سے دوکھانوں کو اٹھا لو دوکھانے علی ؑکے حکم پر اٹھا لئے گئے پوری پوری رات نہ سونے والا علی ؑ آج رات اپنے گھر کے صحن میں چکر لگارہا ہے اور ستاروں کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ اے ستاروں گواہ رہنا کہ میں نے تمہیں ڈوبتے ہوئے دیکھا ہے لیکن آج تک آپ نے مجھے کبھی سوتے نہیں دیکھا( مختصر تحریر کررہا ہوں)

جب گھر سے نکلنا چاہا تو حیوانوں نے یعنی بطخوں نے گھیر لیا اور اپنی زبان میں روکتی تھیں کہ مولاآج مسجد میں نہ جائیے پھر بھی مولا علی ؑ مسجد میں چلے گئے جب مصلی عبادت پر صبح کی نماز پڑہا رہے تھے تو عبدالرحمن بن ملجم نے زہر سے بھری تلوار کا سر پر وار کیا وہ تلوار سرکے آدہے حصے تک پہنچ گئی مولاعلی ؑ زخمی ہوگئے مصلی خون سے پر ہوگیا فضا میں قدقتل امیرالمومنین کی آواز گونجی اور شہزادی زینب ؑ اور ام کلثوم تڑپ کر بھائی کے پاس آئیں بھیا !یہ میں کیا سن رہی ہوں کیا بابامارے گئے ؟

بھیا جلدی مسجد میں جاکر باباکی خبر لائیے (میں کہوں گا )شہزادی آج بھائی گھر میں موجود ہیں باپ کی خبر گیری کے لئے بھیج دئیے لیکن بی بی کل جب فضاء کربلا میں آواز  آئیگی الا قد قتل الحسین بکربلا  گونجے گی تو کس کو میدان میں بھیجے گی جو مقتل سے بھائی کی خبر لائے عجب نہیں شہزادی نے زبان حال سے کہا ہو ،میں خود بلندی تک اپنے آپ کو پہنچاؤں گی اور بھائی کے گلے پر کند خنجر دیکھ کر آواز دونگی پسر سعد میرا ماں جایا ذبح ہورہا ہے اور تو کھڑا دیکھ رہا ہے ۔

جب علیؑ کو گھر لے کر آرہے تھے جونہی گھر کے نزدیک پہنچے مولا نے فرمایا بیٹا حسن جاؤ اور صحابیوں کو کہہ دو کہ یہاں سے واپس چلے جائیں میرے گھر آنے کی کوئی ضرورت نہیں جب روکنے کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا میں علی ؑ کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ میری بیٹیوں کے رونے کی آوازیں غیر محرموں کے کانوں تک جا پہنچیں  (ربط کربلا ۔۔۔)پھر جب گھر پہنچ گئے تو ایک حکیم کو بلایا گیا اس حکیم نے کہا زہر بہت زیادہ اثر کر چکی  ہے دودھ کا بندوبست کیا جائے جو نہی کو فہ والوں نے سنا بچے جوان ،بوڑھے ،مرداور عورتیں سب دوڑ کر گئے دودھ اکٹھا ہونا شروع ہوا بہت زیادہ دودھ اکٹھا ہو گیا اتنی مولا علی ؑکو ضرورت بھی نہ تھی (میں یہاں پر یہ عرض کروں گا )میرے مولا تیرے ماننے والے تو تیرے لئے اتنا دودھ اکٹھا کررہے ہیں لیکن کربلا کے میدان میں تیرا بیٹا حسین ؑ تین دن کا پیاسا شہید ہو رہا ہے مولا آپ نے تودودھ مانگا ہی نہیں ہے لیکن امام حسین ؑ تومانگ رہے ہیں کہ اگر مجھے نہیں دیتے تو کم از کم اس معصوم علی اصغر ؑ کو تو ایک گھونٹ پانی کا پلادو ۔۔۔مولا علی ؑ نے انتقال کے وقت وصیت فرمائی : تقوی و پرہیز گاری اختیار کرو صلہ رحمی جیسی عبادت کرو آپ نے آخری وقت میں اپنے سب بیٹوں کوبلاکر امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کی اطاعت اور امداد کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ فرزندان رسول ہیں آپ ؑنے اپنی تمام اولاد  و  ازواج کو امام حسین ؑ کے سپرد کیا لیکن حضرت عباس کو امام حسین ؑ کے حوالے کرکے فرمایا کہ یہ تمہارا غلام ہے کربلامیں کام آئے گا۔

نکتہ مھم :جب حضرت علی علیہ السلام کی اولاد زخمی بابا کو دیکھتے تو مولا کارنگ زرد ہو چکا تھا جناب مولاعباس  دو زانوبیٹھے تھے گریہ کر رہے تھے بابا علی نے بلایا عباس اس واقعہ کو ذھن نشین کرلو بس کربلا کا میدان ہے مولا عباس گھوڑے پر سوار ہیں ایک آنکھ میں تیر ہے دونوں ہاتھ کٹ چکے ہیں گردن جھک چکی ہے چاہتے ہیں کہ تیر نکالیں لیکن ہاتھ تو نہ تھے دونوں گھٹنوں کی مدد سے تیر کو نکالنے کی کوشش کررہے تھے کہ ایک ظالم نے لوہے کاگرز مارا مولاعباس کا سر بابا علی کی طرح زخمی ہوگیا مسجد کوفہ سے باہر آواز گونجی تھی قد قتل امیرالمومنین  لیکن یہ کربلا ہے کربلا میں آواز آئی الان انکسری ظھری وقلت حیلتی  میری کمر ٹوٹ گئی میری تدبیریں کم ہو گئیں  ۔علی کی شھادت کےبعد سب پر یشان تھے بی بی زینب سلام اللہ علیھا  نے فرمایا آ ج کے بعد مجھے زینب نہ کہو اب میں بغیر باپ کے ہوں اور پھر فرماتی تھی بابا جان زینب تو تیرے وجود سے زینب تھی اب زینت کو ساتھ لے جاو ۔ شب شھادت علی علیہ السلام کی اولاد سب پریشان ہیں گریہ کر رہے ہیں لیکن آج کی رات محسن بن علی خوش ہیں محسن کہہ رہا ہے ابھی تک میں نے بابا کو نہیں دیکھاتھا بابا جان آخرمیرے پاس آگئے بہت دل چاہتا تھا کہ تیرے چہرے کی زیارت کروں باباجان میری ماں نے تیری غربت اور بےکسی سے مجھے آگاہ کیا تھا پھر محسن کہتا ہے بابا اس قدر سر پر زخم کیسے ہوا ؟ اور پھر محسن نے زبان حال سے کہا یہ کام انہی کا ہے جنھوں میری ماں کو شھید کیا تھا جنھوں نے مجھے اپنے بابا کی زیارت سے محروم کیا تھا ۔

 امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ اور عبداللہ ابن جعفر نے غسل دیا اور محمد حنفیہ نے پانی ڈالنے میں مدد کی کفن پہنانے کے بعد حضرت امام حسن ؑ نے نماز جنازہ پڑھی جس شب میں حضرت علی ؑ شہید ہوئے اس کی صبح کوبیت المقدس کا جو پتھر اٹھا یا جاتا تھا اسکے نیچے سے خون تازہ بر آمد ہوتا تھا امام علی ؑ کی قبر کو پوشید ہ رکھا گیا ۔۔۔

تحریر: مولانا ممتاز حسین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button