مقالات

نھج البلاغہ اور سائنس (حصه اول)

 

نھج البلاغہ اور سائنس

                 عذرا حیدری ۔ جامعۃ الزھراء

 

چکیدہ :

اس مقالے کو نھج البلاغہ میں موجود امام علی علیہ السلام کے کلام کو دور حاضر کی آخری تحقیقات کی روشنی میں ترتیب دیا ھیا ھے ۔ سب سے پھلے اس علم پر بحث ھوئی ھے کہ جو اس عالم کی تخلیق کے بارے میں ھے اور پھر وہ علم و سائنس جو عالم طبیعت سے تعلق رکھتی ھے مثال کے طور پر : پانی ، پھاڑ ، حیوانات اور …اور ان سب کے علاوہ وہ سائنس پر بحث ھوئی ھے جو انسان کے بارے میں ھے یعنی انسان کی پیدایش کے متعلق اور انسان کی بیماریاں اور …۔اور آخر میں نتیجہ میں ساری بحث کو سمیٹ لیا ھے ۔

کلید واژہ : نھج البلاغہ ۔ خطبہ ۔ سائنس ۔ عالم ۔

 

مقدمہ :آپ کے پیش رو مقالہ حضرت علی علیہ السلام کے دریائے بیکران علم کا تنھا ایک گوشہ ھے ۔ امام علیہ السلام کے علم نے بھت سے ایسے حقائق سے پردہ اٹھائے ھیں کہ جسے دور حاضر کی تحقیقات اس پر پھنچ رھی ھے اور بھت سے ایسے مسائل نھج البلاغہ میں موجود ھیں کہ جسے آج کی سائنس ابھی تک نھیں پھنچی ھے اور امام علیہ السلام کی سخن کے عمق تک ابھی نھیں پھنچے ھیں ۔ کیا یہ خوشی کی بات نھیں کہ جو بات امام علیہ السلام نے چودہ سو سال پھلے کھی تھے ،آج ان پر سے پردہ اٹھایا جارھا ھے اور ایک بار پھر امام علیہ السلام کے دریائے بیکران علم موج مار رھا ھے ۔ امام علیہ السلام کا کلام نور ھے اور نور ھی ھے جو تمام ظلمات و تاریکی پر چھا جاتا ھے اور حقیقت کو روشن کرتا ھے ۔اس مقالے میں امام علیہ السلام کے نور سے استفادہ کیا ھے اور امام کے کلام کو دور حاضر کی آخری تحقیقات کے مطابقت ھے اور اس نور کی روشنی میں اضافہ کیا گیا ھے ،نہ اس معنا میں کہ نعوذ باللہ امام کے علم میں نقصان تھا بلکہ اس معنا میں کہ آج کے عوام کے لیے امام علیہ السلام کا کلام قابل فھم ھوجائے ۔

 

۱۔پیدایش عالم

امام علیہ السلام عالم کی پیدایش کے بارے میں نھایت دقیق بیان دیا ھے۔جھاں امام فرماتے ھیں” و کان من اقتدار جبروتہ بدیع لطائف صنعتہ ان جعل من ماء البحر الزاخر المتراکم المتقاصف یبسا جامدا ” (۱)اللہ سبحانہ کے زور فرمانروایی اور عجیب و غریب صنعت کے لطیف نقش آرایی ایک یہ ھے کہ اس نے ایک انتھا دریا کے پانی سے جس کی سطحیں تہ بہ تہ اور موجین تپھڑے مار رھی تھی ایک خشک و بے حرکت زمین کو پیدا کیا پر اس نے پانی (کے بخار ) کی تھوں پر تھیں چڑھادی جو آپس میں ملی ھویی تھی ۔

امام نے اس فراز میں نھایت دقیق طریقے سے عالم کی خلقت کا ذکر کیا ھے اور کھا ھے کہ سب سے پھلے ھوا اور پھر پانی اور اس کے بعد ساری چیزیں خلق ھویی ھیں آج بھی سائنس دانوں کا اس بات پر اتفاق ھے کہ پانی اکسیژن اور ھیدروژن ((h2oسے بنا ھوا ھے کہ یہ دونوں گیس ،ھوا میں بھی پائی جاتی ھیں اور خلقت بھی گیس (دخان ) سے شروع ھویی ھے "ثم استوی الی السماء و ھی دخان "(۲) اس کے بعد اس نے آسمان کا رخ کیا جو بالکل دھواں تھا ۔ اس آیت میں واضح اعلان ھورھا ھے آسمان اصل میں کچھ گیس ھیں جن کے ذریعے ان کا وجود عمل میں آیا ھے اور یہ بات دور حضر کی آخری تحقیقات کے عیں مطابق ھے ۔”و فسح بین الجو و بینھا و اعد الھواء متنسما لساکنھا"(۳) اور اللہ نے زمین سے لے کر فضائے بسیط تک پھیلاؤ اور وسعت رکھی ۔ دور حاضر کی آخری تحقیق بھی اس بات کے عین مطابق ھے کہ جب زمین ٹنڈھی ھوگئی او انسان کےرھنے کے قابل ھوگئی تو ھوا میں موجود پانی کے اکٹھا ھونے سے بادل پیدا ھوا اور پھر بھت زیادہ بارش ھویی جس کی وجہ سے سمندریں پیدا ھویی ۔ "فسبحان من امسکھا بعد موجان میاھما و اجمد ھا بعد رطوبۃ اکنافھا فجعلھا لخلقہ مھادا "(۴)پاک ھے وہ ذات جس نے پانی کی طغیانوں کے بعد زمین کو تھام رکھا اور اس کے اطراف و جوانب کو تر بتر ھونے کے بعد خشک کیا اور اسے اپنی مخلوقات کے لیے گھوارہ (استراحت) بنایا ۔” اخرج بہ من ھوامد الارض النبات و من زعر الجبال الاعشاب فھی تبھج بزینۃ ریاضتھا و تزدھی بما البستہ من ریط ازاھیرھا و حلیۃ ما سمطت بہ من ناضر انوارھا "(۵) تو اللہ نے افتادہ زمینوں سے سرسبز کھتیاں اگائیں اور خشک پھاڑوں پر ھرا بھرا سبزہ پھلادیا ۔ زمین بھی اپنے مرغزاروں کے بناؤ سنگھار سے خوش ھو کر جھومنے لگی اور ان شگوفوں کی اوڑھنیوں سے جو اسے اوڑھادی گئی تھیں اور ان شگفتہ و شاداب کلیوں کے زیوروں سے جو اسے پھنادیے گئے تھے ،اترانے لگی ۔ ان جملات میں بھی امام یہ بتانا چاھتے ھیں کہ خشکی سمندروں سے باھر آیی اور پھر سارے زندہ موجودات کے لیے سکونت کے قابل ھویی ۔ آج کے سائنس دانوں کے تحقیق کے مطابق بھی زمین کی پوری سطح پانی سے پوشیدہ تھی اور اس کے بعد پانی بخار ھوتا رھا اور خشکی ظاھر ھوتی رھی اور خشکی چند حصوں میں تقسیم ھوگئی ۔

۲۔طبیعت

۱۔۲ستارے(نجوم)

امام علیہ السلام علم نجوم میں اجرام آسمانی کے بارے میں فرماتے ھیں:”و اجراھا علی اذلال تسخیرھا من ثبات ثابتھا و مسیر سائرھا و ھبوطھا و صعودھا "(۶)۔ اور ستاروں کو  اپنے جبر و قھر سے ان کے ڈھرے پر لگایا کہ کوئی ثابت رھے اور کوئی سیار کبھی اتار ھو اور کبھی ابھار ۔اس بیان میں حضرت نے یہ بتایا ھے آسمان پر ھرشیء ایک جیسی نھیں ھوتی بلکہ ان کی بھی بھت قسمیں ھوتی ھیں آج کے منجم نے بعض اجرام کو اس طرح نام دیا ھے جو اپنی جگہ پر ثابت رھتے ھیں ان کو ستارہ کھا ھے اور جو حرکت میں رھتے ھیں ان کو سیارہ کا نام دیا ھے بعض اپنے اندر سے روشنی دیتے ھیں اور بعض دوسرے ستاروں سے روشنی لے کر روشن ھوجاتے ھیں ۔

 اوردوسری جگہ اس طرح فرماتے ھیں: "ایھا الناس ایاکم و تعلم النجوم الا ما یھتدی بہ فی بر او بحر " (۷)اے لوگوں! نجوم کے سیکھنے سے پرھیز کرو مگر اتنا کہ جس سے خشکی اور تری میں (صحرائوں اور دریاؤں میں) راستہ معلوم کرسکو ۔ امام علیہ السلام ان جملات سے یہ بتانا چاھتے ھیں کہ صحرائوں اور دریاؤں میں ستاروں سے راستا ڈھونڈھا جا سکتا ھے ۔جو علم نجوم جانتے ھیں بھت سے ایسے ستاروں کو پھچانتے ھیں کہ جن کے ذریعہ جغرافیائی شمال ،جنوب ،مشرق اور مغرب کا تقریبا درست نشاندھی ھوسکتی ھے مثال کے طور پر ستارہ جدی سے جغرافیائی شمال کا صحیح اندازہ لگ سکتا ھے اس طرح کہ اگر اس ستارے کو افق سے ایک لکیر کے ذریعہ ملادیں تو جس جگہ یہ لکیر افق سے ملے گی وھاں جغرافیائی شمال ھوگا ۔اسی طرح قطبی ستارہ یا شمالی ستارہ (/ polaris alpha ursae)سے بھی جغرافیائی شمال کی نشاندھی ھوسکتی ھے ۔یہ ستارہ آسمان شمال میں نظر آنے والا روشن ترین ستارہ ھے یہ تقریبا سماوی قطب شمال پر نظر آتا ھے ۔اگر صورت فلکی دب اکبر کے جو پیالے کے مانند دو ستارے ھیں اگر اس کے ما بین کے فاصلے کو پانچ برابر کرکے اوپر کی طرف جائیں تو قطبی ستارہ مل جائے گا اور اگر ستارہ جدی کی طرح اس ستارے کو بھی افق سے ملائیں تو جغرافیائی شمال کا پتہ لگ جائے گا ۔(۸)

۲۔۲چاند اور سورج کی منزلیں

"و ضیاء الثواقب و اجری فیھا سراجا مستطیرا و قمرا منیرا فی فلک دائر و سقف سائر و رقیم مائر”(۹) ۔ اور ان میں ضیاءبار چراغ اور جگمگاتا چاند رواں کیا جو گھومنے والے فلک چلتی پھرتی چھت اور جنبش کھانے والی لوح میں ھے۔

"الھم رب السقف المرفوع و الجو المکفوف الذی جعلتہ مغیضا للیل و النھار و مجری للشمس و القمر و مختلفا للنجوم السیارہ "(۱۰) اے اللہ ! اس بلند آسمان اور تھمی ھویی فضا کے پروردگار جیسے تو نے شب و روز کے سر چھپانے چاند اور سورج کے گردش کرنے اور چلنے پھر نے والے ستاروں کی آمد و رفت کی جگہ بنایا ھے ۔ ان فرازوں میں امام نے آشکارا بیان کیا ھے کہ سورج اور چاند کی منزلیں ھیں اور سورج اپنی منزل اور چاند اپنی منزل پر حرکت کرتے ھیں آج کے منجمین بھی اس عقیدے پر ھیں کہ زمین سورج کے اطراف گھومتی ھے حال آنکہ گالیلہ(قرون وسطی کا ایک مشھور منجم)کے پھلے کے دور کے لوگ یہ سمجھتے تھے زمین ثابت ھے اور سورج گھومتا ھے اگرچہ یہ مسئلہ بلکل باطل ھوچکا ھے کہ سورج زمین کے اطراف گھومتا ھے لکن آج کے منجمین نے پتا پتہ لگایا ھے کہ سورج بھی ثابت نھیں ھے بلکہ حرکت میں ھے اور اس حرکت کو تقدیری حرکت کا نام دیا ھے اور یہ حرکت اس طرح ھے کہ سورج کھکشان راہ شیری کے ایک گوشہ کی طرف رواں ھے اور اپنی منزلیں طی کررھا ھے اور چاند کی بھی حرکت ثابت شدہ ھے کہ چاند زمین کے اطراف گھوم رھا ھے جس کے زمین کے اطراف، ایک دور لگانے سے ایک مھینہ وجود میں آتا ھے ۔اور چاند اس طرح اپنی منزلیں طی کرتا ھے ۔

۳۔۲ پانی اور سمندریں

۱۔۳۔۲ بارش

"الف غما مھا بعد افتراق لمعہ و تباین فزعہ حتی اذا تمخضت لجۃ المزن فیہ و تمع برقہ فی کنفہو لم ینم و میضہ فی کنھور ربابہ و متراکم سحابہ ،اارسلہ سحا متدارکا "۔ (۱۱) اس نے ابر کی بکھری ھوئی چکیلی ٹکریوں اور پراکندہ بدلیوں کو یکجا کرکے ابر محیط بنایا اور جب اس کے اندر پانی کے ذخیرے حرکت میں آگئے اور اس کے کناروں میں بجلیاں تڑپنے لگیں اور برق کی چمک سفید ابروں کی تھوں اور گھنے بادلوں کے اندر مسلسل جاری رھی تو اللہ نے انھیں موسلا دھار برسنے کے لیے بھیج دیا ۔دور حاضر کی آخری تحقیقات کے بنا پر بارش کے نازل ھونے کا سب سے پھلا مرحلہ یہ ھے کہ سندروں پر سے ھوا چلتی ھے اور پانی کے سطح پر ذروں کو اپنے ساتھ لےکر ادھر ادھر جاتی ھے اور پھر ایک مرحلے میں جسے ترپ واتر ((trap waterکھتے ھیں یہ ذرے ایک دوسرے میں متصل ھوکر اوپر کی طرف جاتے ھیں یہ پانی کے ذرے ھوا میں موجود نمک اور گردو غبار ذروں کے اطراف متصل ھوتے ھیں اور پھر شکل بادلوں جیسی بنتی ھے اور کیوں کہ یہ ابتدائی بادل بھت ھلکا ھوتا ھے آسمان کے ھر طرف پھیل جاتا ھے ار پھر ھم دیکھتے ھیں کہ آسمان پر بادل ھے جب یہ بادلوں میں موجود پانی کے ذرے نھایت سنگین ھوجاتے ھیں تو یہ بادل ان ذرات کو تحمل نھیں کرسکتا لھذا یہ ذرات بارش کی صورت میں زمین کی طرف گر جاتے ھیں ۔

ھم اس ھماھنگی کو قرآن کی آیات میں بھی دیکھتے ھیں جھاں خدا نے فرمایا:”و اللہ الذی ارسل الریاح فتشیر سحابا” (۱۲) اور اللہ وھی ھے جس نے ھوائوں کو بھیجا تو وہ بادلوں کو منتشر کرتی ھیں ۔”الم تر ان اللہ یزجی سحابا یؤلف بینہ ثم یجعلہ رکاما فتری الودق یخرج من خلٰلہ و ینزل من السماء من جبال فیھا من برد فیصیب بہ من یشاء و یصرفہ عن من یشاء یکاد سنا برقہ یذھب بالابصار”(۱۳) کیا تم نے نھیں دیکھا کہ خدا ھی ابر کو چلاتا ھے اور پھر انھیں آپس میں جوڑکر تہ بہ تہ بنا دیتا ھے پھر تم دیکھو گے کہ اس کے درمیان سے بارش نکل رھی ھے اور اسے آسمان سے برف کے پھاڑوں کے درمیان برساتا ھے پھر جس تک چاھتا ھے ہھچادیتا ھے اور جس کی طرف اسے چاھتا ھے موڑدیتا ھے اسکی بجلی کی چمک اتنی تیز ھے کہ قریب ھے آنکھوں کی بینائی کو ختم کردے ۔

۲۔۳۔۲ پانی کی قسمیں

پانی ایک ایسا مادہ ھے جو نہ رنگ رکھتا ھے نہ بو اور نہ مزہ لکن زندہ موجودات کے لیے ایک اھم مادہ ھے اور اس کے بغیر ھر قسم کی حیات نا ممکن ھے ۔

"و اعلم ان لکل عمل نباتا و کل نبات لا غنیٰ بہ عن الماء و المیاہ مختلفۃ فما طاب سقیہ طاب غرسہ وصلت ثمرتہ و ما خبث سقیہ خبث غرسہ و امرت ثمرتہ"(۱۴) دیکھو ھر عمل ایک اگنے والا سبزہ ھے اور سبزہ کے لیے پانی کا ھونا ضروری ھے اور پانی مختلف قسم کا ھوتا ھے جھاں اچھا پانی دیا جائے گا وھاں پر کھیتی بھی اچھی ھوگی اور اس کا پھل بھی میٹھا ھوگا اور جھاں پانی خراب ھو وھاں کھیتی بھی بری ھوگی اور پھل بھی کڑوا ھوگا ۔

امام علیہ السلام ان جملات میں یہ بتارھے ھیں کہ پانی کی قسمیں ھوتی ھیں جس طرح سبزہ کو پانی دیا جائے اسی طرح سبزہ اگتا ھے آج کے سائنس کے مطابق پانی کی بھت قسمیں ھیں مثال کے طور پر :

۱_ میٹھا پانی(آب شیرین)، یہ پانی ایسا ھے کہ اس میں غیر حل شدہ نمک بھت کم پایا جاتا ھے اور یہ پانی بھت صاف و زلال رھتا ھے یہ پانی زندگی اور حیات کے لیے بھت اھمیت رکھتا ھے یہ پانی انسانوں، جانوروں اور نباتات کے لیے بھت مناسب ثابت ھوا ھے ۔

۲_معدنی پانی(آب معدنی)، پانی کے اس قسم میں معدنی مواد زیادہ ھوتا ھے اور اس کا مزہ میٹھے پانی سے ذرا سا فرق کرتا ھے اور اس پانی میں موجود معدنی مواد کی خاطر  دوا کے طور پر بھی استعمال ھوتا ھے اور بھت سی بیماریوں کے لیے علاج بھی ھے ۔

۳_سخت پانی،اس پانی میں معدنی نمک جیسے ھیدروژن کربنات،کربنات کلسیم اور کربنات منیزیم بھت زیادہ پائے جاتے ھیں اور یہ پانی سبزوں کے لیے نامناسب ھے اور انسانوں کے لیے بھی مضر ھے ۔

۴_نمکین پانی Saline water)) اس پانی میں نمک کثیر مقدار میں موجود ہوتا ہے.اِسے پانی اور نمک کا محلول کہاجاسکتا ہے.

۴۔۲ پھاڑ

۱۔۴۔۲ پھاڑ زمین کے لیے میخ جیسے ھیں

"و عدل حرکاتھا بالراسیات من جلامیدھا ” (۱۵) اور پتھروں کی مضبوط چٹانوں اور بلند چوٹیوں والے پتھریلے پھاڑوں سے اس کی حرکت میں اعتدال پیدا کیا۔

"رب الجبال الرواسی التی جعلتھا للارض اوتادا "(۱۶)۔اے مضبوط پھاڑوں کے پروردگار جنھیں تو نے زمین کے کیے میخ بنایا ھے۔ "و ذوات الشناخیب الشم من صیاخیدھا فسکنت من المیدان لرسوب الجبال فی القطع ادیمھا و تغلغلھا متسربۃ فی حبوبات خباشیمھا و رکوبھا اعناق سھول الارضین و جراثیمھا " (۱۷)۔ زمین کے سطح کے مختلف حصوں میں پھاڑوں کے ڈوب جانے اور اس کی گھرائیوں کی تہ میں گھس جانے اور اس کے ھموار حصوں کی بلندیوں اور پست سطحوں پر سوار ھوجانے کی وجہ سے اس کی (زمین)کی تھرتھراھت جاتی رھی ۔”فاشھق قلالھا و اطال انشازھا و جعلھا للارض عمادا و ارزھا فیھا اوتادا"(۱۸) ۔ ان کی چوٹیوں کو فلک بوس اور بلندیوں کو آسمان پیما بنادیا اور انھیں زمین کے لیے ستون قرار دیا اور میخوں کی صورت میں انھیں گاڑا ۔

پھلے اور دوسرے جملوں میں لفظ رواسی استعمال ھوا ھے ۔ رواسی پایدار اور مستحکم اشیاء کو کھا جاتا ھے (۱۹)لیکن زیادہ تر اس کا استعمال پھاڑوں کے بارے میں ھوتا ھے اگریہ لفظ تنھا استعمال کیا جائے تو پھاڑ ھی مراد ھوتے ھیں اور محکم پھاڑوں کا فایدہ یہ ھے کہ زمین اپنے مقام پر قائم رھے اور غیر معمولی حرکت نہ کرپائے جیسا کہ قرآن کی آیت بھی ھے "و جعلنا فی الارض رواسی تمیدبھم"(۲۰) اور ھم نے زمین میں پھاڑ قرار دیئے ھیں کہ وہ ان لوگوں کو لے کر کسی طرف جھک نہ جائے ۔ دور حاضر کی تازہ ترین دریافت یہ ھے کہ اگر زمین پر پھاڑ نہ ھوتے تو زمین نھایت شدید لرزش کا شکار ھوتی اس لیے کہ جب زمین کے اندرونی حصے سے بھت ساری گیسیں فشار کے ساتھ باھر کی طرف آتی ھیں تو اگر پھاڑ نہ ھوتے زمین میں بھت سخت زلزلہ ھوتا اس کے علاوہ امام تیسرےفراز میں فرماتے ھیں کہ پھاڑ زمین کی گھرائیوں میں گھسے ھیں اور دور حاضر کی تحقیقات کے بنا پر سارے پھاڑ زمین کے اندر ایک دوسرے سے متصل ھیں کہ یھی پیوستگی ، زمین کے لرز جانے سے ممانعت کرتی ھے ۔چوتھے جملے میں امام نے فرمایا ھے کہ پھاڑ میخ جیسے ھیں ۔جس طرح ایک میخ لکڑی می جا کر اسے اپنی جگہ محکم کردیتی ھے ،اسی طرح پھاڑ زمین کے صفحوں کو محکم کرتے ھیں اور آج کے سائنس نے بھی اس بات کی تایید کی ھے کہ زمین کے سطح پر بھت سارے صفحیں ھیں کہ اگر پھاڑ نہ ھوتے تو ھمیشہ ان میں لرزش پائی جاتی ۔

۵۔۲ حیوانات

۱۔۵۔۲ چمگادڑ

امام علیہ السلام نے چمگادڑ کی، تفصیل سے توصیف کی ھے لکن میں نے یھاں پر صرف ایک فراز منتخب کیا ھے "فسبحان من جعل اللیل لھا نھار و معاشا و النھار سکنا و قرارا و جھل لھا اجنھۃ من لحمھا تعرج بھا عند الحاجۃ الیٰ الطیران کانھا شظایا الآذان"(۲۱) سبحان اللہ کہ جس نے رات ان کے (چمگادڑ)کسب معاش کے لیے اور دن آرام و سکون کے لیے بنایا ھے اور ان کے گوشت ھی سے ان کے پر بنائیں ھیں اور جب اڑنے کی ضرورت ھوتی ھے تو انھی پروں سے اونچی ھوتی ھیں گویا کہ وہ کانوں کی لویں ھیں ۔اس فراز میں امام علیہ السلام نے نھایت ظریفانہ طریقہ سے یہ بتایا ھے کہ چمگادڑ دن میں نھیں دیکھ سکتا بلکہ وہ رات میں کسب معاش کرتا ھے اور اس بات کا تعلق اس کہ پروں سے ھے اور اس کے پر وھی کام کرتے ھیں جو کان کرتے ھیں ۔

آج کے سائنس کے تحقیقات کے بنا پر چمگادڑ کی آنکھیں ایک خاص قسم کی ھوتی ھین جو صرف تاریکی میں ھی دیھکھ سکتی ھیں اور دن کے اجالے میں کچھ نھیں دیکھ سکتی اسی لیے چمگادڑ رات کی تاریکی میں کھانا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ھے ۔ وہ رات کی تاریکی میں اپنی آنکھوں سے کام نھیں لیتی بلکہ اپنے پروں سے ایک خاص قسم کی آواز (جو انسان نھیں سن سکتا)نکالتی ھے پھر جب وہ آوازیں چیزوں سے ٹکراتی ھیں اور واپس آتی ھیں اپنے پروں کے ذریعہ اسے سن کر اپنے اطراف کی چیزوں کو تشخیص دیتی ھے ۔ایک چمگادڑ ھر ایک سیکنڈ میں تیس سے لے کر ساٹھ (۳۰۔۶۰)بار اپنے پروں ذریعے ان آوازوں کو برقرار رکھتی ھے اور پھر ان کے انعکاس کے ذریعے موانع اور غذا کو تشخیص دیتی ھے۔(چمگادڑ کا یہ کام بالکل ایک رادار جیسا ھے جس طرح وہ امواج کو دریافت کرکے دشمن کے ھوائی جھاز کو ڈھونڈھ نکالتا ھے ) ۔

۲۔۵۔۲ چیونٹی ((myrmecology

"انظروا الی نملۃ فی صغر جثتھا و لطافۃ ھیئتھا ، لا تکاد تنال بلحظ البصر و لا بمستدرک الفکر کیف دبت علی ارضھا و صبت علی رزقھا تنقل الحبۃ الی جحرھا و تعدھا فی مستقرھا تجمع فی حر ھا لبردھا ،و فی رودھا لصدرھا مکفولۃ "(۲۲) ۔ ذرا اس چیونٹی کی طرف اور اس کی جسامت کے اختصار  اور شکل و صورت کی باریکی کے عالم میں نظر کرو اتنی چھوٹی کہ گوشہ چشم سے بمشکل دیھکی جاسکے اور نہ فکروں میں سماتی ھے دیکھو تو کیونکر زمین پر رینگتی پھرتی ھے اور اپنے رزق کی طرف لپکتی ھے اور دانے کو اپنے قیام گاہ میں مھیا رکھتی ھے اور کبھی اس راستے کو نھیں بھولتی ھے ،اور گرمیوں میں جاڑے کے موسم کے لیے اور قوت و توانائی کے زمانے میں عجز و درماندگی کے دنوں کے لیے ذخیرے اکٹھا کر لیتی ھے ۔

امام اس فراز میں بیان کر رھے ھیں کی ایک چھوٹی سی چیونٹی کس طرح اپنے رزق جمع کرتی ھے اور اپنی بل کی طرف جاتی ھے۔ حیرت کی بات یہ ھے کہ اتنی چھوٹی جو امام کے سخن کے مطابق جو گوشہ چشم سے بمشکل دیکھی جاتی ھے اپنے بل کی طرف کس طرح جاتی ھے ، اس کی نظر میں ھر ایک چھوٹی سی لکڑی ایک ستون کے برابر ھوتی ھی وہ اپنے راستے کو کس طرح یاد رکھتی ھے اور بھولتی نھیں اور اپنے مشکل وقت کے لیے فراغت میں رزق اکٹھا کرتی ھے سائنس دانوں نے تحقیق کی ھے اور دیکھا ھے کی چیونٹی کی بھت سے قسم ھوتی ھے اور ھر ایک کی بل کا راستہ اڈھونڈنے کے لیے ، خاص روش ھوتی ۔ بعض اپنے بل سے نکلتے ھوئے راستے میں نشانہ گذاری کرتی ھیں اور پھر پلٹنے کے وقت اس نشانوں کے ذریعے اپنی بل میں لوٹتی ھیں بعض کا نظریہ یہ ھے کہ یہ نشانہ ایک ایسا مادہ ھے کہ جو چیونٹی اپنی ذات سے بناتی رھتی ھیں اور پھر ،جھاں جھاں سے گذر تی ھے اس مادہ کی مھک وھاں پھیل جاتی ھے اور پھر پلٹنے کے وقت اسی مھک سے اپنا راستا ڈھونڈھتی ھے (البتہ یہ بات قطعی نھیں ھے ) ۔ اور بعض چیونٹی اپنے اوپر موجود سورج کو دیکھتی ھے اور اس کا اور زمین سے فاصلے کو حساب کرتی ھے اور پھر اپنی بل ڈھونڈھتی ھے ( اس فاصلے کا انسان بغیر کسی خاص وسیلہ سے اندازہ نھیں لگا سکتا ) بعض چیونٹی سورج سے اور نشانہ سے بھی ، دونون روش سے اپنی بل ڈھونڈھتی ھے یعنی اگر سورج سر پر نہ رھے (رات رھے) تو وہ زمینی نشانوں سے اپنی بل ڈھونڈھتی ھے ۔

۳۔۵۔۲ ھر ایک زندہ موجود ایک زندہ موجود سے ھی خلق ھوا ھے

” وانشر علینا رحمتک بالسحاب المنبعق و الربیع المغدق و النبات المونق سحاً وابلاً تحیی بہ ما قدمات و ترد بہ ما قد فات "(۲۳) ۔ پروردگارا ھم پر اپنی رحمت پھیلادے وہ موسلادھار بارش اس طرح برسے کہ ان سے مردہ چیزیں تو زندہ کردے اور گذری ھوئی بھاروں کو پلٹادے ۔خدایا ایسی سیرابی ھو کہ زندہ کرنے والی سیراب بنانے والی اور بھر پور برسنے والی اور سب جگہ پھیل جانے والی اور پاکیزہ و بابرکت اور خوشگوار و شاداب ھو ، جس سے نباتان پھلنے پھولے لگیں اور اپنے مردہ شھروں کو زندگی بخش دے۔

اس فراز میں امام نے یہ کھا ھے کہ ھر زندہ موجود زندہ چیز سے وجود میں آتی ھے جو آج کا علم( بیوژنسیز biogenesis ) بھی اس بات کو تایید کرتا ھے کہ ھر زندہ موجود ایک زندہ موجود سے ھی وجود میں آتا ھے اور مادہ خود بخود وجود میں نھیں آتا ھے (گذشتہ دور کے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ سیب کے اندر کیڑا خود بہ خود وجود میں آتا ھے لکن آج یہ بات ثابت شدہ ھے کہ جب سیب ایک شکوفہ کی شکل میں درخت پر لٹکا رھتا ھے تو اس کیڑے کا انڈٓا اس پر بیٹھتا ھے اور جب سیب کا شکوفہ سیب ھوجاتا ھے تو وہ کیڑا باھر نکلتا ھے )۔

حوالہ جات


۱۔خطبہ ۲۰۹، ص ۵۸۵

۲۔ سورہ فصلت، آیہ ۱۱

۳۔ خطبہ ۸۹، ص ۲۶۷

۴۔ خطبہ ۲۰۹، ص ۵۸۶

۵۔ خطبہ ۸۹ ، ص ۲۶۸

۶۔ خطبہ ۱۸۹ ،ص ۲۶۱

۷۔ خطبہ ۷۷، ص۲۲۳

۸۔ نجوم بہ زبان سادہ ،ترجمہ محمد رضا خواجہ پور ، انتشارات گیتا شناسی ، ۱۳۶۹

 ۹۔ خطبہ ۱، ص ۷۲

۱۰۔ خطبہ ۷۷، ص ۷۴

۱۱۔ خطبہ ۸۹ ،ص۲۶۷

۱۲۔ سورہ فاطر، آیہ ۹

۱۳۔ سورہ نور ،آیہ ۴۳

۱۴۔ خطبہ ۱۵۲ ،ص ۴۰۴

۱۵۔ خطبہ۸۹ ،ص۲۶۶

۱۶۔ خطبہ ۱۶۹، ص۴۴۸

۱۷۔ خطبہ۸۹ ،ص۲۶۶

۱۸۔ خطبہ ۲۰۹، ص ۵۸۵

۱۹۔تفسیر نمونہ، ج ۱۳، ص ۳۹۷

۲۰۔سورہ انبیاء ،آیہ ۳۱

۲۱۔ خطبہ۱۵۳،ص ۴۰۶

۲۲۔ خطبہ ۱۸۳، ص ۴۸۹

۲۳۔ خطبہ۱۱۳ ، ص ۳۲۸

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button