مَنْ اَطَالَ الْاَمَلَ اَسَآءَ الْعَمَلَ۔ (حکمت 36)
جس نے لمبی امیدیں باندھیں اس نے اپنے اعمال بگاڑ لئے۔
انسان کی زندگی کو متحرک رکھنے والی چیز کا نام امید ہے۔ ان امیدوں کے حصول کے لئے وہ محنت کرتا ہے، مشکلات برداشت کرتا ہے۔ مثلاً علم کے حصول کے لیے کئی کئی سال محنت کرتا ہے، تکلیف اٹھاتا ہے تاکہ علمی مقام کو پا سکے۔ مالی مدتوں زمین کو تیار کرتا ہے، بیج بوتا ہے، درخت لگاتا ہے، ان کی حفاظت کرتا ہے تاکہ پھلوں سے فائدہ اٹھائے۔ امیرالمومنینؑ نے اس فرمان میں امید کی مذمت نہیں کی بلکہ خیالی اور طویل امیدوں کو عمل میں رکاوٹ اور ان کے بگڑنے کا سبب قرار دیا۔ انسان کو جب امیدیں سست کر دیں اور وہ کل پر کام ٹالنے لگے یا امیدیں اتنی طویل ہو جائیں کہ وہ اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لئے سمجھ لے تو یہ انسان کو عمل کے لئے متحرک کرنے کے بجائے سست کر دیتی ہے۔ یہی لمبی امیدیں انسان کی ترقی و حرکت میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، امیرالمومنینؑ ایسی ہی لمبی امیدوں سے متنبہ کرنا چاہتے ہیں۔