شمع زندگی

191۔ غربت

اَلْغِنٰى فِى الْغُرْبَةِ وَطَنٌ وَ الْفَقْرُ فِى الْوَطَنِ غُرْبَةٌ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۵۶)
دولت ہو تو پردیس بھی دیس ہے اور مفلسی ہو تو دیس بھی پردیس ہے۔

انسان جہاں پیدا ہوتا ہے وہاں عزیز و اقارب ہوتے ہیں، جہاں پچپن گزارتا ہے اس جگہ کے ایک ایک حصے سے اُسےآشنائی ہوتی اور محبت ہو جاتی ہے۔ اس طرح وہاں سکون و راحت محسوس کرتا ہے وہاں خود کو قوی جانتا ہےجبکہ پردیس یعنی جہاں سے انسان نا واقف و ناموس ہوتا ہے، نہ پیار کرنے والے ہوتے ہیں، نہ مددگار۔ پردیس میں انسان تنہائی، و وحشت اور خوف و الم محسوس کرتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ یہاں دولت و ثروت اور غربت و ناداری کے اثرات کو بیان فرما رہے ہیں۔ دولت ہے تو انسان جہاں بھی ہوگا وطن والی سہولیات میسّر ہوں گی اور فقیر و نادار ہے تو وطن میں بھی نہ کوئی دوستی کرنے والا ہوگا اور نہ کوئی تعلقات بڑھانا پسند کرے گا۔ آپ غنی و فقر کے اثرات بیان کرکے فقر کو دور کرنے کے لیے متوجہ کر رہے ہیں۔ یعنی محنت کرو، اتنا کماؤ کہ خود کو فقر کی ذلت و رسوائی سے بچا سکو، دوسروں سے بے نیاز ہو جاؤ۔ فقر کو امام ؑنے موت اکبر بھی کہا ہے البتہ دولت کمانے سے مراد فقط سونا چاندی سمیٹنا مراد نہیں بلکہ اسے خرچ کر کے عزیز و اقارب کو جذب کرو اور ضرورت مندوں پر خرچ کر کے ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرو۔البتہ بہت سے مقامات پر فقر کی تعریف کی گئی ہے لیکن ایسے مقام پر جہان انسان مال و دولت رکھنے پر اس کا قیدی بن جائے، اسے چاہیے کہ مال کا مالک بنے اور مالک بن کر اپنے خالق کا نیاز مند و فقیر رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button