شمع زندگی

332۔ قول و عمل

مَنْ عَلِمَ اَنَّ كَلَامَهُ مِنْ عَمَلِهٖ قَلَّ كَلَامُهٗ اِلَّا فِيْمَا يَعْنِيْهٖ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹)
جو جانتا ہے کہ قول اس کے عمل کا حصہ ہے وہ مطلب کی بات کے علاوہ بات نہیں کرتا۔

امیر المؤمنینؑ کا یہ فرمان گیارہ اہم نکات پر مشتمل ہے اور ان میں سے یہ آخری نکتہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے قول و کلام کو بھی عمل کا حصہ شمار کرے۔ جیسے ہاتھوں کا اٹھنا، قدم کا بڑھنا، کام ہیں اسی طرح آنکھ کا دیکھنا اور زبان کا کہنا بھی عمل ہے اور جب انسان اسے عمل سمجھے گا تو اس پر جواب دہ ہونے کا تصور کرتے ہوئے اسے غلطیوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگر قول کو عمل تصور کرے گا تو پھر اس کا کلام بہت کم ہو جائے گا اور وہی بات کہے گا جس کا اس سے تعلق ہوگا یا کسی دوسرے کو اس قول کا فائدہ ہوگا۔

زبان خوش بختی کی بھی چابی ہے اور بد بختی کا بھی ذریعہ ہے۔ قول کی اہمیت پر امامؑ کے ایک اور فرمان میں وضاحت ہوگی۔ قول و کلام ہی سے انسان دوسرے انسانوں کو اپنی طرف جذب کر تا ہے اور زبان ہی سے انسان دوسروں کو خود سے متنفر کرتا ہے۔ امامؑ کا یہ فرمان ایسا نسخہ ہے جس سے اپنی سعادت کو شروع کیا جا سکتا ہے۔ اس ایک موضوع پر پوری پوری کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ مثلاً ’’میٹھے بول میں جادو‘‘۔ امامؑ نے اس اصول کا ایک جملے میں خلاصہ کر دیا ہے کہ کسی کی بہتری کے لیے اور مفید بات پر زبان کھولنی چاہیے ورنہ خاموشی بہتر ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button