خطبات

خطبہ (۳)خطبہ شقشقیہ

(٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۳)

وَ ھِیَ الْمَعْرُوْفَةُ بِالشِّقْشِقِیَّةِ

یہ خطبہ ’’ شقشقیہ‘‘ [۱] کے نام سے مشہور ہے

اَمَا وَ اللهِ! لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ اَبِیْ قُحَافَۃَ، وَ اِنَّهٗ لَیَعْلَمُ اَنَّ مَحَلِّیْ مِنهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحٰی، یَنْحَدِرُ عَنِّی السَّیْلُ، وَ لَا یَرْقٰى اِلَیَّ الطَّیْرُ، فَسَدَلْتُ دُوْنَهَا ثَوْبًا، وَ طَوَیْتُ عَنْهَا كَشْحًا، وَ طَفِقْتُ اَرْتَئِیْ بَیْنَ اَنْ اَصُوْلَ بِیَدٍ جَذَّآءَ، اَوْ اَصْبِرَ عَلٰى طَخْیَةٍ عَمْیَآءَ، یَهْرَمُ فِیْهَا الْكَبِیْرُ، وَ یَشِیْبُ فِیْهَا الصَّغِیْرُ، وَ یَكْدَحُ فِیْهَا مُؤْمِنٌ حَتّٰى یَلْقٰى رَبَّهٗ. فَرَاَیْتُ اَنَّ الصَّبْرَ عَلٰى هَاتَاۤ اَحْجٰى، فَصَبَرتُ وَ فِی الْعَیْنِ قَذًى،وَ فِی الْحَلْقِ شَجًا، اَرٰى تُرَاثِیْ نَهْبًا.

خدا کی قسم! فرزند ابو قحافہ نے پیراہنِ خلافت [۲] پہن لیا، حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے۔ میں وہ (کوہ بلند ہوں) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کر لوں، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہٰذا میں نے صبر کیا، حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم و رنج کے) پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔

حَتّٰى مَضَى الْاَوَّلُ لِسَبِیْلِهٖ، فَاَدْلٰى بِهَا اِلَى ابْنِ الْخَطَّابِ بَعْدَهٗ.

یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔

ثُمَّ تَمَثَّلَ بَقَوْلِ الْاَعْشٰى:

پھر حضرتؑ نے بطورِ تمثیل اعشیٰ کا یہ شعر پڑھا:

شَتَّانَ مَا یَوْمِیْ عَلٰى كُوْرِهَا
وَ یَوْمُ حَیَّانَ اَخِیْ جَابِرِ

’’کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان [۳] برادرِ جابر کی صحبت میں گزرتا تھا‘‘۔

فَیَا عَجَبًا! بَیْنَا هُوَ یَسْتَقِیْلُهَا فِیْ حَیَاتِهٖ اِذْ عَقَدَهَا لِاٰخَرَ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَیْهَا! فَصَیَّرَهَا فِیْ حَوْزَةٍ خَشْنَآءَ، یَغْلُظُ كَلْمُهَا وَ یَخْشُنُ مَسُّهَا، وَ یَكْثُرُ الْعِثَارُ فِیْهَا وَ الْاِعْتِذَارُ مِنْهَا، فَصَاحِبُهَا كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ، اِنْ اَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ اِنْ اَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ، فَمُنِیَ النَّاسُ ـ لَعَمْرُ اللهِ! ـ بِخَبْطٍ وَّ شِمَاسٍ وَّ تَلَوُّنٍ وَّ اعْتِرَاضٍ. فَصَبَرْتُ عَلٰى طُوْلِ الْمُدَّةِ، وَ شِدَّةِ الْمِحْنَةِ.

تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا، لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کیلئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا جس کے چرکے کاری تھے، جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی، جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا، جس کا اس سے سابقہ پڑے وہ ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے (جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔

حَتّٰۤى اِذَا مَضٰى لِسَبِیْلِهٖ جَعَلَهَا فِیْ جَمَاعَةٍ زَعَمَ اَنِّیْۤ اَحَدُهُمْ.

یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت [۴] کو ایک جماعت میں محدود کر گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔

فَیَا لَـلّٰهِ وَ لِلشُّوْرٰى! مَتَى اعْتَرَضَ الرَّیْبُ فِیَّ مَعَ الْاَوَّلِ مِنْهُمْ، حَتّٰى صِرْتُ اُقْرَنُ اِلٰى هٰذِهِ النَّظَآئِرِ لٰكِنِّیْۤ اَسْفَفْتُ اِذْ اَسَفُّوْا، وَ طِرْتُّ اِذْ طَارُوْا، فَصَغٰی رَجُلٌ مِّنْهُمْ لِضِغْنِهٖ وَ مَالَ الْاٰخَرُ لِصِهْرِهٖ، مَعَ هَنٍ وَّهَنٍ.

اے اللہ! مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اَب ان لوگوں میں مَیں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں [۵] )۔ ان میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا دامادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔

اِلٰۤى اَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ، نَافِجًا حِضْنَیْهِ بَیْنَ نَثِیْلِهٖ وَ مُعْتَلَفِهٖ وَ قَامَ مَعَهٗ بَنُوْۤ اَبِیْهِ یَخْضِمُوْنَ مَالَ اللهِ خَضْمَۃَ الْاِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِیْعِ، اِلٰۤى اَنِ انْتَكَثَ فَتْلُهٗ، وَ اَجْهَزَ عَلَیْهِ عَمَلُهٗ وَ كَبَتْ بِهٖ بِطْنَتُهٗ.

یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کُھل گئے اور اس کی بداعمالیوں نے اس کا کام تمام کر دیا اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔

فَمَا رَاعَنِیْۤ اِلَّا وَ النَّاسُ كَعُرْفِ الضَّبُعِ اِلَیَّ، یَنْثَالُوْنَ عَلَیَّ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ، حَتّٰى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ، وَ شُقَّ عِطْفَایَ، مُجْتَمِعِیْنَ حَوْلِیْ كَرَبِیْضَةِ الْغَنَمِ، فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْاَمْرِ نَكَثَتْ طَآئِفَةٌ وَّ مَرَقَتْ اُخْرٰى وَ قَسَطَ اٰخَرُوْنَ، كَاَنَّهُمْ لَمْ یَسْمَعُوْا كَلَامَ اللهِ حَیْثُ یَقُوْلُ: ﴿تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ۝﴾، بَلٰى! وَاللهِ لَقَدْ سَمِعُوْهَا وَ وَعَوْهَا، وَ لٰكِنَّهُمْ حَلِیَتِ الدُّنْیَا فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ، وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا.

اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بجُّو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسنؑ اور حسینؑ کچلے جا رہے تھے اور میری رِدا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے۔ وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ: ’’یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کیلئے ہے‘‘۔ ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا، لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کُھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔

اَمَا وَ الَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ! لَوْ لَا حُضُوْرُ الْحَاضِرِ وَ قِیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ وَ مَاۤ اَخَذَ اللهُ عَلَى الْعُلَمَآءِ اَنْ لَّا یُقَارُّوْا عَلٰى كِظَّةِ ظَالِمٍ وَّ لَا سَغَبِ مَظْلُوْمٍ، لَاَلْقَیْتُ حَبْلَهَا عَلٰى غَارِبِهَا وَ لَسَقَیْتُ اٰخِرَهَا بِكَاْسِ اَوَّلِهَا، وَ لَاَلْفَیْتُمْ دُنْیَاكُمْ هٰذِهِ اَزْهَدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ.

دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں! اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔

قَالُوْا: وَ قَامَ اِلَيْهِ رَجُلٌ مِّنْ اَهْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوْغِهٖ اِلٰى هٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِهٖ، فَنَاوَلَهٗ كِتَابًا، فَاَقْبَلَ يَنْظُرُ فِيْهِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَآئَتِهٖ قَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا: يَاۤ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! لَوِ اطَّرَدْتَّ خُطْبَتَكَ مِنْ حَيْثُ اَفْضَيْتَ.

لوگوں کا بیان ہے کہ: جب حضرتؑ خطبہ پڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تو ایک عراقی باشندہ آگے بڑھا اور ایک نوشتہ حضرتؑ کے سامنے پیش کیا۔ آپؑ اسے دیکھنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو ابنِ عباس نے کہا: یا امیر المومنینؑ! آپؑ نے جہاں سے خطبہ چھوڑا تھا وہیں سے اس کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔

فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ نے فرمایا کہ:

هَيْهَاتَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! تِلْكَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ.

اے ابن عباس! یہ تو ’’شقشقہ‘‘ (گوشت کا وہ نرم لوتھڑا جو اونٹ کے منہ سے مستی و ہیجان کے وقت نکلتا ہے) تھا جو اُبھر کر دب گیا۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَاللّٰهِ مَاۤاَسِفْتُ عَلٰى كَلَامٍ قَطُّ كَاَسَفِیْ عَلٰى هٰذَا الْكَلَامِ اَنْ لَّا يَكُوْنَ اَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ بَلَغَ مِنْهُ حَيْثُ اَرَادَ.

ابن عباس کہتے تھے کہ: مجھے کسی کلام کے متعلق اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے متعلق اس بنا پر ہوا کہ حضرت وہاں تک نہ پہنچ سکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے۔

قَوْلُهٗ ؑ: «كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ، اِنْ اَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ اِنْ اَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ»: يُرِيْدُ اَنَّهٗ اِذَا شَدَّدَ عَلَيْهَا فِیْ جَذْبِ الزِّمَامِ وَ هِیَ تُنَازِعُهٗ رَاْسَهَا خَرَمَ اَنْفَهَا، وَ اِنْ اَرْخٰى لَهَا شَيْئًا مَّعَ صُعُوْبَتِهَا تَقَحَّمَتْ بِهٖ فَلَمْ يَمْلِكْهَا، يُقَالُ: اَشْنَقَ النَّاقَةَ اِذَا جَذَبَ رَاْسَهَا بِالزِّمَامِ فَرَفَعَهٗ، وَ شَنَّقَهَا اَيْضًا، ذَكَرَ ذٰلِكَ ابْنُ السِّكِّيْتِ فِیْۤ «اِصْلَاحِ الْمَنْطِقِ».

علامہ رضیؒ کہتے ہیں کہ: خطبے کے ان الفاظ: « كَرَاكِبِ الصَّعْبَةِ، اِنْ اَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ اِنْ اَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ» سے مراد یہ ہے کہ سوار جب مہار کھینچنے میں ناقہ پر سختی کرتا ہے تو اس کھینچا تانی میں اس کی ناک زخمی ہوئی جاتی ہے اور اگر اس کی سرکشی کے باوجود باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اسے کہیں نہ کہیں گرا دے گی اور اس کے قابو سے باہر ہو جائے گی۔ «اَشْنَقَ النَّاقَةَ» اس وقت بولا جاتا ہے جب سوار باگوں کو کھینچ کر اس کے سر کو اوپر کی طرف اٹھائے۔ اور اسی طرح «شَنَّقَهَا» استعمال ہوتا ہے۔ ابن سکیت نے اصلاح المنطق میں اس کا ذکر کیا ہے۔

وَ اِنَّـمَا قَالَ ؑ: «اَشْنَقَ لَهَا» وَ لَمْ يَقُلْ: اَشْنَقَهَا لِاَنَّهٗ جَعَلَهٗ فِیْ مُقَابَلَةِ قُوْلِهٖ: «اَسْلَسَ لَهَا»، فَكَاَنَّهٗ ؑ قاَلَ: اِنْ رَّفَعَ لَهَا رَاْسَهَا بِمَعْنٰى اَمْسَكَهٗ عَلَيْهَا بِالزِّمَامِ.

اور حضرتؑ نے اَشْنَقَهَا کے بجائے «اَشْنَقَ لَهَا» استعمال کیا ہے۔ چونکہ آپؑ نے یہ لفظ «اَسْلَسَ لَهَا» کے بالمقابل استعمال کیا ہے۔اور سلاست اسی وقت باقی رہ سکتی تھی جب ان دونوں لفظوں کا نہج استعمال ایک ہو۔ گویا حضرتؑ نے «اَشْنَقَ لَهَا» کو اِنْ رَّفَعَ لَهَا کی جگہ استعمال کیا ہے یعنی اس کی باگیں اوپر کی طرف اٹھا کر روک رکھے۔

۱؂یہ خطبہ، ’’خطبہ شقشقیہ‘‘ کے نام سے موسوم اور امیرالمومنین علیہ السلام کے مشہور ترین خطبات میں سے ہے جسے آپؑ نے مقامِ رحبہ میں ارشاد فرمایا۔

اگرچہ بعض متعصّب و تنگ نظر افراد نے اس کے کلامِ علیؑ ہونے سے انکار کیا ہے اور اسے سیّد رضیؒ کی طرف منسوب کر کے ان کی مسلمہ امانت و دیانت پر حرف رکھا ہے، مگر حقائق پسند علماء نے اس کی صحت سے کبھی انکار نہیں کیا اور نہ انکار کی کوئی وجہ ہو سکتی ہے۔ جب کہ خلافت کے معاملہ میں امیر المومنین علیہ السلام کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی ہوئی چیز نہیں ہے کہ اس قسم کے تعریضات کو بعید سمجھا جائے اور پھر جن واقعات کی طرف اس خطبہ میں اشارات کئے گئے ہیں، تاریخ انہیں اپنے دامن میں محفوظ کئے ہوئے ہے اور بے کم و کاست ایک ایک حرف کی تصدیق اور ایک ایک جملہ کی ہمنوائی کرتی ہے۔ تو جن واقعات کو مؤرّخ کی زبانِ قلم بیان کر سکتی ہے وہی واقعات امیر المومنین علیہ السلام کی نوک زبان پر آ جائیں تو اس سے انکار کی کیا وجہ؟ اور پیغمبر ﷺ کے بعد جن نامساعد حالات سے آپؑ کو دو چار ہونا پڑا، اگر ان کی یاد سے کام و دہن تلخ ہو جائیں تو اس میں حیرت و استعجاب ہی کیا ہے؟ بے شک اس سے بعض شخصیتوں کے وقار کو صدمہ پہنچتا ہے اور ان سے عقیدت و ارادت کو بھی دھچکا لگتا ہے، مگر اس کے کلامِ امیر المومنینؑ ہونے سے انکار کر دینے سے اسے سنبھالا نہیں جا سکتا، جب تک کہ اصل واقعات کا تجزیہ کر کے حقیقت کی نقاب کشائی نہ کی جائے۔ ورنہ محض اس بنا پر کہ اس میں چونکہ بعض افراد کی تنقیص ہے اس کے کلامِ امیرالمومنینؑ ہونے سے انکار کر دینا کوئی وزن نہیں رکھتا، جب کہ اس قسم کے تعریضات دوسرے اُدباء و مؤرّخین نے بھی نقل کئے ہیں۔ چنانچہ عمرو ابنِ بحر جاحظ نے امیر المومنین علیہ السلام کے ایک خطبے کے یہ الفاظ بھی درج کئے ہیں جو خطبہ شقشقیہ کی کسی نکتہ چینی سے وزن میں کم نہیں ہیں:

سَبَقَ الرَّجُلَانِ وَ قَامَ الثَّالِثُ كَالْغُرَابِ، هِمَّتُهٗ بَطْنُهٗ، يَا وَيْحَهٗ! لَوْ قُصَّ جَنَاحَاهُ وَ قُطِعَ رَاْسُهٗ لَكَانَ خَيْرًا لَّهٗ‏.

وہ دونوں گزر گئے اور تیسرا کوّے کے مانند اٹھ کھڑا ہوا جس کی ہمتیں پیٹ تک محدود تھیں۔ کاش! اس کے دونوں پر کتر دیئے ہوتے اور اس کا سر کاٹ دیا جاتا تو یہ اس کیلئے بہتر ہوتا۔ (کتاب البیان و التبیین، جز اوّل، ص۱۷۰، مطبع علمیہ مصر) لہٰذا یہ خیال کہ یہ سیّد رضیؒ کا گھڑا ہوا ہے، دُور از حقیقت اور عصبیت و جنبہ داری کا نتیجہ ہے۔ اور اگر یہ انکار کسی تحقیق و کاوش کا نتیجہ ہے تو اسے پیش کرنا چاہئے، ورنہ اس قسم کی خوش فہمیوں میں پڑے رہنے سے حقائق اپنا رخ نہیں بدلا کرتے اور نہ ناک بھوں چڑھانے سے قطعی دلائل کا زور دب سکتا ہے۔

اب ہم ان علماء محدثین کی شہادتیں پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس کے کلامِ امیرالمومنینؑ ہونے کی صراحت کی ہے، تا کہ اس کی تاریخی اہمیت واضح ہو جائے۔ ان علماء میں کچھ وہ ہیں جن کا دور سیّد رضیؒ سے پیشتر تھا اور کچھ ان کے ہم عصر ہیں اور کچھ وہ ہیں جو ان کے بعد آئے اور اپنے اپنے سلسلہ سند سے اسے روایت کیا ہے:

۱۔ ابن ابی الحدید معتزلی تحریر کرتے ہیں کہ:

ہم سے ہمارے استاد مصدق ابن شبیب واسطی نے فرمایا کہ: میں نے اس خطبہ کو شیخ ابو محمد عبد اللہ ابن احمد سے کہ جو ’’ابنِ خشاب‘‘ کے نام سے مشہور ہیں پڑھا اور جب اس مقام پر پہنچا کہ (جہاں ابنِ عباسؓ نے اس خطبہ کے نامکمل رہ جانے پر اظہار افسوس کیا ہے) تو ابنِ خشاب نے مجھ سے کہا کہ: اگر میں ابن عباسؓ سے افسوس کے کلمات سنتا تو ان سے ضرور کہتا کہ: کیا آپ کے چچیرے بھائی کے جی میں ابھی کوئی حسرت رہ گئی ہے جو انہوں نے پوری نہ کی ہو۔ انہوں نے تو رسول ﷺ کے علاوہ نہ اَگلوں کو چھوڑا ہے نہ پچھلوں کو۔ جو کہنا چاہتے تھے سب کہہ ڈالا۔ اب افسوس کا ہے کا کہ: وہ اتنا نہ کہہ سکے جتنا کہنا چاہتے تھے۔

مصدق کہتے ہیں کہ: ابن خشاب بڑے زندہ دل اور خوش مذاق تھے۔ میں نے کہا: کیا آپ کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ گھڑا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! مجھے تو اس کے کلامِ امیر المومنینؑ ہونے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا یہ کہ تم مصدق ابنِ شبیب ہو۔ میں نے کہا کہ: بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ رضی کا کلام ہے۔ فرمایا کہ: بھلا رضی یا کسی اور میں یہ دم کہاں؟! اور یہ انداز بیان کہاں؟! ہم نے رضی کی تحریریں دیکھی ہیں اور ان کے طرزِ نگارش و اندازِ تحریر سے آگاہ ہیں۔ کہیں بھی ان کا کلام اس کلام سے میل نہیں کھاتا اور میں تو اسے ان کتابوں میں دیکھ چکا ہوں کہ جو سیّد رضیؒ کے پیدا ہونے سے دو سو برس پہلے لکھی ہوئی ہیں اور جانی پہنچانی ہوئی تحریروں میں میری نظر سے گزر چکا ہے کہ جن کے متعلق میں جانتا ہوں کہ وہ کن علماء اور کن اُدباء کی لکھی ہوئی ہیں۔ اس وقت رضی تو کیا، ان کے باپ ابو احمد نقیب بھی پیدا نہ ہوئے تھے۔

۲۔ پھر تحریر کرتے ہیں کہ:

میں نے اس خطبہ کو اپنے شیخ ابو القاسم بلخی (متوفی ۳۱۷ ھ) کی تصنیفات میں دیکھا ہے۔ یہ مقتدر باللہ [۱] کے عہدِ حکومت میں بغداد کی جماعت معتزلہ کے امام تھے اور مقتدر کا دور رضی کے پیدا ہونے سے بہت پہلے تھا۔

۳۔ پھر تحریر فرماتے ہیں کہ:

میں نے اس خطبہ کو ابو جعفر ابنِ قبہ کی کتاب ’’الانصاف‘‘ میں دیکھا ہے۔ یہ ابو القاسم بلخی کے شاگرد اور فرقہ امامیہ کے متکلمین میں سے تھے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۶۹)

۴۔ ابن میثم بحرانی اپنی شرح میں لکھتے ہیں کہ:

میں نے اس خطبہ کا ایک نسخہ ایسا دیکھا ہے جس پر مقتدر باللہ کے وزیر ابو الحسن علی ابن محمد ابن الفرات (متوفی ۳۱۲ھ) کی تحریر تھی۔

۵۔ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے شیخ قطب الدین راوندی کی تصنیف ’’منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ‘‘ سے اس سلسلۂ سند کو نقل کیا ہے:

عَنِ الْحَافِظِ اَبِیْ بَكْرِ بْنِ مَرْدَوَيْهِ الْاَصْفَهَانِیِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ اَحْمَدَ الطَّبَرَانِیِّ، عَنْ اَحْمَدَ بْنِ عَلِیٍّ الْاَبَّارِ، عَنْ اِسْحَاقَ ابْنِ سَعِيْدٍ اَبِیْ سَلَمَةَ الدِّمَشْقِیِّ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ دِعْلِجٍ، عَنْ عَطَآءِ بْنِ اَبِیْ رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.

حافظ ابو بکر ابن مردویہ اصفہانی [۲] نے سلیمان ابن احمد طبرانی [۳] سے، اس نے احمد ابنِ علی ابار سے، اس نے اسحاق ابن سعید ابو سلمہ دمشقی سے، اس نے خلید ابن دعلج سے، اس نے عطا ابن ابی رباح سے اور اس نے ابن عباس سے اسے روایت کیا ہے۔ (بحار الانوار،ج۸، ص۱۶۱)

۶۔ علامہ مجلسیؒ نے اس کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ:

یہ خطبہ ابو علی جبائی (متوفی ۳۰۳ھ) کے مصنفات میں بھی ہے۔

ث۷۔ علامہ مجلسیؒ نے اسی استناد کے سلسلے میں تحریر کیا ہے:

اِنَّ الْقَاضِیَ عَبْدَ الْجَبَّارِ – الَّذِیْ هُوَ مِنْ مُّتَعِصِّبِی الْمُعْتَزِلَةِ- قَدْ تَصَدّٰى فِیْ كِتَابِ الْمُغْنِیْ لِتَاْوِيْلِ بَعْضِ كَلِمَاتِ الْخُطْبَةِ، وَ مَنَعَ دَلَالَتَهَا عَلَى الطَّعْنِ فِیْ خِلَافَةِ مَنْ تَقَدَّمَ عَلَيْهِ، وَ لَمْ يُنْكِرِ اسْتِنَادَ الْخُطْبَةِ اِلَيْهِ.

قاضی عبدالجبار [۴] جو متعصب معتزلی تھے، اپنی کتاب ’’مغنی‘‘ میں اس خطبہ کے بعض کلمات کی توجیہہ و تاویل کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے خلفاء پر کوئی زد نہیں پڑتی مگر اس کے کلام امیر المومنینؑ ہونے سے انکار نہیں کرتے۔[۵]؟

۸۔ ابو جعفر محمد ابن علی ابن بابویہ (شیخ صدوقؒ) متوفی ۳۸۱ھ تحریر فرماتے ہیں:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ اِبْرَاهِيْمَ بْنِ اِسْحَاقَ الطَّالَقَانِیُّ رَحِمَهُ اللّٰهُ، قَالَ: ‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيْزِ بْنُ يَحْيَى الْجَلُودِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا اَبُوْ عَبْدِ اللّٰهِ اَحْمَدُ بْنُ عَمَّارِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيْدِ الْحِمَّانِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنِیْ عِيْسَى بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُذَيْفَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.

ہم سے محمد بن ابراہیم ابنِ اسحاق طالقانی نے بیان کیا، اس نے کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز ابن یحیٰ جلودی [۶] نے بیان کیا اور اس نے کہا کہ مجھ سے ابو عبداللہ ابن عمار بن خالد نے بیان کیا اور اس نے کہا کہ مجھ سے یحیٰ ابن عبدالحمید حمانی [۷] نے بیان کیا اور اس نے کہا کہ مجھ سے عیسیٰ ابنِ راشد نے اور اس نے علی ابن حذیفہ سے اور اس نے عکرمہ سے اور اس نے ابنِ عباس سے روایت کیا۔ (علل الشرائع، باب۱۲۲۔ معانی الاخبار، باب۲۲۰)

۹۔ پھر ابنِ بابویہ اس سلسلہ سند کو درج کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ مَاجِيْلَوَيْهِ، عَنْ عَمِّهٖ، مُحَمَّدِ بْنِ اَبِی الْقَاسِمِ، عَنْ اَحْمَدَ بْنِ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰهِ الْبَرْقِيِّ عَنْ اَبِيْهِ، عَنِ ابْنِ اَبِیْ عُمَيْرٍ، عَنْ اَبَانِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ اَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.

ہم سے محمد ابنِ علی ماجیلویہ نے، اس نے اپنے چچا محمد ابن ابی القاسم سے، اس نے احمد ابن ابی عبداللہ برقی سے، اس نے اپنے باپ سے، اس نے ابن عمیر سے، اس نے ابان ابن عثمان سے، اس نے ابان ابن تغلب سے، اس نے عکرمہ سے اور اس نے ابنِ عباس سے اسے روایت کیا ہے۔[۸]

۱۰۔ حسن ابن عبد اللہ ابن سعید العسکری متوفی ۳۸۲ء ھ نے کہ جو اکابر علمائے اہل سنت سے ہیں، اس خطبہ کی توضیح و تشریح کی ہے، جسے

ابنِ بابویہ نے ’’علل الشرائع‘‘ اور ’’معانی الاخبار‘‘ میں درج کیا ہے۔

۱۱۔ سیّد نعمت اللہ جزائری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

وَ قَدْ نَقَلَهَا صَاحِبُ کِتَابِ الْغَارَاتِ مُسْنَدَۃًۢ بِاَسَانِیْدِھِمْ، وَ تَارِیْخُ الْفَرَاغِ مِنْ ذٰلِکَ الْکِتَابِ یَوْمَ الثُّلَثَآءِ لِثَلَاثَۃَ عَشَرَ خَلَوْنَ مِنْ شَوَّالَ سَنَۃَ خَمْسَۃٍ وَّ خَمْسِیْنَ وَ ثَلَاثِ مِائَۃٍ وَّ ھٰذِہِ السَّنَۃُ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا الْمُرْتَضَی الْمُوْسَوِیُّ وَ ھُوَ اَکْبَرُ مِنْ اَخِیْہِ الرَّضِیِّ.

صاحب کتاب ’’الغارات‘‘ (ابو اسحاق ثقفی) نے اپنے سلسلہ سند کے ساتھ اسے نقل کیا ہے۔ اس کتاب کی تصنیف سے فراغت کی تاریخ ۱۳ شوال ۳۵۵ھ روز سہ شنبہ ہے اور اسی سال سیّد مرتضیٰ موسوی پیدا ہوئے اور یہ اپنے بھائی سیّد رضیؒ سے عمر میں بڑے تھے۔ (انوار النعمانیہ، ص۳۷)

۱۲۔ سیّد علی ابن طاؤس علیہ الرحمہ نے کتاب ’’الغارات‘‘ سے اس سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ الزَّعْفَرَانِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْغَلَّابِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوْبُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ اَبِيْهِ، عَنْ جَدِّهٖ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.

وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد نے اور اس نے حسنِ ابنِ علی زعفرانی سے اور اس نے محمد ابن زکریا قلابی سے اور اس نے یعقوب ابن جعفر ابن سلیمان سے اور اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے جد سے اور اس نے ابنِ عباس سے روایت کیا ہے۔ (ترجمہ ’’الطرائف‘‘، ص۲۰۲)

۱۳۔ شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسیؒ متوفی ۴۶۰ھ تحریر فرماتے ہیں:

قَالَ: اَخْبَرَنَا الْحَفَّارُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اَبُو الْقَاسِمِ الدِّعْبِلِیُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا اَبِیْ، قَالَ: حَدَّثَنَا اَخِیْ دِعْبِلٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامَةَ الشَّامِیُّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ اَعْيَنَ، عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ (عَلَيْهِمَا السَّلَامُ)، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.

وہ کہتے ہیں کہ ہم سے حفار نے اور اس نے ابو القاسم دعبلی سے اور اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے بھائی دعبل سے اور اس نے محمد ابن سلامہ شامی سے اور اس نے زرارہ ابن اعین سے اور اس نے ابو جعفر محمد ابن علی علیہما السلام سے اور انہوں نے ابنِ عباس سے اسے روایت کیا ہے۔ (امالی شیخ الطائفہ، ص۲۳۷)

۱۴۔ شیخ مفید متوفی ۴۱۶ھ کو جو جناب سیّد رضیؒ کے استاد تھے، اس خطبہ کے سلسلہ سند کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

وَ رَوٰى جَمَاعَةٌ مِّنْ اَهْلِ النَّقْلِ مِنْ طُرُقٍ مُّخْتَلِفَةٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.

رواة حدیث کی ایک جماعت نے مختلف سلسلوں سے اس کو ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ (ارشاد، ص۱۳۵)

۱۵۔ علم الہدیٰ سیّد مرتضیٰ کہ جو سیّد رضیؒ کے بڑے بھائی تھے، انہوں نے اپنی کتاب شافی ص ۳۹۲ پر اسے درج کیا ہے۔

۱۶۔ ابو منصور طبرسی علیہ الرحمہ تحریر کرتے ہیں:

وَ رَوٰى جَمَاعَةٌ مِّنْ اَهْلِ النَّقْلِ مِنْ طُرُقٍ مُّخْتَلِفَةٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِالرَّحَبَةِ -، فَذَكَرْتُ الْخِلَافَةَ وَ تَقَدُّمَ مَنْ تَقَدَّمَ عَلَيْهِ فَتَنَفَّسَ الصُّعَدَاۤءَ، ثُمَّ قَالَ.

رواة کی ایک جماعت نے مختلف سلسلوں سے اس کو ابنِ عباس سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ: میں مقامِ رحبہ میں امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس موجود تھا کہ خلافت کا اور ان لوگوں کا کہ جو آپ سے پہلے خلیفہ گزرے تھے ذکر چھیڑا تو آپؑ نے آہ بھری اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ (احتجاج، ص۱۰۱)

۱۷۔ عبدالرحمٰن ابن جوزی تحریر کرتے ہیں:

اَخْبَرَنَا بِهَا شَيْخُنَا اَبُوْ الْقَاسِمِ الْاَنْۢبَارِیِّ بِاِسْنَادِہٖ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا بُوْیِـعَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ نَادَاہُ رَجُلٌ مِّنَ الصَّفِّ وَ ھُوَ عَلَی الْمِنْۢبَرِ مَا الَّذِیْ اَبْطَاَ بِکَ اِلَی الْاٰنَ فَقَالَ بَدِیْھًا.

ہمارے شیخ ابو القاسم انباری نے اپنے سلسلہ سند سے کہ جو ابن عباس تک منتہی ہوتا ہے،اس خطبہ کو ہم سے نقل کیا۔ فرمایا کہ: جب امیرالمومنین علیہ السلام کی بیعت ہو چکی تو آپؑ منبر پر رونق افروز تھے کہ ایک شخص نے کہا کہ: امیرالمومنینؑ! آپؑ خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ تو آپؑ نے برجستہ یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ (تذکرۃ خواص الامۃ، ص۷۳)

۱۸۔ قاضی احمد شہاب خفاجی استشہاد کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں:

وَ فِیْ کَلَامِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ: بَیْنَا ھُوَ یَسْتَقِیْلُھَا فِیْ حَیَاتِہٖ اِذْ عَقَدَھَا لِاٰخَرَ بَعْدَ وَفَاتِہٖ.

امیر المومنین علیؓ کے کلام میں وارد ہوا ہے کہ: ’’تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے دستبردار ہونا چاہتا تھا، لیکن مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسروں کیلئے مضبوط کرتا گیا‘‘۔ (شرح درۃ الغواص، ص۹۷)

۱۹۔ شیخ علاء الدولہ احمد ابن محمد السمنانی تحریر کرتے ہیں:

اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ سَیِّدُ الْعَارِفِیْنَ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَ سَلَامُ السَّلَامِ عَلَیْہِ حَیْثُ قَالَ فِی الْخُطْبَۃِ الْغَرَّآءِ: تِلْكَ شِقْشِقَۃٌ ھَدَرَتْ.

امیر المومنین سید العارفین علی علیہ السلام نے اپنے ایک درخشاں خطبے میں فرمایا ہے: تِلْكَ شِقْشِقَۃٌ ھَدَرَتْ ۔

(العروۃ لاھل الخلوۃ و الجلوۃ، ص۴، قلمی کتب خانہ، ناصریہ، لکھنؤ)

۲۰۔ ابو لفضل میدانی نے لفظ ’’شقشقیہ‘‘ کے ذیل میں لکھا ہے:

لِاَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیٍّ خُطْبَۃٌ تُعْرَفُ بِالشِّقْشِقِیَّۃِ.

امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ایک خطبہ ’’خطبہ شقشقیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ (مجمع الامثال، ص۳۲۳)

۲۱۔ ’’نہایہ‘‘ میں ابنِ اثیر جزری نے پندرہ مقامات پر اس خطبہ کے الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے اس کے کلام امیر المومنینؑ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

۲۲۔ شیخ محمد طاہر پٹنی نے ’’مجمع بحار الانوار‘‘ میں انہی الفاظ کے معانی لکھتے ہوئے: مِنْهُ حَدِیْثُ عَلِیٍّ کہہ کر اس کے کلام امیر المومنینؑ ہونے کی توثیق کی ہے۔

۲۳۔ ابو الفضل ابن منظور نے ’’لسان العرب‘‘ ج۱۲، ص۵۴ میں « فِیْ حَدِیْثِ عَلِیٍّ فِیْ خُطْبَةٍ لَهٗ: تِلْكَ شِقْشِقَةٌ ھَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ » کہہ کر اس کے کلام علی ابن ابی طالبؑ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

 

۲۴۔ فیروز آبادی نے قاموس میں لفظ ’’شقشقہ‘‘ کے ذیل میں لکھا ہے:

وَ الْخُطْبَۃُ الشِقْشِقِیَّۃُ الْعَلَوِیَّۃُ لِقَوْلِهٖ لِابْنِ عَبَّاسٍ لَمَّا قَالَہٗ لَہٗ: لَوِ اطَّرَدْتَّ مَقَالَتَکَ مِنْ حَیْثُ اَفْضَیْتَ: یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! تِلْكَ شِقْشِقَةٌ ھَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ.

خطبہ شقشقیہ حضرت علی علیہ السلام کا کلام ہے، جسے ’’شقشقیہ‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جب ابنِ عباس نے آپؑ سے عرض کیا کہ: آپؑ اپنے کلام کا سلسلہ وہاں سے شروع کریں جہاں تک آپؑ نے اسے پہنچایا تھا تو آپؑ نے فرمایا: ’’اے ابن عباس! اب کہاں وہ تو ایک ’’شقشقہ‘‘ یعنی ایک ولولہ و جوش تھا جو اُبھرا اور تھم گیا‘‘۔

۲۵۔ صاحب منتہی الارب تحریر کرتے ہیں: ’’خطبہ شقشقیہ علوی است منسوب بہ علی کرم اللہ وجہہ‘‘۔

۲۶۔ مفتی مصر شیخ محمد عبدہٗ نے اسے کلام امیر المومنینؑ تسلیم کرتے ہوئے اس کی شرح کی ہے۔

۲۷۔ محمد محی الدین عبد الحمید المدرس فی کلیۃ اللغۃ العربیہ (جامع الازہر) نے نہج البلاغہ پر حواشی تحریر کئے ہیں اور اس کے پہلے ایک مقدمہ لکھا ہے جس میں تمام ایسے خطبوں کو جن میں تعریضات پائے جاتے ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کا کلام تسلیم کیا ہے۔

ان مستند شہادتوں اور ناقابلِ انکار گواہیوں کے بعد کیا اس کی گنجائش ہے کہ یہ کہا جائے کہ: ’’یہ امیر المومنین علیہ السلام کا کلام نہیں اور سیّد رضیؒ نے خود گھڑ لیا ہے؟‘‘۔

۲؂ امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کے سریر آرائے خلافت ہونے کو بطور استعارہ ’’خلافت کا لبادہ اوڑھ لینے‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور یہ ایک عام استعارہ ہے۔ چنانچہ جب حضرت عثمان کو خلافت سے دستبردار ہونے کیلئے کہا گیا تو انہوں نے فرمایا: لَآ اَنْزَعُ قَمِیْصًا قَمَّصَنِیْہِ اللّٰہُ: ’’میں اس قمیص کو نہیں اتاروں گا جو اللہ نے مجھے پہنا دی ہے‘‘۔ بیشک امیر المومنین علیہ السلام نے اس قمیص پہنانے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں دی ہے، بلکہ خود ان کی طرف دی ہے، کیونکہ ان کی خلافت باتفاق کل منجانب اللہ نہ تھی بلکہ بطور خود تھی۔ چنانچہ حضرتؑ فرماتے ہیں کہ: فرزند ابو قحافہ نے زبردستی جامۂ خلافت پہن لیا، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ خلافت ’’جامہ بود کہ برقامت من دوختہ بود‘‘، اور اس میں میری وہی حیثیت تھی جو چکی میں کیلی کی ہوتی ہے کہ نہ تو اس کے بغیر وہ اپنے محور پر قائم رہ سکتی ہے اور نہ اس کا کوئی مصرف ہی باقی رہ جاتا ہے۔ یونہی میں خلافت کا مرکزی نقطہ تھا کہ اگر میں نہ ہوتا تو اس کا تمام نظام اپنے محور سے ہٹ جاتا اور میں ہی تھا جو اس کے نظم و ضبط کا محافظ بن کر ہر آڑے وقت پر صحیح رہنمائی کرتا تھا۔ میرے سینہ سے علم کے دھارے امنڈتے تھے جو ہر گوشہ کو سیراب کرتے تھے اور میرا پایا اتنا بلند تھا کہ طائرِ فکر بھی وہاں تک نہ پہنچ سکتا تھا۔ مگر دنیا والوں کا ذوقِ جہاں بانی میرے حق کیلئے سنگِ راہ بن گیا اور مجھے گوشہ عزلت اختیار کرنا پڑا۔ چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرے پھیلے ہوئے تھے اور بھیانک ظلمتیں چھائی ہوئی تھیں۔ بچے بوڑھے ہو گئے اور بوڑھے قبروں میں پہنچ گئے، مگر یہ صبر آزما دور ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ میں برابر اپنی آنکھوں سے اپنی میراث کو لٹتے ہوئے دیکھتا رہا اور جامِ خلافت کے دست بدست گردش کرنے کا منظر میری نظروں کے سامنے رہا، لیکن میں صبر کے تلخ گھونٹ پیتا رہا اور بے سروسامانی کی وجہ سے ان کی دراز دستیوں کو نہ روک سکا۔

خلیفۃ الرسُول کی ضرورت اور اُس کا طریق تعین

پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد ایک ایسی ہستی کا وجودنا گزیر تھا جو اُمت کا شیرازہ بکھرنے نہ دے اور شریعت کو تبدیل و تحریف اور ان لوگوں کی دستبرد سے بچائے رکھے، جو اسے توڑ مروڑ کر اپنی خواہشوں کے مطابق ڈھال لینا چاہتے ہوں۔ اگر اس کی ضرورت ہی سے انکار کر دیا جائے تو پھر پیغمبر ﷺ کے بعد ان کی نیابت و جانشینی کے مسئلہ کو اتنی اہمیت دینے کے کوئی معنی نہیں رہتے کہ ان کی تجہیز و تکفین پر سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع کو مقدم سمجھ لیا جائے اور اگر اس کی ضرورت ثابت ہے تو کیا پیغمبر ﷺ کو بھی اس کی ضرورت و اہمیت کا احساس تھا یا نہیں؟

اگر یہ کہا جائے کہ وہ اس طرف متوجہ ہی نہیں ہو سکے کہ انہیں اس کی ضرورت یا عدم ضرورت کا احساس ہوتا تو پیغمبر ﷺ کے ذہن کو ارتداد کی فتنہ انگیزیوں اور بدعتوں کی کارفرمائیوں کی خبر دینے کے باوجود ان کی روک تھام کی فکر و تدبیر سے خالی سمجھ لینا عقل و بصیرت سے محرومی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

اور اگر یہ کہا جائے کہ احساس تو تھا مگر مصلحت کی بنا پر اسے غیر طے شدہ چھوڑ جانے پر مجبور تھے تو اس صورت میں اس مصلحت کو زیر نقاب رہنے کے بجائے کھل کر سامنے آنا چاہیے، ورنہ بے وجہ خاموشی فرائض نبوت میں کوتاہی سمجھی جائے گی اور اگر کوئی مانع تھا تو اس مانع کو پیش کرنا چاہیے، ورنہ اسے تسلیم کیجئے کہ جس طرح آپؐ نے دین کا کوئی شعبہ ادھورا نہیں چھوڑا، اسے بھی ناتمام نہیں رہنے دیا اور ایک ایسا لائحہ عمل تجویز فرما دیا کہ جس کے بروئے کار لانے سے دین دوسروں کی دستبرد و استیلا سے محفوظ رہ سکتا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ لائحہ عمل اور طریق کار کیا تھا؟

اگر اجماع اُمت کو پیش کیا جائے تو اس کے وقوع پذیر ہونے کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ اجماع میں ایک ایک فرد کا اتفاق رائے ضروری ہوتا ہے اور انسانی طبائع کے اختلاف کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکن ہے کہ وہ ایک نقطۂ نظر پر متفق ہو جائیں اور نہ ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ جہاں ایسے موارد پر اختلاف کی کوئی آواز نہ اٹھی ہو۔ تو پھر کیونکر ایک ایسی بنیادی ضرورت کو ایک ناممکن الوقوع امر سے وابستہ کیا جا سکتا ہے کہ جس پر اسلام کے مستقبل کا انحصار اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا دارومدار ہو، لہٰذا نہ عقل اس معیار کو تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ نقل ہی اس سے ہمنوا ہے۔ چنانچہ قاضی عضد الدین نے مواقف میں تحریر کیا ہے:

فَاعْلَمْ اَنَّ ذٰلِكَ لَا يَفْتَقِرُ اِلَى الْاِجْمَاعِ اِذْ لَمْ يَقُمْ عَلَيْهِ دَلِيْلٌ مِنَ الْعَقْلِ اَوِ السَّمْعِ.

تمہیں جاننا چاہیے کہ خلافت کا انعقاد اجماع پر منحصر نہیں، کیونکہ اس پر کوئی عقلی و نقلی دلیل قائم نہیں ہو سکی۔[۹]

بلکہ مدعیان اجماع نے بھی جب یہ دیکھا کہ تمام رایوں کا متفق ہونا مشکل ہے تو اقلیت کے اختلاف کو نظر انداز کر کے اکثریت کے اتفاق کو اجماع کے قائم مقام ٹھہرا لیا، لیکن اس صورت میں بھی اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ حق و ناحق اور جائز و ناجائز وسائل کا زور اکثریت کا دھارا ادھر موڑ دیتا ہے کہ جہاں نہ شخصی فضیلت ہوتی ہے اور نہ ذاتی قابلیت جس کے نتیجہ میں اہل افراد دبکے پڑے رہ جاتے ہیں اور نا اہل افراد ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ تو جہاں صلاحیتیں پھڑ پھڑا کر رہ جائیں اور ذاتی غرضیں روک بن کر کھڑی ہو جائیں وہاں کسی صحیح شخصیت کے انتخاب کی کیونکر توقع کی جا سکتی ہے اور اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ تمام رائے دینے والے ایسے افراد ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کی رائے آزاد اور بے لاگ ہے، نہ ان میں کوئی صاحب غرض ہے، نہ کسی کی رُو رعایت رکھتا ہے تو بھی یہ کہاں ضروری ہے کہ اکثریت کا ہر فیصلہ صحیح ہو اور وہ بھٹک کر غلط راہ پر آ ہی نہ سکے۔ جب کہ مشاہدہ بتا رہا ہے کہ اکثریت نے تجربہ کے بعد خود اپنے فیصلوں کو غلط بھی ٹھہرایا ہے تو اگر اکثریت کا ہر فیصلہ صحیح ہی ہوتا ہے تو اس کے پہلے فیصلہ کو غلط ماننا پڑے گا، کیونکہ اس کو غلط قرار دینے کا فیصلہ بھی اسی کا فیصلہ ہے۔ اندریں حالات اگر خلیفہ و جانشین کا غلط انتخاب ہو گیا تو اس غلطی کے مہلک نتائج کا کون ذمہ دار ہو گا اور اسلام کی ہیئت اجتماعیہ کی تباہی و بربادی کا مظلمہ کس کی گردن پر آئے گا اور پھر انتخاب کی ہنگامہ آرائیوں اور شورش انگیزیوں میں جو خونریزی و فساد برپا ہو گا وہ کس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا۔ جب کہ بزمِ ادب آموز کے بیٹھنے والوں کو بھی دیکھا جا چکا ہے کہ وہ باہم آویزیوں سے نہ بچ سکے تو کسی اور کا دامن کیا بچ سکتا ہے۔

اگر ان مفاسد سے بچنے کیلئے اسے اہلِ حل و عقد پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اپنی صوابدید سے کسی ایک کو منتخب کر لیں تو یہاں بھی وہی انتشار و کشمکش کی صورت پیش آئے گی، کیونکہ انسانی طبیعتوں کا یہاں بھی ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں ہے اور نہ انہیں ذاتی اغراض کی سطح سے بلند قرار دیا جا سکتا ہے، جب کہ یہاں تصادم اور ٹکراؤ کے اسباب اور زیادہ قوی ہیں، کیونکہ ان میں سے سب نہیں تو اکثر خود اس منصب کے امیدوار ہوں گے اور اپنی کامیابی کیلئے حریف کو زک پہنچانے کی کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھیں گے اور جس طرح بن پڑے گا اس کی راہ میں روڑے اَٹکائیں گے، جس کا لازمی نتیجہ باہم آویزی و فتنہ انگیزی ہو گا۔ تو جس اختلاف و کشمکش سے بچنے کیلئے یہ صورت پیدا کی گئی تھی اس سے بچاؤ نہ ہو سکے گا اور اُمت کسی صحیح فرد تک پہنچنے کے بجائے دوسروں کے ذاتی مفاد کا آلہ کار بن کر رہ جائے گی اور پھر یہ کہ اہل حل و عقد کا معیار کیا ہو گا؟ وہی جو ہر زمانہ میں رہا ہے کہ جس نے چند ہوا خواہ جمع کر لئے اور کسی اجتماع میں چند مخصوص پر جوش لفظیں دہرا کر ہلڑ مچوا دیا وہ اُبھر کر اہل حل و عقد کی صف میں آ گیا۔ یا صلاحیتوں کو بھی پرکھا جائے گا؟ اگر صلاحیتوں کو جانچنے اور پرکھنے کا ذریعہ یہی رائے عامہ ہے تو پھر وہی الجھنیں اور کشمکشیں یہاں بھی پیدا ہو جائیں گی جن سے بچنے کیلئے یہ راہ اختیار کی گئی تھی اور اگر کوئی اور معیار ہے تو اس پر ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے بجائے خود اس کی صلاحیت کو کیوں نہ پرکھ لیا جائے کہ جسے اس منصب کا اہل سمجھا جا رہا ہے اور پھر یہ کہ کتنے اہل حل و عقد کا فیصلہ سند سمجھا جائے گا، تو یہاں بھی معمول کے مطابق جو ایک دفعہ ہو گیا وہ ہمیشہ کیلئے سند بن گیا اور جتنے اہل حل و عقد نے کبھی کوئی فیصلہ کیا تھا وہ تعداد حجت بن گئی۔ چنانچہ قاضی عضد الدین تحریر فرماتے ہیں:

بَلِ الْوَاحِدُ وَ الْاِثْنَانُ مِن اَهْلِ الْحَلِّ وَ الْعَقْدِ كَافٍ لِّعِلْمِنَا اَنَّ الصَّحَابَةَ مَعَ صَلَابَتِهِمْ فِی الدِّيْنِ اكْتَفُوْا بِذٰلِكَ كَعَقْدِ عُمَرَ لِاَبِیْ بَكْرٍ وَّ عَقْدِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ لِّعُثْمَانَ.

بلکہ اہل حل و عقد میں سے ایک دو فردوں کا کسی کو نامزد کر لینا کافی ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ صحابہ نے جو دین کے سختی سے پابند تھے اسی پر اکتفا کی، جیسا کہ عمر نے ابو بکر کو اور عبد الرحمٰن ابن عوف نے عثمان کو منتخب کر لیا۔[۱۰]

لیجئے یہ ہے سقیفہ بنی ساعدہ کے اجماع کی کارگزاری اور بزمِ شوریٰ کی گرم بازاری کہ ایک ہی شخص کے کارنامہ کا نام اجماع اور ایک ہی فرد کی کارفرمائی کا نام ’’شوریٰ‘‘ رکھ دیا گیا۔ حضرت ابو بکر نے اس حقیقت کو خوب سمجھ لیا تھا کہ اجماع ایک آدھ ہی کی رائے کا نام ہوا کرتا ہے جسے بھولے بھالے عوام کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، اس لئے انہوں نے اجماع و شوریٰ کا رنگ چڑھائے بغیر علانیہ حضرت عمر کو نامزد کر کے اجماع کی پابندی، کثرت رائے کے معیار اور شورائی طریق انتخاب کو نظر انداز کر دیا اور حضرت عائشہ کے نزدیک بھی خلافت کو اُمت یا چند مخصوص افراد کی رائے پر چھوڑ دینا فتنہ و فساد کو دعوت دینے کے ہم معنی تھا۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عمر کو بسترِ مرگ پر یہ پیغام بھجوایا:

لَا تَدَعْ اُمَّةَ مُحَمَّدٍۭ بِلَا رَاعٍ، اِسْتَخْلِفْ عَلَيْهِمْ، وَ لَا تَدَعْهُمْ بَعْدَكَ هَمْلًا، فِاِنِّیْۤ اَخْشٰى عَلَيْهِمُ الْفِتْنَۃَ.

اُمّتِ محمد ﷺ کو بغیر کسی پاسبان کے نہ چھوڑ جائیے۔ اس پر کسی کو خلیفہ مقرر کرتے جائیے اور اسے بے مہار نہ چھوڑئیے، کیونکہ اس صورت میں مجھے اس کے متعلق فتنہ و شر کا اندیشہ ہے۔[۱۱]

جب انتخاب اہل حل و عقد کا طریقہ بھی کامیاب نہ ہوا تو اسے بھی ختم کر دیا گیا اور صرف ’’ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند‘‘ معیار بن کر رہ گیا۔ یعنی جو دوسروں کو اپنے اقتدار کی گرفت اور تسلط کے بندھن میں جکڑ لے وہی خلیفہ برحق اور جانشین پیغمبرؐ ہے۔

یہ تھے وہ خود ساختہ اصول جن کے سامنے پیغمبر ﷺ کے وہ تمام ارشادات جو انہوں نے دعوتِ عشیرہ، شبِ ہجرت، غزوۂ تبوک، تبلیغ سورٔہ برائت اور غدیر خم کے موقع پر فرمائے تھے، یکسر فراموش کر دیئے جاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ جب تینوں خلافتیں ایک فرد ہی کی رائے سے طے پاتی ہیں اور اس ایک فرد کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جاتا ہے تو پھر کس دلیل کی بنا پر پیغمبر ﷺ سے یہ حق سلب کیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی کی تعیین خود فرما دیتے، جب کہ تمام نزاعوں کے سدباب کا یہی ایک ذریعہ ہو سکتا تھا کہ وہ خود اسے طے کر کے بعد میں پیدا ہونے والے خلفشاروں سے اُمت کو محفوظ کر جاتے اور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں اس کا فیصلہ چھوڑنے سے اسے بچالے جاتے جو نفسانی خواہشوں میں الجھے ہوئے اور خود غرضیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور یہی وہ صحیح طریقِ کار ہے جسے نہ صرف عقل کی تائید حاصل ہے، بلکہ پیغمبر ﷺ کے صریحی ارشادات بھی اس کی حمایت میں ہیں۔

۳؂ ’’حیان ابن سمین‘‘ یمامہ میں قبیلۂ بنی حنیفہ کا سردار اور صاحب قلعہ و سپاہ تھا۔ جابر اس کے چھوٹے بھائی کا نام ہے اور ’’اعشیٰ‘‘ کہ جس کا اصلی نام ’’میمون ابن قیس‘‘ ہے اس کی بزمِ ناؤ نوش میں ندیم و مصاحب کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کے انعام و اکرام سے خوشحالی و فارغ البالی کی زندگی بسر کرتا تھا۔ اس شعر میں اس نے اپنی پہلی زندگی کا موجودہ زندگی سے تقابل کیا ہے کہ کہاں وہ دن کہ جب رزق کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا اور کہاں یہ دن جو حیان کی مصاحبت میں آرام چین سے گزر رہے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام کے اس شعر کو بطور تمثیل لانے کا مقصد عموماً یہ سمجھا گیا ہے کہ اپنے اس دکھ بھرے زمانے کا مقابلہ اس زمانہ سے کریں جو پیغمبر ﷺ کے دامانِ عاطفت میں گزرتا تھا اور ہر طرح کے غل و غش سے پاک اور روحانی سکون کا سر و سامان لئے ہوئے تھا، لیکن محل تمثیل اور نیز مضمونِ شعر پر نظر کرتے ہوئے یہ مقصود ہو تو بعید نہیں ہے کہ برسرِ اقتدار افراد کی زمانہ رسولؐ میں بے وقعتی اور موجودہ حالت میں ان کے اقتدار و اختیار کا فرق دکھلایا جائے۔ یعنی ایک وقت وہ تھا کہ رسول ﷺ کے زمانے میں میرے سامنے ان کی بات بھی نہ پوچھی جاتی تھی اور اب یہ دور آیا ہے کہ یہ امورِ مسلمین کے واحد مالک بنے ہوئے ہیں۔

۴؂ جب حضرت عمر، ابو لولو کے ہاتھ سے زخمی ہوئے اور دیکھا کہ اس کاری زخم سے جانبر ہونا مشکل ہے تو آپ نے انتخابِ خلیفہ کیلئے ایک مجلس شوریٰ تشکیل دی جس میں علی ابن ابی طالب، عثمان ابن عفان، عبد الرحمٰن ابن عوف، زبیر ابن عوام، سعد ابن ابی وقاص اور طلحہ ابن عبید اللہ کو نامزد کیا اور ان پر یہ پابندی عائد کر دی کہ وہ ان کے مرنے کے بعد تین دن کے اندر اندر اپنے میں سے ایک کو خلافت کیلئے منتخب کر لیں اور یہ تینوں دن امامت کے فرائض صہیب انجام دیں۔ ان ہدایات کے بعد ارکانِ شوریٰ میں سے کچھ لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے متعلق جو خیالات رکھتے ہوں ان کا اظہار فرماتے جائیں تا کہ ان کی روشنی میں قدم اٹھایا جائے۔ اس پر آپ نے فرداً فرداً ہر ایک کے متعلق اپنی زریں رائے کا اظہار فرمایا۔ چنانچہ سعد کے متعلق کہا کہ: وہ درشت خو اور تند مزاج ہیں اور عبد الرحمٰن اس اُمت کے فرعون ہیں اور زبیر خوش ہوں تو مومن اور غصہ میں ہوں تو کافر اور طلحہ غرور و نخوت کا پتلا ہیں، اگر انہیں خلیفہ بنایا گیا تو خلافت کی انگوٹھی اپنی بیوی کے ہاتھ میں پہنا دیں گے اور عثمان کو اپنے قوم قبیلہ کے علاوہ کوئی دوسرا نظر ہی نہیں آتا۔ رہے علیؑ تو وہ خلافت پر ریجھے ہوئے ہیں، اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ایک وہی ایسے ہیں جو خلافت کو صحیح راہ پر چلائیں گے۔[۱۲]

مگر اس اعتراف کے باوجود آپ نے مجلسِ شوریٰ کی تشکیل ضروری سمجھی اور اس کے انتخاب ارکان اور طریق کار میں وہ تمام صورتیں پیدا کر دیں کہ جس سے خلافت کا رخ ادھر ہی بڑھے جدھر آپ موڑنا چاہتے تھے۔ چنانچہ تھوڑی بہت سمجھ بوجھ سے کام لینے والا بآسانی اس نتیجے پر پہنچ سکتا ہے کہ اس میں حضرت عثمان کی کامیابی کے تمام اسباب فراہم تھے۔ اس کے ارکان کو دیکھئے تو ان میں ایک حضرت عثمان کے بہنوئی عبد الرحمٰن ابن عوف [۱۳] ہیں اور دوسرے سعد ابن ابی وقاص ہیں جو امیر المومنینؑ سے کینہ و عناد رکھنے کے علاوہ عبد الرحمٰن کے عزیز و ہم قبیلہ بھی ہیں۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی حضرت عثمان کے خلاف تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تیسرے طلحہ ابن عبید اللہ تھے، جن کے متعلق علامہ محمد عبدہ حواشی نہج البلاغہ میں تحریر کرتے ہیں:

وَ قَدْ یَکْفِیْ فِیْ مَیْلِہٖۤ اِلٰی عُثْمَانَ انْحِرَافُہٗ عَنْ عَلِیٍّ ؑ لِاَنَّہٗ تِیْمِیٌّ وَّ قَدْ کَانَ بَیْنَ بَنِیْ ھَاشِمٍ وَّ بَنِیْ تِیْمٍ مَّوَاجِدُ لِمَكَانِ الْخِلَافَۃِ فِیْۤ اَبِیْ بَکْرٍ.

طلحہ حضرت عثمان کی طرف مائل تھے اور مائل ہونے کی یہی وجہ کیا کم ہے کہ وہ حضرت علی علیہ السلام سے منحرف تھے، کیونکہ یہ تیمی تھے اور ابو بکر کے خلیفہ ہو جانے کے سبب سے بنی تیم و بنی ہاشم میں رنجشیں پیدا ہو چکی تھیں۔[۱۴]

رہے زبیر تو یہ اگر حضرتؑ کا ساتھ دیتے بھی تو ایک اکیلی رائے کیا بنا سکتی تھی۔ طبری وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ طلحہ اس موقع پر مدینہ میں موجود نہ تھے، لیکن ان کی عدم موجودگی حضرت عثمان کی کامیابی میں سد راہ نہ تھی، بلکہ وہ موجود بھی ہوتے جیسا کہ شوریٰ کے موقعہ پر پہنچ گئے تھے اور انہیں امیر المومنین علیہ السلام کا ہمنوا بھی سمجھ لیا جائے جب بھی حضرت عثمان کی کامیابی میں کوئی شبہ نہ تھا، کیونکہ حضرت عمر کے ذہن رسا نے طریق کار یہ تجویز کیا تھا کہ:

فَاِنْ رَّضِیَ ثَلاثَةٌ رَجُلًا مِّنْهُمْ وَ ثَلاثَةٌ رَجُلًا مِّنْهُمْ، فَحَكِّمُوْا عَبْدَ اللّٰهِ ابن عُمَرَ، فَاَیُّ الْفَرِيقَيْنِ حَكَمَ لَهٗ فَلْيَخْتَارُوْا رَجُلًا مِّنْهُمْ، فَاِنْ لَّمْ يَرْضَوْا بِحُكْمِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ فَكُونُوا مَعَ الَّذِيْنَ فِيْهِمْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ، وَ اقْتُلُوا الْبَاقِيْنَ اِنْ رَّغِبُوْا عَمَّا اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ.

اگر تین ایک پر اور تین ایک پر رضا مند ہوں تو اس صورت میں عبد اللہ ابن عمر کو ثالث بناؤ۔ جس فریق کے متعلق وہ حکم لگائے وہی فریق اپنے میں سے خلیفہ کا انتخاب کرے اور اگر وہ عبد اللہ ابن عمر کے فیصلہ پر رضا مند نہ ہوں تو تم اس فریق کا ساتھ دو جس میں عبد الرحمٰن ابن عوف ہو اور دوسرے لوگ اگر اس سے اتفاق نہ کریں تو انہیں اس متفقہ فیصلے کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے قتل کر دو۔ (تاریخ طبری، ج۳، ص۲۹۴)

اس مقام پر عبد اللہ ابنِ عمر کے فیصلہ پر نا رضامندی کے کیا معنی؟ جب کہ انہیں یہ ہدایت کر دی جاتی ہے کہ وہ اسی گروہ کا ساتھ دیں جس میں عبد الرحمٰن ہوں۔ چنانچہ عبد اللہ کو حکم دیا کہ:

يَا عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ عُمَرَ! اِنِ اخْتَلَـفَ الْقَوْمُ فَكُنْ مَّعَ الاَكْثَرِ، وَ اِنْ كَانُوْا ثَلاثَةً وَّ ثَلاثَةً فَاتَّبِعِ الْحِزْبَ الَّذِیْ فِيْهِ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ.

اے عبد اللہ! اگر قوم میں اختلاف ہو تو تم اکثریت کا ساتھ دینا اور اگر تین ایک طرف ہوں اور تین ایک طرف تو تم اس فریق کا ساتھ دینا جس میں عبد الرحمٰن ہوں۔ (تاریخ طبری، ج۳، ص۲۶۵)

اس فرمائش سے اکثریت کی ہمنوائی سے بھی یہی مراد ہے کہ عبد الرحمٰن کا ساتھ دیا جائے، کیونکہ دوسری طرف اکثریت ہو ہی کیونکر سکتی تھی، جب کہ ابو طلحہ انصاری کی زیر قیادت پچاس خونخوار تلواروں کو حزبِ مخالف کے سروں پر مسلط کر کے عبد الرحمٰن کے اشارۂ چشم و اَبرو پر جھکنے کیلئے مجبور کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کی نظروں نے اسی وقت بھانپ لیا تھا کہ خلافت حضرت عثمان کی ہو گی۔ جیسا کہ آپؑ کے اس کلام سے ظاہر ہے جو ابن عباس سے مخاطب ہو کر فرمایا:

عُدِلَتْ عَنَّا! فَقَالَ: وَ مَا عِلْمُكَ؟ قَالَ: قُرِنَ بِیْ عُثْمَانَ وَ قَالَ: كُوْنُوْا مَعَ الْاَكْثَرِ، فَاِنْ رَّضِیَ رَجُلَانِ رَجُلًا وَّ رَجُلانِ رَجُلًا فَكُوْنُوْا مَعَ الَّذِيْنَ فِيْهِمْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ، فَسَعْدٌ لَّا يُخَالِفُ ابْنَ عَمِّهٖ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ وَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ صِهْرُ عُثْمَانَ.

خلافت کا رخ ہم سے موڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ: یہ کیسے معلوم ہوا؟ فرمایا کہ: میرے ساتھ عثمان کو بھی لگا دیا ہے اور یہ کہا ہے کہ: اکثریت کا ساتھ دو اور اگر دو ایک پر اور دو ایک پر رضامند ہوں تو تم ان لوگوں کا ساتھ دو جن میں عبد الرحمٰن بن عوف ہو۔ چنانچہ سعد تو اپنے چچیرے بھائی عبد الرحمٰن کا ساتھ دے گا اور عبد الرحمٰن تو عثمان کا بہنوئی ہوتا ہی ہے۔ (تاریخ طبری، ج۳، ص۲۹۴)

بہر حال حضرت عمر کی رحلت کے بعد حضرت عائشہ کے حجرہ میں یہ اجتماع ہوا اور دروازہ پر ابو طلحہ انصاری پچاس آدمیوں کے ساتھ شمشیر بکف آ کھڑا ہوا۔ طلحہ نے کاروائی کی ابتدا کی اور سب کو گواہ بنا کر کہا کہ: میں اپنا حق رائے دہندگی حضرت عثمان کو دیتا ہوں۔ اس پر زبیر کی رگِ حمیت پھڑکی (کیونکہ ان کی والدہ حضرتؑ کی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب تھیں) اور انہوں نے اپنا حق رائے دہندگی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو سونپ دیا۔ پھر سعد ابن ابی وقاص نے اپنا حق رائے دہندگی عبد الرحمٰن کے حوالے کر دیا۔ اب مجلسِ شوریٰ کے ارکان صرف تین رہ گئے جن میں سے عبد الرحمٰن نے کہا کہ میں اس شرط پر اپنے حق سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہوں کہ آپؑ دونوں (علی ابنِ ابی طالب اور عثمان ابنِ عفان) اپنے میں سے ایک کو منتخب کر لینے کا حق مجھے دے دیں یا آپ میں سے کوئی ایک دستبردار ہو کر یہ حق لے لے۔ یہ ایک ایسا جال تھا جس میں امیر المومنین علیہ السلام کو ہر طرف سے جکڑ لیا گیا تھا کہ یا تو اپنے حق سے دستبردار ہو جائیں یا عبد الرحمٰن کو اپنی من مانی کارروائی کرنے دیں۔ پہلی صورت آپؑ کیلئے ممکن ہی نہ تھی کہ حق سے دستبردار ہو کر عثمان یا عبد الرحمٰن کو منتخب کریں۔ اس لئے آپؑ اپنے حق پر جمے رہے اور عبدالرحمٰن نے اپنے کو اس سے الگ کر کے یہ اختیار سنبھال لیا اور امیر المومنین علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کہا:

اُبَايِعُكَ عَلٰى كِتَابِ اللّٰهِ وَ سُنَّةِ رَسُوْلِهٖ -ﷺ وَسِيْرَةِ الشَّيْخَيْنِ اَبِیْ بَكْرٍ وَّ عُمَرَ.

میں اس شرط پر آپؑ کی بیعت کرتا ہوں کہ آپؑ کتابِ خدا، سنت رسولؐ اور ابو بکر اور عمر کی سیرت پر چلیں۔

آپؑ نے کہا:

بَلْ عَلٰى كِتَابِ اللّٰهِ وَ سُنَّةِ رَسُوْلِهٖ -ﷺ وَ اَجْتَهِدُ رَاْيِیْ.

نہیں، بلکہ میں اللہ کی کتاب، رسول ﷺ کی سنت اور اپنے مسلک پر چلوں گا۔[۱۵]

تین مرتبہ دریافت کرنے کے بعد جب یہی جواب ملا تو حضرت عثمان سے مخاطب ہو کر کہا کہ: کیا آپ کو یہ شرائط منظور ہیں؟ ان کیلئے انکار کی کوئی وجہ ہی نہ تھی۔ انہوں نے ان شرائط کو مان لیا اور ان کی بیعت ہو گئی۔ جب امیر المومنینؑ نے اپنے حق کو یوں پامال ہوتے دیکھا تو فرمایا:

لَيْسَ هٰذَا اَوَّلَ يَوْمٍ تَظَاهَرْتُمْ فِيْهِ عَلَيْنَا، ﴿فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ ؕ وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۝﴾، وَ اللّٰهِ! مَا وَلَّيْتَ عُثْمَانَ اِلَّا لِيُرَّدَ الْاَمْرَ اِلَيْكَ.

یہ پہلا دن نہیں ہے کہ تم نے ہم پر زیادتی کی ہو اب صبر جمیل کے علاوہ کیا چارہ ہے اور جو باتیں تم کرتے ہو اس پر اللہ ہی مددگار ہے۔ خدا کی قسم! تم نے عثمان کو اس امید پر خلافت دی ہے کہ وہ اسے کل تمہارے حوالہ کر جائے۔ (طبری، ج۳، ص۲۹۷)

ابن ابی الحدید نے شوریٰ کے واقعات کو لکھنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ جب حضرت عثمان کی بیعت ہو گئی تو امیر المومنین علیہ السلام نے عبد الرحمٰن اور عثمان کو مخاطب کر کے کہا:

دَقَّ اللهُ بَيْنَكُمَا عَطْرَ مُنْشِمٍ.

خدا تمہارے درمیان عطرِ منشم [۱۶] چھڑکے اور تمہاری ایک دوسرے سے بن نہ آئے۔[۱۷]

چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے سخت دشمن ہو گئے اور عبد الرحمٰن نے مرتے دم تک حضرت عثمان سے بات چیت کرنا گوارا نہ کی اور بسترِ مرگ پر بھی انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا۔

ان واقعات کو دیکھنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شوریٰ اسی کا نام ہے جو چھ آدمیوں میں منحصر ہو اور پھر تین میں اور آخر میں ایک ہی فرد میں منحصر ہو کر رہ جائے اور کیا انتخابِ خلافت کیلئے سیرتِ شیخین کی شرط حضرت عمر کی طرف سے تھی یا عبد الرحمٰن نے امیر المومنین علیہ السلام اور خلافت کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرنے کیلئے پیش کی تھی، حالانکہ خلیفۂ اوّل نے خلیفۂ ثانی کو نامزد کرتے وقت یہ شرط نہیں لگائی تھی کہ تمہیں میری سیرت پر چلنا ہو گا، تو اس کا یہاں پر کیا محل تھا؟

بہر صورت امیر المومنین علیہ السلام نے فتنہ و فساد کو روکنے اور حجت تمام کرنے کیلئے اس میں شرکت گوارا فرما لی تا کہ ان کے ذہنوں پر قفل پڑ جائیں اور یہ نہ کہتے پھریں کہ ہم تو انہی کے حق میں رائے دیتے مگر خود انہوں نے شوریٰ سے کنارہ کشی کر لی اور ہمیں موقع نہ دیا کہ ہم آپؑ کو منتخب کرتے۔

۵عہد ثالث کے متعلق فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بر سرِ اقتدار آتے ہی بنی امیہ کی بن آئی اور انہوں نے بیت المال کو لوٹنا شروع کر دیا اور جس طرح چوپائے خشک سالیوں کے بعد ہرا بھرا سبزہ دیکھ لیں تو اسے پامال کر کے چھوڑتے ہیں، یونہی یہ اللہ کے مال پر بے تحاشا ٹوٹ پڑے اور اسے تباہ کر کے رکھ دیا۔ آخر اس خود پروری اور خویش نوازی نے انہیں وہ روزِ بَد دکھایا کہ لوگوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کر کے انہیں تلواروں کی زد پر رکھ لیا اور سب کھایا پیا اُگلوا لیا۔

اس دور میں جس طرح کی بد عنوانیاں ہوئیں ان پر کسی مسلمان کا دل دکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جلیل القدر صحابہ تو گوشوں میں پڑے ہوں، غربت ان پر چھائی ہوئی ہو، افلاس انہیں گھیرے ہوئے ہو اور بیت المال پر تسلط ہو تو بنی امیہ کا ،عہدوں پر چھائے ہوئے ہوں تو انہیں کے نوخیز و ناتجربہ کار افراد، مسلمانوں کی مخصوص ملکیتوں پر قبضہ ہو تو ان کا، تمام چراگاہوں میں چوپائے چریں تو ان کے، محلات تعمیر ہوں تو ان کے، باغات لگیں تو ان کے اور کوئی درد مند اِن بے اعتدالیوں کے خلاف زبان ہلائے تو اس کی پسلیاں توڑ دی جائیں اور کوئی اس سرمایہ داری کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے شہر بدر کر دیا جائے۔ زکوٰة و صدقات جو فقراء اور مساکین کا حق تھا اور بیت المال جو مسلمانوں کا مشترکہ سرمایہ تھا اس کا مصرف کیا قرار دیا گیا تھا وہ ذیل کے چند نمونوں سے ظاہر ہے:

(۱) حکم ابن عاص کو کہ جسے رسول ﷺ نے مدینہ سے نکلوا دیا تھا نہ صرف سنتِ رسولؐ بلکہ سیرت شیخین کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے

مدینہ واپس بلوا لیا اور بیت المال سے ایک لاکھ درہم عطا فرمائے۔ (معارف، ابن قتیبہ، ص۹۴)

(۲) ولید ابن عقبہ کو کہ جسے قرآن نے فاسق کہا ہے مسلمانوں کے مال میں سے ایک لاکھ درہم دیئے۔ (عقد الفرید، ج۳، ص۹۴)

(۳) مروان ابن حکم سے اپنی بیٹی ابان کی شادی کی تو ایک لاکھ درہم بیت المال سے اسے دیئے۔ (شرح ابنِ ابی الحدید، ج۱، ص۳۹)

(۴) حارث ابن حکم سے اپنی بیٹی عائشہ کا عقد کیا تو ایک لاکھ درہم بیت المال سے اسے عطا فرمائے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۳۹)

(۵) ابو سفیان ابن حرب کو دو لاکھ درہم عطا فرمائے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۳۹)

(۶) عبداللہ ابن خالد کوچار لاکھ درہم عطا فرمائے۔ (معارف، ص۸۴)

(۷) مال افریقہ کا خمس (پانچ لاکھ دینار) مروان کی نذر کر دیا۔ (معارف، ص۸۴)

(۸) فدک کہ جسے صدقہ عام کہہ کر پیغمبر ؐ کی قدسی صفات بیٹی سے روک لیا گیا تھا، مروان کو عطائے خسروانہ کے طور پر دے دیا۔(معارف، ص۸۴)

(۹) بازار مدینہ میں بہزور ایک جگہ تھی جسے رسول ؐنے مسلمانوں کیلئے وقف عام قرار دیا تھا، حارث ابن حکم کو بخش دی۔ (معارف، ص۸۴)

(۱۰) مدینہ کے گرد جتنی چراگاہیں تھیں ان میں بنی امیہ کے علاوہ کسی کے اونٹوں کو چرنے کی اجازت نہ تھی۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۳۹)

(۱۱) مرنے کے بعد ایک لاکھ پچاس ہزار دینار [۱۸] اور دس لاکھ درہم آپ کے ہاں نکلے۔ جاگیروں کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ صرف چند ایک جاگیروں کی قیمت کا اندازہ ایک لاکھ دینار تھا۔ اونٹوں اور گھوڑوں کا شمار نہیں ہو سکتا۔ (مروج الذہب، ج۱، ص۴۳۵)

(۱۲) مرکزی شہروں پر آپ ہی کے عزیز و اقارب حکمران تھے۔ چنانچہ کوفہ پر ولید ابن عقبہ حاکم تھا، مگر جب اس نے شراب کے نشہ میں چور ہو کر صبح کی نماز دور رکعت کے بجائے چار رکعت پڑھا دی تو لوگوں کے شور مچانے پر اسے معزول تو کر دیا، مگر اس کی جگہ پر سعید ابن عاص جیسے فاسق کو مقرر کر دیا۔ مصر پر عبداللہ ابن ابی سرح، شام پر معاویہ ابنِ ابی سفیان اور بصرہ پر عبد اللہ ابنِ عامر آپ کے مقرر کردہ حکمران تھے۔ (مروج الذہب، ج۱، ص۴۳۵)

[۱]۔ مقتدر باللہ کی حکومت ۲۹۵ ھ سے ۳۲۰ ھ تک قائم رہی۔

[۲]۔ ابوبکر ابن مردویہ کا سن وفات ۴۱۶ ھ ہے۔

[۳]۔ سلیمان ابن احمد طبرانی کا سال وفات ۳۶۰ ھ ہے۔

[۴]۔ قاضی عبد الجبار ابن احمد کا سن وفات ۴۱۵ ھ ہے۔

[۵]۔ بحار الانوار، ج ۲۹، ص ۵۰۸۔

[۶]۔ عبد العزیز جلودی کا سن وفات ۳۳۲ ھ ہے۔

[۷]۔ یحیٰ ابن عبد الحمید کا سن وفات ۲۲۸ ھ ہے۔

[۸]۔ علل الشرائع، ج ۱، ص ۱۵۳۔

[۹]۔ المواقف، ج۳، ص ۵۹۰، دار الجیل، بیروت، ۱۹۹۷ ء۔

[۱۰]۔ المواقف، ج ۳، ص ۵۹۰-۵۹۱۔

[۱۱]۔ الامامۃ و السیاسۃ، ابن قتیبہ دینوری، ص ۴۲، مطبوعہ دار الاضواء، بیروت، ۱۹۹۱ء۔

[۱۲]۔ وَاللهِ! مَا يَمْنَعُنِیْ اَنْ اَستَخْلِفَكَ يَا سَعْدُ اِلَّا شِدَّتَكَ وغِلْظَتَكَ مَعَ اَنَّكَ رَجُلُ حَرْبٍ ، وَمَا يَمْنَعُنِیْ مِنْكَ يَا عَبْدَ الرَّحْمٰنِ اِلَّآ اَنَّكَ فِرْعُوْنُ هٰذِهِ الْاُمَّةِ ، وَمَا يَمْنَعُنِیْ مِنْكَ يَا زُبَيْرُ! اِلَّآ اَنَّكَ مُؤْمِنُ الرِّضَا كَافِرُ الْغَضَبِ ، وَمَا يَمْنَعُنِیْ مِنْ طَلْحَةَ اِلَّا نِخْوَتُهٗ وَكِبْرُهٗ وَلَوْ وَلِيَهَا وَضَعَ خَاتَمَهٗ فِیْ اِصْبَعِ امْرَاَتِهٖ ، وَمَا يَمْنَعُنِیْ مِنْكَ يَا عُثْمَانُ اِلَّا عَصَبِيَّتُكَ وَحُبُّكَ قَوْمَكَ وَ اَهْلَكَ ، وَمَا يَمْنَعُنِیْ مِنْكَ يَا عَلِیُّ اِلَّا حِرْصُكَ عَلَيْهَا وَاِنَّكَ اَحْرَى الْقَوْمِ اِنْ وَلَّيْتَهَآ اَنْ تُقِيْمَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِيْنِ وَالصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيْمِ۔

[۱۳]۔ حضرت عثمان کی والدہ اروی بنت کریز پہلے عقبہ ابن ابی معید کے عقد میں جس سے ایک لڑکی ام کلثوم پیدا ہوئی جو عبد الرحمن سے بیاہی گئی۔

[۱۴]۔ نہج البلاغہ، حاشیہ شیخ محمد عبدہ، ص ۳۴، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت۔

[۱۵]۔ الحاوی الکبیر، علامۃ ابو الحسن الماوردی، ج۱۶، ص ۳۱۴، مطبوعہ دار الفکر، بیروت۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۱۸۸۔

[۱۶]۔ ’’منشم‘‘ ایک عورت کا نام ہے جو زمانہ جاہلیت میں حنوط و غیرہ بیچا کرتی تھی۔ اس وجہ سے جب قبائل عرب آپس میں لڑتے تھے تو بطور مثل کہا جاتا تھا کہ: ’’ان پر عطر منشم چھڑکو‘‘۔ یعنی وہ چیز کہ جس سے میت کو خوشبو دی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہوتا تھا کہ اب یہ لڑ بھڑ کر ختم ہو جائیں گے ان کے لیے کفن و حنوط تیار رکھو۔ (المعارف)

[۱۷]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۱۸۷۔

[۱۸]۔ ’’دینار‘‘ سونے کا ایک سکہ ہے، جس کا وزن ساڑھے تین ماشے ہوتا ہے۔ (منتہی الادب)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button