سورہ سبا
سورہ سبا۔ مکی۔ آیات ۵۴
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ ثنائے کامل اس اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے اور آخرت میں بھی ثنائے کامل اسی کے لیے ہے اور وہ بڑا حکمت والا، خوب باخبر ہے۔
٢۔ جو کچھ زمین کے اندر جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے سب کو اللہ جانتا ہے اور وہی رحیم و غفور ہے۔
٣۔ اور کفار کہتے ہیں : قیامت ہم پر نہیں آئے گی، کہہ دیجئے : میرے عالم الغیب رب کی قسم وہ تم پر ضرور آ کر رہے گی، آسمانوں اور زمین میں ذرہ برابر بھی (کوئی چیز) اس ے پوشیدہ نہیں ہے اور نہ ذرے سے چھوٹی چیز اور نہ اس سے بڑی مگر یہ کہ سب کچھ کتاب مبین میں ثبت ہے۔
٤۔ تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل انجام دینے والوں کو جزا دے ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے مغفرت اور رزق کریم ہے۔
٥۔ اور جنہوں نے ہماری آیات کے بارے میں کوشش کی کہ (ہم کو) مغلوب کریں ان کے لیے بلا کا دردناک عذاب ہے۔
٦۔ اور جنہیں علم دیا گیا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے اور وہ بڑے غالب آنے والے اور قابل ستائش (اللہ) کی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
٧۔ اور کفار کہتے ہیں : کیا ہم تمہیں ایک ایسے آدمی کا پتہ بتائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ جب تم مکمل طور پر پارہ پارہ ہو جاؤ گے تو بلاشبہ تم نئی خلقت پاؤ گے ؟
٨۔ اس نے اللہ پر جھوٹ بہتان باندھا ہے یا اسے جنون لاحق ہے ؟ (نہیں ) بلکہ (بات یہ ہے کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ لوگ عذاب میں اور گہری گمراہی میں مبتلا ہیں۔
٩۔ کیا انہوں نے اپنے آگے اور پیچھے محیط آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان سے ان پر ٹکڑے برسا دیں یقیناً اس میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہر بند ے کے لیے نشانی ہے۔
١٠۔ اور بتحقیق ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے فضیلت دی، (اور ہم نے کہا) اے پہاڑو! اس کے ساتھ(تسبیح پڑھتے ہوئے ) خوش الحانی کرو اور پرندوں کو بھی(یہی حکم دیا) اور ہم نے لوہے کو ان کے لیے نرم کر دیا
١١۔ کہ تم زرہیں بناؤ اور ان کے حلقوں کو باہم مناسب رکھو اور تم سب نیک عمل کرو بتحقیق جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے دیکھتا ہوں۔
١٢۔ اور سلیمان کے لیے (ہم نے ) ہوا (کو مسخر کر دیا)، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کا راستہ اور شام کے وقت کا چلنا بھی ایک ماہ کا راستہ (ہوتا) اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور جنوں میں سے بعض ایسے تھے جو اپنے رب کی اجازت سے سلیمان کے آگے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے انحراف کرتا ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا ذائقہ چکھاتے۔
١٣۔ سلیمان جو چاہتے یہ جنات ان کے لیے بنا دیتے تھے ، بڑی مقدس عمارات، مجسمے ، حوض جیسے پیالے اور زمین میں گڑی ہوئی دیگیں ، اے آل داؤد! شکر ادا کرو اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہیں۔
١٤۔ پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو سلیمان کی موت کی بات کسی نے نہ بتائی سوائے زمین پر چلنے والی (دیمک) کے جو ان کے عصا کو کھا رہی تھی،پھر جب سلیمان زمین پر گرے تو جنوں پر بات واضح ہو گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کے اس عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔
١٥۔بتحقیق(اہل) سبا کے لیے ان کی آبادی میں ایک نشانی تھی، (یعنی) دو باغ دائیں اور بائیں تھے ، اپنے رب کے رزق سے کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، ایک پاکیزہ شہر (ہے ) اور بڑا بخشنے والا پروردگار۔
١٦۔ پس انہوں نے منہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر بند کا سیلاب بھیج دیا اور ان دو باغوں کے عوض ہم نے انہیں دو ایسے باغات دیے جن میں بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ کے درخت اور تھوڑے سے بیر تھے۔
١٧۔ ان کی ناشکری کے سبب ہم نے انہیں یہ سزا دی اور کیا ایسی سزا ناشکروں کے علاوہ ہم کسی اور کو دیتے ہیں ؟
١٨۔ اور ہم نے ان کے اور جن بستیوں کو ہم نے برکت سے نوازا تھا، کے درمیان چند کھلی بستیاں بسا دیں اور ان میں سفر کی منزلیں متعین کیں ، ان میں راتوں اور دنوں میں امن کے ساتھ سفر کیا کرو۔
١٩۔ پس انہوں نے کہا : ہمارے پروردگار! ہمارے سفر کی منزلوں کو لمبا کر دے اور انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا چنانچہ ہم نے بھی انہیں افسانے بنا دیا اور انہیں مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، یقیناً اس (واقعہ) میں ہر صبر اور شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں۔
٢٠۔ اور بتحقیق ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا گمان درست پایا اور انہوں نے اس کی پیروی کی سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے۔
٢١۔ اور ابلیس کو ان پر کوئی بالا دستی حاصل نہ تھی مگر ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخرت کا ماننے والا کون ہے اور ان میں سے کون اس بارے میں شک میں ہے اور آپ کا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔
٢٢۔ کہہ دیجئے : جنہیں تم اللہ کے سوا (معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، وہ ذرہ بھر چیز کے مالک نہیں ہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ہی ان دونوں میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے اس کا کوئی مددگار ہے۔
٢٣۔اور اللہ کے نزدیک کسی کے لیے شفاعت فائدہ مند نہیں سوائے اس کے جس کے حق میں اللہ نے اجازت دی ہو، یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے پریشانی دور ہو گی تو وہ کہیں گے : تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہیں گے : حق فرمایا ہے اور وہی برتر، بزرگ ہے۔
٢٤۔ان سے پوچھیے :تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے ؟ کہہ دیجئے : اللہ، تو ہم اور تم میں سے کوئی ایک ہدایت پر یا صریح گمراہی میں ہے۔
٢٥۔ کہہ دیجئے :ہمارے گناہوں کی تم سے پرسش نہیں ہو گی اور نہ ہی تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے سوال ہو گا۔
٢٦۔ کہہ دیجئے : ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان حق پر مبنی فیصلہ فرمائے گا اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا، دانا ہے۔
٢٧۔ کہہ دیجئے : مجھے وہ تو دکھاؤ جنہیں تم نے شریک بنا کر اللہ کے ساتھ ملا رکھا ہے ، ہرگز نہیں ، بلکہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا صرف اللہ ہے۔
٢٨۔ اور ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
٢٩۔ اور یہ کہتے ہیں : اگر تم لوگ سچے ہو (تو بتاؤ قیامت کے ) وعدے کا دن کب آنے والا ہے ؟
٣٠۔ کہہ دیجئے : تم سے ایک دن کا وعدہ ہے جس سے تم نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکو گے اور نہ آگے بڑھ سکو گے۔
٣١۔ اور کفار کہتے ہیں : ہم اس قرآن پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے اور نہ (ان کتابوں پر) جو اس سے پہلے ہیں اور کاش آپ ان کا وہ حال دیکھ لیتے جب یہ ظالم اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہوں گے ، (چنانچہ) جو لوگ دبے ہوئے ہوتے تھے وہ بڑا بننے والوں سے کہیں گے : اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔
٣٢۔ اور بڑا بننے والے دبے رہنے والوں سے کہیں گے : ہدایت تمہارے پاس آ جانے کے بعد کیا ہم نے تمہیں اس سے روکا تھا؟ (نہیں ) بلکہ تم خود ہی مجرم ہو۔
٣٣۔ اور کمزور لوگ بڑا بننے والوں سے کہیں گے : بلکہ یہ رات دن کی چالیں تھیں جب تم ہمیں اللہ سے کفر کرنے اور اس کے لیے ہمسر بنانے کے لے ے کہتے تھے ، جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل میں ندامت لیے بیٹھیں گے اور ہم کفار کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے ، کیا ان کو اس کے سوا کوئی بدلہ ملے گا جس کے یہ مرتکب ہوا کرتے تھے۔
٣٤۔ اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے : جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔
٣٥۔ اور کہتے تھے : ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔
٣٦۔ کہہ دیجئے : میرا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق فراواں اور تنگ کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
٣٧۔ اور تمہارے اموال و اولاد ایسے نہیں جو تمہیں ہماری قربت میں درجہ دلائیں سوائے اس کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، پس ان کے اعمال کا دگنا ثواب ہے اور وہ سکون کے ساتھ بالا خانوں میں ہوں گے۔
٣٨۔ اور جو لوگ ہماری آیات کے بارے میں سعی کرتے ہیں کہ (ہم کو) مغلوب کریں یہ لوگ عذاب میں حاضر کیے جائیں گے۔
٣٩۔ کہہ دیجئے : میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے فراوانی اور تنگی سے رزق دیتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس کی جگہ وہ اور دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
٤٠۔ اور جس دن وہ ان سب لوگوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں سے پوچھے گا: کیا یہ لوگ تمہاری پرستش کرتے تھے ؟
٤١۔ وہ کہیں گے : پا ک ہے تیری ذات، تو ہی ہمارا آقا ہے نہ کہ وہ، بلکہ وہ تو جنات کی پرستش کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہی کو مانتی ہے۔
٤٢۔ لہٰذا آج تم میں سے کوئی ایک دوسرے کو نفع اور نقصان پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا اور ظالموں سے ہم کہہ دیں گے : اب چکھو اس جہنم کا عذاب جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔
٤٣۔ اور جب ان پر ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو کہتے ہیں : یہ شخص تو تمہیں تمہارے باپ دادا کے معبودوں سے روکنا چاہتا ہے اور کہتے ہیں : یہ (قرآن) تو محض ایک خود ساختہ جھوٹ ہے اور کفار (کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ان) کے پاس جب بھی حق آیا تو کہنے لگے : بے شک ی تو ایک کھلا جادو ہے۔
٤٤۔ اور نہ تو ہم نے پہلے انہیں کتابیں دی تھیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ہی آپ سے پہلے ہم نے ان کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا بھیجا ہے۔
٤٥۔ اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کی تھی اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا تھا یہ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے مگر جب انہوں نے میرے رسولوں کی تکذیب کی تو (دیکھ لیا) میرا عذاب کتنا سخت تھا۔
٤٦۔ کہہ دیجئے : میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو ایک ایک اور دو دو کر کے پھر سوچو کہ تمہارے ساتھی میں جنون کی کوئی بات نہیں ہے ، وہ تو تمہیں ایک شدید عذاب سے پہلے خبردار کرنے والا ہے۔
٤٧۔کہہ دیجئے : جو اجر (رسالت) میں نے تم سے مانگا ہے وہ خود تمہارے ہی لیے ہے ، میرا اجر تو اللہ کے ذمے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔
٤٨۔ کہہ دیجئے : میرا رب یقیناً حق نازل فرماتا ہے اور وہ غیب کی باتوں کا خوب جاننے والا ہے۔
٤٩۔ کہہ دیجئے : حق آ گیا اور باطل نہ تو پہلی بار ایجاد کر سکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ پلٹا سکتا ہے۔
٥٠۔ کہہ دیجئے : اگر میں گمراہ ہو گیا ہوں تو اس گمراہی کا نقصان خود مجھے ہی ہے اور اگر میں ہدایت یافتہ ہوں تو یہ اس وحی کی بنا پر ہے جو میرے رب کی طرف سے مجھ پر ہوتی ہے ، اللہ یقیناً بڑا سننے والا قریب ہے۔
٥١۔ اور کاش! آپ دیکھ لیتے کہ جب یہ پریشان حال ہوں گے تو بچ نہ سکیں گے اور نزدیک ہی سے پکڑ لیے جائیں گے۔
٥٢۔ (اب) وہ کہیں گے : ہم اس ایمان پر ایمان لے آئے لیکن اب وہ اتنی دور نکلی ہوئی چیز کو کہاں پا سکیں گے ؟
٥٣۔ اور اس سے پہلے بھی وہ کفر کر چکے تھے اور انہوں نے بن دیکھے دور ہی دور سے (گمان کے ) تیر چلائے تھے۔
٥٤۔ اور اب ان کے اور ان کی مطلوبہ اشیاء کے درمیان پردے حائل کر دیے گئے ہیں جیسا کہ پہلے بھی ان کے ہم خیال لوگوں کے ساتھ (یہی) کیا گیا تھا، یقیناً وہ شبہ انگیز شک میں مبتلا تھے۔