کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 272: احکام میں ترمیم

(٢٧٢) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۲۷۲)

لَوْ قَدِ اسْتَوَتْ قَدَمَایَ مِنْ هٰذِهِ الْمَدَاحِضِ لَغَیَّرْتُ اَشْیَآءَ.

اگر ان پھسلنوں سے بچ کر میرے پیر جم گئے تو میں بہت سی چیزوں میں تبدیلی کر دوں گا۔

اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد دین میں تغیرات رونما ہونا شروع ہو گئے اور کچھ افراد نے قیاس و رائے سے کام لے کر احکام شریعت میں ترمیم و تنسیخ کی بنیاد ڈال دی۔ حالانکہ حکم شرعی میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ قرآن و سنت کے واضح احکام کو ٹھکرا کر اپنے قیاسی احکام کا نفاذ کرے۔ چنانچہ قرآن کریم میں طلاق کی یہ واضح صورت بیان ہوئی ہے کہ: ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ‌﴾: ’’طلاق (رجعی کہ جس میں بغیر محلل کے رجوع ہو سکتی ہے) دو مرتبہ ہے‘‘، مگر حضرت عمر نے بعض مصالح کے پیش نظر ایک ہی نشست میں تین طلاقوں کے واقع ہونے کا حکم دے دیا۔ اسی طرح میراث میں عول کا طریقہ رائج کیا گیا اور نماز جنازہ میں چار تکبیروں کو رواج دیا۔ یونہی حضرت عثمان نے نمازِ جمعہ میں ایک اذان بڑھا دی اور قصر کے موقع پر پوری نماز کے پڑھنے کا حکم دیا اور نماز عید میں خطبہ کو نماز پر مقدم کر دیا۔ اور اسی طرح کے بے شمار احکام وضع کر لئے گئے جس سے صحیح احکام بھی غلط احکام کے ساتھ مخلوط ہو کر بے اعتماد بن گئے۔

امیر المومنین علیہ السلام جو شریعت کے سب سے زیادہ واقف کار تھے، وہ ان احکام کے خلاف احتجاج کرتے اور صحابہ کے خلاف اپنی رائے رکھتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ:

لَسْنَا نَشُكُّ اَنَّهٗ كَانَ يَذْهَبُ فِی الْاَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ وَ الْقَضَايَا اِلٰۤى اَشْيَاءَ يُخَالِفُ فِيْهَاۤ اَقْوَالَ الصَّحَابَةِ.‏

ہمارے لئے اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام شرعی احکام و قضا یا میں صحابہ کے خلاف رائے رکھتے تھے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۳۷۳)

جب حضرتؑ ظاہری خلافت پر متمکن ہوئے تو ابھی آپؑ کے قدم پوری طرح سے جمنے نہ پائے تھے کہ چاروں طرف سے فتنے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان الجھنوں سے آخر وقت تک چھٹکارا حاصل نہ کر سکے جس کی وجہ سے تبدیل شدہ احکام میں پوری طرح ترمیم نہ ہو سکی اور مرکز سے دور علاقوں میں بہت سے غلط سلط احکام رواج پاگئے۔ البتہ وہ طبقہ جو آپؑ سے وابستہ تھا، وہ آپؑ سے احکام شریعت کو دریافت کرتا تھا اور انہیں محفوظ رکھتا تھا، جس کی وجہ سے صحیح احکام نابود اور غلط مسائل ہمہ گیر نہ ہو سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button