خطبات

خطبہ (۱۱)

11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم

(۱۱) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۱)

لِابْنِهٖ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيِّةِ لَمَّاۤ اَعْطَاهُ الرَّايَةَ يَوْمَ الْجَمَلِ:

جب جنگ جمل میں عَلم اپنے فرزند محمد بن حنفیہ [۱] کو دیا تو ان سے فرمایا:

تَزُوْلُ الْجِبَالُ وَ لَا تَزُلْ، عَضَّ عَلٰى نَاجِذِكَ، اَعِرِ اللهَ جُمْجُمَتَكَ، تِدْ فِی الْاَرْضِ قَدَمَكَ، اِرْمِ بِبَصَرِكَ اَقْصَى الْقَوْمِ، وَ غُضَّ بَصَرَكَ، وَ اعْلَمْ اَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِ اللهِ سُبْحَانَهٗ.

پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں مگر تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اپنے دانتوں کو بھینچ لینا، اپنا کاسۂ سر اللہ کو عاریت دے دینا، اپنے قدم زمین میں گاڑ دینا، لشکر کی آخری صفوں پر اپنی نظر رکھنا اور (دشمن کی کثرت و طاقت سے) آنکھوں کو بند کر لینا اور یقین رکھنا کہ مدد خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ [۲]

۱؂محمد بن حنفیہ

’’محمد ابن حنفیہ‘‘ امیر المومنین علیہ السلام کے صاحبزادے تھے اور مادری نسبت سے انہیں ’’ابن حنفیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی والدہ گرامی کا نام ’’خولہ بنت جعفر‘‘ تھا جو قبیلہ بنی حنیفہ کی نسبت سے ’’حنفیہ‘‘ کے لقب سے یاد کی جاتی تھیں۔ جب اہل یمامہ کو زکوٰة کے روک لینے پر مرتد قرار دے کر قتل و غارت کیا گیا اور ان کی عورتوں کو کنیزوں کی صورت میں مدینہ لایا گیا تو ان کے ساتھ آپ بھی وارد مدینہ ہوئیں۔ جب ان کے قبیلہ والے اس پر مطلع ہوئے تو وہ امیر المومنینؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے خواہش کی کہ وہ انہیں کنیزی کے داغ سے بچا کر ان کی خاندانی عزت و شرافت کو بچائیں۔ چنانچہ حضرتؑ نے انہیں خرید کر آزاد کر دیا اور بعد میں ان سے عقد کیا اور ’’محمد‘‘ کی ولادت ہوئی۔

بیشتر مؤرخین نے ان کی کنیت ’’ابو القاسم‘‘ تحریر کی ہے۔چنانچہ صاحبِ استیعاب نے ابو راشد ابن حفص زہری کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

میں نے صحابہ زادوں میں سے چار ایسے افراد دیکھے ہیں جن میں سے ہر ایک کا نام محمد اور کنیت ابو القاسم تھی:

(۱) محمد ابنِ حنفیہ، (۲) محمد ابنِ ابو بکر، (۳)محمد ابنِ طلحہ، (۴) محمد ابنِ سعد‘‘۔

اس کے بعد تحریر ہے کہ:

’’محمد ابنِ طلحہ‘‘ کا نام اور کنیت پیغمبر ﷺ نے رکھی تھی۔[۱]

اور واقدی نے لکھا ہے کہ: محمد ابنِ ابی بکر کا نام اور کنیت حضرت عائشہ نے تجویز کی تھی۔[۲]

بظاہر پیغمبر اکرم ﷺ کا محمد ابنِ طلحہ کیلئے اس نام اور کنیت کو جمع کر دینا درست نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر ﷺ نے اس کو امیر المومنین علیہ السلام کے ایک فرزند کیلئے مخصوص کر دیا تھا اور ’’وہ محمد ابنِ حنفیہ‘‘ تھے۔ چنانچہ ابنِ خلکان نے محمد ابنِ حنفیہ کے حالات کے ضمن میں لکھا ہے:

وَ اَمَّا كُنْيَتُهٗ بِاَبِی الْقَاسِمِ فَيُقَالُ: اِنَّهَا رُخْصَةٌ مِّنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَ اِنَّهٗ قَالَ لِعَلِیٍّ رَّضِیَ اللهُ عَنْهُ: سَيُوْلَدُ لَكَ بَعْدِیْ غُلَامٌ وَّ قَدْ نَحَلْتُهُ اسْمِیْ وَ كُنْيَتِیْ وَ لَا تَحُلُّ لِاَحَدٍ مِنْ اُمَّتِیْ بَعْدَهٗ.

لیکن ان کی کنیت ابو القاسم اس بنا پر تھی جو کہا جاتا ہے کہ: یہ رسول اللہ ﷺ کی خصوصی اجازت تھی کہ آپؐ نے علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام سے فرمایا کہ: میرے بعد تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا، میں نے اسے اپنا نام اور اپنی کنیت عطا کی ہے اور اس کے بعد میری اُمت میں سے کسی کیلئے اس کنیت اور نام کو جمع کرنا جائز نہ ہو گا۔ (وفیات الاعیان، ج۱، ص۴۴۹)

اس قول کے پیش نظر کیونکر یہ صحیح سمجھا جا سکتا ہے کہ پیغمبر ﷺ نے اس نام اور کنیت کو کسی اور کیلئے بھی جمع کر دیا ہو گا،جب کہ خصوصی اجازت کے معنی ہی یہ ہوتے ہیں کہ کوئی دوسرا اس میں شریک نہ ہو اور پھر بعض لوگوں نے ’’ابن طلحہ‘‘ کی کنیت ’’ابوالقاسم‘‘ کے بجائے ’’ابو سلیمان‘‘ تحریر کی ہے جس سے ہمارے مسلک کو مزید تائید حاصل ہوتی ہے۔ یوں ہی محمد ابنِ ابی بکر کی کنیت اگر اس بنا پر تھی کہ ان کے بیٹے کا نام قاسم تھا جو فقہائے مدینہ میں سے تھے تو حضرت عائشہ کے یہ کنیت تجویز کرنے کے کیا معنی؟ اور اگر نام کے ساتھ ہی کنیت تجویز کر دی تھی تو بعد میں محمد بن ابی بکر نے اس چیز کو کیونکر گوارا کر لیا ہوگا، جب کہ امیر المومنین علیہ السلام کے زیرِ سایہ پرورش پانے کی وجہ سے پیغمبر ﷺ کا یہ ارشاد ان سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا اور پھر یہ کہ اکثر لوگوں نے ان کی کنیت ’’ابو عبد الرحمن‘‘ لکھی ہے جس سے ابو راشد کے قول کو ضعف پہنچتا ہے۔

ان لوگوں کی کنیت کا ابو القاسم ہونا تو درکنار خود ابن حنفیہ کی بھی یہ کنیت ثابت نہیں ہے۔ اگرچہ ابن خلکان نے امیر المومنین علیہ السلام کے اس فرزند سے کہ جس کیلئے پیغمبر ﷺ نے یہ خصوصیت قرار دی ہے محمد ابن حنفیہ ہی کو مراد لیا ہے، مگر علامہ مامقانی تحریر کرتے ہیں کہ:

ھٰذَا التَّطْبِیْقُ مِنِ ابْنِ خَلَکَانَ اشْتِبَاہٌ، وَ اِنَّمَا الْمُرَادُ بِالذَّكَرِ الَّذِىْ يُوْلَدُ لِعَلِىٍّ ؑ وَ لَا یَحِلُّ لِغَیْرِہِ الْجَمْعُ بَیْنَ اسْمِہٖ و کُنْیَتِہٖ ﷺ، ھُوَ الْحُجَّۃُ الْمُنْتَظَرُ اَرْوَاحُنَا فِدَاہُ دَوْنَ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ، وَ کَوْنُ مُحَمَّدِ ابْنِ الْحَنَفِیَّۃِ اَبَا الْقَاسِمِ غَيْرُ مُسَلَّمٍ، وَ اِنَّمَا ذَكَرَهٗ بَعْضُ الْعَامَّةِ غَفْلَةً عَنِ الْمُرَادِ بِالْوَلَدِ الْمَذْكُوْرِ فِی النَّبَوِیِّ ﷺ.

اس حدیث کو محمد ابن حنفیہ پر منطبق کرنے میں ابنِ خلکان کو اشتباہ ہوا ہے، کیونکہ امیر المومنین علیہ السلام کے اس فرزند سے مراد کہ جس کے علاوہ کسی اور کیلئے نام اور کنیت کو جمع کرنا جائز نہیں ہے، وہ حضرت حجت (ارواحنا فداہ) ہیں نہ محمد ابن حنفیہ اور نہ ان کی کنیت ابوالقاسم ثابت ہے، بلکہ اہل سنت نے مرادِ پیغمبرؐ سے غافل رہنے کی بنا پر اس سے محمد ابن حنفیہ کو مراد لے لیا ہے۔[۳]

بہر حال محمد ابن حنفیہ صلاح و تقویٰ میں نمایاں، زہد و عبادت میں ممتاز، علم و فضل میں بلند مرتبہ اور باپ کی شجاعت کے ورثہ دار تھے۔ جمل و صفین میں ان کے کارناموں نے ان کی شجاعت و بے جگری کی ایسی دھاک عرب پر بٹھا دی تھی کہ اچھے اچھے شاہ زور آپ کے نام سے کانپ اٹھتے تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کو بھی ان کی ہمت و شجاعت پر ناز تھا اور ہمیشہ معرکوں میں انہیں آگے آگے رکھتے تھے۔

چنانچہ شیخ بہائی علیہ الرحمہ نے کشکول میں تحریر کیا ہے کہ:

علی ابن ابی طالب علیہ السلام انہیں جنگوں میں پیش پیش رکھتے تھے اور حسن و حسین علیہما السلام کو معرکوں میں پیش قدمی کی اجازت نہ دیتے تھے اور یہ فرمایا کرتے تھے کہ: «ھُوَ وَلَدِیْ وَ ھُمَا ابْنَا رَسُوْلِ اللہِ» : ’’یہ میرا بیٹا ہے اور وہ دونوں رسول ﷺ کے بیٹے ہیں‘‘، اور جب ایک خارجی نے ابن حنفیہ سے یہ کہا کہ: علیؑ تمہیں جنگ کے شعلوں میں دھکیل دیتے ہیں اور حسنؑ و حسینؑ کو بچالے جاتے ہیں تو آپ نے کہا کہ: «اَنَا یَمِیْنُہٗ وَ ھُمَا عَیْنَاہُ، فَھُوَ یَدْفَعُ عَنْ عَیْنَیْہِ بِیَمِیْنِہٖ» : ’’میں ان کا دست و بازو تھا اور وہ دونوں بمنزلہ آنکھوں کے تھے اور وہ ہاتھ سے آنکھوں کی حفاظت کیا کرتے تھے‘‘۔[۴]

لیکن علامہ مامقانی نے تنقیح المقال میں لکھا ہے کہ:

یہ ابن حنیفہ کا جواب نہیں بلکہ خود امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جب جنگِ صفین میں محمد نے شکوہ آمیز لہجے میں آپؑ سے اس کا ذکر کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: تو میرا ہاتھ ہے اور وہ میری آنکھیں ہیں، لہٰذا ہاتھ کو آنکھوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔[۵]

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے امیر المومنین علیہ السلام نے محمد ابن حنفیہ کو یہ جواب دیا ہو گا اور بعد میں کسی نے محمد ابن حنفیہ سے اس چیز کا ذکر کیا ہو گا تو انہوں نے اس جواب کو پیش کر دیا ہو گا کہ اس سے زیادہ بلیغ جواب ہو نہیں سکتا اور اس جملہ کی بلاغت سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ پہلے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زبانِ بلاغت ترجمان ہی سے نکلا ہے کہ جسے بعد میں محمد ابن حنفیہ نے اپنا لیا ہے۔ اس لئے یہ دونوں روایتیں صحیح سمجھی جا سکتی ہیں اور ان میں کوئی منافات نہیں۔

بہر صورت آپ عہد ثانی میں پیدا ہوئے اور عبدالملک ابنِ مروان کے دورِ حکومت میں ۶۵ سال کی عمر میں انتقال فرمایا۔ سنہ وفات بعض نے ۸۰ ھ اور بعض نے ۸۱ ھ لکھا ہے اور محلِ وفات میں بھی اختلاف ہے۔ بعض نے ’’مدینہ‘‘، بعض نے ’’ایلہ‘‘ اور بعض نے ’’طائف‘‘ تحریر کیا ہے۔

۲؂جب جنگِ جمل میں محمد ابن حنفیہ کو میدان کی طرف بھیجا تو ان سے فرمایا کہ: بیٹا کوهِ عزم و ثبات بن کر دشمن کے سامنے اس طرح جم جاؤ کہ تمہیں فوج کے ریلے جنبش نہ دے سکیں اور دانت پیس کر دشمن پر حملہ کرو، کیونکہ دانت پر دانت جما لینے سے سر کے اعصاب میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے جس سے تلوار کا وار اُچٹ جاتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا ہے:

وَ عَضُّوْا عَلَى النَّوَاجِذِ، فَاِنَّهٗ اَنْۢبٰى لِلسُّيُوْفِ عَنِ الْهَامِ.

دانتوں کو بھنچ لو کہ اس سے تلوار کی دھار سر سے اچٹ جاتی ہے۔[۶]

پھر فرماتے ہیں کہ: بیٹا اپنا سر اللہ کو عاریت دے دو، تا کہ اس حیاتِ فانی کے بدلے حیاتِ باقی حاصل کر سکو۔ کیونکہ عاریت دی ہوئی چیز کے واپس لینے کا حق ہوتا ہے، لہٰذا جان سے بے نیاز ہو کر لڑو۔ اور یوں بھی اگر خیال جان میں اٹکا رہے گا تو مہلکوں میں قدم رکھنے سے ہچکچاؤ گے جس سے تمہاری شجاعت پر حرف آئے گا اور دیکھو اپنے قدموں کو ڈگمگانے نہ دو، کیونکہ قدموں کی لغزش سے دشمن کی ہمت بڑھ جایا کرتی ہے اور اکھڑے ہوئے قدم حریف کے قدم جما دیا کرتے ہیں اور آخری صفوں کو اپنا مطمح نظر بناؤ تا کہ دشمن تمہارے عزم کی بلندیوں سے مرعوب ہو جائیں اور ان کی صفوں کو چیر کر نکل جانے میں تمہیں آسانی ہو اور ان کی نقل و حرکت بھی تم سے مخفی نہ رہے اور دیکھو ان کی کثرت کو نگاہ میں نہ لانا ورنہ حوصلہ پست اور ہمت ٹوٹ جائے گی۔ اس جملہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ: اس طرح آنکھیں پھاڑ کر نہ دیکھنا کہ ہتھیاروں کی چمک دمک نگاہوں میں خیرگی پیدا کر دے اور دشمن اس سے فائدہ اٹھا کر وار کر بیٹھے۔ اور اس چیز کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ فتح و کامرانی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ﴿اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَـكُمْ‌ۚ﴾[۷]: ’’اگر اللہ نے تمہاری مدد کی تو پھر کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا‘‘۔لہٰذا مادی اسباب پر بھروسا کرنے کے بجائے اس کی تائید و نصرت کا سہارا ڈھونڈو۔

[۱]۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ابن عبد البر، ج۳، ص ۱۳۷۱-۱۳۷۲ مطبوعہ دار الجیل، بیروت، ۱۹۹۲ء ، طبعہ الاولیٰ۔

[۲]۔ الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۳، ص ۱۳۶۶۔

[۳]۔ تنقیح المقال، علامہ مقامانی، ج ۳، ص ۱۱۲۔

[۴]۔ کشکول شیخ بہائی، ج ۳، ص ۹۲۔

[۵]۔ تنقیح المقال، ج ۳، ص ۱۱۲۔

[۶]۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۶۴۔

[۷]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۱۶۰۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button