خطبات

خطبہ (۳۰)

(٣٠) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۳۰)

فِیْ مَعْنٰى قَتْلِ عُثْمَانَ

قتل عثمان کی حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا

لَوْ اَمَرْتُ بِهٖ لَكُنْتُ قَاتِلًا، اَوْ نَهَیْتُ عَنْهُ لَكُنْتُ نَاصِرًا، غَیْرَ اَنَّ مَنْ نَّصَرَهٗ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یَّقُوْلَ: خَذَلَهٗ مَنْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُ، وَ مَنْ خَذَلَهٗ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یَّقُوْلَ: نَصَرَهٗ مَنْ هُوَ خَیْرٌ مِّنِّیْ.

اگر مَیں [۱] ان کے قتل کا حکم دیتا تو البتہ ان کا قاتل ٹھہرتا اور اگر ان کے قتل سے (دوسروں کو) روکتا تو ان کا معاون و مددگار ہوتا (میں بالکل غیر جانبدار رہا)، لیکن حالات ایسے تھے کہ جن لوگوں نے ان کی نصرت و امداد کی وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ ہم ان کی نصرت نہ کرنے والوں سے بہتر ہیں اور جن لوگوں نے ان کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا وہ نہیں خیال کرتے کہ ان کی مدد کرنے والے ہم سے بہتر و برتر ہیں۔

وَ اَنَا جَامِعٌ لَّكُمْ اَمْرَهٗ، اسْتَاْثَرَ فَاَسَآءَ الْاَثَرَةَ وَ جَزِعْتُمْ فَاَسَئْتُمُ الْجَزَعَ، وَ لِلّٰهِ حُكْمٌ وَّاقِعٌ فِی الْمُسْتَاْثِرِ وَ الْجَازِعِ.

میں حقیقت امر کو تم سے بیان کئے دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے (اپنے عزیزوں کی) طرفداری کی تو طرفداری بُری طرح کی اور تم گھبرا گئے تو بُری طرح گھبرا گئے اور (ان دونوں فریق کی) بے جا طرفداری کرنے والے اور گھبرا اٹھنے والے کے درمیان اصل فیصلہ کرنے والا اللہ ہے۔

۱؂حضرت عثمان اسلامی دور کے پہلے اموی خلیفہ ہیں جو یکم محرم ۲۴ ھء میں ستر برس کی عمر میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور بارہ برس تک مسلمانوں کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہنے کے بعد انہی کے ہاتھوں سے ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ھء میں قتل ہو کر حش کوکب میں دفن ہوئے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عثمان کا قتل ان کی کمزوریوں اور ان کے عمّال کے سیاہ کارناموں کا نتیجہ تھا۔ ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ مسلمان متفقہ طور پر ان کے قتل پر آمادہ اور ان کی جان لینے کے درپے ہو جاتے اور ان کے گھر کے چند آدمیوں کے علاوہ کوئی ان کی حمایت و مدافعت کیلئے کھڑا نہ ہوتا۔ مسلمان یقیناً ان کے سن وسال، ان کی بزرگی و وقار اور شرف مصاحبت کا پاس و لحاظ کرتے، مگر ان کے طور طریقوں نے فضا کو اس طرح بگاڑ رکھا تھا کہ کوئی ان کی ہمدردی و پاسداری کیلئے آمادہ نظر نہ آتا تھا۔ پیغمبر ﷺ کے برگزیدہ صحابیوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا گیا تھا، اس نے قبائل عرب میں ان کے خلاف غم و غصہ کی لہر دوڑا رکھی تھی۔ ہر شخص پیچ و تاب کھا رہا تھا اور ان کی خودسری و بے راہ روی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ چنانچہ حضرت ابوذر کی توہین و تذلیل اور جلا وطنی کے سبب سے بنی غفار اور ان کے حلیف قبائل، عبد اللہ ابن مسعود کو بے دردی سے پٹوانے کی وجہ سے بنی ہذیل اور ان کے حلیف بنی زہرہ، عمار ابن یاسر کی پسلیاں توڑ دینے کے باعث بنی مخزوم اور ان کے حلیف قبیلے اور محمد ابن ابی بکر کے قتل کا سروسامان کرنے کی وجہ سے بنی تیم کے دلوں میں غصہ کا ایک طوفان موجزن تھا۔ دوسرے شہروں کے مسلمان بھی ان کے عمال کے ہاتھوں سے نالاں تھے کہ جو دولت کی سرشاریوں اور بادۂ عشرت کی سرمستیوں میں جو چاہتے تھے کر گزرتے تھے اور جسے چاہتے تھے پامال کر کے رکھ دیتے تھے۔ نہ انہیں مرکز کی طرف سے عتاب کا ڈر تھا اور نہ کسی باز پرس کا اندیشہ۔ لوگ ان کے پنجہ استبداد سے نکلنے کیلئے پھڑ پھڑاتے تھے مگر کوئی ان کے کرب و اذیت کی صدائیں سننے کیلئے آمادہ نہ ہوتا تھا۔ نفرت کے جذبات ابھر رہے تھے، مگر انہیں دبانے کی کوئی فکر نہ کی جاتی تھی۔ صحابہ بھی ان سے بد دل ہو چکے تھے، کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے، کہ امنِ عالم تباہ، نظم و نسق تہ و بالا اور اسلامی خد و خال مسخ کئے جا رہے ہیں۔ نادار و فاقہ کش سوکھے ٹکڑوں کو ترس رہے ہیں اور بنی امیہ کے ہاں ہن برس رہا ہے۔ خلافت شکم پری کا ذریعہ اور سرمایہ اندوزی کا وسیلہ بن کر رہ گئی ہے۔ لہٰذا وہ بھی ان کے قتل کیلئے زمین ہموار کرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ بلکہ انہی کے خطوط و پیغامات کی بنا پر کوفہ، بصرہ اور مصر کے لوگ مدینہ میں آ جمع ہوئے تھے۔ چنانچہ اہل مدینہ کے اس رویہ کو دیکھتے ہوئے حضرت عثمان نے معاویہ کو تحریر کیا کہ:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اَهْلَ الْمَدِيْنَةِ قَدْ كَفَرُوْا وَ اَخْلَفُوا الطَّاعَةَ وَ نَكَثُوا الْبَيْعَةَ، فَابْعَثْ اِلَیَّ مِنْ قِبَلِكَ مِنْ مُّقَاتِلَةِ اَهْلِ الشَّامِ عَلٰى كُلِّ صَعْبٍ وَّ ذَلُوْلٍ.

واضح ہو کہ اہل مدینہ کافر ہو گئے ہیں اور اطاعت سے منہ پھیر لیا ہے اور بیعت توڑ ڈالی ہے۔ تم شام کے لڑنے بھڑنے والوں کو تند و تیز سواریوں پر میری طرف بھیجو۔

معاویہ نے اس خط کے پہنچنے پر جو طرز عمل اختیار کیا، اس سے بھی صحابہ کی حالت پر روشنی پڑتی ہے۔ چنانچہ طبری نے اس کے بعد لکھا ہے کہ:

فَلَمَّا جَآءَ مُعَاوِيَةَ الْكِتَابُ تَرَبَّصَ بِهٖ وَ كَرِهَ اِظْهَارَ مُخَالَفَةِ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَ قَدْ عَلِمَ اجْتِمَاعَهُمْ.

جب معاویہ کو یہ خط ملا تو اس نے توقف کیا اور اصحابِ پیغمبرؐ کی کھلم کھلا مخالفت کو برا جانا، چونکہ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ ان کی مخالفت پر یکجہتی سے متفق ہیں۔ (طبری، ج۳، ص۴۰۲)

ان واقعات کے پیش نظر حضرت عثمان کے قتل کو وقتی جوش اور ہنگامی جذبہ کا نتیجہ قرار دے کر چند بلوائیوں کے سر تھوپ دینا، حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے۔ جبکہ ان کی مخالفت کے تمام عناصر مدینہ ہی میں موجود تھے اور باہر سے آنے والے تو ان کی آواز پر اپنے دکھ درد کی چارہ جوئی کیلئے جمع ہوئے تھے جن کا مقصد صرف اصلاح حال تھا، نہ قتل و خونریزی۔ اگر ان کی داد فریاد سن لی جاتی تو اس خون خرابے تک کبھی نوبت نہ پہنچتی۔

مگر ہوا یہ کہ جب اہل مصر حضرت عثمان کے دودھ شریک بھائی عبد اللہ ابن سعد ابن ابی سرح کے ظلم و تشدد سے تنگ آ کر مدینہ کی طرف بڑھے اور شہر کے قریب وادی ذی خشب میں پڑاؤ ڈال دیا تو ایک شخص کے ہاتھ خط بھیج کر حضرت عثمان سے مطالبہ کیا کہ ان کے مظالم مٹائے جائیں، موجودہ روش کو بدلا جائے اور آئندہ کیلئے توبہ کی جائے۔ مگر آپ نے جواب دینے کی بجائے اس شخص کو گھر سے نکلوا دیا اور ان کے مطالبہ کو قابل اعتنا نہ سمجھا، جس پر وہ لوگ اس غرور و طغیان کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے شہر کے اندر داخل ہوئے اور لوگوں سے حکومت کی ستمرانیوں کے ساتھ اس طرز عمل کا بھی شکوہ کیا۔

ادھر کوفہ اور بصرہ کے بھی سینکڑوں آدمی اپنے شکوے شکایات لے کر مدینہ آئے ہوئے تھے جو ان سے ہمنوا ہو کر اہلِ مدینہ کی پشت پناہی پر آگے بڑھے اور حضرت عثمان کو پابند مسکن بنا دیا۔ مگر ان کیلئے مسجد میں آنے جانے کیلئے کوئی رکاوٹ نہ تھی، لیکن انہوں نے پہلے ہی جمعہ میں جو خطبہ دیا اس میں ان لوگوں کو سخت الفاظ میں برا بھلا کہا اور ملعون تک قرار دیا جس پر لوگوں نے مشتعل ہو کر ان پر سنگریزے پھینکے جس سے بے حال ہو کر منبر سے نیچے گر پڑے اور چند دنوں کے بعد ان کے مسجد میں آنے جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

جب حضرت عثمان نے اس حد تک حالات بگڑے ہوئے دیکھے تو بڑی لجاجت سے امیر المومنین علیہ السلام سے خواہش کی کہ وہ ان کیلئے چھٹکارے کی کوئی سبیل کریں اور جس طرح بن پڑے ان لوگوں کو متفرق کر دیں۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ: میں کس قرارداد پر انہیں جانے کیلئے کہوں، جبکہ ان کے مطالبات حق بجانب ہیں۔ حضرت عثمان نے کہا کہ میں اس کا اختیار آپؑ کو دیتا ہوں، آپؑ ان سے جو بھی معاہدہ کریں گے میں اس کا پابند رہوں گا۔ چنانچہ حضرتؑ مصریوں سے جا کر ملے اور ان سے بات چیت کی اور وہ اس شرط پر واپس پلٹ جانے کیلئے آمادہ ہو گئے کہ تمام مظالم مٹائے جائیں اور ابن ابی سرح کو معزول کر کے اس کی جگہ محمد ابن ابی بکر کو مقرر کیا جائے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے پلٹ کر حضرت عثمان کے سامنے ان کا مطالبہ رکھا جسے انہوں نے بغیر کسی پس و پیش کے مان لیا اور یہ کہا کہ ان تمام مظالم سے عہدہ برآ ہونے کیلئے کچھ مہلت ہونا چاہیے۔ حضرتؑ نے فرمایا: جو چیزیں مدینہ سے متعلق ہیں ان میں مہلت کے کوئی معنی نہیں، البتہ دوسری جگہوں کیلئے اتنا وقفہ دیا جا سکتا ہے کہ تمہارا پیغام وہاں تک پہنچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں مدینہ کیلئے بھی تین دن کی مہلت ہونی چاہیے۔ حضرتؑ نے مصریوں سے بات چیت کرنے کے بعد اسے بھی منظور کر لیا اور ان کی تمام ذمہ داری اپنے سر لے لی اور وہ لوگ حضرتؑ کے کہنے سے منتشر ہو گئے۔ کچھ محمد ابن ابی بکر کے ہمراہ مصر چلے گئے اور کچھ لوگ وادی ذی خشب [۱] میں آ کر ٹھہر گئے اور یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

اس واقعہ کے دوسرے دن مروان نے حضرت عثمان سے کہا کہ خیر یہ لوگ تو چلتے بنے، مگر دوسرے شہروں سے آنے والوں کی روک تھام کیلئے آپ ایک بیان دیں تا کہ وہ ادھر کا رخ نہ کریں اور اپنی اپنی جگہ پر مطمئن ہو کر بیٹھے رہیں اور وہ بیان یہ ہو کہ: مصر کے کچھ لوگ جھوٹ سچ باتیں سن کر مدینہ میں جمع ہو گئے تھے اور جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ جو سنتے تھے غلط تھا تو وہ مطمئن ہو کر واپس چلے گئے ہیں۔ حضرت عثمان ایسا صریح جھوٹ بولنا نہ چاہتے تھے، مگر مروان نے کچھ ایسا چکمہ دیا کہ وہ آمادہ ہو گئے اور مسجد نبوی میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمَ مِنْ اَهْلِ مِصْرَ كَانَ بَلَغَهُمْ عَنْ اِمَامِهِمْ اَمْرٌ، فَلَمَّا تَيَقَّنُوْۤا اَنَّهٗ بَاطِلٌ مَّا بَلَغَهُمْ عَنْهُ رَجَعُوْۤا اِلٰى بِلَادِهِمْ.

ان مصریوں کو اپنے خلیفہ کے متعلق کچھ خبریں ملی تھیں اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ سب غلط اور بے سر و پا تھیں تو وہ اپنے شہروں کی طرف پلٹ گئے۔(طبری، ج۳، ص۳۹۵)

یہ کہنا تھا کہ مسجد میں ایک ہلڑ مچ گیا اور لوگوں نے پکار پکار کر کہنا شروع کیا کہ: اے عثمان!توبہ کرو، اللہ سے ڈرو، یہ کیا جھوٹ کہہ رہے ہو۔ حضرت عثمان اس ہڑبونگ میں سٹپٹا کر رہ گئے اور توبہ کرتے ہی بنی۔ چنانچہ قبلہ کی طرف رخ کر کے اللہ کی بارگاہ میں گڑ گڑائے اور پھر گھر پلٹ آئے۔

امیر المومنین علیہ السلام نے غالباً اسی واقعہ کے بعد حضرت عثمان کو یہ مشورہ دیا کہ تم سابقہ لغزشوں سے کھلم کھلا توبہ کرو، تا کہ یہ شورشیں ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں، ورنہ کل کو کہیں اور کے لوگ آ گئے تو پھر مجھے چمٹو گے کہ تمہاری گلو خلاصی کراؤں۔ چنانچہ انہوں نے مسجد نبوی میں خطبہ دیا جس میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ کی اور آئندہ محتاط رہنے کا عہد کیا اور لوگوں سے کہا کہ جب میں منبر سے اتروں تو تمہارے نمائندے میرے گھر پر آئیں، میں تمہاری شکایتوں کا ازالہ کروں گا اور تمہارے مطالبے پورے کروں گا۔ جس پر لوگوں نے آپ کے اس اقدام کو بہت سراہا اور بڑی حد تک دلی کدورتوں کو آنسوؤں سے دھو ڈالا۔

یہاں سے فارغ ہو کر جب دولت سرا پر پہنچے تو مروان نے کچھ کہنے کی اجازت چاہی، مگر حضرت عثمان کی زوجہ نائلہ بنت فرافصہ مانع ہوئیں اور مروان سے مخاطب ہو کر کہا کہ: خدا کیلئے تم چپ رہو، تم کوئی ایسی ہی بات کہو گے جو ان کیلئے موت کا پیش خیمہ بن کر رہے گی۔ مروان نے بگڑ کر کہا کہ تمہیں ان معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں۔ تم اسی کی تو بیٹی ہو جسے مرتے دم تک وضو کرنا بھی نہ آیا۔ نائلہ نے جھلا کر کہا کہ تم غلط کہتے ہو اور بہتان باندھتے ہو، میرے باپ کو کچھ کہنے سے پہلے ذرا اپنے باپ کا حلیہ بھی دیکھ لیا ہوتا۔ اگر ان بڑے میاں کا خیال نہ ہوتا تو پھر وہ سناتی کہ لوگ کانوں پر ہاتھ رکھتے اور ہر بات میں میری ہاں میں ہاں ملاتے۔

حضرت عثمان نے جب بات بڑھتے دیکھی تو انہیں روک دیا اور مروان سے کہا کہ کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ مروان نے کہا کہ یہ آپ مسجد میں کیا کہہ آئے ہیں اور کیسی توبہ کر آئے ہیں۔ میرے نزدیک تو گناہ پر اڑے رہنا آپ کی اس توبہ سے ہزار درجہ بہتر تھا، کیونکہ گناہ خواہ کس حد تک بڑھ جائیں، ان کیلئے توبہ کی گنجائش رہتی ہے اور مارے باندھے کی توبہ کوئی توبہ نہیں ہوتی۔ کہنے کو تو آپ کہہ آئے ہیں، مگر اس صلائے عام کا نتیجہ دیکھ لیجئے کہ دروازے پر لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے ہیں۔ تو اب آگے بڑھئے اور پورا کیجئے ان کے مطالبات کو۔ حضرت عثمان نے کہا کہ خیر میں جو کہہ آیا سو کہہ آیا، اب تم ان لوگوں سے نپٹ لو، میرے بس کا یہ روگ نہیں کہ میں انہیں نپٹاؤں۔

چنانچہ مروان آپ کا ایماء پا کر باہر آیا اور لوگوں سے خطاب کر کے کہا کہ تم لوگ یہاں کیوں جمع ہو؟ کیا دھاوا بولنے کا ارادہ ہے یا لُوٹ مار کا قصد ہے؟ یاد رکھو کہ تم بآسانی ہمارے ہاتھوں سے اقتدار نہیں چھین سکتے اور یہ خیال دلوں سے نکال ڈالو کہ تم ہمیں دبا لو گے۔ ہم کسی سے دَب کر رہنے والے نہیں ہیں۔ یہاں سے مُنہ کالا کرو، خدا تمہیں رسوا و ذلیل کرے۔

لوگوں نے یہ بگڑے ہوئے تیور اور بدلا ہوا نقشہ دیکھا تو غیظ و غضب میں بھرے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور سیدھے امیر المومنین علیہ السلام کے ہاں پہنچے اور انہیں ساری روئیداد سنائی جسے سن کر حضرتؑ مارے غصے کے پیچ و تاب کھانے لگے اور اسی وقت اٹھ کر عثمان کے ہاں گئے اور ان سے کہا: واہ، سبحان اللہ! کیا مسلمانوں کی درگت بنائی ہے، تم نے ایک بے دین و بدکردار کی خاطر دین سے بھی ہاتھ اٹھا لیا اور عقل کو بھی جواب دے دیا۔ آخر تمہیں کچھ تو اپنے وعدے کا پاس و لحاظ ہونا چاہیے تھا۔ یہ کیا کہ مروان کے اشارے پر آنکھ بند کر کے چل پڑو۔ یاد رکھو کہ وہ تمہیں ایسے اندھے کنوئیں میں پھینکے گا کہ پھر اس سے نکل نہ سکو گے۔ تم تو مروان کی سواری بن گئے ہو کہ وہ جس طرح چاہے تم پر سواری گانٹھ لے اور جس غلط راہ پر چاہے تمہیں ڈال دے۔ آئندہ سے میں تمہاری معاملہ میں کوئی دخل نہ دوں گا اور نہ لوگوں سے کچھ کہوں سنوں گا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام۔

اتنا کہہ سن کر حضرتؑ تو واپس ہوئے اور نائلہ کی بن آئی۔ انہوں نے حضرت عثمان سے کہا کہ میں نہ کہتی تھی کہ مروان سے پیچھا چھڑائیے، ورنہ وہ ایسا کلنک کا ٹیکہ لگائے گا کہ مٹائے نہ مٹے گا، بھلا اس کے کہنے پر کیا چلنا کہ جو لوگوں میں بے آبرو اور نظروں سے گرا ہوا ہو۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو منائیے ورنہ یاد رکھئے کہ بگڑے ہوئے حالات کا بنانا نہ آپ کے بس میں ہے اور نہ مروان کے اختیار میں ہے۔

حضرت عثمان اس سے متاثر ہوئے اور امیر المومنین علیہ السلام کے پیچھے آدمی بھیجا۔ مگر حضرتؑ نے ملنے سے صاف انکار کر دیا۔ خود حضرت عثمان کے گرد گو محاصرہ نہ تھا، مگر حیا زنجیر پا تھی، کون سا منہ لے کر گھر سے باہر نکلتے،مگر نکلے بغیر کوئی چارہ بھی نہ تھا، لہٰذا رات کے پردے میں چپکے سے نکلے اور امیر المومنین علیہ السلام کے ہاں جا پہنچے اور اپنی بےبسی اور لاچاری کا رونا رویا۔ عذر معذرت بھی کی، وعدے کی پابندی کا یقین بھی دلایا، مگر حضرتؑ نے فرمایا کہ تم مسجد نبوی میں منبر رسولؐ پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کے بھرے مجمع میں ایک وعدہ کرتے ہو تو اس کا ایفا یوں ہوتا ہے کہ جب لوگ تمہارے ہاں پہنچتے ہیں تو انہیں بُرا بھلا کہا جاتا ہے اور گالیاں تک دی جاتی ہیں۔ جب تمہارے قول و قرار کی یہ صورت ہے کہ جسے دنیا دیکھ چکی ہے تو کس بھروسے پر میں آئندہ کیلئے تمہاری کسی بات پر اعتماد کر لوں۔ اب مجھ سے کوئی توقع نہ رکھو۔ میں تمہاری طرف سے کوئی ذمہ داری اپنے سر پر لینے کیلئے تیار نہیں۔ راستے تمہارے سامنے کھلے ہوئے ہیں جو راستہ چاہو اختیار کرو اور جس دھڑے پر چاہو چلو۔

اس بات چیت کے بعد حضرت عثمان پلٹ آئے اور الٹا امیر المومنین علیہ السلام کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کر دیا کہ ان کی شہ پر یہ ہنگامے اٹھ رہے ہیں اور سب کچھ کر سکنے کے باوجود کچھ نہیں کرتے۔

ادھر توبہ کا جو حشر ہوا سو ہوا، اب دوسری طرف کی سنئے کہ جب محمد ابن ابی بکر حجاز کی سرحد طے کر کے دریائے قلزم کے کنارے مقامِ ایلہ تک پہنچے تو لوگوں کی نظریں ایک ناقہ سوار پر پڑیں جو اپنی سواری کو اس طرح بگٹٹ دوڑائے لئے جا رہا تھا جیسے دشمن اس کے تعاقب میں ہوں۔ ان لوگوں کو اس پر کچھ شبہ ہوا تو اسے بلا کر پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے کہا کہ میں حضرت عثمان کا غلام ہوں۔ پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا کہ مصر کا۔ پوچھا کہ: کس کے پاس جا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ والی مصر کے پاس۔ لوگوں نے کہا کہ والی مصر تو ہمارے ہمراہ ہے، تم کس کے پاس جا رہے ہو؟ اس نے کہا کہ مجھے ابن ابی سرح کے پاس جانا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ تمہارے پاس کوئی خط وغیرہ بھی ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ پوچھا کہ: کس مقصد سے جار ہے ہو؟ اس نے کہا کہ یہ نہیں معلوم۔ لوگوں نے کہا کہ اس کی جامہ تلاشی لینا چاہیے۔ چنانچہ تلاشی لی گئی مگر اس سے کوئی چیز برآمد نہ ہوئی۔ کنانہ بن بشر نے کہا کہ ذرا اس کا مشکیزہ تو دیکھو۔ لوگوں نے کہا کہ چھوڑو، بھلا پانی میں خط کہاں ہو سکتا ہے! کنانہ نے کہا کہ تم کیا جانو کہ یہ لوگ کیا کیا چالیں چلا کرتے ہیں۔ چنانچہ مشکیزہ کھول کر دیکھا گیا تو اس میں سیسے کی ایک نلکی تھی جس میں خط رکھا ہوا تھا۔ جب کھول کر پڑھا گیا تو فرمان خلافت یہ تھا کہ: ’’جب محمد ابن ابی بکر اپنے ہمراہیوں کے ساتھ تمہارے پاس پہنچے تو ان میں سے فلاں کو قتل کرو، فلاں کے ہاتھ کاٹو اور فلاں کو جیل میں ڈالو، اور اپنے عہدہ پر برقرار رہو‘‘۔ یہ پڑھ کر سب پر سناٹا چھا گیا اور حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔

بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بو العجبی است

اب آگے بڑھنا تو موت کے منہ میں جانا تھا، چنانچہ اس غلام کو ساتھ لے کر سب مدینہ کی طرف پلٹ پڑے اور وہاں پہنچ کر وہ خط صحابہ کے مجمع کے سامنے رکھ دیا۔ اس واقعہ کو جس نے سنا انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا اور کوئی ایسا شخص نہ تھا کہ جو حضرت عثمان کو برا نہ کہہ رہا ہو۔ اس کے بعد چند صحابہ ان لوگوں کے ہمراہ حضرت عثمان کے ہاں پہنچے اور وہ خط ان کے سامنے رکھ دیا اور پوچھا کہ اس خط پر مہر کس کی ہے؟ کہا کہ میری۔ پوچھا کہ یہ تحریر کس کی ہے؟ کہا کہ میرے کاتب کی۔ پوچھا یہ غلام کس کا ہے؟ کہا کہ میرا۔ پوچھا کہ یہ سواری کس کی ہے؟ کہا کہ حکومت کی۔ پوچھا کہ یہ بھیجا کس نے ہے؟ فرمایا کہ اس کا مجھے علم نہیں۔ لوگوں نے کہا کہ سبحان اللہ! سب کچھ آپ کا اور آپ کو یہ تک پتہ نہ چلنے پائے کہ یہ کس نے بھیجا ہے! جب آپ اتنے ہی بے بس ہیں تو چھوڑیئے خلافت کو اور الگ ہو جائیے تا کہ کوئی ایسا شخص آئے جو مسلمانوں کے امور کی دیکھ بھال کر سکتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اس پیراہن کو اتار دوں جو اللہ نے مجھے پہنایا ہے۔ البتہ توبہ کیے لیتا ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ توبہ کی بھلی کہی۔ اس کی مٹی تو اسی دن خراب ہو گئی تھی جب آپ کے دروازے پر مروان آپ کی ترجمانی کر رہا تھا اور رہی سہی کسر اس خط نے نکال دی ہے۔ اب ہم ان بھرّوں میں آنے والے نہیں ہیں، خلافت کو چھوڑیئے۔ اگر آپ کے بھائی بند ہمارے سدّ راہِ ہوئے تو ہم انہیں روکیں گے اور اگر لڑنے کیلئے آمادہ ہوئے تو ہم بھی لڑیں گے۔ نہ ہمارے ہاتھ شَل ہیں اور نہ ہماری تلواریں کُند ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور انصاف کے علمبردار ہیں تو مروان کو ہمارے حوالے کیجئے تا کہ ہم اس سے باز پرس کریں کہ وہ کس کے بل بوتے پر خط لکھ کر مسلمانوں کی عزیز جانوں سے کھیلنا چاہ رہا ہے۔ مگر آپ نے اس مطالبہ کو ٹھکرا دیا اور مروان کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس پر لوگوں نے کہا کہ پھر یہ خط بھی آپ ہی کے حکم سے لکھا گیا ہے۔

بہر صورت سدھرے ہوئے حالات پھر سے بگڑ گئے اور انہیں بگڑنا ہی چاہیے تھا۔ کیونکہ مطلوبہ مدّت کے گزر جانے کے باوجود ہر چیز جوں کی توں تھی اور رائی برابر بھی ادھر سے اُدھر نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ توبہ کا انجام دیکھنے کیلئے وادی خشب میں جو لوگ ٹھہرے ہوئے تھے وہ بھی پھر سیلاب کی طرح بڑھے اور مدینہ کی گلیوں میں پھیل گئے اور ہر طرف سے ناکہ بندی کر کے ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔

انہی محاصرہ کے دنوں میں پیغمبر ﷺ کے ایک صحابی نیار ابنِ عیاض نے حضرت عثمان سے بات چیت کرنا چاہی اور ان کے ہاں پہنچ کر انہیں پکارا۔ جب انہوں نے اوپر سے جھانک کر دیکھا تو آپ نے کہا کہ: اے عثمان! خدا کیلئے اس خلافت سے دست بردار ہو جاؤ اور مسلمانوں کو اس خون خرابے سے بچاؤ۔ ابھی وہ بات کر ہی رہے تھے کہ حضرت عثمان کے آدمیوں میں سے ایک نے انہیں تیر کا نشانہ بنا کر جان سے مار ڈالا۔ جس پر لوگ بھڑک اٹھے اور پکار کر کہا کہ: نیار کا قاتل ہمارے حوالہ کرو مگر حضرت عثمان نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اپنے ایک مددگار کو تمہارے حوالے کر دوں۔

اس سینہ زوری نے آگ میں ہوا کا کام کیا اور لوگوں نے جوش میں آ کر ان کے گھر کے دروازے کو آگ لگا دی اور اندر گھسنے کیلئے آگے بڑھے کہ مروان ابن حکم، سعید ابن عاص اور مغیرہ ابنِ اخنس اپنے اپنے جتھوں کے ساتھ محاصرہ کرنے والوں پر ٹوٹ پڑے اور دروازے پر کشت و خون شروع ہو گیا۔ لوگ گھر کے اندر گھسنا چاہتے تھے، مگر انہیں دھکیل دیا جاتا تھا۔ اتنے میں عمرو ابن حزم انصاری نے کہ جن کا مکان حضرت عثمان کے مکان سے متصل تھا اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا اور للکار کر کہا کہ آؤ ادھر سے بڑھو۔ چنانچہ محاصرہ کرنے والے اس مکان کے ذریعہ کاشانہ خلافت کی چھت پر پہنچ گئے اور وہاں سے گھر کے صحن میں اتر کر تلواریں سونت لیں۔ ابھی ایک آدھ جھڑپ ہی ہونے پائی تھی کہ حضرت عثمان کے گھر والوں کے علاوہ ان کے ہوا خواہ اور بنی امیہ مدینہ کی گلیوں میں بھاگ کھڑے ہوئے اور کچھ اُمّ حبیبہ کے گھر میں جا چھپے اور جو رہ گئے وہ حضرت عثمان کا حق نمک ادا کرتے ہوئے ان کے ساتھ قتل ہو گئے۔ (تاریخ الخلفاء و تاریخ طبری)

آپ کے قتل پر مختلف شعراء نے مرثیے کہے۔ سر دست ابو ہریرہ کے مرثیہ کا ایک شعر پیش نظر ہے:

لِلنَّاسِ هَمٌّ وَ لِیَ فِی الْیَوْمِ هَمَّانِ

فَقْدُ الْجِرَابِ وَ قَتْلُ الشَّيْخِ عُثْمَانَ

’’لوگوں کو تو آج کے دن صرف ایک صدمہ ہے، لیکن مجھے برابر کے دو صدمے ہیں: ایک حضرت عثمان کے قتل ہونے کا اور دوسرا اپنے تھیلے کے کھو جانے کا‘‘۔

ان واقعات کو دیکھنے کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کا مؤقف واضح ہو جاتا ہے کہ نہ آپؑ اس جماعت کا ساتھ دے رہے تھے جو ان کے قتل پر ابھار رہی تھی اور نہ اس گروہ میں لائے جا سکتے ہیں کہ جو ان کی حمایت و مدافعت پر کھڑا ہوا تھا۔ بیشک جہاں تک حالات اجازت دیتے رہے، وہ ان کے بچاؤ کی صورتیں انہیں سمجھاتے رہے اور جب یہ دیکھا کہ جو کہا جاتا ہے وہ عملاً کیا نہیں جاتا تو آپؑ اپنا دامن بچا کر الگ ہو گئے۔ جب دونوں فریق کو دیکھا جاتا ہے تو جن لوگوں نے حضرت عثمان کی نصرت سے ہاتھ اٹھا لیا تھا، ان میں ام المومنین عائشہ اور روایات جمہور کے مطابق عشرہ مبشرہ، بقیہ اہلِ شوریٰ، انصار و مہاجرین اوّلین، اصحابِ بدر اور دیگر ممتاز و جلیل القدر افراد نظر آتے ہیں اور دوسری طرف بارگاهِ خلافت کے چند غلام اور بنی اُمیہ کی چند فردیں دکھائی دیتی ہیں۔ اگر مروان و سعید ابن عاص جیسے لوگوں کو مہاجرین اولین پر فوقیت نہیں دی جا سکتی تو پھر ان کے عمل کو بھی ان کے طرز عمل پر فوقیت دینا مشکل ہو گا اور اگر اجماع مخصوص موارد ہی کیلئے حجت نہیں ہے تو صحابہ کی اس زبردست اتفاق رائے پر انگشت نمائی مشکل ہو گی۔

[۱]۔ مدینہ سے ایک رات کے فاصلے پر ایک وادی کا نام ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button