خطبات

خطبہ (۵۱)

(٥۱) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۵۱)

لَمَّا غَلَبَ اَصْحَابُ مُعَاوِیَةَ اَصْحَابَهٗ ؑ عَلٰى شَرِیْـعَةِ الْـفُرَاتِ بِصِفِّیْنَ وَ مَنْعُوْهُمْ مِنَ الْمَآءِ:

جب صفین میں معاویہ کے ساتھیوں نے امیرالمومنین علیہ السلام کے اصحاب پر غلبہ پا کر فرات کے گھاٹ پر قبضہ جما لیا اور پانی لینے سے مانع ہوئے تو آپؑ نے فرمایا:

قَدِ اسْتَطْعَمُوْكُمُ الْقِتَالَ، فَاَقِرُّوْا عَلٰی مَذَلَّةٍ، وَ تَاْخِیْرِ مَحَلَّةٍ، اَوْ رَوُّوا السُّیُوْفَ مِنَ الدِّمَآءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَاءِ، فَالْمَوْتُ فِیْ حَیَاتِكُمْ مَقْهُوْرِیْنَ، وَ الْحَیٰوةُ فِیْ مَوْتِكُمْ قَاهِرِیْنَ. اَلَا وَ اِنَّ مُعَاوِیَةَ قَادَ لُمَةً مِّنَ الْغُوَاةِ، وَ عَمَسَ عَلَیْهِمُ الْخَبَرَ، حَتّٰی جَعَلُوْا نُحُوْرَهُمْ اَغْرَاضَ الْمَنِیَّةِ.

وہ [۱] تم سے جنگ کے لقمے طلب کرتے ہیں۔ تو اب یا تو تم ذلت اور اپنے مقام کی پستی و حقارت پر سرِ تسلیم خم کر دو، یا تلواروں کی پیاس خون سے بجھا کر اپنی پیاس پانی سے بجھاؤ۔ تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آ کر مرنا بھی جینے کے برابر ہے۔ معاویہ گم کردہ راہ سر پھروں کا ایک چھوٹا سا جتھا لئے پھرتا ہے اور واقعات سے انہیں اندھیرے میں رکھ چھوڑا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے سینوں کو موت (کے تیروں) کا ہدف بنا لیا ہے۔

۱؂امیر المومنین علیہ السلام ابھی صفین میں پہنچے نہ تھے کہ معاویہ نے گھاٹ کا راستہ بند کرنے کیلئے دریا کے کنارے چالیس ہزار آدمیوں کا پہرہ لگا دیا، تا کہ شامیوں کے علاوہ کوئی وہاں سے پانی نہ لے سکے۔ جب امیر المومنین علیہ السلام کا لشکر وہاں پر اترا تو اس گھاٹ کے علاوہ آس پاس کوئی گھاٹ نہ تھا کہ وہاں سے پانی لے سکتے اور اگر تھا تو اونچے اونچے ٹیلوں کو عبور کر کے وہاں تک پہنچنا دشوار تھا۔ حضرتؑ نے صعصعہ ابن صوحان کو معاویہ کے پاس بھیجا اور اسے کہلوایا کہ پانی سے پہرا اٹھا لیا جائے، مگر معاویہ نے اس سے انکار کیا۔ ادھر امیرالمومنین علیہ السلام کا لشکر پیاسا پڑا تھا۔ حضرتؑ نے یہ صورت دیکھی تو فرمایا کہ: اٹھو اور تلواروں کے زور سے پانی حاصل کرو۔ چنانچہ ان تشنہ کاموں نے تلواریں نیاموں سے کھینچ لیں اور تیر کمانوں میں جوڑ لئے اور معاویہ کی فوجوں کو درہم و برہم کرتے ہوئے دریا کے اندر تک اتر گئے اور ان پہرہ داروں کو مار بھگایا اور خود گھاٹ پر قبضہ کر لیا۔ اب حضرتؑ کے اصحاب نے بھی چاہا کہ جس طرح معاویہ نے گھاٹ پر قبضہ جما کر پانی کی بندش کر دی تھی ویسا ہی اس کے اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور ایک شامی کو بھی پانی نہ لینے دیا جائے اور ایک ایک کو پیاسا تڑپا کر مارا جائے، مگر امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ: کیا تم بھی وہی جاہلانہ قدم اٹھانا چاہتے ہو جو ان شامیوں نے اٹھایا تھا؟ ہرگز کسی کو پانی سے نہ روکو، جو چاہے پیئے اور جس کا جی چاہے لے جائے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کی فوج کا دریا پر قبضہ ہونے کے باوجود کسی کو پانی سے نہیں روکا گیا اور ہر شخص کو پانی لینے کی پوری پوری آزادی دی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button