خطبات

خطبہ (۹۲)

(٩۱) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۹۱)

اَمَّا بَعْدُ! اَیُّهَا النَّاسُ! فَاَنَا فَقَاْتُ عَیْنَ الْفِتْنَةِ، وَ لَمْ یَكُنْ لِّیَجْتَرِئَ عَلَیْهَاۤ اَحَدٌ غَیْرِیْ بَعْدَ اَنْ مَّاجَ غَیْهَبُهَا، وَ اشْتَدَّ كَلَبُهَا.

اے لوگو! [۱] میں نے فتنہ و شر کی آنکھیں پھوڑ ڈالی ہیں اور جب اس کی تاریکیاں (موجوں کی طرح) تہ و بالا ہو رہی تھیں اور (دیوانے کتوں کی طرح) اس کی دیوانگی زوروں پر تھی تو میرے علاوہ کسی ایک میں جرأت نہ تھی کہ وہ اس کی طرف بڑھتا۔

فَاسْئَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ، فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَا تَسْئَلُوْنِیْ عَنْ شَیْءٍ فِیْمَا بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ، وَ لَا عَنْ فِئَةٍ تَهْدِیْ مِائَۃً وَ تُضِلُّ مِائَةً اِلَّاۤ اَنْۢبَاْتُكُمْ بِنَاعِقِهَا وَ قَآئِدِهَا وَ سَآئِقِهَا، وَ مُنَاخِ رِكَابِهَا، وَ مَحَطِّ رِحَالِهَا، وَ مَنْ یُّقْتَلُ مِنْ اَهْلِهَا قَتْلًا وَ مَنْ یَّمُوْتُ مِنْهُمْ مَوْتًا.

اب (موقعہ ہے جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو [۲] ، پیشتر اس کے کہ مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم اس وقت سے لے کر قیامت تک کے درمیانی عرصے کی جو بات مجھ سے پوچھو گے میں بتاؤں گا اور کسی ایسے گروہ کے متعلق دریافت کر و گے کہ جس نے سو کو ہدایت کی ہو اور سو کو گمراہ کیا ہو تو میں اس کے للکارنے والے اور اسے آگے سے کھینچنے والے اور پیچھے سے دھکیلنے والے اور اس کی سواریوں کی منزل اور اس کے (ساز و سامان سے لدے ہوئے ) پالانوں کے اترنے کی جگہ تک بتا دوں گا اور یہ کہ کون ان میں سے قتل کیا جائے گا اور کون (اپنی موت ) مرے گا۔

وَ لَوْ قَدْ فَقَدْتُّمُوْنِیْ وَ نَزَلَتْ بِکُمُ كَرَآئِهُ الْاُمُوْرِ، وَ حَوَازِبُ الْخُطُوْبِ، لَاَطْرَقَ كَثِیْرٌ مِّنَ السَّآئِلِیْنَ، وَ فَشِلَ كَثِیْرٌ مِّنَ الْمَسْؤُوْلِیْنَ، وَ ذٰلِكَ اِذَا قَلَّصَتْ حَرْبُكُمْ، وَ شَمَّرَتْ عَنْ سَاقٍ، وَ ضَاقَتِ الدُّنْیَا عَلَیْكُمْ ضِیْقًا، تَسْتَطِیْلُوْنَ مَعَہٗ اَیَّامَ الْبَلَآءِ عَلَیْكُمْ، حَتّٰی یَفْتَحَ اللهُ لِبَقِیَّةِ الْاَبْرَارِ مِنْكُمْ.

اور جب میں نہ رہوں گا اور ناخوشگوار چیزیں اور سخت مشکلیں پیش آئیں گی (تو دیکھ لینا) کہ بہت سے پوچھنے والے (پریشانی سے) سر نیچے ڈال دیں گے اور بتانے والے عاجز و درماندہ ہو جائیں گے۔ یہ اس وقت ہو گا کہ جب تم پر لڑائیاں زور سے ٹوٹ پڑیں گے اور اس کی سختیاں نمایاں ہو جائیں گی اور دنیا اس طرح تم پر تنگ ہو جائے گی کہ مصیبتوں کے دنوں کو تم یہ سمجھنے لگو گے کہ وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خداوند عالم تمہارے باقی ماندہ لوگوں کو فتح و کامرانی دے گا۔

اِنّ الْفِتَنَ اِذَا اَقْبَلَتْ شَبَّهَتْ، وَ اِذَاۤ اَدْبَرَتْ نَبَّهَتْ، یُنْكَرْنَ مُقْبِلَاتٍ، وَ یُعْرَفْنَ مُدْبِرَاتٍ، یَحُمْنَ حَوْمَ الرِّیَاحِ، یُصِبْنَ بَلَدًا وَّ یُخْطِئْنَ بَلَدًا.

فتنوں کی یہ صورت ہوتی ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو اس طرح اندھیرے میں ڈال دیتے ہیں کہ (حق و باطل) کا امتیاز نہیں ہوتا اور پلٹتے ہیں تو ہوشیار کر کے جاتے ہیں۔ جب آتے ہیں تو شناخت نہیں ہوتی، پیچھے ہٹتے ہیں تو پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ہواؤں کی طرح چکر لگاتے ہیں، کسی شہر کو اپنی زد پر رکھ لیتے ہیں اور کوئی ان سے رہ جاتا ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ اَخْوَفَ الْفِتَنِ عِنْدِیْ عَلَیْكُمْ فِتْنَةُ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ، فَاِنَّهَا فِتْنَةٌ عَمْیَآءُ مُظْلِمَةٌ: عَمَّتْ خُطَّتُهَا، وَ خَصَّتْ بَلِیَّتُهَا، وَ اَصَابَ الْبَلَآءُ مَنْ اَبْصَرَ فِیْهَا، وَ اَخْطَاَ الْبَلَآءُ مَنْ عَمِیَ عَنْهَا.

میرے نزدیک سب فتنوں سے زیادہ خوفناک تمہارے لئے بنی امیہ کا فتنہ ہے جسے نہ خود کچھ نظر آتا ہے اور نہ اس میں کوئی چیز سجھائی دیتی ہے، اس کے اثرات تو سب کو شامل ہیں لیکن خصوصیت سے اس کی آفتیں خاص ہی افراد کیلئے ہیں۔ جو اس میں حق کو پیش نظر رکھے گا اس پر مصیبتیں آئیں گی اور جو آنکھیں بند رکھے گا وہ ان سے بچا رہے گا۔

وَ ایْمُ اللهِ لَتَجِدُنَّ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ لَكُمْ اَرْبَابَ سُوْٓءٍۭ بَعْدِیْ، كَالنَّابِ الضَّرُوْسِ: تَعْذِمُ بِفِیْهَا،وَ تَخْبِطُ بِیَدِهَا،وَ تَزْبِنُ بِرِجْلِهَا، وَ تَمْنَعُ دَرَّهَا، لَا یَزَالُوْنَ بِكُمْ حَتّٰی لَا یَتْرُكُوْا مِنْكُمْ اِلَّا نَافِعًا لَّهُمْ، اَوْ غَیْرَ ضَآئِرٍۭ بِهِمْ، وَ لَا یَزَالُ بَلَآ ؤُهُمْ حَتّٰی لَا یَكُوْنَ انْتِصَارُ اَحَدِكُمْ مِنْهُمْ اِلَّا كَانْتِصَارِ الْعَبْدِ مِنْ رَّبِّهٖ، وَ الصَّاحِبِ مِنْ مُّسْتَصْحِبِهٖ، تَرِدُ عَلَیْكُمْ فِتْنَتُهُمْ شَوْهَآءَ مَخْشِیَّةً، وَ قِطَعًا جَاهِلِیَّةً، لَیْسَ فِیْهَا مَنَارُ هُدًی، وَ لَا عَلَمٌ یُّرٰی.

خدا کی قسم! میرے بعد تم بنی امیہ کو اپنے لئے بدترین حکمران پاؤ گے۔ وہ تو اس بوڑھی اور سرکش اونٹنی کے مانند ہیں جو منہ سے کاٹتی ہو اور اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارتی ہو اور دوہنے والے پر ٹانگیں چلاتی ہو اور دودھ دینے سے انکار کر دیتی ہو۔ وہ برابر تمہارا قلع قمع کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ صرف اسے چھوڑیں گے جو ان کے مفید مطلب ہو یا(کم از کم) ان کیلئے نقصان رساں نہ ہو۔ اور ان کی مصیبت اسی طرح گھیرے رہے گی کہ ان سے داد خواہی ایسی ہی مشکل ہو جائے گی جیسے غلام کیلئے اپنے آقا سے اور مرید کی اپنے پیر سے۔ تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک صورت میں آئے گا کہ جس سے ڈر لگنے لگے گا اور زمانہ جاہلیت کی مختلف حالتوں کو لئے ہو گا۔ نہ اس میں ہدایت کا مینار نصب ہو گا اور نہ راستہ دکھانے والا کوئی نشان نظر آئے گا۔

نَحْنُ اَهْلَ الْبَیْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ، وَ لَسْنَا فِیْهَا بِدُعَاةٍ، ثُمَّ یُفَرِّجُهَا اللهُ عَنْكُمْ كَتَفْرِیْجِ الْاَدِیْمِ: بِمَنْ یَّسُوْمُهُمْ خَسْفًا، وَ یَسُوْقُهُمْ عُنْفًا، وَ یَسْقِیْهِمْ بِكَاْسٍ مُّصَبَّرَةٍ، لَا یُعْطِیْهِمْ اِلَّا السَّیْفَ، وَ لَا یُحْلِسُهُمْ اِلَّا الْخَوْفَ، فَعِنْدَ ذٰلِكَ تَوَدُّ قُرَیْشٌ بِالدُّنْیَا وَ مَا فِیْهَا لَوْ یَرَوْنَنِیْ مَقَامًا وَّاحِدًا، وَ لَوْ قَدْرَ جَزْرِ جَزُوْرٍ، لِاَقْبَلَ مِنْهُمْ مَاۤ اَطْلُبُ الْیَوْمَ بَعْضَهٗ فَلَا يُعْطُوْنَنِيْهِ!.

ہم اہل بیت ِ(رسول علیہم السلام) ان فتنہ انگیزیوں (کے گناہ) سے بچے ہوں گے اور ان کی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو گا۔ پھر ایک دن وہ آئے گا کہ اللہ اس شخص کے ذریعہ سے جو انہیں ذلت کا مزا چکھائے اور سختی سے ہنکائے اور (موت کے ) تلخ جام پلائے اور ان کے سامنے تلوار رکھے اور خوف انہیں چمٹا دے، ان فتنوں سے اس طرح علیحدہ کر دے گا جس طرح ذبیحہ سے کھال الگ کی جاتی ہے۔ اس وقت قریش دنیا و ما فیہا کے بدلے میں یہ چاہیں گے کہ وہ مجھے صرف اتنی دیر کہ جتنی اونٹ کے ذبح ہونے میں لگتی ہے، کہیں ایک دفعہ دیکھ لیں تاکہ میں اس چیز کو قبول کر لوں کہ جس کا آج کچھ حصہ بھی طلب کرنے کے باوجود دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔

۱؂امیر المومنین علیہ السلام نے یہ خطبہ جنگ نہروان کے بعد ارشاد فرمایا۔ اس میں ’’فتنہ‘‘ سے مراد وہ جنگیں ہیں جو بصرہ، صفین اور نہر وان میں لڑی گئیں۔ چونکہ ان کی نوعیت پیغمبر ﷺ کی جنگوں سے جداگانہ تھی، کیونکہ وہاں مد مقابل کفار ہوتے تھے اور یہاں مقابلہ ان لوگوں سے تھا جو چہروں پر اسلام کی نقاب ڈالے ہوئے تھے۔ اس لئے لوگ اہل قبلہ سے جنگ کرنے کیلئے متردّد تھے اور یہ کہتے تھے کہ جو لوگ اذانیں دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں ان سے قتال کیسا؟ چنانچہ خزیمہ ابن ثابت انصاری جیسے بزرگ اس وقت تک صفین میں شریک جنگ نہیں ہوئے جب تک عمار یاسر کی شہادت نے شامیوں کا گروہ باغی ہونا ثابت نہ کر دیا۔ یونہی بصرہ میں اُمّ المومنین کے ہمراہ عشرہ مبشرہ میں شمار ہونے والے طلحہ و زبیر ایسے صحابہ کی موجودگی اور نہروان میں خوارج کی پیشانیوں کے گھٹے اور ان کی نمازیں اور عبادتیں ذہنوں میں خلفشار پیدا کئے ہوئے تھیں۔ اندریں حالات ان کے سامنے شمشیر بکف کھڑے ہونے کی جرأت وہی کر سکتا تھا جو ان کے مکنونِ قلب سے واقف اور ان کے ایمان کی حقیقت سے آشنا ہو اور یہ امیر المومنین علیہ السلام ہی کی بصیرتِ خاص و ایمانی جرأت کا کام تھا کہ ان کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور پیغمبر ﷺ کے اس ارشاد کی تصدیق فرما دی:

سَتُقَاتِلُ بَعْدِی النَّاكِثِيْنَ وَ الْقَاسِطِيْنَ وَ الْمَارِقِيْنَ۔

اے علیؑ! تم میرے بعد بیعت توڑنے والوں (اصحابِ جمل) ظلم ڈھانے والوں (اہل شام) اور دین سے بے راہ ہو جانے والوں (خوارج) سے جنگ کرو گے۔[۱]

۲؂۲پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد کوئی متنفس امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘۔ چنانچہ ابن حجر نے ’’صواعق محرقہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:

لَمْ يَكُنْ اَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ يَقُوْلُ سَلُوْنِیْ اِلَّا عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ.

صحابہ میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو ہم سے پوچھ لو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔[۲]

البتہ صحابہ کے علاوہ تاریخ میں چند نام ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کی: جیسے ابراہیم ابن ہشام، مقاتل ابن سلیمان، قتادہ، سبط ابن جوزی اور محمد ابن ادریس شافعی وغیرہ۔ مگر ان میں سے ہر شخص سوال کے موقع پر رسوا اور اپنے اس دعوے کو واپس لینے پر مجبور ہوا۔ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو حقائق عالم سے واقف اور مستقبل کے واقعات سے آگاہ ہو۔ چنانچہ امیر المومنین ہی وہ دَر کشائے علوم نبوت تھے جو کسی موقعہ پر کسی سوال کے جواب سے عاجز ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر کو بھی یہ کہنا پڑتا تھا کہ:

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ مُّعْضَلَةٍ لَّیْسَ لَھَا اَبُو الْحَسَنِ ؑ.

میں اس مشکل سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس کے حل کرنے کیلئے امیرالمومنین علیہ السلام نہ ہوں۔[۳]

یونہی مستقبل کے متعلق جو پیشین گوئیاں آپؑ نے کیں، وہ حرف بحرف پوری ہو کر آپؑ کی وسعتِ علمی کی آئینہ دار ہیں۔ وہ بنی اُمیہ کی تباہ کاریوں کے متعلق ہوں یا خوارج کی شورش انگیزیوں کے متعلق، وہ تاتاریوں کی تاخت و تاراج کے بارے میں ہوں یا زنگیوں کی حملہ آوریوں کے متعلق، وہ بصرہ کی غرقابی کے بارے میں ہوں یا کوفہ کی تباہی کے متعلق۔ غرض جب یہ واقعات تاریخی حیثیت سے مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپؑ کے اس دعوے پر تعجب کیا جائے۔

[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۰۱۔

[۲]۔ الصواعق المحرقہ، مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۹۷ ء۔

[۳]۔ البدایۃ و النہایۃ، ج ۷، ص ۳۶۰، مطبوعہ مکتبۃ المعارف، بیروت

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button