خطبات

خطبہ (۱۳۷)

(۱٣٦) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۳۶)

یُوْمِئُ فِیْهَا اِلٰى ذِكْرِ الْمَلَاحِمِ

اس میں آنے والے فتنوں اور ہنگاموں کی طرف اشارہ کیا ہے

یَعْطِفُ الْهَوٰی عَلَی الْهُدٰی اِذَا عَطَفُوا الْهُدٰی عَلٰی الْهَوٰی، وَ یَعْطِفُ الرَّاْیَ عَلَی الْقُرْاٰنِ اِذَا عَطَفُوا الْقُرْاٰنَ عَلَی الرَّاْیِ.

وہ خواہشوں کو ہدایت کی طرف موڑے گا جبکہ لوگوں نے ہدایت کو خواہشوں کی طرف موڑ دیا ہو گا اور ان کی رایوں کو قرآن کی طرف پھیرے گا جب کہ انہوں نے قرآن کو (توڑ مروڑ کر) قیاس و رائے کے دھڑے پر لگا لیا ہو گا۔

[مِنْهَا]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے [۱] ]

حَتّٰی تَقُوْمَ الْحَرْبُ بِكُمْ عَلٰی سَاقٍ، بَادِیًا نَّوَاجِذُهَا، مَمْلُوْٓءَةً اَخْلَافُهَا، حُلْوًا رَضَاعُهَا، عَلْقَمًا عَاقِبَتُهَا.اَلَا وَ فِیْ غَدٍ ـ وَ سَیَاْتِیْ غَدٌۢ بِمَا لَا تَعْرِفُوْنَ ـ یَاْخُذُ الْوَالِیْ مِنْ غَیْرِهَا عُمَّالَهَا عَلٰی مَسَاوِیْۤ اَعْمَالِهَا، وَتُخْرِجُ لَهُ الْاَرْضُ اَفَالِیْذَ كَبِدِهَا، وَ تُلْقِیْ اِلَیْهِ سِلْمًا مَّقَالِیْدَهَا، فَیُرِیْكُمْ كَیْفَ عَدْلُ السِّیْرَةِ وَ یُحْیِیْ مَیِّتَ الْكِتَابِ وَ السُّنَّةِ.

(اس داعی حق سے پہلے) یہاں تک نوبت پہنچے گی کہ جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی، دانت نکالے ہوئے اور تھن بھرے ہوئے، جن کا دودھ شیریں و خوش گوار معلوم ہو گا، لیکن اس کا انجام تلخ و ناگوار ہو گا۔ ہاں! کل اور یہ کل بہت نزدیک ہے کہ ایسی چیزوں کو لے کر آ جائے جنہیں ابھی تم نہیں پہچانتے۔ حاکم و والی جو اس جماعت میں سے نہیں ہو گا تمام حکمرانوں سے ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے مواخذہ کرے گا اور زمین اس کے سامنے اپنے خزانے انڈیل دے گی اور اپنی کنجیاں بسہولت اس کے آگے ڈال دے گی، چنانچہ وہ تمہیں دکھائے گا کہ حق و عدالت کی روش کیا ہوتی ہے اور وہ دم توڑ چکنے والی کتاب و سنت کو پھر سے زندہ کر دے گا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

كَاَنِّیْ بِهٖ قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ، وَ فَحَصَ بِرَایَاتِهٖ فِیْ ضَوَاحِیْ كُوْفَانَ، فَعَطَفَ عَلَیْهَا عَطْفَ الضَّرُوْسِ، وَ فَرَشَ الْاَرْضَ بِالرُّؤُوْسِ. قَدْ فَغَرَتْ فَاغِرَتُهٗ، وَ ثَقُلَتْ فِی الْاَرْضِ وَطْاَتُهٗ، بَعِیْدَ الْجَوْلَةِ، عَظِیْمَ الصَّوْلَةِ.

گویا یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ [۲] (داعی باطل) شام میں کھڑا ہوا للکار رہا ہے اور کوفہ کے اطراف میں اپنے جھنڈے لہرا رہا ہے اور کاٹ کھانے والی اونٹنی کی طرح اس پر ( حملہ کرنے کیلئے) جھکا ہوا ہے اور اس نے زمین پر سروں کا فرش بچھا دیا ہے۔ اس کا منہ (پھاڑ کھانے کیلئے) کھل چکا ہے اور زمین میں اس کی پامالیاں بہت سخت ہو چکی ہیں وہ دور دور تک بڑھ جانے والا اور بڑے شد و مد سے حملہ کرنے والا ہے۔

وَاللهِ! لَیُشَرِّدَنَّكُمْ فِیْۤ اَطْرَافِ الْاَرْضِ حَتّٰی لَا یَبْقٰی مِنْكُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ، كَالْكُحْلِ فِی الْعَیْنِ، فَلَا تَزَالُوْنَ كَذٰلِكَ، حَتّٰی تَؤُوْبَ اِلَی الْعَرَبِ عَوَازِبُ اَحْلَامِهَا! فَالْزَمُوا السُّنَنَ الْقَآئِمَةَ، وَالْاٰثَارَ الْبَیِّنَةَ، وَ الْعَهْدَ الْقَرِیْبَ الَّذِیْ عَلَیْهِ بَاقِی النُّبُوَّةِ. وَاعْلَمُوْا اَنَّ الشَّیْطٰنَ اِنَّمَا یُسَنِّیْ لَكُمْ طُرُقَهٗ لِتَتَّبِعُوْا عَقِبَهٗ.

بخدا! وہ تمہیں اطراف زمین میں بکھیر دے گا، یہاں تک کہ تم میں سے کچھ تھوڑے ہی بچیں گے جیسے آنکھ میں سرمہ۔ تم اسی سراسیمگی کے عالم میں رہو گے، یہاں تک کہ عربوں کی عقلیں پھر اپنے ٹھکانے پر آ جائیں۔ تم مضبوط طریقوں، روشن نشانیوں اور اسی قریب کے عہد پر جمے رہو کہ جس میں نبوت کے پائیدار آثار ہیں اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان اپنے قدم بقدم چلانے کیلئے راہیں آسان کرتا رہتا ہے۔

۱؂امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی حضرت حجت علیہ السلام کے ظہور کے سلسلہ میں ہے۔

۲؂یہ عبد الملک ابن مروان کی طرف اشارہ ہے کہ جو مروان کے بعد شام میں بر سر اقتدار آیا اور پھر مصعب کے مقابلہ میں مختار ابن ابی عبید کے مارے جانے پر یہ اپنے پرچم لہراتا ہوا عراق کی طرف بڑھا اور اطراف کوفہ میں دیر جاثلیق کے نزدیک مقام مسکن پر مصعب کی فوجوں سے نبرد آزما ہوا اور اسے شکست دینے کے بعد فتح مندانہ کوفہ میں داخل ہوا اور وہاں کے باشندوں سے بیعت لی اور پھر حجاج ابن یوسف ثقفی کو عبد اللہ ابن زبیر سے لڑنے کیلئے مکہ روانہ کیا، چنانچہ اس نے مکہ کا محاصرہ کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی اور ہزاروں بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہایا، ابن زبیر کو قتل کر کے اس کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا اور خلق خدا پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ جن سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button