مقالات

صحیفئہ سجادیہؑ کا تعارف/دوسرا حصہ

 دعا کی اہمیت و ضرورت

ہمارے تمام ائمہ بالخصوص سید سجاد علیہ السلام نے دُعاؤں کے ذریعے جو ہمیں درس دیا ہے اور علوم محمد و آلِ محمد سے آشنا کیا ہے ہم اپنے رب کی اس عنایت پر جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ ہم ادب و آداب سے نا آشنا تھے ہم رب العزت سے خطاب کرنے کا طریقہ نہیں جانتے تھے ہم ان الفاظ سے ناواقف تھے جن سے اللہ سے گفتگو کی جاتی ہے۔ ہمارے امام نے ہمیں ان دُعائے کے ذریعے رب کی قربت عطا کردی، بات کرنے کا قرینہ، طریقہ اور سلیقہ سکھایا۔

 دُعا کے سلسلے میں ارشاد باری ہے:

وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ-اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ ، (سورہ بقرہ آیت 186 )

“اور (اے نبی !) میرے بندے جب بھی آپ سے میرے بارے میں دریافت کریں تو انہیں بتا دیجیے کہ میں قریب ہوں، جب دُعا کرنے والا دُعا کرتا ہے تو میں اس کی دُعا کو سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں۔ انہیں چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ راہِ راست پر آجائیں۔”

دُعا عبادت کا مغز ہے اور دُعا سے انکار کفر ہے۔ دُعا انبیاء کا ہتھیار اور مومن کی سپر اور اس کا شعار ہے۔ دُعاؤں سے بلاؤں کو رد کیا جاتا ہے۔ مولائے کائنات دُعائے کمیل میں فرماتے ہیں:

:” ‏یَا سَرِیعَ الرِّضا، اغْفِرْ لِمَنْ لاَ یَمْلِکُ إلاَّ الدُّعا۔”

“اے جلدی سے راضی ہو جانے والے اسے بخش دے جس کے پاس دُعا کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔”

امام زین العابدین علیہ السلام کی دُعاؤں کے بارے میں ابن جوزی فرماتے ہیں:

 حضرت زین العابدین علی بن الحسین علیہ السلام انشاء و تحریر اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے تکلم و خطابام اور اس کے حضور عرض حاجات کے سلسلے میں مسلمانوں پر حق تعلّم و استادی رکھتے ہیں اس لیے کہ اگر حضرت نہ ہوتے تو مسلمانوں کو یہ پتا نہ چلتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کس طرح خطاب کریں اور اس سے کس طرح اپنی حاجتیں طلب کریں اور یہ حضرت ہی نے مسلمانوں کو سکھایا ہے کہ اگر توبہ کرو تو یہ کہو اور طلب باراں کے لیے یہ کہو اور دشمن کا خطرہ ہو تو اللہ تعالیٰ سے گفتگو اس طرح کرو۔

 عرب دنیا جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ لوگ کلام امام سے نا آشنا تھے ۔ دُعاؤں کے اس عظیم ذخیرہ کی جانب متوجہ نہ تھے ۔ یہاں تک کہ مصر کے استاد فلیسوف طنطاوی جوھری کا ایک مضمون رسالہ ہدی الاسلام میں شائع ہوا اور پھر الرضوان میں مندرج ہوا۔ اس مضمون کا عنوان ہے:

أدعية علي زين العابدين و ماذا يستفيد منهي المسلمون.

امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائیں اور ان سے مسلمانوں کو کیا فوائد ہو سکتے ہیں؟

وہ فرماتے ہیں:

 جامعہ ازہر کے نوجوان ہندوستانی طالب علم سیّد مجتبیٰ حسن نے مجھے ایک کتاب سے مطلّع کیا جس میں کچھ دُعائیں، کچھ مناجاتیں حضرت علی زین العابدین علیہ السلام کی طرف منسوب موجود ہیں میں نے اس کتاب کو غور سے دیکھا اور اس کے مندرجات پر گہری نظر ڈالی تو مجھ پر ایک ہیبت طاری ہو گئی اور ان دُعاؤں کی عظمت میرے دل میں جاگزیں ہو گئی اور میں نے کہا یہ عجیب بات ہے کیوں کر مسلمان اب تک اس ذخیرہ سے ناواقف رہے اور کس طرح وہ صدیوں اور پھر صدیوں تک خواب غفلت میں مبتلا رہے اور انہیں احساس تک نہ ہوا کہ اتنا بڑا علمی ذخیرہ خدا نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ اگر وہ ان خزانوں کو کھول کر دیکھیں اور ان کے اسرار و رموز پر مطلع ہوں تو سمجھیں سنّی و شیعہ فرقے دونوں خواہ مخواہ کے لیے افتراق باہمی میں مبتلا ہیں اور باہمی عداوت کے نشے میں سرشار ہیں۔

طنطاوی جوھری دوسری جگہ بارگاہِ خداوندی میں شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:

خداوندا! یہ تیری کتاب موجود ہے قرآن، اور یہ اہل بیت میں سے ایک بزرگ ہستی کے ارشادات ہیں۔ یہ دونوں کلام وہ آسمان سے نازل شدہ کلام اور یہ اہل بیت کے صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام دونوں بالکل متفق ہیں۔ اب میں بلند آواز سے پکارتا ہوں ہندوستان میں اور تمام اسلامی ممالک میں اے فرزندانِ اسلام اے اہل سنت اے اہل تشیع کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ تم قرآن اور اہل بیت کے مواعظ سے سبق حاصل کرو یہ دونوں تم کو بلا رہے ہیں ان علوم کو حاصل کرنے کی طرف جن سے عجائبات قدرت منکشف ہوتے ہیں اور خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

پہلے ان علوم کو حاصل کرو، انہی کے حاصل کرنے کا تمہیں قرآن اور پیشواہان مذہب کے ارشادات میں حکم ملا ہے۔ جب تم ان میں کامل ہو جانا تو پھر دوسرے امور کی طرف متوجہ ہونا۔

تفرقہ انگیز مباحث سے باز آؤ اور ان ہدایات پر عمل کرو۔ ان علوم سے استفادہ کرو اور سورج کے نیچے زمین کے اوپر اپنے ژندہ رہنے کا سامان کرو۔

رشحات قلم: مولانا سید تلمیذ حسنین رضوی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button