مقالات

کلام الامام امام الکلام

کلام الامام امام الکلام

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

کائنات میں اس دور اور اس عصر میں تین ایسی کتابیں ہیں جن کی کوئی مثل نہیں اور جن کا کوئی دوسرا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ان میں سے ایک قرآن کریم ہے جو ختمی المرتبت کا ایک زندہ معجزہ ہے ۔ قرآن کا اعجاز ہے کہ کوئی قرآن کے چیلنج کے باوجود  بھی قرآن کی طرح ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکا اور نہ ہی قیامت تک کوئی قرآن کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔

دوسرا صحیفہ سجادیہ ہے جو امام زین العابدین کی دعاوں اور مناجات اور معشوق ازل سے کئے گئے راز و نیازپر مشتمل ہے ۔جو علوم و معارف کا گنجینہ،سیر و سلوک کا جامع دستور عمل ہے اور فصاحت و بلاغت کا ایک سمندر  ہے کہ عصر حاضر میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔

تیسرا نہج البلاغہ ہے جو مدینۃ العلم کے ان خطبات و مکتوبات اور حکمت کے گوہر پاروں پر مشتمل ہے جسے سید رضی نے فصاحت و بلاغت کے شہ پارے اور صراط مستقیم کے طور پر انتخاب کیا ہے ۔اسی لئے ہر عصر اور ہر دور  کے نامور ادیب اور عالم کو یہ اعتراف کرانا پڑا کہ یہ مخلوق کے کلام سے بالاتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہیں ۔کیوں نہ ہو چونکہ یہ ایک ہستی کا کلام ہے جس نے ببانگ دہل یہ اعلان کر دیا جو پوچھنا ہو پوچھ لو  علی ان سب کا جواب دینے کے لئے تیار ہے ۔

نہج البلاغہ علوم اور معارف کا وہ گراں بہا سرمایہ ہے جس کی اہمیت اور عظمت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور ہر عہد کے علماو ادباء نے اس کی بلندی اور رفعت کا اعتراف کیا ہے ۔یہ صرف ادبی شاہکار ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کا الہامی صحیفہ ،حکمت و اخلاق کاسر چشمہ اور معارف ایمان کا ایک انمول خزانہ ہے ۔ افصح العرب کے آغوش میں پلنے والے اور آب وحی میں دھلی ہوئی زبان چوس کر پروان چڑھنے والے نے بلاغت کلام کے وہ جوھر دکھائے کہ ہر سمت سے [فوق کلام المخلوق و تحت کلام الخالق] کی صدائیں بلند ہونے لگیں. بیروت کے شھر ت آفاق مسیحی ادیباور شاعر پولس سلامہ اپنی کتاب [اول ملحمہ عربیہ عید الغدیر]میں لکھتے ہیں "نہج البلاغہ مشہور ترین کتاب ہے جس سے امام علی علیہ السلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کتاب سے بالاتر سوائے قرآن کے اور کسی کتاب کی بلاغت نظر نہیں آتی اور اس کے بعد چند اشعار پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے:یہ معارف و علوم کا معدن اور اسرار رموز کا کھلا ہو ادروازہ ہے ۔یہ نہج البلاغہ کیا ہے ؟ایک روشن کتاب جس میں بکھرے ہوئے موتیوں کو فصاحت و بلاغت کی رسی میں پرووئے گئے ہے ۔یہ چنے ہوئے پھولوں کا ایک ایسا  باغ ہے جس میں پھولوں کی لظافت،چشموں کی صفائی اور آب کوثر کی شیرنی انسان کو نشاط بخشتی ہے ۔جس کی وسعت اور کنارے تو آنکھوں سے نظر آتے ہیں مگر تہ تک نظریں پہنچنے سے قاصرہیں ۔1

کلام امیر المومنین علیہ السلام زمانہ قدیم سے ہی دو ا متیازات کا حامل رہا ہے ۔اور ان ہی امتیازات  سے اس کی شناخت ہوتی ہے۔ایک فصاحت و بلاغت اور دوسرا اس کا متعد د جہات اور مختلف پہلووں پر مشتمل ہونا ہے ۔ان میں سے ہر ایک امتیاز اپنی  جگہ  کلام علی{علیہ السلام} کی بے پناہ اہمیت کے لئے کافی ہوتا ،چہ جائیکہ ان دونوں کا ایک جگہ جمع ہونا ،یعنی ایک گفتگو جو مختلف بلکہ کہیں کہیں بالکل متضاد جہتوں اور میدانوں سے گزر رہی ہے  اور اسی کے ساتھ ساتھ اپنے کمال فصاحت و بلاغت کو بھی باقی رکھے ہوئے ہے ۔اس نے کلام حضرت علی علیہ السلام کو معجزے کی حد سے قریب کر دیا ہے ۔اسی وجہ سے آپ کا کلام خالق اور مخلوق کے کلام کے درمیان رکھا جاتا ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام کے ساتھی  جو فن خطابت سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتے تھےآپ کی خطابت کے شیدائی تھے۔انہی شیدائیوں میں سے ایک ابن عباس ہے جیسا کہ جاحظ نے لکھا ہے وہ خود هی ایک زبردست خطیب تھے انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کی باتیں اور تقرریں سننے اور ان سے لطف اندوز ہونےکا اشتیاق چھپایا نہیں ہے ۔چناچہ جب حضرت علی علیہ السلام اپنا مشھور خطبہ [خطبہ شقشقیہ ] ارشاد فرما  رہے تھے  ابن عباس وہاں موجود تھے  خطبے کے دوران کوفے  کی ایک علمی شخصیت نے  ایک خط آپ کو دیاآپ  نے خطبہ روک دیا اور یہ خط پڑھنے کے بعد کلام کو آگے نہ بڑھائے ۔ابن عباس نے کہا کہ مجھے اپنی عمر میں کسی بات کا اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس تقریر کے قطع ہونے کا افسوس ہو اہے ۔ابن عباس حضرت علی علیہ السلام کے ایک مختصر خط کے بارے میں جو خود انہی کے نام لکھے  گئے تھے  کہتے ہیں ” پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی باتوں کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے اس کلام سے زیادہ کسی اور کلام سے میں مستفید نہیں ہوا ہوں ۔۳۔معاویہ  ابن ابی سفیان جو آپ کا سب سے بڑا دشمن تھا وہ بھی آپ کے کلام کی غیر معمولی فصاحت و بلاغت  اور زیبائی کا معترف تھا ۔محقق ابن ابی محقن حضرت علی علیہ السلام کو چھوڑکر معاویہ کے پاس گئے اور اس کو خوش کرنےکے لئے کہا” میں ایک  گنگ ترین شخص کو چھوڑ کرتمھارے پاس آیاہوں "یہ چاپلوسی اتنی منفور تھی کہ خود معایہ نے اس شخص کو ڈانٹتے ہوئے کہا "وائے ہو تجھ پر،تو علی کو گونگا ترین شخص کہتا ہے جب کہ قریش علی سے پہلے فصاحت سے واقف بھی نہیں تھے ۔علی نے ہی قریش کو درس فصاحت دیا ہے۔۴

جو افراد آپ کے ان خطبات کو سنتے وہ بہت زیادہ متائثر  ہو جاتے  تھے ۔آپ کے موعظے لوگوں کے دلوں کو ہلا دیتے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری کر دیتے تھے۔سید رضی مشھور خطبہ [غرا ]نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں [جس وقت حضرت علی علیہ السلام نے یہ خطبہ دیا تو لوگوں کے بدن کانپ اٹھے ،اشک جاری ہو گئے اور دلوں کی دھڑکنیں بڑھ گئیں ۔۵

 ہمام ابن شریح آپ  کے دوستوں میں سے تھے جن کا دل عشق خدا سے لبریز اور روح مصونیت سے سرشار تھی ۔آپ کوا صرار کرتے ہیں کہ خاصان خدا کی صفات بیان کیجئے ۔جب آپ نے خطبہ شروع کیا اور جوں جوں آگے بڑھتے گئے  ہمام کے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی گئی اور ان کی متلاطم روح کے تلاطم میں اضافہ ہو تا گیا اور کسی طائر قفس کی مانند روح قید بدن سے پرواز کے لئے بے تاب ہو گئے کہ ناگاہ  ایک ہو لناک چیخ نے سامعین کو اپنی طرف متوجه کر لیا جو ہمام کی چیخ تھی ۔جب لوگ اس کے سرہانے پہنچے تو روح قفس عنصری  سے پرواز کر چکی تھی ۔آپ نے فرمایا :میں اسی بات سے ڈر رہا تھا ۔عجب، پر بلیغ موعظہ آمادہ قلوب پر اسی طرح اثر کرتا ہے  ۔۶

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد تنہا امام  علی علیہ السلام ہی وہ ذات  ہے جس کے کلام کو لوگوں نے حفظ کرنے کا اہتمام  کیا ۔ابن ابی الحدید عبد الحمید کاتب سے جو انشاء پردازی میں ضرب المثل ہے اور دوسری صدی ہجری  کے اوائل میں گزرا ہے نقل کرتے ہیں : میں  نے{حضرت }علی {علیہ السلام }کے ستر خطبے حفظ کیا اور اس کے بعد میراذہن یوں جوش مارتا تھا جیسا جوش مارنے کا حق ہے۔علی الجندی لکھتے ہیں کہ لوگوں نے عبد الحمید سے معلوم کیا تمھیں بلاغت کے اس مقام پر کس چیز نے پہنچایا ؟اس نے کہا "حفظ کلام الاصلع” علی کے خطبوں کی مرہون منت ہے ۔

عبد الرحیم ابن نباتہ جوکہ خطبائے عرب میں اسلامی دور کا نامور خطیب ہے اعتراف کرتا ہے کہ میں نے فکر و ذوق کا سرمایہ حضرت  علی علیہ السلام سے حاصل کیا ہے ۔ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں اس کا یہ قول نقل  کیا ہے : میں نے حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی سو فصلیں ذہن میں محفوظ کر لی ہے  اور یہی میرا وہ نہ ختم  ہونے والا خزانہ ہے۔مشہور ادیب ،سخن شناس اورنابغہ ادب جاحظ جس کی کتاب البیان و التبین ادب کے ارکان چھارگانہ میں شمار ہوتی ہے میں بار بار حضرت علی  [علیہ السلام] کی غیرمعمولی ستائیش اور حد سے زیادہ تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ البیان و التبین کی پہلی جلد میں ان افراد کے عقیدے کے بارے میں لکھتے ہیں {جو سکوت اور صداقت کی تعریف اور زیادہ بولنے کی مذمت کرتے تھے }:زیادہ بولنے کی جو مذمت آئی ہے وہ بے ہودہ باتوں کے سلسلے میں ہے نہ کہ مفیدو سود مند کلام کے بارے میں ورنہ حضرت علی [علیہ السلام] اور عبد اللہ ابن عباس کا کلام بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے ۔۷

اسی جلد میں جاحظ نے حضرت علی [علیہ السلام] کا یہ مشہور جملہ نقل کیا ہے [قیمۃ کل امرء مایحسنہ]ہر شخص کی قیمت اس کے علم و دانائی کےمطابق ہے ۔اور پھر اس جملے کی وضاحت اور تشریح میں لگ جاتے ہیں اور کہتے ہیں "ہماری پوری کتاب میں  اگر صرف یہی  ایک جملہ ہوتا تو کافی تھا ۔بہترین کلام وہ ہے جو کہ ہونے کے باوجود آپ کو اپنے بہت ہونے سے بے نیاز کر دے اور معنی لفظ پنہاں نہ رہیں بلکہ ظاھر و آشکار ہوں ۔پھر کہتے ہیں گویا خدانے اس مختصر جملے کو اس کے کہنے والے کی پاک نیت کی مناسبت سے جلالت کاایک پیراھن اور نور حکمت کا لباس پہنا دیا ہے ۔۸۔ابن ابی الحدید  اپنی کتاب کے مقدمے میں تحریر فرماتے ہیں :حق تو یہ ہے کہ لوگوں نے بجا طور پر آپ کے کلام کو خالق کے کلام کے بعد اور بندوں کے کلام سے بالاتر قرار دیا ہے۔لوگوں نے تحریر و تقریر دونوں فنون آپ سےسیکھے ہیں ۔آپ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ لوگوں نے آپ کے کلام کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ جمع اور محفوظ کیا ہے ۔اسی طرح کتاب شرح نہج البلاغہ کی چوتھی جلد میں بھی ابن ابی الحدید امام کے اس خط کے بارے میں جو آپ نے مصر میں معاویہ کی فوج کے تسلط اور محمد ابن ابی بکر کی شہادت کے بعد بصرہ کے گورنر عبد اللہ ابن عباس کے نام لکھا تھا اور انہیں اس سانحہ کی خبردے تھی ،لکھتے ہیں : فصاحت نے اپنی باگ دوڑ کس طرح اس مرد کے سپرد کر دی ہے ۔الفاظ کی بندش کو دیکھے جو یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور خود اس طرح اس کے حوالے کر دیتے ہیں جیسے زمین سے اپنے آپ بلا کسی پریشانی کے چشمہ ابل رہا ہو۔سبحان اللہ ،مکہ جیسے شہر میں پروان چڑھنے والے اس عرب جوان کا  کیا کہنا کہ جس نے فلسفی و مفکر کی صورت بھی نہیں دیکھی لیکن اس کا کلام حکمت نظری میں افلاطون و ارسطو کے کلام سے زیادہ بلند ہے جو حکمت عملی سے آراستی بندوں کی بزم میں بھی نہیں بیٹھا ۔جس نے بہادروں اور پہلوانوں سے تربیت حاصل نہیں کی لیکن روئے زمین پر پورے عالم بشریت میں شجاع ترین  انسان تھا ۔خلیل ابن احمد سےسوال کیا گیا کہ علی شجاع ہیں یا عنبہ و بسطام؟ اس نے کہا :عنبہ و بسطام کا موا زنہ انسانوں سے کرنا چاہیے علی مافوق بشر ہیں ۔۹۔علی الجندی اپنی کتاب [علی ابن ابی طالب شعرہ و حکمہ ] کے مقدمے میں مولائے کائنات کی نثر کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: آپ کے کلام میں ایک خاص قسم کی موسقی کا آہنگ ہے جو احساسات کی گہرائیوں میں پنجے جمادیتا ہے ۔سجع کے اعتبار سے اس قدر منظوم ہے کہ اسے نثری شعر کہا جا سکتا ہے ۔۱۰

حوالہ جات:

۱۔ نہج البلاغۃ،مفتی جعفر حسین۔

۲۔ جاحظ ،البیان و التبین،ج۱،ص۲۳۰۔

۳۔ نہج البلاغہ ،خط،۲۲۔

۴۔ مرتضی مطہری ،سیری در نہج البلاغہ،ص  ۲۶۔

۵۔ نہج البلاغہ ،خطبہ ۸۱۔

۶۔ مرتضی مطہری ،سیری در نہج البلاغہ،ص ۲۷۔

۷۔ جاحظ البیان و التبین،ج۱۔

۸۔ ایضا۔

۹۔ ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ ،ج۴۔

۱۰۔ علی الجندی،علی ابن ابی طالب شعرہ و حکمہ ۔

منبع:http://uckachura.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button