کتب کا تعارف

کتاب تہذیب الاحکام کا تعارف

کتب اربعہ میں سے تیسری اہم اور وقیع کتاب ہے جو شیخ مفیدؒ کی کتاب المقنعہ کی شرح ہے۔ اس کتاب کے مؤلف شیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن الحسن بن علی بن الحسن الطوسی ہیں۔ ان کی ولادت ماہِ رمضان المبارک میں۳۸۵ ھ کو خراسان کے ایک شہر طوس میں ہوئی اور اسی وجہ سے آپ طوسی کہلاتے ہیں۔ اپنے والد کے زیر سایہ ابتدائی تعلیمی مراحل طے کئے اور ۲۳؍ سال کی عمر میں  ۴۰۸ ھ میں خراسان سے بغداد تشریف لائے کیوں کہ اس دور میں بغداد علم و فضل کا مرکز تھا اور بڑے بڑے علماء اور افاضل وہاں مقیم تھے اور تقریباً پانچ سال شیخ مفیدؒ کی خدمت اقدس میں گزارے یہاں تک کہ ۳؍رمضان المبارک  ۴۱۳ ھ کو اس جلیل القدر عالم کی وفات کے بعد ۱۳؍سال سیّد مرتضیٰ علم الہدیٰ کی خدمت میں بسر کئے اور اکتساب علم کرتے رہے۔ سیّد مرتضیٰ ہر ماہ انھیں ۱۲؍دینار وظیفہ دیا کرتے تھے جس سے ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔ جب ربیع الاول کی ۲۵؍تاریخ  ۴۳۶ ھ کو سیّد مرتضیٰ نے کوچ کیا تو اپنے استاد کی وفات کے بعد زعامت دینی ان کے پاس آگئی۔ ان کے مشائخ میں فریقین کے پچاس اَعلام کے نام ملتے ہیں اور ان کے شاگردوں کی تعداد تین سو تک پہنچتی ہے جن میں خاصہ اور عامّہ دونوں شامل ہیں۔

خلیفۂ عباسی القائم بامراللہ عبداللہ بن القادر باللہ احمد نے کُرسیِّ کلام اور اِفادہ آپ کے لیے قرار دی جو صرف نابغۂ عصر اور یگانۂ دہر کے لیے مخصوص تھی۔ عامۃ الناس کو یہ بات ناگوار گزری اور لوگوں کو ان کے خلاف اُبھارا جانے لگا اور بادشاہ سے ان کی چغلی بھی کھائی گئی۔ جب سلجوقیوں نے بغداد میں مذہبی منافرت کی آگ بھڑکائی تو ان کے پہلے بادشاہ طغرل بیگ کے دور میں ۴۴۷ ھ کو بغداد میں شیعوں کا بہت بڑا اور نفیس کتب خانہ جو نوادرات سے پُر تھا جسے بہائوالدولہ کے وزیر ابوانصر سابور نے “بیت الحکمۃ” کے طرز پر بنایا تھا، اسے جلا ڈالا گیا۔

ابن الجوزی نے  ۴۴۸ ھ کے حوادث کے بارے میں لکھا ہے کہ ابوجعفر طوسی کو بغداد سے جان بچا کر بھاگنا پڑا اور ان کا گھر لوٹ لیا گیا پھر  ۴۴۹ ھ کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسی سال صفر کے مہینے میں ابوجعفر طوسی جو کرخ میں متکلم شیعہ تھے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا اور ان کے دفتر میں جو کچھ تھا اور کرسی کالم جس پر وہ رونق افروز رہا کرتے تھے سب کچھ لوٹ لیا گیا اور ان کا نہایت قیمتی کتب خانہ جلا ڈالا گیا۔ اور تاریخِ کامل میں ابن الاثیر جزردی نے ۴۴۹ ھ کے حوادث کے ذیل میں تحریر کیا ہے:

“فِیْھَا نُھِبَتْ دَارُ اَبِیْ جَعْفَرٍ الطُّوْسِیِّ بِالْکَرْخِ  وَ ہُوَ فَقِیْہُ الْاِمَامِیَّۃِ  وَ اُخِذَ مَا فِیْھَا”

“اور اسی سن میں ابوجعفر طوسی جو کرخ میں مقیم تھے ان کا گھر لوٹ لیا گیا اور جو کچھ گھر میں تھا سب کچھ ختم ہوگیا، ابوجعفر امامیہ مذہب کے فقیہ تھے۔”

شیخ الطائفہ نے خطرے کو بھانپ لیاتھا اس لیے خود کو بچا کر نجف اشرف کی طرف ہجرت کی اور جوارامیرالمومنین کی پناہ میں آگئے اور اسے مرکزِ علم قرار دیا اور شیعوں کے بہت بڑے حوزئہ علمیہ کی بنیاد ڈال دی۔ جہاں پر دنیا کے ہر گوشے سے تشنگانِ علم آکر اپنی پیاس بجھانے لگے۔

شیخ الطائفہ نجف اشرف میں درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے اور ہدایت و ارشاد کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ یہاں تک کہ ۲۲؍ محرم الحرام کی شب ۴۶۰ ھ کو ۷۵؍ سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ آپ کے غسل و کفن اور دفن کا انتظام آپ کے شاگرد شیخ حسن بن مہدی السلیقی اور شیخ ابومحمد الحسن بن عبدالواحد العین زوبی اور شیخ ابوالحسن اللؤلؤی نے انجام دیا اور اپنے گھر میں ہی دفن کئے گئے۔ شیخ جعفر نقدی نے اپنی کتاب ضبط التاریخ بالا حرف میں لکھا ہے:

یَا مَرْقَدَ الطُّوْسِیِّ فِیْکَ قَدِ انْطَوٰی

مُحْیِی الْعُلُوْمِ فَکُنْتَ اَطْیَبَ مَرْقَدٍ

یہ گھر بعد میں مسجد میں تبدیل ہوگیا اور خواص اور عوام آپ کے مزار پر آتے اور زیارت کرتے ہیں۔

آپ کے بارے میں متقدمین اور متأخرین اپنوں اور پرایوں کی رائے:

ہمارے شیخ ابوالعباس النجاشی جو شیخ الطائفہ کے معاصرین میں تھے ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

“جَلِیْلٌ مِّنْ اَصْحَابِنَا، ثِقَۃٌ، عَیْنٌ مِّنْ تَلَامِذَۃِ شَیْخِنَا اَبِیْ عَبْدِاللہ”

“ہمارے اصحاب میں صاحب جلالت، ثقہ، معتبر اور ہمارے شیخ ابی عبداللہ المفید کے شاگردِ رشید۔”

علّامہ حلّی اپنی کتاب الخلاصہ میں فرماتے ہیں:

’شَيْخُ الْاِمَامِيَّةِ وَ وَجْهُهُمْ قَدَّسَ اللهَ رُوْحَهٗ، رَئِيْسُ الطَّائِفَةِ، جَلِيْلُ الْقَدْرِ، عَظِيْمُ الْمَنْزِلَةِ، ثِقَةٌ، صَدُوْقٌ، عَيْنٌ، عَارِفٌ بِالْاَخْبَارِ وَ الرِّجَالِ وَ الْفِقْهِ وَ الْاُصُوْلِ وَ الْكَلَامِ وَ الْاَدَبِ، جَمِيْعُ الْفَضَائِلُ تُنْسَبُ اِلَيْهِ، صَنَّفَ فِيْ كُلِّ فُنُوْنِ الْاِسْلَامِ، وَ هُوَ الْمُهَذِّبُ لِلْعَقَائِدِ فِي الْاُصُوْلِ وَ الْفُرُوْعِ، اَلْجَامِعُ لِكَمَالَاتِ النَّفْسِ فِي الْعِلْمِ وَ الْعَمَلِ وَ کَانَ تِلْمِیْذَ الشَّیْخِ الْمُفِیْدِ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ”

“شیخ امامیہ اور ان کے رہنما، رئیس الطائفہ، جلیل القدر، عظیم المنزلت، معتبر اور ثقہ، مدارالمہام، سچّے، احادیث کے عارف، رِجال، فقہ، اُصول، کلام اور ادب کے ماہر جملہ فضائل کی نسبت انھی کی جانب دی جاتی ہے۔ انھوں نے اسلام کے تمام فنون پر قلم فرسائی کی اور کتابیں تحریر کیں۔ اُنہوں نے عقائد میں اُصول و فروع کی تہذیب کی وہ تمام کمالاتِ نفسانی کے جامع اور عالم باعمل تھے اور وہ شیخ مفید محمد بن محمد بن النعمان کے تلمیذِ رشید تھے۔”

اور آیۃ اللہ بحرالعلوم طباطبائی نے حق ادا کیا ہے جو فوائد رجالیہ میں فرمایا ہے:

“شَيْخُ الطَّائِفَةِ الْمُحِقَّةِ، وَ رَافِعُ أَعْلَامِ الشَّرِيْعَةِ الْحَقَّةِ، اِمَامَ الْفِرْقَةِ بَعْدِ الْاَئِمَّةِ الْمَعْصُوْمِيْنَ، وَ عِمَادُ الشِّيْعَةِ وَ الْاِمَامِيَّةِ بِكُلِّ مَا يَتَعَلَّقُ بِالْمَذْهَبِ وَ الدِّيْنِ، مُحَقِّقُ الْاُصُوْلِ وَ الْفُرُوْعِ، وَ مُهَذِّبُ فُنُوْنِ الْمَعْقُوْلِ وَ الْمَسْمُوْعَ، شَيْخُ الْطَّائِفَةِ عَلَى الْاِطْلَاقِ، وَ رَئِيْسُهَا الَّذِيْ تَلْوِيْ اِلَيْهِ الْاَعْنَاقُ، صَنَّفَ فِيْ جَمِيْعِ عُلُوْمِ الْاِسْلَامِ، وَ كَانَ الْقُدْوَةَ فِيْ ذٰلِكَ وَ الْاِمَامَ‏۔”

“برحق طائفہ کے شیخ اور شریعتِ حقہ کے پرچم کو بلند کرنے والے، ائمہ معصومین(ع) کے بعد فرقہ کے امام اور مذہب و دین سے جو چیز بھی متعلق ہے ان سب میں شیعہ امامیہ کے ستون، اُصول و فروع کے محقق اور معقول و مسموع (جو سنی جائے ) فنون کے تمھذب (تہذیب دینے والے ) شیخ طائفہ علی الاطلاق اور رئیس مذہب جن کی طرف گردنیں جھکتی ہیں۔ انھوں نے تمام علوم اسلامیہ پر کتابیں تصنیف کی ہیں اور وہ ان تمام میں رہنما اور امام ہیں۔”

سبکی نے طبقات الشافیعہ میں اور اسی کی اتباع میں کشف الظنون میں حاجی خلیفہ جلبی نے ان کی تعریف و توصیف کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

“شیخ الطائفہ کسی کے مقلّد نہیں بلکہ مجتہد علی الاطلاق تھے۔ اور شیخ الطائفہ کا تذکرہ کامل ابن اثیر، لسان المیزان، ابن حجر اور تاریخ بدایۃ والنہایۃ ابن کثیر میں بھی ہے۔”

منیر الدین زرکلی کتاب الاعلام جلد۶، ص۸۴ پر فرماتے ہیں:

“ابوجعفر محمد بن الحسن بن الطوسی فقیہ شیعہ اور صاحب تصانیف ہیں۔ خراسان سے بغداد منتقل ہوئے اور چالیس سال وہاں مقیم رہے اور اس کے بعد نجف اشرف ہجرت کی اور مرتے دم تک وہیں پر قیام کیا۔ ان کا کتب خانہ لوگوں کی موجودگی میں کئی بار جلایا گیا۔”

اس کے بعد ان کی ۲۲؍ کتابوں کا ذکر کیا ہے۔

شیخ الطائفہ نے متعدد علما سے روایتیں لی ہیں اور ان کی اکثریت روایات کا مدار پانچ ہستیوں پر ہے:

۱۔ ان میں سب سے زیادہ جلیل القدر ابوعبداللہ شیخ مفیدؒ ہیں۔

۲۔ شیخ ابوعبداللہ الحسین بن عبید اللہ الغضائری۔

۳۔ احمد بن عبدون معروف بابن الحاشر۔

۴۔ ابوالحسین علی بن احمد بن محمد بن ابی جید القمی۔

۵۔ احمد بن محمد بن موسیٰ المعروف بابن الصلت الاہوازی۔

۳۲؍ مشائخ جن سے شیخ الطائفہ نے روایات اخذ کی ہیں ان کا ذکر علّامہ نوری نے اپنی کتاب خاتمۃ المستدرک میں کیا ہے۔ اور آیۃ اللہ بحرالعلوم قدس سرہ نے ان اعلام کے اسامی جمع کئے ہیں جو شیخ الطائفہ کے تلامذہ ہیں ان کی تعداد ۳۰؍ بتلائی ہے۔ شیخ الطائفہ نے مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں تحریر کی ہیں ہم جن میں سے چند مشہور کتابوں کا ذکر کررہے ہیں:

۱۔ الابواب ۲۔ اختیارالرجال ۳۔ الاستبصار فیما اختلف من الاخبار ۴۔ اُصول العقائد ۵۔ الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد ۶۔ الامالی فی الحدیث جس کا نام المجالس بھی ہے ۷۔ البیان فی تفسیر القرآن ۸۔ تلخیص الشافعی فی الاُمّۃ ۹۔ تمہید الاصول ۱۰۔ الجمل والعقود و الخلاف فی الاحکام، جسے مسائل الخلاف بھی کہا جاتا ہے ۱۱۔ العقدۃ فی الاصول ۱۲۔ الغیبۃ ۱۳۔ الفھرست ۱۴۔ المسبوط (فی الفقہ) ۱۵۔ مختصر اخبار المختار بن ابی عبیدہ الثقفی ۱۶۔ مصباح المتہجد فی اعمال السنۃ ۱۷۔ المفصح فی الاُمّۃ ۱۸۔ مقتل الحسین ۱۹۔ تہذیب الاحکام۔

شیخ الطائفہ نے کتاب تہذیب الاحکام اپنے عزیز دوست کی فرمائش پر تالیف کی جیسا کہ مقدمہ کتاب میں وضاحت فرمائی ہے کہ انھوں نے احادیث میں اختلافات، منافات، تنافض اور تضادات کا تذکرہ کیا اور اس کے مقابل میں متفق علیہ احادیث بھی موجود ہیں۔ لوگوں کا ذہن ان اختلافات کی وجہ سے پراکندہ ہے اور وہ ایسی کتاب چاہتے ہیں جو استدلالِ قرآنی اور اخبار متواتر اور احادیثِ مشہورہ پر مشتمل ہو لہٰذا میں نے اپنے استاد کی کتاب مُقْنِعَہ کی شرح کر دی جو اس مقصد کی تکمیل ہے۔ کتاب تہذیب الاحکام میں فقیہ کو وہ تمام احکام مل جاتے ہیں جن کی وہ تلاش کرتا ہے۔ یہ کتاب نہایت جامع اور مانع ہے، یہ کتاب درحقیقت کتاب مقنعہ کی شرح ہے جو شیخ الطائفہ کے اُستاد الشیخ مفیدؒ کی تالیف ہے۔ شیخ طوسی نے ۲۵؍ سال کی عمر سے اس کی تالیف کا کام شروع کیا تھا اور اپنے استاد کی زندگی میں کتاب الطہارۃ سے اوّل الصلاۃ تک مکمل کرلی تھی اور بقیہ کتاب اُن کی وفات کے بعد مکمّل کی۔ یہ کتاب علما کے نزدیک ایک معتبر وثقہ اور منبع ہے اور وہ اس سے استنباط کیا کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ یہ کتاب پہلے دو بڑی ضخیم جلدوں میں ۱۳۱۷ ھ کو طبع ہوئی اور جب اس کے ابواب کو شُمار کیا گیا تو اُن کی تعداد ۳۹۳؍ اور احادیث کی تعداد ۱۳۵۹۰؍ ہے۔

دوبارہ اس کتاب کی طباعت شیخ محمد آخوندی کی تحقیق سے دارالکتب الاسلامیہ نے دس جلدوں میں کی ہے اور یہی کتاب میرے کتب خانے میں موجود ہے۔ اس کتاب کی بہت سے افراد نے شرحیں لکھی ہیں جن میں سے ہم چند کا تذکرہ کررہے ہیں:

۱۔ السیّد محمد صاحب المدارک متوفی  ۱۰۰۹ ھ

۲۔ قاضی نور اللہ جنہیں  ۱۰۱۹ ھ میں شہید کر دیا گیا ان کی شرح کا نام تذہیب الاکمام ہے۔

۳۔ مولیٰ عبداللہ تستری متوفی  ۱۰۲۱ ھ

۴۔ الشیخ محمد بن الحسن بن الشیخ الشہید الثانی متوفی ۱۰۳۰ ھ

۵۔ مولیٰ محمد امین استرا آبادی متوفی درمکہ ۱۰۳۶ ھ

۶۔ مولیٰ عبداللطیف الجامعی تلمیذ شیخ بہائی متوفی ۱۰۵۰ ھ

۷۔ مولیٰ محمد تقی المجلسی الاوّل متوفی ۱۰۷۰ ھ

۸۔ مولیٰ محمد طاہر بن محمد حسین الشیرازی القمی متوفی ۱۰۹۸ ھ ان کی شرح کا نام ہے حجۃ الاسلام

۹۔ محقق شیروانی مجلسی کے داماد متوفی  ۱۰۹۹ ھ

۱۰۔ الشیخ مجلسی الثّانی متوفی   ۱۱۱۱ ھ ان کی شرح کا نام ہے ملاذالاخبار

۱۱۔ السیّد نعمۃ اللہ الجزائری متوفی  ۱۱۱۲ ھ ان کی شرح کا نام ہے مقصود الانام جو ۱۲؍جلدوں میں ہے۔

۱۲۔ المولیٰ عبداللہ بن مجلسی الاوّل

۱۳۔ الشیخ احمد بن اسماعیل جزائری متوفی  ۱۱۴۹ ھ

ان کے علاوہ بہت سے علما نے تہذیب الاحکام پر حواشی بھی تحریر کئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں۔ حاشیہ قاضی نور اللہ شوستری، حاشیہ مولیٰ اسماعیل خواجوئی، حاشیہ مجدد الوحید البہبہائی، حاشیہ مجلسی الثانی، حاشیہ محمد بشیر الگیلانی، حاشیہ آغا جمال الدین خوانساری، حاشیہ شیخ حسن صاحب عوالم، حاشیہ شیخ محمد علی البلاغی۔

پہلی جلد کتاب الطہارۃ پر مشتمل ہے اور شروع ہوتی ہے باب الاحداث الموجبۃ للطہارۃ سے اور اس جلد کا آخری باب ہے باب تلقین المحتضرین، اس جلد میں ابواب کی تعداد ۲۳؍ ہے اور احادیث کی کل تعداد ۱۵۴۱؍ ہے۔

دوسری جلد کتاب الصلاۃ پر مشتمل ہے، پہلے باب کا عنوان ہے باب المسنون من الصلوات اور آخری باب اس جلد میں باب من الزیادات ہے، ابواب کی تعداد ۱۹؍ ہے اور احادیث کی تعداد ۱۵۹۸؍ ہے۔

تیسری جلد باب العمل فی لیلۃ الجمعۃ و یومھا سے شروع ہوتی ہے اور آخری باب الصلاۃ علی الاموات پر ہے، اس جلد میں ابواب کی تعداد ۳۲؍ ہے اور احادیث کی تعداد ۱۰۴۶؍ ہے۔

چوتھی جلد کا آغاز کتاب الزکاۃ سے ہوتا ہے اور پہلا باب ہے ما تجب فیہ الزکاۃ اور آخری باب ہے، الزیادات اس جلد میں ابواب کی تعداد ۷۲؍ ہے اور احادیث کی تعداد ۱۰۵۱؍ ہے۔

پانچویں جلد کا آغاز کتاب الحج سے ہوتا ہے پہلا باب فی وجوب الحج ہے اور آخری باب من الزیادات فی فقہ الحج ہے اس میں ابواب کی تعداد ۲۶؍ ہے اور احادیث کی تعداد ۱۷۷۱؍ ہے۔

چھٹی جلد کا آغاز کتاب المزار من کتاب التہذیب ہے۔

پہلے باب میں رسول اللہؐ کا نسب ان کی تاریخِ ولادت و وفات اور اُن کے قبر کی جگہ کا ذکر ہے اور آخری باب باب اللّقطۃ والضّالّۃ ہے اس میں کل ۹۴؍ابواب ہیں اور احادیث کی تعداد ۱۲۰۳؍ ہے۔

ساتویں جلد کا آغاز کتاب التجارات سے ہوتا ہے اور پہلے باب کا عنوان ہے باب فضل التجارۃ وآدابھا وغیر ذلک مما ینبغی للتّاجر ان یعرفہ و احکام الرِّبا اور آخری باب ہے من الزیادات فی فقہ النکاح۔ اس جلد میں احادیث کی تعداد ۱۹۷۶؍ ہے۔

آٹھویں جلد کا عنوان کتاب الطلاق ہے اور پہلا باب حکم الایلاء ہے اور آخری باب الکفارات ہے، کتاب الطلاق میں ۹؍ ابواب ہیں اور کتاب العتق و التّدبیر و المکاتبۃ میں ۳؍ابواب ہیں اور کتاب الایمان والنذور والکفارات میں ۳؍ابواب ہیں اس طرح اس جلد میں ابواب کی تعداد ۱۵؍ ہے اور احادیث کی کل تعداد ۱۲۰۷ ہے۔

نویں جلد کا عنوان کتاب الصید و الذبائح ہے اور پہلا باب باب الصید و الزکاۃ ہے اور آخری باب باب من الزیادات ہے۔ اس جلد میں کتاب الصید والذبائح، کتاب الوقوف والصدقات، کتاب الوصایا، کتاب الفرائض والمواریث ہے۔ اس میں ابواب کی تعداد ۴۶؍ اور احادیث کی تعداد ۱۴۲۲؍ ہے۔

دسویں جلد کا عنوان کتاب الحدود ہے اور پہلا باب باب حدود الزّنٰی ہے اور آخری باب باب من الزیادات ہے اس جلد میں کتاب الحدود کے ساتھ کتاب الدیات بھی ہے، ابواب کی تعداد ۲۸؍ ہے اور احادیث کی کل تعداد ۱۱۷۷؍ ہے۔

اور آخر میں مقدمہ الکتاب کے عنوان سے مصادر کتاب کا تذکرہ ہے جس سے اس کتاب میں تحقیق و تعلیق کا فریضہ انجام دیا ہے۔ السیّد حسن موسوی خراسانی نے اور تقریباً ۸۴صفحات پر مشتمل شرح مشیخۃ تہذیب الاحکام ہے جسے محمد بن حسن الطوسیؒ نے تحریر فرمایا ہے اور جس میں ۷۷؍ افراد کا تذکرہ کیا ہے اور سیّد حسن موسوی نے ہر شیخ کا تفصیلی احوال حاشیہ میں تحریر کیا ہے۔

شیخ الطائفہ فرماتے ہیں کہ اس کتاب میں ہم نے جو روایات محمد بن یعقوب کلینیؒ سے لی ہیں تو ہمیں اس کی خبر دی ہے شیخ ابوعبداللہ محمد بن محمد النعمانؒ نے ابی القاسم جعفر بن محمد قولویہ سے اور انھوں نے محمد بن یعقوب سے۔

کتاب التہذیب کے بارے میں شیخ الطائفہ نے اس اسلوب کو ملحوظ رکھا ہے کہ ہر باب کے آغاز میں اپنے استاد کا فتویٰ نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس کا استناد آیاتِ قرآنی اور احادیث سے کرتے ہیں اور احادیث بیان کرنے میں ابتداً احادیث صحیحہ و مشہورہ سے کرتے ہیں اور اس کے بعد احادیث معارض اور مخالف کو نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس کی تاویل کا التزام کرتے ہیں۔

پہلی جلد میں تہذیب الاحکام میں معمولاً روایتیں پوری اسناد کے ساتھ درج ہیں اور اکثر روایات اپنے استاد شیخ مفید نے نقل کی ہے۔ باوجود یہ کہ ان کے متقدمین کی کتابیں اور تصنیفات ان کے پیش نظر تھیں لیکن انھوں نے ترجیح دی کہ ہر روایت کو مکمل اسناد کے ساتھ پیش کریں لیکن شیخ مفید کی وفات کے بعد شیخ طوسی نے فیصلہ کیا کہ متقدمین کی کتابوں کو ملحوظِ خاطر رکھیں اور ان سے مراجعہ کریں اور ان کتابوں سے روایات کی تخریج کریں اور اس طرح انھوں نے اپنے اور صاحبانِ کتب کے درمیان وسیلوں کو حذف کر دیا اور اسی وجہ سے کتاب کے آخر میں مشیخہ لکھنے کی طرف توجہ مبذول کی۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسئلہ اسناد میں شیخ طوسی کی روش وہی ہے جو کلینی رازی اور شیخ صدوق کی تھی۔ شیخ طوسی کے عہد میں شیعوں کی بہت سی تالیفات و تصنیفات موجود تھیں اور شیخ طوسی نے اپنی کتاب لکھتے وقت ان سے مراجعہ کیا تھا لہٰذا اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اہم ترین مصادر تہذیب الاحکام کو مرتب کرتے وقت درج ذیل ہیں:

۱۔ جامع ابوجعفر محمد بن یعقوب کلینی

۲۔ نوادر احمد بن محمد بن عیسیٰ اشعری

۳۔ مؤلفات فضل بن شاذان نیشاپوری

۴۔ نوادر ابراہیم بن ہاشم

۵۔ مشیخۂ حسن بن محبوب

۶۔ کتب حسین بن سعید اھوازی

۷۔ کتب محمد بن علی بن محبوب اشعری

۸۔ کتب محمد بن حسن الصفار

۹۔ کتب سعد بن عبداللہ اشعری

۱۰۔ کتب احمد بن محمد بن سعید بن عقدہ

۱۱۔ کتب جعفر بن محمد بن قولویہ

۱۲۔ نوادر محمد بن ابن ابی عمیر

۱۳۔ جامع یونس بن عبدالرحمن

۱۴۔ کتب احمد بن محمد بن خالد برقی

۱۵۔ کتب علی بن حسن بن فضال

۱۶۔ کتب سہل بن زیاد آدمی

۱۷۔ کتب محمد بن احمد بن یحییٰ اشعری

۱۸۔ کتب محمد بن حسن بن احمد بن الولید

یہ تمام افراد تشیع کے بزرگ ترین اصحاب اور نامور افراد تھے اور گویا کہ مذہب حقّہ کے ستون کی حیثیت رکھتے ہیں اور شیخ الطائفہ کی کتاب ان حضرات کی تالیفات کی آئینہ دار ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button