کتب کا تعارف

کتاب الاستبصار (فیما اختلف من الاخبار) کا تعارف

یہ کتب اربعہ میں چوتھی اہم کتاب ہے جس پر مذہبِ شیعہ کا دار و مدار اور انحصار ہے۔ اس کتاب کے مؤلف شیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن الحسن الطوسی ہیں جن کی ولادت ۳۸۵ھ مطابق ۹۹۵ء اور وفات ۴۶۰ھ میں مطابق ۱۰۶۷ء ہوئی ہے۔

ماہِ رمضان المبارک میں طوس میں پیدا ہوئے۔ یہی سال ہارون بن موسیٰ تلعبکری کی وفات کا ہے۔ یہ شیخ صدوق کی وفات کے چار سال بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے بغداد کی طرف ہجرت کی جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا اور اعلام شیعہ وہاں موجود تھے۔ آپ ۴۰۸ھ میں ۲۳ سال کی عمر میں وہاں پہنچے اور اس وقت مذہبِ جعفری کی زعامت اور قیادت شیخ اُمّت اور مذہبِ شیعہ کے نمایاں فرد محمد بن محمد بن النعمان کے پاس تھی جو شیخ مفید کے نام سے موسوم ہیں، آپ سائے کی طرح اُن کے ساتھ رہے اور ان سے استفادہ کرتے رہے اور ان کے شیخ حسین بن عبید اللہ ابن الغضائری متوفی ۴۱۱ھ کا زمانہ پایا اور شیخ الطائفہ کے اساتذہ و مشائخ میں نجاشی کا نام بھی آتا ہے۔

شیخ مفید کی وفات حسرت آیات کے بعددین کی زعامت اور مذہب کی قیادت شیخ مفید کے شاگردِ رشید علم الہدیٰ سیّد مرتضیٰ تک منتقل ہوگئی تو شیخ الطائفہ نے ان کی خدمت میں رسائی پالی اور ان کے زیر سایہ نبوغ علمی میں اضافہ کرتے رہے وہ ہر ماہ اُن کو ۱۲؍ دینار کا وظیفہ دیا کرتے تھے اور آپ نے ۲۳ سال اُن کی وقتِ وفات تک یعنی ۴۳۶ھ تک ان کی خدمتِ اقدس بابرکت میں بسر کیے۔ اپنے شیخ اور اُستاد شیخ مفید کے انتقالِ پُرملال کے بعد اب زعامتِ شیعیت اور قیادت اُمت شیخ الطائفہ تک منتقل ہوئی اور آپ شیعوں کے پرچم بلند اور شریعت کے مینار قرار پائے اور کرخ میں آپ کا کاشانہ اُمّت کا ہادی اور مرجع تھا اور اطراف و اکناف سے لوگ مشکلات کے حل اور مسائل دریافت کرنے تشریف لایا کرتے تھے اور علما و افاضل اور تلامذہ کا تانتا بندھا رہتا تھا جو مختلف شہروں اور ملکوں سے آپ کی خدمتِ اقدس میں رسائی حاصل کرتے تھے آپ کے تلامذہ اور مجتہدین شیعہ کی تعداد تین سو کے لگ بھگ تھی۔ اس میں سے تمام افراد نے آپ کی عظمت و جلالت اور علمی تفوّق کا اعتراف کیا ہے اسی وجہ سے خلیفۂ وقت القائم بامراللہ۔ عبداللہ۔ ابن القادر باللہ۔ احمد نے کرسیِ کلام اور افادہ پر آپ کو متمکن کیا۔ اس عصر اور عہد میں اس کرسی کی نہایت اہمیت تھی اور شرف تھا یہ کرسی صرف اسی کو مل سکتی تھی جو اپنے اقران اور معاصرین میں علم کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہو اور اس دور میں جملہ مذاہب میں آپ سے زیادہ جلیل القدر اور عظیم المنزلت کوئی اور شخصیت نہیں تھی۔

جب سلجوقیوں کا پہلا بادشاہ طغرل بیگ بغداد آیا تو اس کے دور میں شیعہ سنی فسادات نے جنم لیا اور شیعوں کے کتب خانوں کو جلایا گیا اور بغداد کا سب سے بڑا کتب خانہ جو ابونصر سابور بن اردشیر وزیر بہائو الدولہ بویہی نے کرخ میں ۴۸۱ھ میں بیت الحکمہ کے طرز پر بنایا تھا جسے ہارون رشید نے بنوایا تھا اسے بھی خاکستر کر دیا گیا اور فتنہ اِتنا بڑھا کہ شیخ الطائفہ کا کتب خانہ جلایا گیا اور اُن کی کرسی علم کو بھی جلا ڈالا۔

ابن الجوزی  ۴۴۸ھ کے حوادثات میں لکھتے ہیں: ھرب ابوجعفر الطوسی و نھب دارہ ابوجعفر نے راہِ فرار اختیار کی اور اُن کے گھر کو لوٹ لیا گیا پھر  ۴۴۹ھ کے حوادث کے ذیل میں تحریر کیا:

”وَ فِيْ صَفَرِ هٰذِهِ السَّنَةِ كُبِسَتْ دَارُ أَبِيْ جَعْفَرٍ الطُّوْسِيِّ مُتَكَلِّمِ الشِّيْعَةِ بِالْكَرْخِ، وَ أُخِذَ مَا وَجِدَ مِنْ دَفَاتِرِهٖ وَ كَرْسِيٌّ كَانَ يَجْلِسُ عَلَيْهِ لِلْكَلَامِ“‏

”اور اسی سال صفر کے مہینے میں ابوجعفر طوسی جو کرخ میں متکلم شیعہ تھے اُن کے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا اور ان کے دفاتر میں جو کچھ تھا اُسے لوٹ لیا گیا اور وہ کرسی بھی لوٹی گئی جس پر وہ کلام کے لیے براجمان ہوتے تھے۔“

اس عظیم حادثے کے بعد شیخ الطائفہ کا بغداد میں رہنا دشوار ہوگیا، لہٰذا اُنہوں نے نجفِ اشرف کا قصد کیا اور ہجرت کر کے وہاں تشریف لے گئے اور بابِ مدینۃ العلم کے زیر سایہ مرکز علم کی بنیاد ڈالی جو اس وقت سے آج تک مرکزِ علم و فضل بنا ہوا ہے۔

متقدمین میں لفظ شیخ سے مراد شیخ طوسی ہوتے تھے البتہ شیخ مرتضیٰ انصاری کے بعد شیخ سے اُنھیں مراد لیا جاتا ہے اور شیخ الطائفہ سے مراد شیخ طوسی ہیں۔ آپ نے ہی اجتہاد اور استدلال کے طریق کو واضح کیا۔ جب محقق حلّی نے ”شرائع الاسلام“ تالیف کی تو شیخ الطائفہ کی کتاب ”النّہایۃ“ اُن کی بحث و تمحیص کا محور تھی۔ شیخ جمال الدین ابومنصور الحسن بن یوسف الحلّی متوفی ۷۲۶ھ جو علّامہ کے نام سے مشہور ہیں۔ تمام علوم و فنون میں جن کا شہرہ چار دانگ عالم میں پہنچا ہوا ہے وہ شیخ الطائفہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

”شَيْخُ الْاِمَامِيَّةِ وَ وَجْهُهُمْ قَدَّسَ اللهَ رُوْحَهٗ، رَئِيْسُ الطَّائِفَةِ، جَلِيْلُ الْقَدْرِ، عَظِيْمُ الْمَنْزِلَةِ، ثِقَةٌ، صَدُوْقٌ، عَيْنٌ، عَارِفٌ بِالْاَخْبَارِ وَ الرِّجَالِ وَ الْفِقْهِ وَ الْاُصُوْلِ وَ الْكَلَامِ وَ الْاَدَبِ، جَمِيْعُ الْفَضَائِلُ تُنْسَبُ اِلَيْهِ، صَنَّفَ فِيْ كُلِّ فُنُوْنِ الْاِسْلَامِ، وَ هُوَ الْمُهَذِّبُ لِلْعَقَائِدِ فِي الْاُصُوْلِ وَ الْفُرُوْعِ، اَلْجَامِعُ لِكَمَالَاتِ النَّفْسِ فِي الْعِلْمِ وَ الْعَمَلِ.“

”شیخ امامیہ اور ان کے پیشوا اور رئیس طائفہ، جلیل القدر، عظیم المنزلت، ثقہ اور نمایاں، صدوق اخبار و احادیث اور رجال اور فقہ اور اُصول اور کلام اور ادب کے حقیقی عارف تمام فضائل کی نسبت انھی کی جانب ہے۔ انھوں نے اسلام کے تمام فنون پر کتابیں تحریر کی ہیں۔ انھوں نے عقائد میں اُصول و فروع کی تہذیب کی ہے اور وہ علم و عمل کے اعتبار جملہ کمالات نفسانی کے جامع ہیں۔“

حجتِ کبیر اور عالم عظیم، علوم اہل بیتؑ کے زندہ کرنے والے شیخ محمد باقر مجلسی صاحب بحارالانوار متوفی   ۱۱۱۱ھ اپنی کتاب الوجیزۃ میں شیخ الطائفہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

” فَضْلُہٗ وَ جَلَالَتُہٗ اَشْہَرُ مِنْ اَنْ یَّحْتَاجَ اِلٰی الْبَیَانِ۔“

”شیخ الطائفہ کی فضیلت اور جلالت اتنی مشہور ہے کہ کسی بیان کی محتاج نہیں۔“

اِسی طرح ہر دور میں علما اور محققین نے شیخ الطائفہ کی تصانیف کو سر آنکھوں پر رکھا اور اُن سے استفادہ کرتے رہے اور انھیں سراہتے رہے۔ ان کی کتاب الاستبصار فیما اختلف من الاخبار زمانۂ تالیف سے لے کر آج تک احکام شرعیہ کے استنباط کا مدار رہی ہے۔ اس کے دو حصے عبادات پر مشتمل ہیں اور تیسرے حصے میں دیگر ابوابِ فقہ موجود ہیں جن میں عقود ایقانات اور حدود و دیات کے احکام ہیں۔ خود شیخ الطائفہ نے اس کتاب کی احادیث کی تعداد ۵۵۱۱؍ لکھی ہے اور فرمایا:

”حَصَرْتُھَا لِئَلَّایَقَعَ فِیْھَا زِیَادَۃٌ وَ النُّقْصَانُ“

”میں نے خود ان کا شمار کیا ہے تاکہ ان احادیث کی تعداد میں کمی اور زیادتی نہ ہونے پائے۔“

یہ کتاب مطبوعہ جعفریہ لکھنؤ میں ۱۳۰۷ھ کو طبع ہوئی اور دوسری مرتبہ ۱۳۱۷ھ میں نجف اشرف میں اور پھر تیسری بار نجف اشرف میں ۱۳۷۵ھ کو طبع ہوئی اور شیخ الطائفہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ مکتبہ علّامہ شیخ ہادی آل کاشف الغطا میں نجف اشرف میں موجود ہے۔ اور اس کی اٹھارہ شرحیں موجود ہیں جن کی طرف علّامہ السیّد محمد صادق آل بحرالعلوم نے ”الفہرست“ کے مقدمے میں اشارہ کیا ہے:

۱۔ المولیٰ محمد امین بن محمد شریف استر آبادی متوفی  ۱۰۴۱ ھ

۲۔ سیّد الفلاسفہ میر محمد باقر بن الشمس الدین محمد حسینی مشہور بہ میرداماد  ۱۰۴۱ھ

۳۔ الفاضلہ حمیدہ بنت مولیٰ محمد شریف الرویدشتی متوفاۃ  ۱۰۷۸ھ

۴۔ السیّد میر محمد صالح بن عبدالواسع الخواتون آبادی متوفی  ۱۱۱۶ ھ

۵۔ المولیٰ عبدالرشید بن مولیٰ نور الدین الشستری متوفی حدود  ۱۰۸۷ھ

۶۔ السیّد عبدالرضا بن عبدالحسین معاصر محدث نوری

۷۔ العلامہ المولیٰ عبداللہ بن الحسین تستری متوفی  ۱۰۲۱ھ

۸۔ العلامہ السیّد عبداللہ بن نور الدین الجزائری تستری متوفی ۱۱۷۳ھ

۹۔ العلامہ شیخ عبدالطیف بن شیخ نور الدین علی الجامعی العاملی متوفی ۱۰۵۰ھ

۱۰۔ علّامہ السیّد میر شرف الدین علی بن حجۃ اللہ الشولستانی متوفی ۱۰۶۰ھ

۱۱۔ الشیخ زین الدین علی بن سلیمان (اُم الحدیث) البحرانی متوفی ۱۰۶۴ھ

۱۲۔ السیّد ماجد بن السیّد ہاشم جد حفصی البحرانی متوفی  ۱۰۲۱ھ

۱۳۔ المحقق مقدس السیّد محی بن الحسن الاعراجی الکاظمی صاحب المحصول متوفی ۱۲۲۷ھ

۱۴۔ الشیخ الجلیل محمد بن الحسن بن زین الدین الشہید الثانی العاملی المتوفی بمکہ ۱۰۳۰ھ

۱۵۔ علّامہ میرزا محمد بن علی بن ابراہیم استر آبادی الرجالی متوفی ۱۰۲۸ھ

۱۶۔ العلامہ الفقیہ السیّد محمد بن علی بن الحسین الموسوی العاملی صاحب المدارک متوفی ۱۰۰۹ھ

۱۷۔ الفقیہ المحدث الجزائری السیّد نعمۃ اللہ بن عبداللہ الموسوی التستری المتوفی ۱۱۱۲ھ

۱۸۔ السیّد یوسف الخراسانی جن کی تعلیقات ۱۰۳۰ میں لکھی گئیں۔

الاستبصار دارالکتب الاسلامیہ تہران، بازار سلطانی سے چار جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔

پہلی جلد میں ۵۰۵ صفحات ہیں اور اس کا آغاز کتاب الصلاۃ سے ہوتا ہے جس کے ذیل میں ابواب الصلاۃ فی السفر، ابواب المواقیت، ابواب القبلۃ، ابواب الاذان و الاقامہ، ابواب کیفیۃ الصّلاۃ من فاتحتھا الی خاتمتھا، ابواب الرکوع و السجود، ابواب القنوت و احکامہ، ابواب السھو و النسیان، ابواب ما یجوز الصلاۃ فیہ و ما لایجوز من اللباس والمکان، ابواب ما یقطع الصلاۃ و ما لایقطعھا، ابواب الجمعۃ و احکامھا، ابواب الجماعۃ و احکامھا، ابواب الصلاۃ فی العیدین، ابواب صلاۃ الکسوف، ابواب الصلاۃ علی الاموات اور ذیلی ابواب کے ساتھ کل ۳۰۲ ابواب ہیں جن میں احادیث کی تعداد ۱۸۸۵ ہے۔

دوسری جلد میں ۳۴۹ صفحات ہیں اور آغاز کتاب الزکاۃ سے ہوتا ہے ا ور اس میں کتاب الصیام اور کتاب الحج بھی شامل ہے۔

ابواب زکوٰۃ الفطرۃ، ابواب ما ینقض الصیام، ابواب احکام المسافرین، ابواب الاعتکاف، ابواب صفۃ الاحرام، ابواب ما یجب علی المحرم اجتنابہ، ابواب ما یلزم المحرم من الکفارات، ابواب الطّواف، ابواب السّعی، ابواب الذّبح، ابواب الحلق، ابواب رمی الجمرات، ابواب تفصیل فرائض الحج، ابواب ما مختصّ النّساء من المناسک، ابواب الزّیارات، ابواب العمرۃ نمایاں ہیں اور ذیلی ابواب کی کل تعداد ۲۲۹ ہے اور احادیث کی تعداد ۱۱۹۶ ہے۔

تیسری جلد میں صفحات کی تعداد ۳۹۰ ہے۔ آغازِ کتاب الجہاد سے ہوتا ہے اور اس میں کتاب الدّیون، کتاب الشہادات، کتاب القضایا و الاحکام، کتاب المکاسب، کتاب البیوع، کتاب النکاح اور کتاب الطلاق شامل ہے۔

نمایاں ابواب میں ابواب المتعۃ، ابواب ما احلّ اللہ العقد علیہم و حرّم، ابواب الرّضاع، ابواب عقود علی الاماء، ابواب الشّہود، ابواب اولیاء العقد، ابواب یرد منہ النکاح، ابواب الایلاء، ابواب الظّہار، ابواب الطّلاق، ابواب العدد اور ابواب التّعانی ہے۔ ذیلی ابواب کی تعداد ۳۷۷؍ ہے اور اس کتاب میں احادیث کی تعداد کل ۱۳۴۷ ہے۔

چوتھی جلد میں صفحات کی تعداد ۳۵۶ ہے اور آغازِ کتاب کتاب العتق سے ہوتا ہے جس میں دو ابواب ہیں، ابواب التّدبیر اور ابواب المکاتبین، کتاب الایمان و النّذور و الکفارات اور اس میں ابواب ہیں ابواب النّذور اور ابواب الکفارات، کتاب الصّید والذّبائح جس میں دو ابواب ہیں ابواب صید السّمک اور ابواب العید، کتاب الاطعمۃ و الاشربۃ اور کتاب الوقوف والصّدقات، کتاب الوصایا اور کتاب الفرائض اور کتاب الحدود جس میں ابواب القذف، ابواب شرّ الخمر، ابواب السّرقۃ، کتاب الدّیات ہے جس میں ابواب دیات الاعضاء ہے، نیز ذیلی ابواب کی تعداد ۲۹۹ ہے اوراس میں احادیث کی کل تعداد ۱۱۳۰ ہے۔

شیخ الطائفہ نے کتاب الاستبصار کے آخر میں سند کتاب کے عنوان سے ان حضرات کے اسماء تحریر کیے ہیں جن سے انھوں نے احادیث نقل کی ہیں اور اس پر سیّد حسن موسوی خراسانی نے شرح لکھی ہے اور تعلیق کی ہے۔

سب سے پہلی سند یہ ہے:

عن محمد بن يعقوب الكليني رحمه اللّه فقد أخبرنا به الشيخ‏ المفيد أبو عبد اللّه بن محمد بن محمد بن النعمان الحارثي البغدادي عن أبي القاسم جعفر بن محمد بن قولويه عن محمد بن يعقوب، و أخبرنا به أيضا الحسين بن عبيد اللّه عن أبي غالب أحمد بن محمد الزراري و أبي محمد هارون بن موسى التلعكبري و أبي القاسم جعفر بن محمد بن قولويه و أبي عبد اللّه أحمد بن أبي رافع.الصيمري و أبي المفضل الشيباني و غيرهم كلهم عن محمد بن يعقوب و أخبرنا به أيضا أحمد بن عبدون المعروف بابن الحاشر رحمة اللّه.عليه عن أحمد بن أبي رافع و أبي الحسين عبد الكريم بن عبد اللّه بن نصر البزاز بتنّيس و بغداد عن أبي جعفر محمد بن يعقوب الكليني جميع مصنفاته و أحاديثه سماعا و إجازة ببغداد بباب الكوفة درب السلسلة سنة سبع و عشرين و ثلاثمائة۔“

یہ سلسلہ اجازت و روایت ۳۲۷ھ میں انجام پذیر ہوا۔

آخر میں شیخ الطائفہ نے کتاب کی ترتیب اور اس کی مجلدات کے بارے میں ذکر کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

”میں نے اس کتاب کو تین اجزامیں منقسم کیا ہے۔ جزءِ اوّل اور جزءِثانی کا تعلق عبادات سے ہے اور جزءِ ثالث معاملات سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے علاوہ دیگر فقہی ابواب شامل ہیں۔ پہلی جلد میں تین سو ابواب ہیں جو ۱۸۹۹؍ احادیث پر مشتمل ہے ا ور جلد دوّم ۲۱۷ ابواب پر مشتمل ہے جن میں احادیث کی تعداد ۱۱۷۷؍ ہے اور جلد سوّم ۳۹۸ ابواب پر مشتمل ہے جن میں احادیث کی کل تعداد ۲۴۵۵؍ ہے یعنی کتاب کے ابواب ۹۲۵ ہیں اور احادیث کی کل تعداد ۵۵۱۱ ہیں۔ میں نے اِن کا شمار اس لیے کیا ہے کہ تعداد میں کمی اور بیشی واقع نہ ہونے پائے۔“

بعد میں جب احادیث کو شمار کیا گیا تو تعدادِ احادیث ۵۵۵۸ بنتی ہے یعنی ۴۷؍ احادیث کا فرق آتا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ بعض احادیث کو شیخ الطائفہ نے مکرّر بیان کیا ہے اور انھیں الگ شمار نہیں کیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button