شمع زندگی

42۔ بے صبری

لَا يَخِنَّنَّ اَحَدُكُمْ خَنِيْنَ الْاَمَةِ عَلَى مَا زُوِيَ عَنْهُ مِنْهَا۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۷۱)
تم میں سے کوئی شخص دنیا کی کسی چیز کے روک لیے جانے پر لونڈیوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔

انسان جسم و اعضاء کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں۔ یہ جسم کسی انسان کو بلند یا پست نہیں کرتا بلکہ حقیقت میں انسان کی فکر اور اس کا عمل ہے جو اسے دوسرے انسانوں سے بڑھاتا یا گھٹاتا ہے۔ اس فرمان میں امیرالمؤمنینؑ نے ایک کمزور انسان کی مثال دی کہ لونڈی اور کنیز سے اگر دنیا کی چھوٹی سی چیز لے لی جائے یا اسے دی نہ جائے اور اس سے روک لی جائے تو وہ آہ و زاری اور گریہ و نالہ کرنے لگتی ہے گویا اس سے سب کچھ چھن گیا۔

امیرالمؤمنینؑ یہاں انسانوں کو ان کا مقام و منزلت یاد دلاتے ہیں اور انھیں اس کی بلندی سے آگاہ کرتے ہیں کہ دنیا کی حقیقت کو پہچانو، یہ ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے اور اگر اس کی کوئی چیز رہنے والی ہو بھی تو آپ کو ہمیشہ نہیں رہنا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک چیز آج آپ سے روک لی گئی ہو اور کل اس سے بہتر آپ کو مل جائے۔ اس لئے دنیا کی کوئی شے روک لی جائے تو کنیز کی طرح گریہ مت کرو، خود کو پریشانیوں میں مبتلا نہ کرو، اپنے آپ کو عملاً گھٹیا ثابت نہ کرو بلکہ جو ملا ہے اس پر راضی رہو اور اپنی سوچ کو بلند رکھو۔ یہی فکر اگر کسی کے ذہن نشین ہو جائے تو زندگی پریشانیوں اور غموں سے محفوظ ہو جائے گی۔

بہت سے لوگ ماضی میں نہ ملنے والی اشیاء یا ہاتھ سے چلی جانے خوشیوں کو یاد کر کے روتے رہتے ہیں یا مستقبل کی سوچوں سے پریشان اور خوفزدہ رہتے ہیں۔ ماضی کا رونا اور مستقبل کے خوف کو چھوڑ کر آج کو سنوارنا چاہئے اس طرح ماضی کی کمی بھی دور ہو جائے گی اور آئندہ کے حالات بھی بدل جائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button