شمع زندگی

323۔ خوشامد و حسد

اَلثَّنَاءُ بِاَكْثَرَ مِنَ الْاِسْتِحْقَاقِ مَلَقٌ وَ التَّقْصِيْرُ عَنِ الْاِسْتِحْقَاقِ عِيٌّ أَوْ حَسَدٌ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۳۴۷)
کسی کو اُس کے حق سے زیادہ سراہنا خوشامد ہے اور جس تعریف کا حقدار ہے اُس میں کمی کوتاہ بیانی و حسد ہے۔

معاشرے میں اچھائیوں کی طرف راغب کرنے کا ایک ذریعہ اچھے کام کرنے والوں کی تعریف کرنا ہے۔ کوئی شخص اچھا کام کرتا ہے تو اس کی تعریف خود ایک اچھا اور پسندیدہ عمل ہے۔ اس طرح اچھائی کرنے والے کی تشویق ہوگی اور اس کی ہمت بڑھے گی کہ کار خیر کے قدردان موجود ہیں ور اس کے اچھائی کے جذبے میں اضافہ ہوگا اور اس راہ میں مشکلات کو برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوگی۔

دوسرا یہ کہ عام لوگ دیکھیں گے کہ اچھے کام کرنے والے اور نیک صفات لوگوں کی تعریف اور عزت ہوتی ہے تو انھیں بھی اچھے کاموں کا شوق پیدا ہوگا۔ اور یہی چیز معاشرے میں اچھائیوں میں اضافے کا سبب بنے گی۔ اس لیے آج کل اچھے کام کرنے والوں کو انعامات و القابات سے نوازا جاتا ہے اور ان کے اعزاز میں اجلاس اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ معاشرے کی حق شناسی و جذبہ قدر دانی کی نشانی ہے۔

البتہ جو اچھے کام کرتے ہیں انھیں تعریف و توصیف اور انعام و اکرام سے بالاتر ہو کر کام کرنے چاہئیں۔ ان کا مقصد خدمت ہوگا تو تعریف نہ کرنے یا بعض اوقات مذمت کرنے پربھی ان کے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ اگر کوئی کسی کے قابل تعریف و ستائش ہونے پر تعریف نہیں کرتا تو اُس نے کم ظرفی کا ثبوت دیا ہے۔ اب یہ تعریف نہ کرنا بعض اوقات اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اسے اچھے کام کی اہمیت کا احساس ہی نہیں یا خود تعریف کے اثر سے نا آشنا ہے یا پھر تعریف نہ کرنے کی وجہ حسد و کینہ ہوتی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں تعریف نہ کرنے والے کی مذمت کی گئی ہے۔

امیر المومنینؑ نے اس فرمان میں تعریف کی حدود بیان کی ہیں کہ نہ بڑھاؤ اور نہ گھٹاؤ۔ حد سے بڑھ کر تعریف کو خوشامد و چاپلوسی کہا ہے اور اس کے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔ آدمی مغرور ہو جاتا ہے، ہر کسی سے تعریف کی امید رکھتا ہے اور اگر کسی عہدے پر ہے تو تعریف کو اپنا حق سمجھتا ہے اور تعریف نہ کرنے پر ماتحتوں سے ناانصافی کرتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button