خطبہ (۱۴۴)
(۱٤٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۴۳)
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّمَاۤ اَنْتُمْ فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِیْهِ الْمَنَایَا، مَعَ كُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ، وَ فِیْ كُلِّ اَكْلَةٍ غَصَصٌ! لَا تَنَالُوْنَ مِنْهَا نِعْمَةً اِلَّا بِفِرَاقِ اُخْرٰی، وَ لَا یُعَمَّرُ مُعَمَّرٌ مِّنْكُمْ یَوْمًا مِّنْ عُمُرِهٖ اِلَّا بِهَدْمِ اٰخَرَ مِنْ اَجَلِهٖ، وَ لَا تُجَدَّدُ لَهٗ زِیَادَةٌ فِیْۤ اَكْلِهٖۤ اِلَّا بَنَفَادِ مَا قَبْلَهَا مِنْ رِّزْقِهٖ، وَ لَا یَحْیَا لَهٗۤ اَثَرٌ اِلَّا مَاتَ لَهٗ اَثَرٌ، وَ لَا یَتَجَدَّدُ لَهٗ جَدِیْدٌ اِلَّا بَعْدَ اَنْ یَّخْلَقَ لَهٗ جَدِیْدٌ، وَ لَا تَقُوْمُ لَهٗ نَابِتَةٌ اِلَّا وَ تَسْقُطُ مِنْهُ مَحْصُوْدَةٌ، وَ قَدْ مَضَتْ اُصُوْلٌ نَّحْنُ فُرُوْعُهَا، فَمَا بَقَآءُ فَرْعٍ بَعْدَ ذَهَابِ اَصْلِهٖ!.
اے لوگو! تم اس دنیا میں موت کی تیر اندازیوں کا ہدف ہو (جہاں) ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو ہے اور ہر لقمہ میں گلو گیر پھندا ہے۔ جہاں تم ایک نعمت اس وقت تک نہیں پاتے جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور تم میں سے کوئی زندگی پانے والا ایک دن کی زندگی میں قدم نہیں رکھتا جب تک اس کی مدتِ حیات میں سے ایک دن کم نہیں ہو جاتا اور اس کے کھانے میں کسی اور رزق کا اضافہ نہیں ہوتا جب تک پہلا رزق ختم نہ ہو جائے اور جب تک ایک نقش مٹ نہ جائے دوسرا نقش ابھرتا نہیں اور جب تک کوئی نئی چیز کہنہ و فرسودہ نہ ہو جائے دوسری نئی چیز حاصل نہیں ہوتی اور جب تک کٹی ہوئی فصل گر نہ جائے نئی فصل کھڑی نہیں ہوتی۔ آباؤ اجداد گزر گئے اور ہم انہی کی شاخیں ہیں۔ جب جڑ ہی نہ رہی تو شاخیں کہاں رہ سکتی ہیں۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
وَ مَاۤ اُحْدِثَتْ بِدْعَةٌ اِلَّا تُرِكَ بِهَا سُنَّةٌ، فَاتَّقُوا الْبِدَعَ، وَ الْزَمُوا الْمَهْیَعَ، اِنَّ عَوَازِمَ الْاُمُوْرِ اَفْضَلُهَا، وَ اِنَّ مُحْدَثَاتِهَا شِرَارُهَا.
کوئی بدعت وجود میں نہیں آتی، مگر یہ کہ اس کی وجہ سے سنت کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ بدعتی لوگوں سے بچو، روشن طریقہ پر جمے رہو۔ پرانی باتیں ہی اچھی ہیں اور (دین میں) پیدا کی ہوئی نئی چیزیں بد ترین ہیں۔