مقالات

بعثت انبیاء علیہم السلام کے مقاصد۔

مقدمه

انسانی معاشرے میں جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے ہیں ان سب نے لوگوں کو توحید خدا، اصلاح نفس اور اصلاح معاشرے وغیرہ کی دعوت دی ہے۔ کچھ لوگوں نے ان کی دعوت الہیہ پر لبیک کہا اور کچھ لوگوں نے ان کی مخالفت کی حتی یہ کہ ان کے قتل کے درپے ہوگئے۔

ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانوں کو پیغمبروں کی کیا ضرورت تھی؟ آیا خود انسانوں کے پاس عقل جیسی نعمت نہیں تھی جیسے باطنی پیغمبر سے تعبیر کیا گیاہے؟

انسانی جامع میں وجود پیغمبر کی ضرورت کے لیے تین نکتوں کی طرف توجہ ضروری ہے:

۱۔ اسلامی فکر کے مطابق اس جہان مادی میں جو کچھ بھی ہے اللہ تعالی کی صفات کا جلوہ ہے اور اس کی صفات میں سے ایک صفت اللہ تعالی کا حکیم ہونا ہے۔ حکیم ایسی ذات کو کہا جاتا ہے جس کا ہر کام کسی خاص ہدف و حکمت کے تحت انجام پائے۔[1]

۲۔ دینی اعتقاد کے مطابق عالم مادی دو حصوں میں تقسیم ہیں: (۱) غیب، (۲) شہود۔

عالم شہود سے مراد مادی جہان ہے کہ جو انسان کے لیے قابل درک ہے۔

عالم غیب سے مراد ایک ایسا جہان ہے جو بشر کے درک سے باہر ہے۔ انسان کی عقل اس کو درک نہیں کرسکتی۔ اس بنا پر عالم غیب پر ایمان لانا متقین کے اوصاف میں شمار کیا گیا ہے:

       الذین یومنون بالغیب[2]

یعنی جولوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں

۳۔ اسلامی نظریہ کے مطابق انسان کی زندگی کے دو مرحلہ تصور کئے گئے ہیں:

الف) دنیاوی زندگی

انسان کی زندگی کا یہ مرحلہ اس کی پیدایش سے شروع اور اس کی وفات پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس مرحلہ میں انسان مختار ہے جو چاہیے انجام دے۔ لیکن جو بھی عمل یہاں انجام دے گا اس کا اثر آخرت میں ظاہر ہوگا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وان لیس للانسان الا ماسعی و ان سعیہ سوف یری[3]

اور انسان کے لیے صرف انتا ہی ہے جتنی اس نے کوشش کی ہے۔

ب) اخروی زندگی

یہ مرحلہ وفات سے تا ابد ہے۔ البتہ انسان کی سعادت و خوشبختی آخرت میں دنیا کے ساتھ وابستہ ہے۔ یعنی آخرت میں انسان کی سعادت و بلندی دنیا کی سعی و تلاش کا نتیجہ ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلَالٍ وَعُيُونٍ وَفَوَاكِهَ مِمَّا يَشْتَهُونَ كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ[4]

بے شک متقین گھنی چھاؤں اور چشموں کے درمیان ہوں گئے اور ان کی خواہش کے مطابق پھل ہوں گے۔ اب اطمینان سے کھاؤ پیو ان اعمال کی بناپر جو تم نے انجام دیئے ہیں۔

اگر آخرت کی سعادت اسی دنیا سے وابستہ ہے تو سوال یہ ہے کہ آیا آخرت کی زندگی جاودانی ہے یا فانی؟ اُس زندگی کو بہتر بنانے کے یے کون سی چیزوں کی ضرورت ہے؟ وہ چیزیں کیسے اور کتنی مقدار تک مہیا کریں؟ کون کون سی چیزیں اُس جہانی کے یے مفید ہیں؟

جو شخص اس قسم کے سوالوں کے جواب میں کوشاں ہے۔ اس کو چاہیے کہ آخرت. اور پیغمبروں کی بعثت کی معرفت حاصل کرے۔

 

بعثت انبیاءکی ضرورت .

یہ مسئلہ نبوت کے مسائل میں سے ہے جسے ایک  ایسے برھان کے ذریعے ثابت کرنا ہو گاکہ جوچند مقدمات  پر مشتعمل ہے .

پہلا مقدمہ :

انسان کی خلقت کا ہدف یہ ہے کہ وہ اپنے مختار ہونے کے ساتھ اعمال کے ذریعے راہ کمال کو انتھائی کمال تک طے کرے  اور خدا کا ارادہ بھی انسان کی سعادت اور اس کے اعمال سے متعلق ہے لیکن چونکہ یہ سعادت اختیاری افعال انجام دئے بغیر معیسر نہیں ہو سکتی ہے

دوسرا مقدمہ :

یہ ہے که انسان  غورو فکر کے ذریعے انتخاب کرے اور انسان اسی صورت میں غور وفکر کے ساتھ انتخاب کرسکتا ہے جب ہدف اور اس تک پہچنے والے راستہ کو اچھی طرح جانتا ہو اور اس کے فرازو نشیب  سے پوری طرح آگاہ ہو لہذا حکمت الھی کا تقاضا یہ ہے کہ اسی  معرفت کےحصول کیلئے  ضروری وسائل وامکانات بشر کے اختیا ر میں قرار دے .

تیسرا مقدمہ :

انسانوں  کی وہ معمولی معرفت جو حس وعقل کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے اگرچہ انسانی ضروریات کو پورا  کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے لیکن حقیقی سعادت  اور کمال تک  پہنچانے کیلئے کافی نہیں ہے لهذا کوئی ایسا  راسته هونا چایے جو انسان کو کمال کی بلندی تک پهنچا دے۔ ورنه انسان کی خلقت کا ہدف لغو هو گا .

ان مقدمات کی بدولت ہم یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ انسان کو راہ کمال تک پہنچنے کیلئے  انبیاء کی سیرت پر عمل  کرنا  پڑھے گا۔ تاکہ انسان اپنے هدف  میں کامیاب  ھو سکے ۔[5]

اہداف بعثت

 انسان فطری طور پر خدا شناس پیدا ہوتا ہے جیسا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

کل مولود یولد علی الفطرۃ

لیکن جب اس دنیا میں قدم رکھتا ہے اور مادی علل و اسباب کے رو برو ہوتا ہے اور پھر ان مادی عوامل کو اپنی زندگی میں مؤثر دیکھتا ہے تو پھر ان مادی علل و عوامل کے ایجاد کرنے والے سے غافل ہو جاتا ہے اور خدا شناسی والی فطرت جو اس کے اندر تھی وہ ان عوامل کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے۔

اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کبھی کبھی آگ خاکستروں کے نیچے دب جاتی ہے۔ پھر اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے ایک طوفانی ہوا کی محتاج رہتی ہے۔

حوادث و مشکلات کے طوفان اس لئےاتےهین. تاکہ انسان کی توجہ کو مادی اسباب سے ہٹا کر پروردگار عالم کی طرف متوجہ کرین .اور انسان کو متنبہ کرے کہ وہ اپنے رب حقیقی سے غافل نہ ہو۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ[6]

پھر جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوئے تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں پھر جب وہ نجات دے کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراً شرک اختیار کرلیتے ہیں۔

اور دوسری طرف تربیت کا بھی اثر ہوتا هے ۔ ہمارے یهاں جہالت کی وجہ سے اچھی تربیت نہی ہوسکتی جس کی وجہ سے بہت سارے انسان شیطان  کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ایسی فضاء کو دیکھ کر پروردگار عالم نے قاعدہ لطف کی بنا پر اپنے نمائندوں کو مبعوث کیا تاکہ اپنے بندوں کو ابلیس  کے پنجے سے آزاد کرائے۔

 

حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کے اہداف

 

۱۔ فطرت کی یاد دہانی

 

مولای متقیان حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام رسولوں کی بعثت کا ہدف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَبَعَثَ فِيهِمْ رُسُلَهُ وَ وَاتَرَ إِلَيْهِمْ أَنْبِيَاءَهُ لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِهِ وَ يُذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِهِ وَ يَحْتَجُّوا عَلَيْهِمْ بِالتَّبْلِيغِ وَ يُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ[7]

پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کی امانت کو واپس لیں اور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں۔ تبلیغ کے ذریعے ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔

میثاق فطرت سے مراد

وہ تمام افکار و نظریات ہیں جنہیں انسانی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے 1

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنے اس فراز میں رسولوں کی بعثت کے ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب انسانی معاشرے میں وسعت شروع ہوئی اور جاہلیت، منفعت طلبی، دنیا طلبی نے انسانوں کی فطرت پر پردے چڑھا کر لوگوں کو منحرف کرنا شروع کیا تو اللہ تعالی نے بشر کی ہدایت کے لیے رسولوں کا بندوبست کیا۔

اس لیے رسول کا سب سے پہلا وظیفہ انسانوں کی سوئی ہوئی فطرت کو بیدار کرنا ہے۔ ۔کیونکه در حقیقت  انبیاء علیہم السلام کی طرف احتیاج کی دلیل یهی ہے کہ وہ فطرت  کی یاد دہانی دلائیں اور لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کریں کہ دنیا طلبی  ہلاکت کا باعث ہے۔ دنیا اور آخرت میں جو عزت کا باعث ہے وہ اللہ تعالی کی بندگی ہے۔

اسی طرح قرآن مجید میں بھی انبیاء کو بعنوان یاد دلانے والے (مذکر) سے تعبیر کیا گیا ہے:

فذکر ان نفعت الذکریٰ[8]، و ذکر فان الذکری تنفع المومنین[9]، انّما انت مذکر[10]

۲۔ بھولی ہوئی نعمت کی یاد دہانی

 

حضرت علی علیہ السلام انبیاء کی بعثت  کا دوسرا ہدف یوں بیان فرماتے ہیں:

ذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِهِ[11]

یعنی انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں۔

نعمت میں نعمت کا معنی ہے (الحالہ الحسنہ[12]) لغت میں ہر اس شئ کو نعمت کہا جاتا ہے جو انسان کے لیے شادمانی و سرور کو موجب بنے۔

قرآن مجید کی اصطلاح میں معنوی امور کو نعمت سے تعبیر کیا جاتا ہے جو انسان کی روح کی شادمانی کا باعث بنتی ہے۔ خداوند متعال صراط مستقیم کو نعمت کا مصداق قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

صراط الذین انعمت علیہم

یعنی ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتیں نازل کی ہے۔

ایک دوسری جگہ میں ارشاد فرماتا ہے:

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا[13]

اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ رہے گا جن پر خدا نے نعمتیں نازل کی ہیں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین اور یہی بہترین رفقاء ہیں۔

ممکن ہے یہاں پر ایک سوال پیدا ہو کہ انسان نے کون سے نعمتوں کو بھلا دیا ہے کہ انبیاء آئیں تاکہ ان کو یاد دلائیں؟

اس سوال کے جواب کے لیے عام ذر کی طرف رجوع کرنا پڑھے گا۔ کہ خداوند متعال نے عالم ذر میں انسان کو کونسی نعمتیں عطا کیں اور انسان نے ان کی قدر نہیں کی۔روایات میں خدا کی ربوبیت، پیغمبر گرامی(ص) کی رسالت، امام علی علیہ السلام کی امامت کو نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔

امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ جس میں امام علیہ السلام نے فرمایا:

کان المیثاق ماخوذاً علیہم للہ بالربوبیۃ و لرسول بالنبوۃ و لاامیرالمومنین علیہم السلام بالامامۃ، فقا الست بربکم و محمد نبیکم و علی امامکم و الائمۃ الہادون ائمتکم فقالوا بلی[14]

یعنی جو عہد و پیمان لیا گیا ہے وہ خدا کی ربوبیت، رسول خدا(ص) کی رسالت اور امام علی علیہ السلام کی امامت کے بارے میں تھا۔ پھر پروردگار عالم نے فرمایا: آیا میں تمہارا پروردگار، محمد تمہارے نبی اور علی علیہ السلام تمہارے امام نہیں ہیں۔ تو سب نے جواب دیا کیوں نہیں۔

۳۔ اتمام حجت

حضرت امیر علیہ السلام انبیاء علیہم السلام کے تیسرے ہدف کو اتمام حجت کے عنوان سے بیان کرتے ہیں امام نے فرمایا:

یحتجوا علیہم بالتبلیغ

یعنی تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں۔

حجت ۔لغت میں حج کے مادہ سے ہے جس کا معنی قصد کرنا ہے۔ لغوی معنی کے اعتبار سے طریق اور راستے کو فحجۃ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کو اپنے مقصد تک لے جاتا ہے۔ لہذا اولیاء، انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کو حجت اس لیے بولا جاتا ہے وہ انسانوں کو مقصد تک پنچاتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ  اوحجۃ لازمۃ و محجۃ قائمۃ یعنی پروردگار نے کبھی اپنی مخلوق کو بنی مرسل یا کتاب منزل یا حجت لازم یا طریق واضح سے محروم نہیں رکھا ہے۔

اس کے علاوہ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:

لَمْ يُخْلِهِمْ بَعْدَ أَنْ قَبَضَهُ مِمَّا يُؤَكِّدُ عَلَيْهِمْ حُجَّةَ رُبُوبِيَّتِهِ وَ يَصِلُ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ مَعْرِفَتِهِ بَلْ تَعَاهَدَهُمْ بِالْحُجَجِ عَلَي أَلْسُنِ الْخِيَرَةِ مِنْ أَنْبِيَائِهِ وَ مُتَحَمِّلِي وَدَائِعِ رِسَالَاتِهِ قَرْناً فَقَرْناً حَتَّي تَمَّتْ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ ( صلي الله عليه وآله ) حُجَّتُهُ وَ بَلَغَ الْمَقْطَعَ عُذْرُهُ وَ نُذُرُهُ .(خطبه 91)

پروردگار نے حضرت آدم علیہ السلام کو اُٹھا لینے کے بعد بھی زمین کو ان چیزوں سے خالی نہیں رکھا جن کےذریعه ربوبیت کی دلیلوں کی تاکید کرے اور بندوں کی معرفت کا وسیلہ بناے۔ بلکہ ہمیشہ منتخب انبیاء کرام علیہم السلام اور رسالت کے امانت داروں کی زبانوں سے حجت کے پہونچانے کی نگرانی کرتا رہا۔ اور یوں ہی صدیاں گزرتی رہیں یہاں تک کہ ہمارے پیغمبر حضرت محمد(ص) کے ذریعہ اس کی حجت تمام ہوگی اور اتمام حجت اور تخویف عذاب کا سلسلہ نقطہ آخر تک پہونچ گیا۔

حضرت کلمات قصار میں اتمام حجت کے حوالے سے فرماتے ہیں:

اللَّهُمَّ بَلَي لَا تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّهِ بِحُجَّةٍ إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وَ إِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّهِ وَ بَيِّنَاتُهُ۔ (کلمات قصار .147)

زمین ایسے شخص سے خالی نہیں ہوتی ۔ جو حجت خدا کے ساتھ قیام کرتا ہے چاہیے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ، تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نہ پائیں۔

۴۔ پوشیدہ خزانوں کا ظہور

 

امام علی علیہ اسلام بعثت کے چھوتھے ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

و یشیروا لہم دفائن العقول

ان کی عقلوں کے دفینوں کو باہر لائیں۔

امام علیہ السلام کے نورانی کلام میں لفظ دفائن جو استعمال ہوا ہے دفینہ کی جمع ہے کہ جس کا معنی مخفی خزانہ کے ہے۔

اور عقول، عقل کی جمع ہے لغت میں عقل کا معنی یوں کیا گیا ہے:

اصل العقل، الامساک و الامستماک[15]

عقل کا معنی نگہداری اور حفظ کرنا ہے اگر عقل کا معنی حفظ کرنا هے۔ تو کیوں عقل کو عقل کہا جاتا ہے؟ اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟

لانہ یعقل صاحبہ عن التورط فی المہالک الی یحبسہ[16]

کیونکہ عقل اپنے صاحب کو نیست و نابود کرنے والی مشکلات سے حفظ مین رکهتا  ہے۔

دینی متون میں لفظ عقل کے کئی معانی کیے گئے ہیں۔ مثلاً کبھی مجنون کے مقابل میں اور کبھی جہل کے مقابل میں استعمال ہوا ہے مثال کے طورپر پیغمبر گرامی(ص) ارشاد فرماتے ہیں:

ان العقل عقال من الجہل و النفس مثل اخبث الدواب فان لم تعقل حارث[17]

عقل، جہل و نادانی کو مہار کرنے کا وسیلہ ہے اور نفس۔ خبیث ترین حیوانات کی مانند ہے۔ اگر اسے مہار نہ کیا جائے تو کنٹرول سے باہر چلا جائے گا۔

اور کبھی عقل کو پروردگار کی حجت باطنی کے عنوان سے بھی یاد کیا جاتا ہے جیسے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:

یا ہشام ان اللہ علی الناس حجتین، حجۃ ظاہرۃ و حجۃ باطنہ، فامّا الظاہرۃ فالرسل، و الانبیاء و الائمہ، واما الباطنہ فالعقول[18]

اے ہشام! پروردگار نے لوگوں پر دو حجتیں قائم کی ہیں۔ ایک حجت ظاہری اور دوسری حجت باطنی ، ظاہری حجت، رسل، انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں اور باطنی حجت خود لوگوں کے عقل ہیں۔

عقل اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی عقل کے ذریعے انسان کو باقی تمام مخلوقات پر فضلیت بخشی گئی ہے۔ یہی عقل ہے جو ہر بدی و نیکی کو تشخیص دیتی ہے۔ یہی عقل ہے جو بشر کو ایک خدائی انسان بناتی ہے۔ یہی عقل ہے جو انسان کو ہلاکت سے نجات دلاتی ہے۔

حضرت امیرالمومنین سلام اللہ علیہ عقل کے بارے میں فرماتے ہیں:

مَا اسْتَوْدَعَ اللَّهُ امْرَأً عَقْلًا إِلَّا اسْتَنْقَذَهُ بِهِ يَوْماً مَا[19]

پروردگار کسی شخص کو عقل عنایت نہیں کرتا مگر یہ ایک دن اسی کے ذریعہ اسے ہلاکت سے نکال لیتا ہے۔

۵۔خدا اور مخلوق کے درمیان  رابطہ

 

امام علی علیہ السلام بعثت انبیاء کے پانچویں ہدف کو نہج البلاغہ کے ۱۴۷ خطبہ میں اسی طرح بیان کرتے ہیں:

فَبَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّداً ( صلي الله عليه وآله ) بِالْحَقِّ لِيُخْرِجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ إِلَي عِبَادَتِهِ وَ مِنْ طَاعَةِ الشَّيْطَانِ إِلَي طَاعَتِهِ بِقُرْآنٍ قَدْ بَيَّنَهُ وَ أَحْكَمَهُ لِيَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ إِذْ جَهِلُوهُ وَ لِيُقِرُّوا بِهِ بَعْدَ إِذْ جَحَدُوهُ وَ لِيُثْبِتُوهُ بَعْدَ إِذْ أَنْكَرُوهُ[20]

پروردگار عالم نے حضرت محمد(ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الہی کی منزل کی طرف لے آئیں او رشیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمان کی اطاعت کرائیں۔ اس قرآن کے ذریعہ جسے اس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تاکہ بندے خدا کو اگر نہیں پہچانتے ہیں تو پہچان لیں اور اگر اس کے منکر ہیں تو اقرار کرلیں۔

امام علیہ السلام کے مقدس کلام میں چند کلمات کا لغوی معنی ۔

۱۔ جہل۔ لغت میں اس کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے ۔

اعتقاد الشئ بخلاف ما ہو حقہ[21]

ایک چیز کے بارے میں ایسا اعتقاد رکھنا جو در حقیقت اس چیز کے خلاف ہو۔

۲۔ جحد: لغت میں اس کا معنی ہے

انکرہ و لایکون الا علی علم من الجاحد بہ[22]

جحد یعنی انکار کرنا، اور یہ انکار اس وقت جب منکر کو اس شئ کے بارے میں علم ہو یا اگر اس کو آسان لفظوں میں کہوں تو اس کا معنی ہے عمدا انکار کرنا تاکہ دوسروں کو فریب دے سکے۔

۳۔ انکار: اس کا اصلی معنی

ان یرد علی اللب ما لایتصور[23]

ایک ایسی چیز کو دل میں داخل کرنا جس کے بارے مین تصور ہی نہ ہو۔

جحد اور انکار کے درمیان فرق

ان الجحد انکار الشی الظاہر و الانکار قد یکون غیر ظاہر، الجحد ہو انکار الشی مع العلم بہ و الانکار یکون مع العلم و غیر العلم۔[24]

حجد ایک ظاہر اور آشکار چیز کے انکار کرنے کو کہتے ہیں۔ لیکن انکار ممکن ہے۔ ایک ظاہر چیز کا ہو یا ایک مخفی چیز کا۔ یا ا سکے علاوہ ایک دوسرا فرق بھی ان دونوں کے درمیان پایا جاتا ہے کہ جحد یعنی عمداً انکار کرنا، لیکن خود انکار چاہیے عمد انکار ہو یا سہواً۔

۶۔ قوانین الہی کا اجراء

 

حضرت علی علیہ السلام بعثت انبیاء کے چھٹے ہدف کو یوں بیان کرتے ہیں:

وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً ( صلي الله عليه وآله ) عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ أَرْسَلَهُ لِإِنْفَاذِ أَمْرِهِ وَ إِنْهَاءِ عُذْرِهِ وَ تَقْدِيمِ نُذُرِهِ .[25]

میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد(ص) اس کا بندہ اور رسول ہیں۔ انہیں پروردگار نے اپنے حکم کو نافذ کرنے۔ اپنی حجت کو تمام کرنے اور عذاب کی خبریں پیش کرنے کے لیے بھیجا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام مذکورہ کلام میں پیغمبر اسلام(ص) کی بعثت کے تین بنیادی مقاصد کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں:

۱۔ احکام الہی کا اجراء؛

۲۔ بندوں پر اتمام حجت؛

۳۔ قیامت میں پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت با خبر کرنا۔

یہ کام نمائندہ پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے اور یہ خدائی کی نمائندگی کے فوائد میں سب سے عظیم تر فائدہ ہے جس کی بنا پر انسان رسالت الہیہ سے کسی وقت بھی بے نیاز نہیں ہوسکتا ہے۔

۷۔ عالم بشریت کو مقام عبودیت پر فائز کرنا

 

حضرت امیرالمومنین سلام اللہ علیہ کی نظر میں بعثت انبیاء علیہم السلام کا ساتواں هدف:

فَبَعَثَ اللَّهُ مُحَمَّداً ( صلي الله عليه وآله ) بِالْحَقِّ لِيُخْرِجَ عِبَادَهُ مِنْ عِبَادَةِ الْأَوْثَانِ إِلَي عِبَادَتِهِ وَ مِنْ طَاعَةِ الشَّيْطَانِ إِلَي طَاعَتِهِ[26]

خداوند متعال نے حضرت محمد مصطفی(ص) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمن کی اطاعت کرائیں۔

امام علیہ السلام کے کلام میں دو کلمہ استعمال ہوئے ہیں جن کا دقیق معنی کرنا ضروری ہے:

۱۔ اوثان: وثن کی جمع ہے اس کا معنی

التمثال یعبد سواء کان من خشب ام مجرم

یعنی ایک ایسا مجسمہ جو مورد عبادت قرار پائے چاہیے لکڑی سے بنایا گیا ہو یا پتھر سے۔

۲۔ عبد: لغت میں اس کا معنی

طاع، ذل، خضع

آیا ہے ۔ یعنی اطاعت کرنا، تواضع و فروتنی کرنا۔ لفظ عبد عبادت سے مشتق ہوا ہے اور ۔ العبادۃ نہایۃ التذلل یعنی کمال تواضع کا نام عبادت ہے۔حقیقت میں عبد وہ ہے جو افکار، رفتار اور گفتار کے اعتبار سے خداوند متعال کے مقابل میں سر تسلیم خم ہو اور بطور کامل پروردگار کے تمام دستورات کا تابع ہو۔ خدا کے مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کرے۔ یہ کوئی معمولی مرتبہ نہیں ہے کوئی نبی اس وقت تک نبی نہیں بن سکتا جب تک اس مقام پر فائز نہ ہو۔ لہذا اس بناء پر ہمارا وظیفہ ہے کہ جب بھی۔ ہم پیغمبر گرامی(ص) کی رسالت کی گواہی دیں سب سے پہلےآپ  کی عبودیت کی گواہی دیں۔

اور اسی وجہ سے ہم نماز کے تشہد میں یہ پڑھتے ہیں:

اشہدان محمداً عبدہ و رسولہ

آخر میں پروردگار عالم سے دعاگو ہوں کہ خدا ہمیں اپنا حقیقی عبد بنائے اور اپنی عبادت میں لذت و عشق عطا فرمائے۔

ریاست محمود

منابع

[1]۔ تجرید الاعتقاد، ص ۱۸۵۔

[2]۔ سورہ بقرہ (۲) آیت: ۳۔

[3]۔ سورہ نجم (۵۳) آیت: ۳۱۔

[4]۔ سورہ مرسلات (۷۷) آیت: ۴۰۔۴۳۔

[5] درس عقائد آیت اللہ مسباح یزدی ؛ص 233

[6] سورہ عنکبوت (۲۹) آیت: ۶۵۔

[7]۔ نہج البلاغہ، خطبہ: ۱۔

[8]۔ سورہ الاعلی (۸۷) آیت: ۹۔

[9]۔ سورہ ذاریات (۵۱) آیت: ۵۵۔

[10]۔ سورہ غاشیہ (۸۸) آیت: ۲۱۔

[11]۔ نہج البلاغہ، خطبہ: ۱۔

[12] مفردات، ص ۸۱۴۔

[13]۔ سورہ نساء (۴) آیت: ۶۹۔

[14] منہاج البراعہ، ج ۲، ص ۱۴۸۔

[15]۔ مفردات راغب، ص ۵۷۸۔

[16]۔ لسان العرب، ج ۱۱، ص ۴۵۸۔

[17]۔ تحف العقول، ص ۱۶۔

[18]۔ اصول کافی، ج ۱، ص ۱۹۔

[19]۔ نہج البلاغہ، حکمت ۴۰۷۔

[20]۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷۔

[21]۔ مفردات راغب، ص ۱۸۷۔

[22]۔ المصباح المنیر، ص ۸۰۔

[23]۔ مفردات راغب، ص ۸۲۳۔

[24]۔ الفروق الغویہ، ص ۳۳۔

[25]۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۸۳۔

[26]۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button