شمع زندگی

66۔ ظلم سے پرہیز

لَا تَظْلِمْ کَمَا لَا تُحِبُّ اَنْ تُظْلَمَ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
جس طرح چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو یونہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو۔

انسانیت کی ہدایت کے لیے امیرالمؤمنینؑ نے اپنے فرزند کے ذریعہ اس وصیت نامہ میں جو اصول بیان فرمائے ان میں یہ حصہ بہت اہم ہے۔ آپؑ نے فرمایا اپنے اور دوسرے کے درمیان ہر معاملہ میں اپنی ذات کو میزان قرار دو۔ جس طرح تم چاہتے ہو کہ تم پر زیادتی نہ ہو یونہی دوسروں پر بھی زیادتی نہ کرو۔ جس طرح چاہتے ہو کہ دوسرے تم سے اچھا برتاؤ کریں اور حسن سلوک سے پیش آئیں، تم بھی دوسروں سے اچھا برتاؤ کرو اور حسن سلوک سے پیش آؤ۔ دوسروں میں جس چیز کو بُرا سمجھتے ہو اگر تم میں وہی چیز پائی جاتی ہو تو اسے خود میں بھی بُرا سمجھو اور لوگوں سے جیسا برتاؤ کرتے ہو اسی قسم کے رویے کی ان سے توقع رکھو۔ دوسروں کے لیے وہ بات نہ کہو جو اپنے لیے سننا گوارا نہیں کرتے۔

یہ وہ اصول ہیں جو انسان کو دوسروں کے اعمال کے حساب کتاب کے بجائے اپنے عمل و کردار کے دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان فرامین سے واضح ہوتا ہے کہ ہم جیسا کریں گے ویسا ہی ہم سے ہوگا اور ہم جیسے کردار کی دوسروں سے امید رکھتے ہیں دوسرے بھی ہم سے ویسی ہی توقع رکھتے ہوں گے۔ یہ اصول حقیقت میں دوسروں کے سنوارنے کے لیے ہیں مگر یہ سنوارنا خود سے شروع کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button