مقالات

ماہ مبارک رمضان کی وجہ تسمیہ

ہجری قمری سال کا نواں مہینہ رمضان المبارک ہے جس میں طلوع صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک چند امور سے قربت خدا کی نیت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ مثلاً کھانا پینا اور بعض دوسرے مباح کام ترک کر دیئے جاتے ہیں۔ شرعی زبان میں اس ترک کا نام "روزہ” ہے جو اسلام کی ایک اہم ترین عبادت ہے۔ روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ملل و مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے اور تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ البتہ ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنا اسلام سے ہی مختص ہے۔ اسی لئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ماہ مبارک رمضان کو اپنی ایک دعا میں جو صحیفہ سجادیہ میں موجود ہے "شہرالاسلام” یعنی اسلام کا مہینہ قرار دیا ہے۔

ماہ مبارک رمضان کی وجہ تسمیہ:

ماہ مبارک رمضان کو "رمضان” کے نام سے کیوں یاد کیا جاتا ہے؟۔ اس سلسلے میں چند اقوال ذکر کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر قول اپنی جگہ ایک دلیل رکھتا ہے لیکن ہم یہاں ان اقوال میں جو وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے اسی کے ذکر پر اکتفا کریں گے:

۱۔ رمضان "رمض” سے ماخوذ ہے جس کے معنی "دھوپ کی شدت سے پتھر، ریت وغیرہ کے گرم ہونے” کے ہیں۔ اسی لئے جلتی ہوئی زمین کو "رمضا” کہا جاتا ہے اور جب پہلی دفعہ روزے واجب ہوئے تو ماہ مبارک رمضان سخت گرمیوں کے ایام میں پڑا تھا۔ جب روزوں کی وجہ سے گرمیوں کا احساس بڑھا تو اس مہینے کا نام رمضان پڑ گیا۔ یا یہ کہ یہ مہینہ گناہوں کو اس طرح جلاتا ہے جس طرح سورج کی تمازت زمین کی رطوبتوں کو جلا دیتی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

"انما سمی رمضان لان رمضان یرمض الذنوب”۔

رمضان کو رمضان اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔۱

۲۔ یہ کہ رمضان "رمضی” سے ماخوذ ہے جس کے معنی "ایسا ابر و باراں ہے جو موسم گرما کے اخیر میں آئے اور گرمی کی تیزی کو دور کر دے”۔ رمضان کا مہینہ بھی گناہوں کے جوش کو کم کرتا ہے اور برائیوں کو دھو ڈالتا ہے۔

۳۔ رمضان کسی دوسرے لفظ سے نہیں لیا گیا بلکہ یہ اللہ تعالی کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے۔ چونکہ اس مہینے کو خداوند عالم کے ساتھ ایک خصوصی نسبت حاصل ہے لہذا خدا کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے رمضان کہلاتا ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ منسوب ہے:

"لا تقولوا ھذا رمضان و لا ذھب رمضان و لا جاء رمضان فان رمضان اسم من اسماء اللہ تعالی و ھو عز و جل لا یجیئو و لا یذھب ولکن قولوا شھر رمضان”۔

یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے اور رمضان گیا اور رمضان آیا۔ اس لئے کہ رمضان اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور خداوند عالم کہیں آتا جاتا نہیں ہے لہذا کہا کرو ماہ رمضان۔۲

روزہ گذشتہ امتوں میں:

تفسیر نمونہ میں مفسرین نے لکھا ہے: "موجودہ تورات اور انجیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ روزہ یہود و نصاری میں بھی تھا جیسا کہ "قاموس کتاب مقدس” میں بھی ہے۔ روزہ ہر زمانے کی امتوں، گروہوں اور مذہب میں غم و اندوہ اور اچانک مصیبت کے موقع پر معمول تھا”۳۔

تورات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے چالیس دن تک روزہ رکھا جیسا کہ لکھا ہے: "جب میں پہاڑ پر گیا تاکہ پتھر کی تختیاں یعنی وہ عہد والی تختیاں جو خدا نے تمہارے ساتھ منسلک کر دی ہیں حاصل کروں اس وقت میں پہاڑ میں چالیس راتوں تک رہا، وہاں میں نے نہ روٹی کھائی اور نہ پانی پیا”۴۔ یہودی جب توبہ کرتے اور رضای الہی طلب کرتے تو روزہ رکھتے تھے۔ اکثر اوقات یہودی جب موقع پاتے کہ خدا کی بارگاہ میں عجز و انکساری اور تواضع کا اظہار کریں تو روزہ رکھتے تاکہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے روزہ اور توبہ کے ذریعے حضرت اقدس ” روزہ فقط اسلام میں ہی واجب نہیں بلکہ تمام ملل و مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں روزہ رکھا جاتا ہے اور تمام الہی ادیان اس کی افادیت کے قائل ہیں۔ “ الہی کی رضا و خوشنودی حاصل کریں۵۔ احتمال ہے کہ "روزہ اعظم با کفارہ” سال میں مخصوص ایک دن کیلئے ہو جس کا یہودیوں میں رواج تھا البتہ وہ دوسرے موقتی روزے بھی رکھتے تھے مثلاً شلیم کی بربادی کے وقت رکھا گیا روزہ وغیرہ۶۔ جیسا کہ انجیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی چالیس دن روزے رکھے۔ "اس وقت عیسی قوت روح کے ساتھ بیابان میں لے جائے گئے تاکہ ابلیس انھیں آزمائے۔ پس انہوں نے چالیس شب و روز روزہ رکھا اور وہ بھوکے رہے”۷۔ انجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد ان کے حواری بھی روزہ رکھتے تھے۔ جیسا کہ انجیل میں ہے: "انہوں نے اس سے کہا کہ کیا بات ہے کہ یحیی کے شاگرد ہمیشہ روزہ رکھتے ہیں اور دعا کرتے رہتے ہیں جبکہ تمہارے شاگرد ہمیشہ کھاتے پیتے رہتے ہیں لیکن ایک زمانہ آئے گا جب داماد ان میں سے اٹھا لیا جائے گا اور وہ اس وقت روزہ رکھیں گے”۸۔ کتاب مقدس میں بھی ہے: "اس بنا پر حواریین اور گذشتہ زمانے کے مومنین کی زندگی انکار لذات، بے شمار زحمات اور روزہ داری سے بھری پڑی تھی”۹۔

حوالہ جات

تحریر: سید رمیزالحسن موسوی

۱۔ تفسیر نور، جلد 1، صفحہ 370،

۲۔ ترجمہ و حواشی صحیفہ کاملہ، مفتی جعفر حسین، صفحہ 320،

۳۔ قاموس کتاب مقدس، صفحہ 42۷،

۴۔ تورات، سفر تشینہ، فصل 9، شمارہ 9،

۵۔ قاموس کتاب مقدس، صفحہ 428،

۶۔ قاموس کتاب مقدس، صفحہ 428،

۷۔ انجیل متی، باب 4، شمارہ 1 و 2،

۸۔ انجیل لوقا، باب 5، شمارہ 33-35،

۹۔ قاموس کتاب مقدس، صفحہ 428،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button