کلمات قصار

نہج البلاغہ حکمت 124: غیرت

(۱٢٤) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ

(۱۲۴)

غَیْرَةُ الْمَرْاَةِ كُفْرٌ، وَ غَیْرَةُ الرَّجُلِ اِیْمَانٌ.

عورت کا غیرت کرنا کفر ہے اور مرد کا غیور ہونا ایمان ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جب مرد کو چار عورتیں تک کر نے کی اجازت ہے تو عورت کا سوت گوارا نہ کرنا حلال خدا سے ناگواری کا اظہار اور ایک طرح سے حلال کو حرام سمجھنا ہے اور یہ کفر کے ہم پایہ ہے، اور چونکہ عورت کیلئے متعدد شوہر کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے مرد کا اشتراک گوارا نہ کرنا اس کی غیرت کا تقاضا اور حرام خدا کو حرام سمجھنا ہے اور یہ ایمان کے مترادف ہے۔

مرد و عورت میں یہ تفریق اس لئے ہے تاکہ تولید و بقائے نسل انسانی میں کوئی روک پیدا نہ ہو، کیونکہ یہ مقصد اسی صورت میں بدرجۂ اَتم حاصل ہو سکتا ہے جب مرد کیلئے تعدد اَزواج کی اجازت ہو، کیونکہ ایک مرد سے ایک ہی زمانہ میں متعدد اولادیں ہو سکتی ہیں اور عورت اس سے معذور و قاصر ہے کہ وہ متعدد مردوں کے عقد میں آنے سے متعدد اولادیں پیدا کر سکے۔ کیونکہ زمانۂ حمل میں دوبارہ حمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس پر ایسے حالات بھی طاری ہوتے رہتے ہیں کہ مرد کو اس سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ چنانچہ حیض اور رضاعت کا زمانہ ایسا ہی ہوتا ہے جس سے تولید کا سلسلہ رک جاتا ہے اور اگر متعدد ازواج ہوں گی تو سلسلۂ تولید جاری رہ سکتا ہے، کیونکہ متعدد بیویوں میں سے کوئی نہ کوئی بیوی ان عوارض سے خالی ہوگی جس سے نسل انسانی کی ترقی کا مقصد حاصل ہوتا رہے گا، کیونکہ مرد کیلئے ایسے موانع پیدا نہیں ہوتے کہ جو سلسلۂ تولید میں روک بن سکیں۔

اس لئے خدا وند عالم نے مردوں کیلئے تعدد ازواج کو جائز قرار دیا ہے اور عورتوں کیلئے یہ صورت جائز نہیں رکھی کہ وہ بوقت واحد متعدد مردوں کے عقد میں آئیں۔ کیونکہ ایک عورت کا کئی شوہر کرنا غیرت و شرافت کے بھی منافی ہے اور اس کے علاوہ ایسی صورت میں نسب کی بھی تمیز نہ ہو سکے گی کہ کون کس کی صلب سے ہے۔

چنانچہ امام رضا علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار بیویاں تک کر سکتا ہے اور عورت ایک وقت میں ایک مرد سے زیادہ شوہر نہیں کر سکتی؟

حضرتؑ نے فرمایا کہ: مرد جب متعدد عورتوں سے نکاح کرے گا تو اولاد بہر صورت اسی کی طرف منسوب ہو گی اور اگر عورت کے دو یا دو سے زیادہ شوہر ہوں گے تو یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ کون کس کی اولاد اور کس شوہر سے ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں نسب مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اور صحیح باپ کی تعیین نہ ہو سکے گی اور یہ امر اس مولود کے مفاد کے بھی خلاف ہوگا۔ کیونکہ کوئی بھی بحیثیت باپ کے اس کی تربیت کی طرف متوجہ نہ ہو گا جس سے وہ اخلاق و آداب سے بے بہرہ اور تعلیم و تربیت سے محروم ہو کر رہ جائے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button