مقالاتنہج البلاغہ در آئینہ اشعار

نہج البلاغہ میں اشعار

مولانا مقبول حسین علوی دام عزہ

نہج البلاغہ اُس ذاتِ گرامی کا کلام ہے جو اپنے بارے میں فرماتے ہیں:

اِنَّا لَاُمَرَآءُ الْكَلَامِ، وَ فِیْنَا تَنَشَّبَتْ عُرُوْقُهٗ، وَ عَلَیْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُوْنُهٗ.
اور ہم (اہلبیتؑ) اقلیم سخن کے فرمانروا ہیں۔ وہ ہمارے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے اور اس کی شاخیں ہم پر جھکی ہوئی ہیں۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ۲۳۰،ص ۶۴۶،اشاعت افکارِ اسلامی)

ایک مقام پر فرمایا:
اَلْيَوْمَ اُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَآءَ ذَاتَ الْبَيَانِ.
’’آج میں نے اپنی اس خاموش زبان کو جس میں بڑی بیان کی قوت ہے، گویا کیا ہے۔‘‘
(نہج البلاغہ ،خطبہ۴،ص۱۲۹)

اپنی فصاحت و بلاغت کو یُوں پیش کیا:
وَ نَحْنُ اَفْصَحُ وَ اَنْصَحُ وَ اَصْبَحُ.
ہم فصیح و بلیغ ، مخلص و خیر خواہ اور روشن چہرہ ہیں۔
(نہج البلاغہ، حکمت۱۲۰، ص۸۵۹)

امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کے کلام کی عظمت و اہمیت پر بڑے مفصل مضامین موجود ہیں یہاں فقط دو شخصیات کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔

جامعِ نہج البلاغہ سید رضیؒ نہج البلاغہ کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :’’آپؑ کا کلام وہ ہے جس میں علمِ الٰہی کی جھلک اور کلامِ نبوی ﷺ کی خوشبو ہے۔‘‘
(نہج البلاغہ، ص۸۱)

اہلِ سنت عالم شیخ محمد شکری الآلوسی لکھتے ہیں :

’’یہ کتابِ نہج البلاغہ حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے خطبات پر مشتمل ہے۔ یہ کلامِ الٰہی کے نور کا پَرتو ہے اور منطقِ نبویؐ کی فصاحت کا چمکتا ہوا سورج ہے۔‘‘
(بلوغ الارب فی معرفۃ احوال العرب،الآلوسی،ج۳،ص۱۸۱)

نہج البلاغہ کو ایسا ہونا ہی چاہیے کیونکہ صاحبِ نہج البلاغہ کا سینہ علمِ الٰہی کا خزینہ ہے۔ امام فرماتے ہیں۔

هُمْ مَوْضِعُ سِرِّهٖ، وَ لَجَاُ اَمْرِهٖ، وَ عَیْبَةُعِلْمِهٖ، وَ مَوْئِلُ حِكَمِهٖ، وَ كُهُوْفُ كُتُبِهٖ، وَ جِبَالُ دِیْنِهٖ.
وہ سرِ خدا کے امین اور اس کے دین کی پناہ گاہ ہیں، علمِ الٰہی کے مخزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں، کتب (آسمانی) کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ۲،ص۱۰۷)

علم کے فضائل بیان کرتے ہوئے امیر المؤمنینؑ اپنے سینۂ اقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

هَا! اِنَّ هٰهُنَا لَعِلْمًا جَمًّا لَوْ اَصَبْتُ لَهٗ حَمَلَةً!
دیکھو! یہاں علم کا ختم نہ ہونے والا ذخیرہ موجود ہے، کاش! اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے۔
(نہج البلاغہ، حکمت ۱۴۷، ص ۸۶۹)

نہج البلاغہ خود صاحبِ نہج البلاغہ کی طرح بہت سے پہلوؤں کا مجموعہ ہے اور اُن میں سے ایک ادبی پہلو ہے۔ نہج البلاغہ کے مترجم مولانا سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی نے اپنے ایک مفصل مقالے’’کلام علیؑ کا عربی ادب پر اثر‘‘ میں اس موضوع پر اچھی بحث کی ہے۔

جامع نہج البلاغہ سید رضیؒ کے مد نظر بھی کلامِ امامؑ میں سے ادبی پہلو پر زیادہ توجہ رہی۔ آپ لکھتے ہیں:

’’امیرالمومنین امام علی علیہ السلام فصاحت کا سرچشمہ اور بلاغت کا مخرج و منبع تھے، فصاحت و بلاغت کی چُھپی ہوئی باریکیاں آپؑ ہی سے ظاہر ہوئیں اور آپؑ ہی سے اس کے اُصول و قواعد سیکھے گئے اور ہر خطیب و متکلم کو آپؑ کی مثالوں پر چلنا پڑا اور ہر واعظِ بلیغ نے آپؑ کے کلام سے خوشہ چینی کی۔ اس تالیف سے مقصود یہ ہے کہ میں امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی فنِ بلاغت میں رفعت و برتری کو ظاہر کروں جو آپؑ کی بے شمار خوبیوں اور ان گنت فضیلتوں کے علاوہ ہے اور یہ کہ آپؑ اس فضیلت کے مقامِ منتہا تک پہنچنے میں ان تمام سلف اولین میں یکتا ہیں جن کا کلام تھوڑا بہت پاشان و پریشان نقل کیا جاتا ہے، لیکن آپؑ کا کلام ایک ایسا امنڈتا ہوا دریا ہے جس کے بہاؤ سے ٹکر نہیں لی جا سکتی۔‘‘
(دیباچہ مؤلف نہج البلاغہ ،سید رضی، ص۸۰ـ،۸۱)

نہج البلاغہ کے مترجم مولانا مفتی جعفر حسینؒ نے ترجمہ کی ابتداء میں ’’ حرف اوّل ‘‘کے عنوان سے نہج البلاغہ کے موضوعات کے بارے میں لکھا:

’’یہ (نہج البلاغہ) صرف ایک ادبی شاہکار ہی نہیں ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کا الہامی صحیفہ، حکمت و اخلاق کا سرچشمہ اور معارفِ ایمان و حقائق تاریخ کا ایک انمول خزانہ ہے، جس کے گوہرِ آبدار علم و ادب کے دامن کو زر نگار بنائے ہوئے ہیں اور اپنی چمک دمک سے جوہر شناسوں کو محوِ حیرت کئے ہوئے ہیں۔ افصح العرب کے آغوش میں پلنے والے اور آب وحی میں دُھلی ہوئی زبان چوس کرپروان چڑھنے والے نے بلاغت کلام کے وہ جوہر دکھائے کہ ہر سمت سے ’’فَوْقَ کَلَامِ الْمَخْلُوْقِ وَ تَحْتَ کَلَامِ الْخَالِقِ‘‘ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔‘‘
(نہج البلاغہ، ص۳۷)

کسی زبان کے ادبیات میں نظم کی اہمیت، اذھان پر اُس کے اثرات اور اِس فن کی عظمت کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے بڑے بڑے فصیح و بلیغ نثرنگار بھی اپنے کلام کو شعریت سے مزیّن کرتے ہیں۔ نہج البلاغہ جو قرآن مجید اور فرامین پیغمبر اکرمؐ کے بعد عربی نثر کا بے مثال نمونہ اور حدِ کمال تک پہنچا ہوا کلام ہے اس میں بھی امیر المؤمنینؑ نے تیرہ مقامات پر اشعار بطورِ تمثیل و تضمین شامل کیے۔ اور فن شعری کے ایک بڑے نام امرؤ القیس کو بڑا شاعر قرار دیا۔ ان تیرہ مقامات میں سے امامؑ نے بارہ مقامات پر دوسروں کے اشعار یا کسی شعر کاایک مصرع نقل کیا اور ایک مقام پر امامؑ کے اپنے دو اشعار سید رضیؒ نے شامل کیے۔ خود سید رضیؒ نے نہج البلاغہ پر اپنے لکھے جانے والے حواشی میں دو مقامات پر اشعار بطورِ نمونہ تحریر فرمائے۔ یُوں نہج البلاغہ میں پندرہ مقامات پر اشعار بیان ہوئے جن کو اس تحریر میں عربی اور اردو ترجمے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور جہاں ممکن ہوا وہاں شاعر کا نام بھی لکھ دیا گیا۔

نہج البلاغہ میں شعراء یا شعراء کے کلام پر جہاں زیادہ لکھا گیا ہے وہ حکمت ۴۵۵ کی شرح ہے۔ اس دو سطروں کی حکمت کے ضمن میں علامہ تقی شوستری نے اکیس صفحات میں شرح لکھی ہے۔ ابن ابی الحدیدنے اِس حکمت کی شرح میں بیس صفحات لکھے۔ شہید مرتضیٰ مطہری نے ’’سیری در نھج البلاغہ‘‘ میں مفصل بحث کی ہے۔ یہاں اس حکمت کے بارے میں لکھی جانے والی شروح کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔

حکمت ۲۵۵

وَ سُئِلَ عَلَیْهِ السَّلَامُ مَنْ اَشْعَرُ الشُّعُرَآءِ؟ فَقَالَ ؑ: حضرتؑ سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ فرمایا کہ:
اِنَّ الْقَوْمَ لَمْ یَجْرُوْا فِیْ حَلْبَةٍ تُعْرَفُ الْغَایَةُ عِنْدَ قَصَبَتِهَا، فَاِنْ كَانَ وَ لَا بُدَّ فَالْمَلِكُ الضِّلِّیْلُ.
شعرا کی دوڑ ایک روش پر نہ تھی کہ گوئے سبقت لے جانے سے ان کی آخری حد کو پہچانا جائے، اور اگر ایک کو ترجیح دینا ہی ہے تو پھر ’’ملک ضلیل‘‘ (گمراہ بادشاہ) ہے۔

یُرِیْدُ امْرَاُ الْقَیْسِ.
سیّد رضی کہتے ہیں کہ: حضرتؑ نے اس سے امرأ القیس مراد لیا ہے۔

ابن ابی الحدید، ابن دُرید کی کتاب امالی کے حوالے سے پوری اسناد کے ساتھ لکھتے ہیں:
” امام علی علیہ السلام ماہِ رمضان میں ہر رات لوگوں کی دعوت فرماتے اور عشائیہ میں گوشت پیشں کرتے تھے۔ لیکن آپؑ خود یہ کھانا تناول نہ فرماتے۔ کھانے کے بعد ان سے خطاب کرتے اور وعظ و نصیحت فرماتے۔ ایک رات حاضرین کھانے کے دوران عرب کے گزشتہ شعراء کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ امام علی علیہ السلام نے کھانے کے بعد خطاب کے ضمن میں فرمایا: تمہارے امور کی بنیاد دین ہے تمہارا محافظ اور نگہبان تقویٰ ہے۔ تمہارا زیور ادب ہے اور تمہاری آبرو کا حصارحلم پر ہے۔ اس کے بعد آپؑ نے ابوالاسوددئلی کی کی طرف دیکھا جو وہاں موجود تھا اور اس سے قبل شاعروں کے سلسلہ میں ہونے والی گفتگو میں پیش پیش تھا۔ آپؑ نے اس سے پوچھا: “ کہو کہ تمہارے نزدیک سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ ابوالاسوددئلی نے ابو داؤد ایادی کا ایک شعر پڑھا اور کہا کہ میری نگاہ میں یہ شخص سب سے بڑا شاعر ہے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے، بات ایسی نہیں۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا کہ امام علی علیہ السلام اس موضوع میں دلچسپی لے رہے ہیں جس کے بارے میں وہ گفتگو کررہے تھے تو سب نے بیک آواز کہا : اے امیرالمومنینؑ آپؑ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ امام علی علیہ السلام نے فرمایا : اس بارے میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اگر ان کا مقابلہ ایک ہی شاعرانہ شعبے میں ہوتا تو ممکن تھا کہ ان کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوسکتا اور جیتنے والے کا نام لیا جا سکتا۔ لیکن اگر پھر بھی اظہار نظر ضروری ہے تو کہوں گا کہ جس شاعر نے نہ ذاتی خواہش کی بنا پر اور نہ ہی ڈر و خوف کی بنا پر بلکہ صرف اور صرف خیالی قوت اور شاعرانہ ذوق کی بنا پر شعر کہے ہیں وہی دوسروں پر مقدم ہے۔ عرض کیا: اے امیر المومنینؑ وہ کون ہے؟ آپؑ نے فرمایا:

اَلْمَلِكُ الضِّلِّیْلُ ذُوالْقُرُوْحِ
گمراہ بادشاہ زخموں والا

قِیْلَ اِمْرَؤُ الْقَیْسِ یَا اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؟ قَالَ ھُوَ
پوچھا گیا یا امیر المومنینؑ امرؤ القیس مراد ہے ؟ فرمایا ہاں۔
(شرح ابن ابی الحدید ،ج۲۰،ص۱۵۳)

علامہ مفتی جعفر حسینؒ اِس حکمت کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
”اگرچہ امرؤ القیس کے اکثر اشعار عام معیارِ اخلاق سے گرے ہوئے اور فحش مضامین پر مشتمل ہیں، مگر اس فحش نگاری کے باوجود اس کی فنی عظمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے کہ فنکار صرف فنی زاویہ نگاہ سے شعر کے حسن و قبح کو دیکھتا ہے اور دوسری حیثیات کو جو فن میں دخیل نہیں ہوتیں، نظر انداز کر دیتا ہے۔‘‘
(نہج البلاغہ ،ص۹۶۶)

ابن ابی الحدید کی نقل کردہ روایت کے مطابق امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے ابوالاسوددئلی کے نظریہ کے مطابق پیش کردہ شاعر”ابو داؤد ایادی‘‘ کے بڑا شاعر ہونے کو غلط فہمی قرار دیا اور پھر خود بڑے شاعر کے طور پر امرؤ القیس کا نام لیا۔ یہ امامؑ کی شعراء کے کلام اور اُن کے فنی اعتبار سے مقام پر نظر کی خبر دیتی ہے۔

امامؑ نے پھر خود نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۰ میں امرؤ القیس کے شعر کے ایک مصرع کو بطورِ تمثیل بھی پیش کیا۔

امرء القیس عرب کے مشہور شعراء میں سے ایک ہے جن کے قصائد ”سبعۂ معلقات‘‘ کے نام سے مشہور ہیں اس کا پورا نام امرء القیس بن حجر کندی ہے ۵۴۰ عیسوی میں وفات ہوئی۔

امام علیہ السلام نے اس حکمت میں اشعار کی مختلف اصناف کو مدنظر رکھا اور واضح فرمایا کہ ہر شاعر کا اپنا میدانِ سخن ہوتا ہے اور ہر صنف کا اپنا اپنا بڑا شاعر ہو سکتا ہے۔ عربوں میں مشہور مقولہ ہے کہ سب سے بڑا شاعر امرءالقیس ہے جب وہ سوار ہو اور ”نابغہ زبیانی‘‘ بڑا شاعر ہے جب وہ خوف میں مبتلا ہو اور زہیر بن ابی سلمیٰ بڑا شاعر ہے جب وہ کسی چیز کو پسند کر رہا ہو اور اعشیٰ بڑا شاعر ہے جب وہ جوش و طرب میں آ جائے۔
(نہج البلاغہ کی دُنیا،شہید مطہری، ص۴۳)

اصنافِ نظم کو مدنظر رکھتے ہوئے شہید مرتضیٰؒ نے فارسی زبان شعراء کو بھی الگ الگ اصناف کا استاد قرار دیا۔
فرماتے ہیں:

حافظ عرفانی غزل میں، سعدی وعظ و نصیحت اور عام غزل گوئی میں، فردوسی رزمیہ شاعری میں، مولوی تمثیلات اور روحانی و معنوی باریک بینی میں، خیام فلسفیائیہ کلام میں اور نظامی ایک دوسرے شعبے میں شہرت و مہارت رکھتے ہیں، اسی لیے ان کا ایک دوسرےسے موازنہ نہیں کیا جاسکتا اور ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے فن میں لاثانی ہے۔
(نہج البلاغہ کی دُنیا، شہید مطہری، ص۴۱)

اُردو کے استاد شعراء کو بھی مختلف اصناف کے لحاظ سے تقسیم کیا گیا ہے۔ میر حسن مثنوی کے بابا شاعر ہیں، مرزا رفیع سودا قصائد کی چٹان ہیں، میر انیس و میر دبیر مرثیہ کی دُنیا کے تاجدار ہیں، نظیر اکبر آبادی نظم کے سر خیل ہیں، میر تقی میر غزل کی دُنیا کے بادشاہ ہیں اور رئیس امروہوی قطعات کی نگری کے سردار ہیں۔ جوش لفظیات میں تو اقبال جدید افکار میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔

نہج البلاغہ میں جہاں اشعار مذکور ہیں اُن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

(1)۔ ثُمَّ تَمَثَّلَ بَقَوْلِ الْاَعْشٰى:
پھر حضرتؑ نے بطورِ تمثیل اعشیٰ کا یہ شعر پڑھا:

شَتَّانَ مَا یَوْمِیْ عَلٰى كُوْرِهَا

وَ یَوْمُ حَیَّانَ اَخِیْ جَابِرِ

’’کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادرِ جابر کی صحبت میں گزرتا تھا‘‘۔
(نہج البلاغہ ، خطبہ۳، ص۱۱۰)

مشہور شاعر اعشیٰ کا پورا نام میمون بن قیس ہے اور انہوں نے شعر کب کہا اور امامؑ نے اسے کس کے لیے پیش کیا اسے دیکھیں۔
[حاشیہ علامہ مفتی جعفر حسینؒ ،ص۱۲۴]

(2) وَ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الشَّاعِرِ
پھر آپؑ نے شاعر کا یہ شعر بطورِ تمثیل پڑھا

لَعَمْرُ اَبِيْكَ الْخَيْرِ يَا عَمْرُو اِنَّنِیْ

عَلٰى وَضَرٍ مِّنْ ذَا الْاِنَآءِ قَلِيْلِ

’’اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم! مجھے تو اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے)‘‘۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ۲۵،ص۱۷۸)
یہ بسر بن ارطاۃ کا شعر ہے۔

(3) اس خطبہ میں امام علیہ السلام نے ایک اور شعر پڑھا۔

هُنَالِكَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاكَ مِنْهُمْ

فَوَارِسُ مِثْلُ اَرْمِیَةِ الْحَمِیْمِ۔

’’اگر تم کسی موقعہ پر انھیں پکارو تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں‘‘۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ۲۵،ص۱۷۹)
یہ ابو جندب ھزلی کا شعر ہے۔

(4) نہج البلاغہ خطبہ ۳۳ کے آخر میں بعض نسخوں میں امامؑ سے دو شعر منقول ہیں علامہ مفتی جعفر حسینؒ کے ترجمے میں یہ اشعار بیان نہیں ہوئے البتہ علامہ سید ذیشان حیدر جوادی والے نسخے میں یہ اشعار موجود ہیں۔

اَدَمْتَ لَعَمْرِیْ شُرْبَكَ الْمَحْضَ صَابِحًا وَاَكْلَكَ بِالزُّبْدِ الْمُقَشَّرَةَ الْبُجْرَا
وَ نَحْنُ وَهَبْنَاكَ الْعَلَاءَ وَلَمْ تَكُنْ عَلِيًّا، وَحُطْنَا حَوْلَكَ الْجُرْدَ وَالسُّمَّرَا

ہماری جاں کی قسم یہ شراب نابِ صباح یہ چرب چرب غذا ئیں ہمارا صدقہ ہیں
ہمیں نے تم کو یہ ساری بلندیاں دی ہیں وگر نہ تیغ و سناں بس ہمارا حصہ ہیں

(نہج البلاغہ، خطبہ۳۳، ص۸۴-۸۵، ترجمہ علامہ سید ذیشان حیدر جوادی)
یہ کس کا شعر ہے واضح نہیں۔

(5) تحکیم کے موقع پر امامؑ نے لوگوں کی نافرمانی کو دیکھتے ہوئے عربوں کی ایک مشہور مَثل بیان فرمائی اور آخر میں ایک شعر بطور تمثیل پیش کیا۔

اَمَرْتُكُمُ اَمْرِیْ بِمُنْعَرِجِ اللِّوٰی

فَلَمْ تَسْتَبِیْنُوا النُّصْحَ اِلَّا ضُحَی الْغَدِ۔

’’میں نے مقامِ منعرج اللوی (ٹیلے کا موڑ) پر تمہیں اپنے حکم سے آگاہ کیا (گو اس وقت تم نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا) لیکن دوسرے دن کی چاشت کو میری نصیحت کی صداقت دیکھ لی‘‘۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ۳۵،ص۲۰۳)

یہ دُرید بن صمع کا شعر ہے جو اُس نے اپنے بھائی کے لیے کہا تھا۔ علامہ مفتی جعفر حسینؒ نے اِس خطبہ کے حاشیہ میں اِس شعر کے موردِ بیان کو لکھا ہے۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ۳۵،ص۲۰۶)

(6) امامؑ نے اپنے منصب کے چھن جانے کے دُکھ کو بیان کرتے ہوئے امرؤ القیس کے شعر کا ایک مصرع بطور تمثیل پیش کیا جسے اُس نے اپنے اونٹ چھن جانے پر کہا تھا۔

’’وَ دَعْ عَنْكَ نَهْبًا صِیْحَ فِیْ حَجَرَاتِهٖ“

’’چھوڑو اس لوٹ مار کے ذکر کو کہ جس کا چاروں طرف شور مچا ہوا تھا‘‘۔
(نہج البلاغہ ،خطبہ۱۶۰،ص۴۵۲)
اس شعر کا دوسرا مصرع یہ ہے:

وَ ھَاتِ حَدِیْثًا مَّا حَدِیْثُ الرَّوَاحِلِ

اب اُن اونٹنیوں کی بات کرو جو ہاتھ سے جاتی رہی ہیں۔

علامہ مفتی جعفر حسینؒ نے اس خطبہ کے حاشیہ میں اِس شعر کے موقعِ بیان کو تفصیل سے تحریر فرمایا۔
(نہج البلاغہ، خطبہ۱۶۰،ص۴۵۳)

(7) نہج البلاغہ کا خط ۲۸ امام علیہ السلام نے حاکم شام کے ایک خط کے جواب میں لکھا اور سید رضیؒ فرماتے ہیں کہ یہ مکتوب امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کے بہترین مکتوبات میں سے ہے۔ اس مکتوب میں امامؑ نے تین مختلف شعراء سے ایک ایک مصرع بطور تمثیل پیش کیا۔

وَ تِلْكَ شَكَاةٌ ظَاهِرٌ عَنْكَ عَارُهَا۔

’’یہ ایسی خطا ہے جس سے تم پرکوئی حرف نہیں آتا‘‘۔
(نہج البلاغہ ،خط۲۸،ص۷۰۴)
یہ ابوذؤیب ھزلی کے شعر کا مصرع ہے۔

(8) اسی خط میں دوسرے مقام پر امامؑ نے یہ مصرع بطور تمثیل پیش فرمایا۔

وَ قَدْ یَسْتَفِیْدُ الظِّنَّةَ الْمُتَنَصِّحُ

’’اور کبھی نصیحت کرنے والے کو بدگمانی کا مرکز بن جانا پڑتا ہے‘‘۔
(نہج البلاغہ ،خط۲۸،ص۷۰۵)
اس شاعر کا نام الریاشی ہے۔

(9) اس خط میں امامؑ نے ایک تیسرا مصرع بھی بطور تمثیل ارشاد فرمایا۔

لَبِّثْ قَلِیْلًا یَلْحَقِ الْهَیْجَا حَمَلْ

’’تھوڑی دیر دم لو کہ حمل میدان جنگ میں پہنچ لے‘‘۔
(نہج البلاغہ ،خط۲۸،ص۷۰۶)
یہ حمل ابن بدر کا مصرع ہے۔ علامہ مفتی جعفر حسینؒ نے اِس خط کے حاشیہ نمبر۳ پر پورا شعر اور اِس کے بیان کے موقع کا تذکرہ کیا۔

(10) امیر المؤمنینؑ نے اپنے بھائی عقیل کے خط کے جواب میں یہ خط لکھا اور اس میں آپؑ نے تمثیل کے طور پر دو شعر لکھے۔

فَاِنْ تَسْئَلِیْنِیْ كَیْفَ اَنْتَ؟ فَاِنَّنِیْ

صَبُورٌ عَلٰى رَیْبِ الزَّمَانِ صَلِیْبُ

‏ یَعِزُّ عَلَیَّ اَنْ تُرٰى بِیْ كَاٰبَةٌ

فَیَشْمَتَ عَادٍ اَوْ یُسَآءَ حَبِیْبُ‏

’’اگر تم مجھ سے پوچھتی ہو کہ کیسے ہو تو سنو کہ میں زمانہ کی سختیاں جھیل لے جانے میں بڑا مضبوط ہوں۔ مجھے یہ گوارا نہیں کہ مجھ میں حزن و غم کے آثار دکھائی پڑیں کہ دشمن خوش ہونے لگیں اور دوستوں کو رنج پہنچے‘‘۔
(خط ۳۶، ص۷۳۶)
یہ عباس بن مرداس کے اشعار ہیں۔

(11) بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف کو لکھے گئے اِس خط میں بہت سے موضوعات پر امامؑ نے لکھا اور شکم پرستی کی مذمّت کرتے ہوئے یہ شعر بیان فرمایا۔

اَوْ اَكُوْنَ كَمَا قَالَ الْقَآئِلُ:‏

یا میں ویسا ہو جاؤں جیسا کہنے والے نے کہا ہے کہ:

حَسْبُكَ دَآءً اَنْ تَبِیْتَ بِبِطْنَةٍ

وَ حَوْلَكَ اَكْبَادٌ تَحِنُّ اِلَى الْقِدِّ

’’تمہاری بیماری یہ کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لواور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کو ترس رہے ہوں‘‘؟
(خط۴۵، ص۷۴۷)
یہ حاتم طائی کا شعر ہے۔

(12) حاکم شام کے خط کے جواب میں امامؑ نے ایک شعر لکھا۔

فَكَمَا قَالَ اَخُوْ بَنِیْۤ اَسَدٍ:

جیسے شاعر بنی اسد نے کہا ہے:

مُسْتَقْبِلِیْنَ رِیَاحَ الصَّیْفِ تَضْرِبُهُمْ

بِحَاصِبٍ بَیْنَ اَغْوَارٍ وَ جُلْمُوْدِ

’’وہ موسم گرما کی ایسی ہواؤں کا سامنا کر رہے ہیں جو نشیبوں اور چٹانوں میں ان پر سنگریزوں کی بارش کر رہی ہیں‘‘۔
(نہج البللاغہ،خط۶۴،ص۸۰۵)
یہاں شاعر کے قبیلے کا نام لکھا ہے خود شاعر کا نام معلوم نہیں۔

(13) اس حکمت میں امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے خلافت اور شوریٰ کے موضوع پر گفتگو فرمائی اور سید رضیؒ نے یہاں امام علیہ السلام کے دو اشعار بھی تحریر فرمائے ہیں اور سید رضیؒ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشعار اِس موقع پر ارشاد نہیں فرمائے گئے بلکہ خلافت کے موضوع پر کسی اور موقع پر امام علیہ السلام نے ارشاد فرمائے اور سید رضیؒ نے اُسی مناسبت کو مدنظر رکھتے ہوئے اُنہیں یہاں درج کر دیا ہے۔

وَا عَجَبَاهُ! اَ تَكُوْنُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ وَ الْقَرَابَةِ؟.

العجب! کیا خلافت کا معیار بس صحابیت اور قرابت ہی ہے؟!

قَالَ الرَّضِیُّ: وَ رُوِیَ لَهٗ شِعْرٌ فِیْ هٰذَا الْمَعْنٰى، وَ هُوَ:

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: اس مضمون کے اشعار بھی حضرتؑ سے مروی ہیں جو یہ ہیں:

فَاِنْ كُنْتَ بِالشُّوْرٰى مَلَكْتَ اُمُوْرَهُمْ

فَكَیْفَ بِهٰذَا وَ الْمُشِیْرُوْنَ غُیَّبُ؟

وَ اِنْ كنْتَ بِالْقُرْبٰى حَجَجْتَ خَصِیْمَهُمْ

فَغَیْرُكَ اَوْلٰى بِالنَّبِیِّ وَ اَقْرَبُ

اگر تم شوریٰ کے ذریعہ لوگوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہو گئے ہو تو یہ کیسے؟ جبکہ مشورہ دینے کے حقدار افراد غیر حاضر تھے۔ اور اگر قرابت کی وجہ سے تم اپنے حریف پر غالب آئے ہو تو پھر تمہارے علاوہ دوسرا نبی ﷺ کا زیادہ حقدار اور ان سے زیادہ قریبی ہے۔
(حکمت ۱۹۰، ص۸۸۲)

شاعر امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام۔

امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام کے اِن اشعار کو سید رضیؒ سے پہلے والے مؤرخین نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

(14) نہج البلاغہ کے تیسرے حصہ میں سید رضیؒ نے حکمت ۲۶۰ کے بعد ایک الگ باب قائم کیا جس میں ۹ کلمات مشکل و دقیق کلام کے عنوان سے ذکر کیے اور خود ان کی شرح بیان کی۔ ان کلمات میں دو جگہوں پر سید رضیؒ نے اِس شرح میں اشعار درج کیے۔

حکمت نمبر ۶ کی شرح میں دو اشعار بیان کیے۔

وَ عَلٰی ذٰلِكِ قَوْلُ الْاَعْشٰی:
چنانچہ اعشیٰ کا یہ قول اسی معنی کا حامل ہے۔

مَا یُجْعَلُ الْجُدُّ الظَّنُوْنُ الَّذِیْ

جُنِّبَ صَوْبَ اللَّجِبِ الْمَاطِرِ

مِثْلَ الْفُرَاتِیِّ اِذَا مَا طَمَا

یَقْذِفُ بِالْبُوْصِیِّ وَ الْمَاهِرِ

’’وہ ’’جد ظنون‘‘ جو گرج کر برسنے والے اَبر کی بارش سے بھی محروم ہو، دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جا سکتا جبکہ وہ ٹھاٹھیں مار رہا ہو اور کشتی اور اچھے تیراک کو ڈھکیل کر دور پھینک رہا ہو‘‘۔
(غریب الکلام،حکمت۶،ص۹۰۹)

(15) غریب الکلام حکمت ۸ میں سید رضیؒ نے ایک مصرع لکھا۔

قَالَ الرَّاجِزُ:

چنانچہ مشہور رجز نظم کرنے والے شاعر کا قول ہے:

لَمَّا رَاَیْتُ فَالِجًا قَدْ فَلَجَا

جب میں نے کسی ’’فالج‘‘ کو دیکھا کہ اس نے فلج حاصل کی۔
(غریب الکلام ،حکمت۸،ص۹۱۰)

یہ تھے نہج البلاغہ سے وہ مقامات جہاں اشعار ذکر ہوئے ہیں۔

مرکز افکارِ اسلامی کی درخواست پر دُنیا کے متعدد ممالک سے جن شعرائے کرام نے اپنے کلام سے نوازا اُن کے شکر گزار ہیں۔ شعرائے کرام کا اس بہانے سے جب امیرِ کلام، صاحبِ بیان مولائے متقیان کے کلام نہج البلاغہ سے قلم کا تعلق قائم ہو گیا تو اِس بحر بیکراں سے علمی و ادبی پیاس بجھتی رہے گی۔

اپنے زمانے کا عظیم خطیب ابن المقفع متوفیٰ ۱۴۲؁ ھ کہتا ہے :
میں نے خطبوں کے چشمہ سے سیراب ہوکر پیا ہے اور اسے کسی ایک طریقہ میں محدود نہیں رکھا ہے تو اس چشمہ کے برکات بڑھے اور ہمیشہ بڑھتے رہے۔

اور ابنِ نباتہ متوفیٰ ۳۷۴؁ھ جو امیرِ بیان کہے جاتے تھے اُن کا کہنا ہے :
میں نے خطابت کا ایک خزانہ محفوظ کیا ہے، جس سے جتنا زیادہ کام لیا جائے، پھر بھی اس میں برکت زیادہ ہی ہوتی رہے گی۔ میں نے سو فصلیں علی ابن ابی طالبؑ کے مواعظ میں سے یاد کی ہیں۔
(نہج البلاغہ،مقدمہ علامہ علی نقی صاحب ،ص۴۵۔۴۶)

جوان شعراء سے گزارش ہے کہ دل کے کانوں سے امام علی علیہ السلام کی سلونی کی صداؤں کو سُنیں اور نہج البلاغہ کی صورت میں علمِ علی علیہ السلام کا چشمہ جاری ہے اُس سے اپنے ظرف بھر لیں۔ اور اپنے فنِ شاعری کے ذریعہ اِس خزانے کو سخی بن کر دوسروں تک پہنچاتے رہیں۔ یُوں زندگی میں عزتیں ملیں گی اور آخرت میں مولا علی علیہ السلام نجات کے ضامن بنیں گے۔

والسلام
مقبول حسین علوی
مرکز افکارِ اسلامی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button