عقیدہ مہدویت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بحث مہدویت اسلام کی اصلی ابحاث میں سے ایک ہے۔ خصوصاً مکتب امامیہ میں یہ مسئلہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ عقیدہ وجود مہدی ارکان مذہب امامیہ میں سے شمار ہوتا ہے اور یہ عقیدہ متواتر و قطعی الصدور احادیث سے ثابت ہے۔ تاریخ سے کسی حد تک آشنا شخص سے یہ امر مخفی نہیں کہ آخری زمانہ میں جب دنیا ظلم وجور سے بھر جائے گی اس وقت اس وجود پر برکت کا ظہور ہوگا جو تمام مظلومان عالم کی دلی امید ہے۔ جو اس ظلم و ستم سے بھری دنیا کو ظلم سے پاک کر دے گا، ظلم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا، حق و اہل حق کو سربلندی عطا کرے گا اور باطل کو سرنگوں کرے گا، قرآن کی اس آیت کا مصداق قرار پائے گا۔ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿﴾ (1) اور کہدیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔۔ یہ ایک وعدہ الٰہی ہے جس کا وقتی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں اگرچہ وقتی طور پر باطل اپنی جولانیوں کا اظہار کرسکتا ہے لیکن دائمی اقتدار واختیار صرف حق و اہل حق کے لئے ہے۔ صاحبان ایمان کو اس وعدہ الٰہی کی بناء پر مطمئن ہو جانا چاہئے اور سمجھ لینا چاہیے کہ بالآخر انجام انہی کے ہاتھوں میں ہے۔
عدالت و مہدویت
آیات و روایات کی روشنی میں (جن کا بعد میں ذکر ہوگا) مہدویت وعدالت ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں، ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ عدل یعنی مہدی، مہدی یعنی عدل جہانی، مہدی یعنی حاکم معصوم و عادل، مہدی یعنی اس ظلم و جور سے بھری دنیا میں انسانیت کی آخری پناہ گاہ۔۔۔۔۔۔۔
جب خورشید عدالت طلوع ہوگا تو تمام روئے زمین سے ظلمتیں چھٹ جائیں گی حتیٰ تمام افرادبشریت بغیر کسی فرق وامتیاز کے اس نور سے بہرہ مند ہونگے۔ عدالت وامنیت جو ندائے فطرت انسانی ہے اور انسان کی دیرینہ آرزو ہے پوری ہو جائے گی۔ دنیا جو آغاز ہی سے تشنۂ عدالت ہے اس چشمۂ ہدایت سے سیراب ہو جائے گی ،حق اپنے اصلی مقام پر مستقر ہو جائے گا۔ جیسا کہ امیرالمومنین اما علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جب وہ وقت آئے گا تو دین کا یعسوب اپنی جگہ پر قرار پائے گا۔ اور لوگ اس کے پاس اس طرح جمع ہوں گے جس طرح موسم خریف کے قزع۔ (2)
مہدویت استمرار ہدف انبیاء علیہم السلام
فلسفہ ظہور مہدی استمرار ہدف انبیاء ہے، انبیاء کو مبعوث کرنے کا مقصد برپائی عدالت، ابلاغ دستورات الٰہی اور بشریت کی راہ مستقیم کی طرف ہدایت کرنا ہے۔ علامہ تقی جعفری فرماتے ہیں۔ فلسفہ ظہور مہدی فلسفہ بعثت انبیاء ہے مقصد بعثت انبیاء زمان ظہور حضرت مہدیؑ میں پورا ہوگا۔ حکومت حضرت مہدیؑ تمام جوامع انسانی پر مشتمل ہوگی جب کہ دوسرے انبیاء و اوصیاء کے زمانہ میں ایسا نہ تھا ان کے کام و فعالیت کا اثر کل بشریت پر ظاہر نہیں ہوا تھا۔ (3)
عدالت تمام مراتب انسانی میں
جب امام ظہور کریں گے اور تمام بشریت کو انحطاط و پستی سے نکال باہر کریں گے اور لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت کریں گے اور روئے زمین پر عدل قائم کریں گے اور اس وقت عدالت کا قیام تمام مراتب انسانی میں ہوگا۔ امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ جب امام ظہور فرمائیں گے تو تمام کرۂ ارض پر عدالت کا اجراء کریں گے لیکن اس عدالت سے مراد عدالت کا وہ عام اورسادہ معنیٰ نہیں جو عام طور پرلوگ مراد لیتے ہیں (یعنی وہ چیز جو عوام کے رفاہ کے لئے ہو)بلکہ اس سے مراد تمام مراتب انسانیت میں عدالت کا قیام ہے۔ انسان میں اگر کسی قسم کا انحراف بھی پیدا ہو جائے، خواہ انحراف نظری ہو یا عملی ،عقلی ہو مذہبی، اخلاقی ہو یا سماجی غرض کسی قسم کا بھی انحراف ہو۔ ان انحرافات کو دورکرنا اور انسان کی اصلاح کرنا انسان کے وجود میں عدالت ایجاد کرنا ہے۔ (4)
اور یہ عدالت جو وجود انسان میں ایجاد ہو یہ عدالت تمام مراتب انسانی میں ہے۔
آغازعقیدہ یا تفکر مہدویت
اس عقیدہ کا آغاز کہاں سے ہوا آیا یہ عقیدہ صدر اسلام میں موجود تھا یا بعد میں حوادث زمان اس کی پیدائش کا باعث بنے؟
بعض افراد جو تاریخ سے آشنا نہیں اور سطحی ذہن کے مالک ہیں اور اس قضیہ کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں رکھتے اور وہ افراد جو تشیع کے اصول ومبانی سے ناواقف ہیں یا وہ لوگ جنہوں نے ادھر ادھر سے کچھ باتیں سن رکھی ہیں یا کچھ خاص کتابیں پڑھ کر انہی سے نتیجہ اخذ کیا ہوا ہے ان افراد کے مطابق آغاز تفکر مہدویت کا آغاز تیسری صدی کے وسط میں ولادت حضرت حجت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ہوا۔
لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مسلمانوں کے درمیان عقیدہ مہدی صدر اسلام سے ہی مشہور و مسلم تھا اگر چہ اسلام سے پہلے بھی اس کا ذکر موجود ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے۔
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ﴿﴾ (5) اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
نبی اکرم ﷺ نے متعدد مرتبہ ظہور مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خبر دی حتیٰ بعض اوقات امام مہدیؑ کا نام کنیت امامؑ کی حکومت اور امامؑ کی صفات کا بھی تذکرہ کیا۔ نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیث مہدی موعود کے بارے میں موجود ہیں جنہیں شیعہ اور اہلسنت دونوں نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے ان احادیث کے مطالعہ اور ان میں غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مہدی قائمؑ کا موضوع پیغمبرؐ کے زمانے سے ہی لوگوں کے درمیان رائج اور مورد اتفاق تھا چنانچہ لوگ ایسے شخص کے منتظر تھے جو خدا پرستی اصلاح بشریت اورحق و عدل کے لئے قیام کرے اور یہ عقیدہ لوگوں میں اس قدر شہرت یافتہ تھا کہ وہ اس اصل کو مسلم سمجھتے تھے اور اس کی فروع سے بحث کرتے تھے۔ کبھی یہ سوچتے کہ مہدیؑ کس کی نسل سے ہوں گے، کبھی پیغمبرؐ سے مہدی کی کنیت و اسم کے متعلق استفسار کرتے، کبھی آپ کے زمانۂ ظہور و علامات ظہور کے بارے میں سوال کرتے اور کبھی سبب غیبت اور زمانۂ غیبت میں اپنے فرائض دریافت کرتے اور پیغمبرؐ بھی گاہے بگاہے ان کو مہدی کے متعلق خبر دیا کرتے تھے۔ کبھی فرماتے میری نسل سے ہوگا اور فاطمہؑ کے فرزند حسینؑ کی اولاد سے ہوگا کبھی نام و کنیت سے آگاہ کرتے کہ وہ میرا ہم نام ہوگا اور کبھی ظہور کی علامات بیان فرماتے۔
رسول اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد صحابہ اور تابعین کے درمیان بھی یہ ایک امر مسلم تھا اور وہ اس سلسلہ میں بحث و گفتگو کیا کرتے تھے جیسا کہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک مرتبہ ابن عباس معاویہ سے کہتے ہیں: آخری زمانے میں ایک شخص ہمارے خاندان میں سے چالیس سال تک خلیفہ رہے گا۔ (6)
مرور زمان کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ مسلمانوں کے درمیان اس قدر راسخ ہو چکا تھا کہ وہ ہمیشہ اس منجی بشریت کے انتظار میں رہتے جس طرح بنی اسرائیل ایک منجی (حضرت موسیٰ علیہ السلام) کے انتظار میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اسی طرح مسلمان بھی آپ کے انتظار میں رہتے اور آپ کے ظہور کی دعائیں کرتے، حق کی فتح و حکمرانی کو یقینی سمجھتے تھے۔ اور یہ انتظار ہرج و مرج کے زمانہ میں اور وحشتناک بحرانوں میں اور شدید ہو جاتا تھا اور لوگ ہر لمحہ مصداق انتظار کی تلاش میں رہتے۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ بعض افراد کو غلطی سے مہدی موعود سمجھ بیٹھتے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ بعض گمراہ افراد نے لوگوں کی سادہ لوحی اورجاہلیت سے سوئے استفادہ کرتے ہوئے بعض دوسرے افراد کو مہدی کے عنوان سے متعارف کروایا یا خود مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور یہ امر اسلام میں متعدد فرقوں کی پیدائش کا باعث بنا، تاریخ میں ایسے افراد کی تعداد کم نہیں لیکن نمونہ کے طور پر چند افراد کا ذکر کرتے ہیں۔
1۔ مسلمانوں کی ایک جماعت محمد بن حنفیہ کو امام مہدی تصور کرتی ہے اور قائل ہے کہ وہ مرے نہیں بلکہ رضوی نامی ایک پہاڑ پر چلے گئے ہیں اور بعد میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ (7)
2۔ اسی طرح فرقہ نائوسیہ امام صادق علیہ السلام کو امام مہدی سمجھتے ہیں اور ان کے عقیدہ کے مطابق وہ زندہ اور غائب ہیں۔ (8)
3۔ فرقہ واقفیہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو امام مہدی سمجھتے ہیں۔ (9)
4۔ بعض افراد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے فرزند جناب اسماعیل کی موت کا انکار کرتے ہیں اور ان کے امام مہدی ہونے کے قائل ہیں۔ (10)
5۔ اسی طرح محمد بن عبداللہ نے ادعائے مہدویت کیا۔ (11)
6۔ عباسی خلیفہ منصور نے اپنے بیٹے کا لقب مہدی رکھا تاکہ لوگوں کو فریب دے سکے۔ (12)
یہ ادعا مہدویت کرنے والوں میں چند افرادہیں جنہوں نے سوئے استفادہ کیا اور عہد پیغمبرؐ سے نزدیک زمانہ میں نادان اور سادہ لوح لوگ ان کو مہدی سمجھ بیٹھے۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر فرقے منقرض ہو گئے اور فقط تاریخ کے اوراق کا حصہ بن کر رہ گئے۔
ان تمام واقعات وحوادث سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ امر تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلم تھا حتیٰ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اس بات کے بھی قائل تھے کہ امام مہدی (عج) پیدا ہونے کے بعد غائب ہو جائیں گے اور پھر آخری زمانہ میں دوبارہ ظہور کریں گے۔
مہدویت در قرآن
تاریخ آغاز مہدویت کے بعد مختصراً ایک نظر آیات قرآنی پر ڈالتے ہیں:
1۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ﴿﴾ (13)
اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔
اس آیت کریمہ میں مستضعفان کی حکومت جہانی کی طرف اشارہ ہے جو حکومت امام زمانہ کے ظہور کے ساتھ قائم ہوگی اور اس دور حکومت میں زمین عدل و انصاف سے پر ہو جائے گی اور پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ ہوگا: امام علیؑ فرماتے ہیں: یہ دنیا منہ زوری دکھانے کے بعد ایک دن ہماری طرف جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کو اپنے بچے پر رحم آتا ہے اوراس کے بعد آپؑ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ (14)
اورہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین پرکمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں ۔
2۔ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ﴿﴾ (15)
اور ہم نے ذکر (تورات )کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔
امیر المومنینؑ نہج البلاغہ میں ایک اور مقام پر فرماتے ہیں اللہ مستکبرین کا امتحان اپنے کمزور قرار دئے جانے والے اولیاء سے لیا کرتا ہے۔ (16) نیک کردار کی وراثت و سلطنت کا ذکر زبور میں بھی ہے اور اس سے پہلے تورات میں بھی موجود تھا جس سے صاحبان کردار کی تسکین قلب کا سامان مہیا کیا گیا ہے بالآخر دنیا پر آخری غلبہ انہی کے ہاتھوں ہوگا۔
شہید مطہریؒ فرماتے ہیں: زمین ہمیشہ ستم کاروں اور ظالمین کے ہاتھوں میں نہیں رہے گی کیونکہ زمین پر ظالمین کا قبضہ ایک امر موقت ہے۔ روئے زمین پر بالآخر صالحین کی حکومت قائم ہوگی اور یہ حکومت آئندہ (ظہور امام زمانہ عج) کے ساتھ قائم ہوگی اور اس آیت میں ذرّہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ (17) اگر ہم سابقہ تاریخ (قبل از اسلام و بعد از اسلام) کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ تاریخ میں صالح حکومتیں تھیں جس طرح حضرت سلیمان، نبی اکرم ﷺ اور امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی حکومت لیکن ان میں سے کسی پر صالحین کی حکومت مطلقہ کا اطلاق نہیں ہوتا اور ادھر خدا نے قرآن میں صالحین کو حکومت کا جو وعدہ دیا ہے وہ بھی ابھی تک محقق نہیں ہو اور خدا وعدہ خلافی بھی نہیں کرتا۔ پس نتیجہ یہ ہوا کہ یہ حکومت صالحین آخری زمانہ میں امام مہدی (عج) کے ظہور کے بعد قائم ہوگی۔
3۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ﴿﴾ (18)
وہ خدا جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ دین کو تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکین کو یہ امر ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔
اس آیت میں خداوند متعال نے اسلام کی فتح اور تمام ادیان پر غلبہ کا وعدہ کیا ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک بطور مطلق اسلام کو دوسرے ادیان پر غلبہ حاصل نہیں ہوا اس سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ غلبہ آخری زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں ہوگا پس یہ وعدہ خدا امام مہدی علیہ السلام کی حکومت جہانی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ پیامبر ﷺ اور خود امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے کلام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے۔
مہدویت در احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اب قرآن سے صرف نظر کرتے ہوئے احادیث پیغمبرؐ کو ملاحظہ کرتے ہیں کہ آیا پیغمبرؐ نے اس بارے میں کچھ فرمایا ہے۔ روایات جو مہدی موعود سے متعلق ہیں اگر فقط امامیہ کے یہاں ہوتیں تو یہ بات دوسروں کے لئے قابل اعتراض تھی کہ واقعاً اگر یہ مسئلہ ایک حقیقت واقعی اور امر مسلم تھا تو پیغمبرؐ کو یہ مطلب بیان کرنا چاہیے تھا اور اگر پیغمبرؐ نے اس کو بیان کیا ہے تو کیوں فقط شیعہ ہی نے اس کو نقل کیا؟ اس کا جواب واضح ہے کہ اتفاقاً فقط شیعہ ہی نے اس بارے میں روایات نقل نہیں کیں بلکہ اہل سنت نے بھی ان روایات کو ذکر کیا ہے اور یہ روایات اہل سنت اگر شیعہ روایات سے بیشتر نہ ہوں تو کمتر ہرگز نہیں ہیں۔
پس تمام فرق اسلامی کا آخری زمانہ میں ظہور مہدی پر اتفاق ہے حتیٰ اس کے اوصاف و احوال پر بھی اتفاق ہے، اختلاف فقط چند فرعی مسائل میں ہے جس طرح ولادت امام مہدی علیہ السلام میں اختلاف ہے جیسا کہ ابن ابی الحدید معتزلی کے اس قول سے ظاہر ہوتا ہے: ’’تمام فرقوں کا اس امر پر اتفاق ہے کہ اس وقت تک دنیا کی بساط نہیں لپیٹی جائے گی جب تک کہ قائم آل محمدؐ کا ظہور نہیں ہوگا‘‘۔ (19)
جبکہ شیعہ عقیدہ کے مطابق امام 255ھ میں پیدا ہو چکے ہیں اور ابھی غیبت میں ہیں جب ظہور کی شرائط فراہم ہوں گی اس وقت ظہور کریں گے اگرچہ اہل سنت میں سے بھی بعض امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کے قائل ہیں، استاد علی اصغر رضوانی نے اپنی کتاب موعود شناسی میں 43 مشہور علماء اہل سنت کے نام اور ان کی کتب کا ذکر کیا ہے جنہوں نے امام زمانہ علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے۔ (20)
امام مہدی علیہ السلام (روایات شیعہ میں)
روایات شیعہ جو امام مہدی ؑ کے بارے میں پیغمبر ؐ سے نقل ہوئی ہیں بہت زیادہ ہیں یہاں مختصراً چند روایات کا ذکر کرتے ہیں۔
(1) امام مہدی بارہویں امام ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اے علی میرے بعد بارہ ائمہ ہوں گے ان میں سے پہلے تم ہو اور آخری قائم ہوگا۔ اس (قائم) کو مشرق سے مغرب تک فتح عطا کرے گا۔ (21)
(2) مہدی عترت نبی ﷺ
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ آیا مہدی ہم میں سے ہوگا یا ہمارے غیر میں سے؟ فرمایا: ہم میں سے ہوگا اس کے ذریعہ سے خدا دین کو تمام کرے گا جیسا کہ اس کی ابتدا میرے ہاتھوں سے ہوئی ہے اور ہمارے ذریعہ لوگ فتنہ سے نجات پائیں گے جیسے ہمارے وسیلہ سے شرک سے نجات پائی، ہمارے طفیل خدا ان کے دل سے پرانی کدورتیں ختم کرے گا جیسا کہ عہد مشرک وبت پرستی کی دشمنی کے بعد دین نے انہیں باہم مہربان بنا دیا اور وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئے۔ (22)
(3)عدل جہانی
امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں اگر دنیا کی عمر سے فقط ایک دن باقی رہ جائے تو خدا اس دن کو اس قدر طولانی کردے گا کہ ایک شخص جو میری نسل سے ہوگا، قیام کرے گا اور روئے زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح زمین ظلم سے بھر چکی ہو گی رسول خدا ﷺ سے ہم نے یہی سنا ہے۔ (23)
امام مہدیؑ (روایات اہل سنت میں)
مہدی ہم نام محمد ﷺ
عبداللہ، پیغمبرؐ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک عرب کا مالک میرے اہلبیت میں سے وہ شخص نہ ہوگا جس کا نام میرا نام ہے۔ (24)
انقلاب مہدی
امیرالمومنینؑ، رسول اکرمؐ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: مہدی میرے اہلبیت میں سے ہے خداوند عالم اس کے انقلاب کے اسباب ایک رات میں فراہم کرے گا۔ (25)
مہدی اولاد فاطمہ
ام سلمہؓ رسول اکرمؐ سے نقل کرتی ہیں،
آپ ﷺ نے فرمایا: مہدی میری عترت اور اولاد فاطمہ سے ہوگا۔ (26)
اس کے علاوہ اور بہت ساری روایات اس بارے میں موجود ہیں۔
اہل سنت کے بزرگ محدثین نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے مربوط روایات کو صحابہ اور تابعین سے نقل کیا ہے۔ محدثین اہل سنت نے امام زمانہ سے مربوط احادیث کو صحابہ میں سے 33 افراد سے نقل کیا ہے۔ علماء بزرگ اہلسنت میں سے 105 افراد نے ظہور امام غائب سے متعلق احادیث کو اپنی کتب میں ذکر کیا ہے اور 32 افراد نے مستقل طور پر امام مہدی کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں۔ (27)
امام زمانہ در کلام امیرالمومنین علیہ السلام
اب یہ موضوع مہدویت جو اسلام میں کلی طور پر آخری حجت خدا امام مہدی پر کاملاً منطبق ہوتا ہے امیر المومنین علیہ السلام کی نظر میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ اور احادیث اور تاریخ سے قطع نظر نہج البلاغہ میں مہدویت کس طرح بیان کیا گیا ہے۔
ایک اور چیز جس کی طرف توجہ ضروری ہے یہ کہ اہل سنت اور امامیہ تمام تر عقیدتی و مذہبی اختلاف کے باوجود امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے نمونہ انسان کامل، حاکم عادل، ہمدرد انسانیت ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں اور امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیتے ہیں۔ اس لئے کہ گفتار امیرالمومنین امام علی علیہ السلام معیار حق و باطل ہے اور وہ میزان ہے جس پر حق و باطل کو پرکھا جا سکتا ہے۔
بنا بر ایں کلام مبارک امیرالمومنین امام علی علیہ السلام جو کہ نہج البلاغہ کی صورت میں ایک مخزن علمی ہے یہ تمام مسلمانوں پر اعم از شیعہ و سنی حجت ہے اس کے علاوہ اہل سنت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کو مسلمانوں کا چوتھا خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اس بنا پر بھی امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی گفتار و کردار ان پر حجت ہے۔ پس اس بنا پر ان کے لئے کلام امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ناگزیر ہے۔
اگر کلام امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا مطالعہ کریں تو اس میں دو طرح کے حوادث کی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں:
1۔ وہ پیشین گوئیاں جو وقوع پذیر ہو چکی ہیں جس طرح معاویہ کا بر سر اقتدار آنا، بنو امیہ کی حکومت کا تمام ہونا اور اس طرح کے دوسرے واقعات۔
2۔ وہ پیشین گوئیاں جو آئندہ زمانے سے مربوط ہیں جیسے ظہور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف، قیام حضرت مہدی علیہ السلام اور قیامت وغیرہ۔
حجت خدا کا ضروری ہونا
زمین ایسے افراد سے خالی نہیں رہتی جو حجت خدا کو برقرار رکھتا ہے چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو یا خائف و پنہاں تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشانیاں مٹنے نہ پائیں اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں ہیں؟ خدا کی قسم وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں لیکن اللہ کے نزدیک قدر ومنزلت میں بلند، اللہ انہیں کے ذریعہ اپنے دلائل وبیّنات کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے ایسوں کے سپرد کر دیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میں انھیں بو دیں۔ انھیں علم نے بصیرت کی حقیقت تک پہنچا دیا ہے اور یہ یقین کی روح کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔ انھوں نے ان چیزوں کو آسان بنا لیا ہے جنہیں راحت پسندوں نے مشکل بنا رکھا تھا اور ان چیزوں سے انس حاصل کیا ہے جن سے جاہل وحشت زدہ تھے اور اس دنیا میں ایسے اجسام کے ساتھ رہتے سہتے ہیں جن کی روحیں ملأ اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔ یہی روئے زمین پر اللہ کے خلیفہ ہیں اور اس کے دین کے داعی ہیں۔ ہائے مجھے ان کے دیدار کا کس قدر شوق ہے؟ (28)
ابن ابی الحدید اس کلام کی شرح میں لکھتے ہیں: اس کلام کے جملات خصوصاً ”قائم للہ بحجۃ“ امامیہ مذہب کے عقیدۂ غیبت مہدیؑ کا اعتراف ہیں۔ (29)
خبر غیبت امام زمانہ
یہ ہر وعدہ کے ورود اور ہر اس چیز کے ظہور کی قربت کا وقت قریب ہے جسے تم نہیں پہچانتے ہو دیکھو ہم اہل بیتؑ میں سے جو ان فتنوں کا دور پائے گا وہ اس میں ہدایت کا چراغ لے کر آگے بڑھے گا اور صالحین کی راہ و روش پر قدم بڑھائے گا تاکہ بندھی ہوئی گرہوں کو کھولے اور بندوں کو آزاد کرے اور حسب ضرورت جڑے ہوئے کو توڑے اور ٹوٹے ہوئے کو جوڑے، وہ لوگوں کی نگاہوں سے اس طرح پوشیدہ ہوگا کہ قیافہ شناس بھی اس کے نقش قدم کو تاحد نظر نہ پا سکیں گے۔ (30)
علامہ تقی جعفریؒ فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے اس کلام میں دو صفات ”روشن چراغ ہونا اور لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونا“ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ احتمال قوی یہ ہے کہ اس قول سے مقصود امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہیں کیونکہ یہ خصائص ان کے ساتھ مختص ہیں۔
اس کے باوجود کہ امام لوگوں کی نظروں سے مخفی ہیں در عین حال اس وجود کا اثر اور برکت مانند روشن چراغ ہے جو مسیر حق اور حقیقت کو روشن کرتا ہے۔ (31)
خبر ظہور اور حکومت امام زمان (عج)
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام امام زمانہ (عج) کے ظہور اور حکومت کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب وہ وقت آئے گا تو دین کایعسوب اپنی جگہ پر قرار پائے گا اور لوگ اس کے گرد اس طرح جمع ہوں گے جس طرح موسم خریف کے قزع۔
سید رضی فرماتے ہیں: یعسوب اس سردار کو کہا جاتاہے جو تمام امور کا ذمہ دار ہوتا ہے اور قزع بادل کے وہ ٹکڑے جن میں پانی نہ ہو۔ (32)
صفات امام زمان عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف
امیرالمومین امام علی علیہ السلام امام زمانہ (عج) کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وہ حکمت کی سپر زیب تن کئے ہوگا اور اس سپر کو تمام شرائط و آداب کے ساتھ اختیار کئے ہوگا جو یہ ہیں: ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کی معرفت رکھتا ہوگا اور اس کا دل (علائق دنیا سے) خالی ہوگا۔ یہ حکمت اس کی نظر میں اس کی گمشدہ دولت ہوگی جس کو وہ تلاش کر رہا ہوگا وہ اس وقت (نظروں سے اوجھل ہو کر) غریب و مسافر ہوگا جب اسلام عالم غربت میں اور مثل اس اونٹ کے ہوگا جو تھکن سے اپنی دم زمین پر مارتا اور گردن کا اگلا حصہ زمین پر ڈالے ہوئے ہو۔ وہ اللہ کی حجتوں میں سے آخر حجت اور اس کے انبیاء کے خلفاء میں سے آخری خلیفہ ہے۔ (33)
احیاء قرآن و سنت
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام مستقبل کے حوادث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ بندۂ خدا خواہشات کو ہدایت کی طرف موڑدے گا جب لوگ ہدایت کو خواہشات کی طرف موڑرہے ہوں گے اور وہ رائے کو قرآن کی طرف جھکا دے گا جب لوگ قرآن کو رائے کی طرف جھکا رہے ہوں گے۔
پھر زمانے میں اس (داعی حق سے پہلے) یہاں تک نوبت پہونچے گی کہ جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے گی، دانت نکالے ہوئے اور تھنوں کو پر کئے ہوئے، لیکن اس طرح کہ اس کا دودھ پینے میں شیریں اور خوشگوار معلوم ہوگا لیکن اس کا انجام تلخ و ناگوار ہوگا۔ یاد رکھو کہ کل اور یہ کل بہت جلد وہ حالات لے کر آنے والا ہے جس کا تمھیں اندازہ نہیں ہے۔ حاکم و والی جو اس جماعت میں سے نہیں ہوگا تمام حکمرانوں سے ان کی بد اعمالیوں کا محاسبہ کرے گا اور زمین اس کے سامنے اپنے خزانے نکال دے گی اور اپنی کنجیاں نہایت ہی آسانی کے ساتھ اس کے حوالے کر دے گی پھر وہ تمھیں دکھلائے گا کہ عادلانہ سیرت کیا ہوتی ہے اور مردہ کتاب و سنت کو کس طرح زندہ کیا جاتا ہے۔ (34)
خاتمۂ یاس و نا امیدی
امیر المومنین امام علی علیہ السلام امام زمانہ (عج) کے ظہور کو بیان کرتے ہیں اور مایوس و نا امید لوگوں کو امید دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
پیامبر اکرم ﷺ ہم میں حق کا وہ پرچم چھوڑ کر گئے کہ جو اس پرچم سے آگے بڑھ گیا وہ دین سے نکل گیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا اور جو اس سے وابستہ رہا وہ حق کے ساتھ رہا اس پرچم کی طرف راہنمائی کرنے والا وہ ہے جو بات کہنے میں جلد بازی نہیں کرتا اور قیام اطمینان سے کرتا ہے لیکن قیام کے بعد پھر تیزی سے کام کرتا ہے۔ دیکھو جب تم اس کے لئے اپنی گردنیں جھکا دو گے تو اسے موت آ جائے گی اور اسے لے کر چلی جائے گی اور پر جب تک خدا چاہے تمھیں اسی حالت (انتظار) میں رہنا پڑے گا یہاں تک کہ اللہ اس شخص کو ظاہر کرے گا جو تمھیں ایک مقام پر جمع کردے اور تمھاری شیرازہ بندی کردے تو دیکھو جو آنے والا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کی طمع نہ کرو اور جو جا رہا ہے اس سے مایوس نہ ہو جاؤ۔ (35)
پس تاریخ قرآن و حدیث اور نہج البلاغہ کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ عقیدہ مہدویت اسلام کے اصولوں میں سے اور اس کی اصل کے بارے میں مسلمانوں میں کسی بھی قسم کا ختلاف نہیں پایا جاتا اور صدر اسلام سے لے کر آج تک لوگ اس مہدی موعود کے منتظر ہیں اور آج موجودہ دور میں جبکہ پوری دنیا پر استعمار حاکم ہے۔ ہر طرف نا امنی نظر آتی ہے۔ لوگ دین سے بیزار ہو رہے ہیں لادینیت بشریت پر اپنے پنجے گاڑے ہے۔ لوگوں نے خواہشات کو اپنا دین بنا رکھا ہے اور ہر طرف یاس و نا امیدی کا عالم ہے۔ صرف امید کی ایک ہی کرن نظر آتی ہے۔ بقول اقبالؒ:
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلۂ عالم افکار
منابع:
[1] قرآن[2] شرح ابن ابی الحدید
[3] شرح نہج البلاغہ علامہ تقی جعفریؒ
[4] نہج البلاغہ
[5] بحارالانوار
[6] اصول کافی
[7] کمال الدین
[8] الملاحم والفتن
[9] صحیح ترمذی
[10] سنن ابن ماجہ
[11] البدایہ والنہایہ
[12] ملل ونحل شہرستانی
[13] منتخب الاثر
[14] موعود شناسی
[15] صحیفہ امام ؒ
[16] آثار شہید مطہریؒ
حوالہ جات
[1] سورۂ اسرا آیت، 81[2] نہج البلاغہ کلام غریب 1
[3] شرح نہج البلاغہ علامہ تقی جعفری ج، 27ص، 299-300
[4] صحیفہ امامؒ ج، 12ص، 207
[5] سورۂ انبیاء آیت 105
[6] ملاحم الفتن ص، 53
[7] ملل و نحل شہرستانی ج، 1ص، 27
[8] ملل و نحل شہرستانی ج، 1ص، 273
[9] ملل و نحل شہرستانی ج، 1ص، 278
[10] ملل و نحل شہرستانی ج، 1ص، 278
[11] ملل و نحل شہرستانی ج، 1ص، 278
[12] ملل و نحل شہرستانی ج، 1ص، 278
[13] سورۂ قصص آیت 5
[14] حکمت 147
[15] سورۂ انبیاء آیت 105
[16] نہج البلاغہ خطبہ 192
[17] آثار شہید مطہریؒ ج 8، ص، 168
[18] سورۂ توبہ آیت 33
[19] شرح ابن ابی الحدید معتزلی ج، 5ص، 26
[20] موعود شناسی ص 171
[21] بحارالانوار ج 36، ص 226
[22] بحارالانوار ج 5، ص، 84
[23] کمال دین ج 1، ص، 318
[24] صحیح ترمذی
[25] سنن ابن ماجہ ج 2، ص 519
[26] سنن ابن ماجہ ج 2، ص 519
[27] منتخب الاثر ص، 91-98
[28] نہج البلاغہ حکمت ، 147
[29] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ج، 18 ص، 351
[30] نہج البلاغہ خطبہ، 150
[31] شرح علامہ تقی جعفریؒ ج، 24ص، 325
[32] نہج البلاغہ کلام غریب 1
[33] نہج البلاغہ خطبہ، 182
[34] نہج البلاغہ خطبہ، 128
[35] نہج البلاغہ خطبہ، 100




