
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
خدائے ارض و سما کی قسم خلافت کا
پہن لیا پسرِ بو قحافہ نے جامہ
وہ جانتا تھا خلافت میں حیثیت میری
وہی ہے کیل کی ہوتی ہے چکی میں جیسی
مری بلندی سے سیلاِب علم بہتا ہے
کوئی پرندہ کہاں مجھ تلک پہنچتا ہے
یہ اور بات کہ رکھتے ہوئے کمال و علو
حجاب ڈال دیا اور بچا لیا پہلو
یہ سوچنے لگا اس تیرگی میں کیسے رہوں
بریدہ ہاتھوں سے حملہ کروں کہ صبر کروں
کہ جس میں بوڑھا صغیر و کبیر ہوتا ہے
بہ حالِ سعی ، موحد خدا سے ملتا ہے
قرینِ عقل مجھے صبر ہی نظر آیا
تو میں نے دامنِ صبر و رضا کو تھام لیا
کھٹک تھی آنکھوں میں غم کی گلے میں تھا پھندہ
میں لٹتے دیکھ رہا تھا خود اپنا ہی ورثہ
وہ وقت آیا کہ پہلے نے راہ لی اپنی
اور اپنے بعد خلافت فلاں کے ہاتھ میں دی
کہاں یہ دن جو گذرتا ہے ناقوں پر میرا
کہاں وہ دن کہ میں حّیان کے جوار میں تھا
عجیب یہ کہ وہ خود تو حیات میں اپنی
یہ چاہتا تھا خلافت کی چھوڑ دے کرسی
مگر وہ شخص پس مرگ دوسرے کے لئے
زمین کر گیا ہموار مرگ سے پہلے
تھنوں کو دونوں نے سختی سے اس کے بانٹ لیا
اور ایسی منزلِ دشوار میں ہےاس کو رکھا
کہ جس کے زخم ہیں کاری اور اس کے لمس سے ہی
درشتی ہوتی ہے محسوس سختی ہے ایسی
قدم قدم پہ جہاں لغزشوں کی ہے بہتات
سخن سخن پہ جہاں منتوں کی ہے بہتات
جو اس کو سہتا ہے وہ ایسے غم سے ہوگا دوچار
کہ جیسے سرکش و مغرور اونٹنی کا سوار
اگر مہار کو کھینچے تو ناک کٹ جائے
کرے جو باگ کو ڈھیلا تو وہ الٹ جائے
قسم خدا کی ہوئے لوگ کج روی کا شکار
مزاج میں یہ تلون یہ سرکشی کا خمار
پر ایسے سخت زمانے میں میں نے صبر کیا
وہ وقت آیا کہ جب دوسرا بھی راہ لگا
وہ اس کو ایک جماعت سے کر گیا منسوب
اور اس میں ایک مجھے بھی وہ کرگیا محسوب
بھلا یہ شوری ہے کیا اس سے میرا ربط ہے کیا؟
کہ مجھ میں پہلے ہی دن ایسا عیب کون سا تھا؟
جو آ جان میں لیا جارہا ہے میرا بھی نام
مگر طریقہ یہ اپنائے رکھا میں نے مدام
کہ وہ زمین سے نزدیک گر فضا میں اڑیں
تو میں بھی ایسا کروں تاکہ ساتھ ساتھ رہیں
وہ اونچے ہوکے فضا میں اگر کریں پرواز
تو میں بھی ایسا کروں ساتھ دوں رہوں دمساز
پر اس کے بعد بھی اک شخص دشمنی کے سبب
کنارے ہوگیا مجھ سے ضد اور کجی کے سبب
اور ایک ہوگیا دامادی کی طرف مائل
کچھ اور باتیں ہیں جن کا بیاں ہے لا حاصل
پھر اٹھا تیسرا اپنی تمام شان کے ساتھ
شکم پھلایے ہوئے اہل خاندان کے ساتھ
خدا کے مال کو جوِاس طرح نگلتے تھے
کہ اونٹ چرتا ہے چارا بہار کا جیسے
یہاں تلک کہ وہ دن آیا بن کے پیک اجل
سبھی بٹی ہوئی رسی کے اس کی کھل گئے بل
اسے خود اس کے ہی اعمال نے مٹا ڈالا
شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا ڈالا
عجیب حال تھا اس وقت میری وحشت کا
کہ اژدھام سے لوگوں کے میں تھا خوف زدہ
کچھِاس طرح سے مری سمت لوگ بڑھتے تھے
کہ جیسے بجو کی گردن کے بال ہیں بڑھتے
یہاں تلک کہ انگوٹھے کچل گئے میرے
مری عبا کے کنارے بھی پارہ پارہ ہوئے
وہ مجتمع تھے مرے گرد ہو بہو ویسے
کہ جیسے بکریوں کا گلہ گھیرا ڈالتا ہے
مگر میں امٍر خلافت کا بار لے کے اٹھا
تو اک گروہ نے طاعت کا عہد توڑدیا
جو ٹولہ دوسرا تھاُاس نے دین چھوڑ دیا
اور ان کے تیسرے نے فسق اختیار کیا
ٌانہوں نے لگتا ہے یہ قول رب سنا ہی نہیں
کہ دار خلد کے وہ لوگ صرف ہوں گے مکیں
جو لوگ کرتے ہیں ارض خدا کو یوں آباد
نہ چاہتے ہیں بلندی نہ چاہتے ہیں فساد
نگاہ رب میں شرف صرف مومنین کا ہے
کہ دار عقبی سر انجام متقین کا ہے
مگر انہوں نے خدا کی قسم سنا تھا اسے
اور اس کو سمجھا تھا اور یاد بھی رکھا تھا اسے
مگر جمال جہاں کھب گیا نگاہوں میں
لبھا لیا سبھی دنیا کی زینتوں نے انہیں
وہ جس نے دانے کو قدرت سے پھاڑا زیِر زمیں
اور اپنی روح سے ذی روح چیزیں خلق بھی کیں
یہ حاضرین کی شرکت یہ ناصرینِ کرام
یہ لوگ کرتے نہ حجت کو اپنی مجھ پہ تمام
اور اہلِ علم سے ہوتا نہ عہد رب یہ اگر
کہ ناتوان ہو بھوکا ‘ ہو سیر طاقتور
تو چین اور سکوں سے نہ بیٹھیں گے وہ کبھی
نہ چپ رہیں گے نہ آرام پائیں گے وہ کبھی
تو میں مہار خلافت نہ ہاتھ میں لیتا
ُاسی کے کندھے پہ میں ڈال کر ہنکا دیتا
اسی پیالے سے آخر کوِاس کے کرتا سیر
کہ جس پیالے سے اول کو کرچکا تھا سیر
تو تم بھی دیکھتے تب ‘یہ تمہارا عالم پیر
مری نظر میں ہے بکری کی چھینک سے بھی حقیر
بیاں ہے لوگوں کا اس وقت ایک شخص اٹھا
کہ جو عراق کے گرد و نواح میں سے تھا
اور اک نوشتہ دیا جس کو آپ پڑھنے لگے
جو پڑھ چکے بن عباس آپ سے بولے
حضور اپنے صحابہ سے پھر کلام کریں
جو نا تمام ہے خطبہ اسے تمام کریں
تو بولے اے بنِ عباس یہ تو ”شقشقہ“ تھا
جو اپنے موقع پہ ابھرا ابھر کے دب بھی گیا
ختم شد





