مرکزی سلائیڈرمقالات

امیر المومنینؑ کی علمی خدمات

مؤلف: ادیبِ اعظم مولانا سید ظفر حسن کراچی

دنیا میں کوئی تحریک شہرتِ عام کی فضا میں اس وقت تک پرواز نہیں کر سکتی اور بقائے دوام کی سند اسے نہیں مل سکتی۔ جب تک محرّک کے معاون و مدد گار کچھ ایسے لوگ نہ ہوں جنہوں نے حقیقی تحریک کی گہرائیوں تک اپنی نظرِ تحقیق کو پہنچایا ہو۔ اور اس کے تمام پہلوؤں کو الٹ پلٹ کر اس کی ہر تہہ میں اپنے ایمان کو اس طرح رچا بسا نہ دیا ہو کہ مخالف ہوا کا زبردست سے زبردست جھونکا بھی اس کی گرفت کو ڈھیلا نہ کر سکے۔ ظاہر ہے کہ حضور سرکارِ دو عالمؐ کی بعثت ایک ایسی قوم میں ہوئی تھی جو جہالت کے پہاڑ اپنے سر پراٹھائے ہوئے تھی اور جس کے ہر عضو سے کفر و شرک کا پسینہ پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا تھا۔ صدیاں بیت گئی تھیں کہ علم کی روشنی میں ان کی آنکھیں کھلی ہی نہ تھیں۔ ایک گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ ان کا رشتہ اخلاص و ایمان معبود حقیقی سے قطع ہو کر پتھر کی چھوٹی بڑی مورتیوں سے وابستہ ہو گیا تھا۔ دماغی صلاحیتوں پر اوس پڑ چکی تھی اور جذبات کے شیاطین کی ان کی زندگیوں پر حکومت تھی۔ وہ جانتے ہی نہ تھے کہ وحدہ لا شریک کسے کہتے ہیں، وہاں تو جو کچھ تھے لات و عزیٰ تھے۔

غور کیجئے! ایسی نکمّی دھات کو سونا بنانا، جہالت کے غاروں میں پھنسے ہوؤں کو علمی اسٹیج پر لانا، شیطانی پیکروں میں روحِ ایمان پھونکنا معمولی کام نہ تھا۔ خدا کے رسولؐ کو آغاز کار ہی سے ایک ایسے جوانمرد معاون کی ضرورت محسوس ہوئی جو مقدس تحریک کے بازؤں میں وہ زور بھر دے کہ ہر محاذ پر کامیابی اس کا نصیب ہو۔ رسولؐ نے اپنے اس معاون کو جو علیؑ کے بھیس میں تھا، اپنے آغوشِ تربیت میں رکھ کر دینِ اسلام کی مدد کے سارے پہلو اجاگر کر دیے تھے۔ یہ ایک ایسا تربیت یافتہ جوان تھا کہ اس نے اسلامی ترقی کی راہ میں جتنی بھاری بھاری چٹانیں پڑی ہوئی نظر آئیں ٹھوکر مار مار کر سب کو ہٹا دیا۔

جہاں غریب مسلمانوں کی مدد کی ضرورت تھی اس نے ان کی مدد اس طرح کی کہ خود فاقے کیے اور ان کو شکم سیر کھلایا۔ خود لباس میں پیوند لگا کر ان کو نیا لباس پہنایا۔ جہاں دشمنوں کو زیر کرنے کی ضرورت تھی وہاں اپنی ذوالفقارِ آبدار سے ان کے سر کاٹ کر زمین بانٹ دی، ان کے نجس خون سے زمین لال کر دی۔ اس کے بعد ایک اہم خدمت اور علیؑ کے سپرد ہوتی تھی اور وہ عظیم الشان معرکہ تھا، عرب کی جہالت سے لڑنا۔ یہ کام سب کاموں سے مشکل تھا کیوں کہ صدیوں کے جمے ہوئے زنگ کو ذہنوں سے کھرچ کر پھینکنا اور ان میں علمی روشنی کا پھیلانا تھا۔ اس وقت نہ یونانیوں کے فلسفے کے پھیلانے کی ضرورت تھی، نہ مصریوں کے علم ہیئت کو رواج دینے کی، بلکہ سب سے پہلے بندوں کا خدا سے روشناس کرانا اور ان کے خدا سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنا تھا۔ اسلامی جھنڈے کے نیچے آنے والے تو چند سال میں بے شمار لوگ ہو گئے تھے اور بتوں کو سجدہ کرنا انہوں نے چھوڑ دیا تھا لیکن حقیقتِ اسلام سے وہ کوسوں دور تھے۔ صرف لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے سے ایمان میں پختگی اور معرفت میں خلوص پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ مادی تصورات ساحت قدسی تک پہنچے ہوئے تھے اور وہ خدا کو ایک مادّی وجود سمجھ کر اس کی عبادت کر رہے تھے۔ الٰہیات کے نازک مسائل کوان کے دل و دماغ سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ وہ جہادوں میں بڑے شوق سے مالِ غنیمت کی جمع میں تیغ زنی کر سکتے تھے لیکن درسِ معرفت حاصل کرنے کی ان کو کوئی ضرورت محسوس نہ ہوتی تھی۔ اس کمی کو پورا کرنے والا علیؑ کے سوا اور کون ہو سکتا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ علی علیہ السلام کی بے پناہ علمی قوت نے اسلامی مسائل کی توضیح کرکے یہ ثابت کیا کہ اسلام خدائی دین ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا دین خدائی دین نہیں کہلا سکتا۔ سلطنت کرنے والے ملکوں کے فتح کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ سونا چاندی بٹور بٹور لا رہے تھے اور علی علیہ السلام کو اِس کی فکر تھی کہ مسلمان صحیح طریقہ سے معرفت باری تعالیٰ حاصل کریں اور حقیقتِ اسلام کو پہچان کر اپنے ایمان کو پختہ بنائیں۔ جو کتاب خدا نے اپنے آخری رسولؐ کے پاس بھیجی ہے اس کو صحیح طریقہ سے سمجھیں اور اپنے اعمال کو ایسا بنائیں کہ بارگاہ ایزدی میں قبول ہونے کے قابل ہو جائیں۔ الٰہیات کے مسائل کو سمجھانا اور وحدہ لا شریک خدا کی معرفت کرانا ایسا آسان کام نہ تھا کہ علی کے سوا دوسرے لوگ اُسے انجام دے سکتے، کیوں کہ اس کے لئے بڑے علم کی ضرورت تھی۔

حضرت علیؑ کی علمی خدمت کا شاہکار نہج البلاغہ ہے جس میں حضرت کے وہ خطبات ہیں جنہیں پڑھ کر قوتِ ایمانی ایک سے ہزار ہو جاتی ہے اور الٰہیات کے بڑے سنجیدہ مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس کلامِ بلاغت نظام کی قدر نہ کی اور علامہ سید رضیؒ جامعِ نہج البلاغہ کا کلام بتا کر اس کی قدر کو گھٹانا چاہا۔ لیکن چاند پر خاک ڈالنے سے چاند مٹتا نہیں۔ اس کی تابندگی اور اسلوب نگارش کا انوکھا پن بھی بتا رہا ہے کہ علی علیہ السلام کے سوا دوسرا ایسا کلام پیش نہیں کر سکتا۔ اگر دوسروں سے ممکن ہوتا تو وہ بھی ایسے خطبات بیان کر کے دادِ تحسین حاصل کرتے لیکن آج تک کسی سے ممکن نہ ہوا۔ جو خطبے اوروں کے پیش کئے جا رہے ہیں، وہ علیؑ کے خطبوں کے مقابل ایسے ہیں جیسے سونے کے مقابل تانبا یا اکسیر کے مقابل خاک۔

علی علیہ السلام کے خطبات کا ایک ایک لفظ ہزار معنی دربغل ہے۔ تعصب کی انتہا ہو گئی ہے کہ کالجوں میں ادبی نصاب میں کبھی نہج البلاغہ کو جگہ نہیں دی گئی حالانکہ عربی ادب میں کوئی ایک کتاب بھی اس کے وزن کی نہیں ۔ علمائے اہل سنت میں بکثرت حضرات ایسے ہیں جنہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ نہج البلاغہ یقیناً حضرت علیؑ کا کلام ہے اور یہ بھی کہا ہے کَلَامُ الْاِمَامِ اِمَامُ الْکَلَامِ۔ دور کیوں جاتے ہو، ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ کو پڑھ لیجیے ،اس سے پتہ چل جائے گا کہ نہج البلاغہ کیسی کتاب ہے۔ ابن ابی الحدید کا یہ کہنا بالکل بجا و درست ہے کہ جتنی بار میں نہج البلاغہ کو پڑھتا گیا ہر بار نئے نئے نکات ذہن میں آتے گئے۔ آخر یہ خیال کیا کہ اگر میں عمر بھر اسے پڑھتا رہوں گا تو یہی صورت رہے گی لہٰذا جو کچھ فیض حاصل ہوا ہے اسے سپرد قلم کر دینا چاہیئے۔

اس مختصر مضمون میں مَیں حضرت کے صرف ایک خطبہ پر مختصر سی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں، لیجئے اس ایک قطرہ سے سمندر کی وسعت کا حال معلوم کر لیجئے۔ یہ نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ ہے جس میں الٰہیات کے نہایت سنجیدہ مسائل کو حل کیا گیا ہے:

(1) اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُ مِدْحَتَهُ الْقَآئِلُوْنَ
’’حمد کی سزاوار وہ ذات ہے جس کی تعریف تک بیان کرنے والے پہنچ نہیں سکتے‘‘۔
دریا کو کوزہ میں بھر دیا ہے۔ مگر اس کے تفصیلی بیان کے لئے ایک دفتر درکار ہے۔ بے شک کوئی مدح کرنے والا اس کی پوری تعریف نہیں کر سکتا۔ کرے تو جب کہ اس کی صفتوں کا پورا پورا علم حاصل ہو، ایک نعمت میں جہاں ہزار نعمتیں ہوں کس کی طاقت کہ ان کو شمار کر سکے اور جب سمجھ میں نہ آئے تو تعریف مکمل کیسے ہو سکتی ہے۔

(2) وَ لَا یُحْصِیْ نَعْمَآئَهُ الْعَادُّوْنَ
’’اس کی نعمتوں کو شمار کرنے والے شمار نہیں کر سکتے‘‘۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعۡمَةَ اللّٰهِ لَا تُحۡصُوْهَآۗ
’’اگر تم اس کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار ہی نہیں کر سکتے‘‘۔

ایک اور جگہ فرماتا ہے: اگر دنیا کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سات سمندر سیاہی بن جائیں تب بھی لکھنے والے اس کے کلمات (مخلوقات) کا احصاء نہیں کر سکتے۔

(3) وَ لَا یُؤَدِّیْ حَقَّهُ الْمُجْتَهِدُوْنَ
’’کوشش کرنے والے اس کا حق ادا ہی نہیں کر سکتے‘‘۔
اگر صرف ایک آنے والے اور ایک جانے والے سانس کا شکر یہ ادا کرنا چاہیں تو ساری عمر اس میں ختم ہو جائے گی، باقی نعمتوں کا حق کون ادا کر سکتا ہے۔ دفتر تمام گشت و بیاباں رسید عمر ما همچناں

(4) اَلَّذِیْ لَا یُدْرِكُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ
’’وہ وہ ہے کہ ہمتوں کی ڈوریاں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں‘‘۔
یعنی آدمی کی ہمت کتنی ہی بلند پرواز ہو اس کے ساحت قدس تک جا ہی نہیں سکتی۔ وہ تو جتنا سوچے عالم ِ امکان کے اندر ہی کی سوچے گا۔ عالم وجوب تک جانے کی راہ ہی نہ ملے گی۔

(5) وَ لَا یَنَالُهٗ غَوْصُ الْفِطَنِ
’’انسانی عقل کتنا ہی گہرا غوطہ لگائے اس کی ذات تک پہنچ ہی نہیں سکتی‘‘۔

(6) اَلَّذِیْ لَیْسَ لِصِفَتِهٖ حَدٌّ مَّحْدُوْدٌ
’’وہ وہ ہے جس کی صفت کے لئے کوئی معین حد ہی نہیں‘‘۔
انسان کی ہر صفت کے لئے ایک حد ہے۔ عالم کے علم کی ایک حد ہے۔ اس کے آگے نہیں جا سکتا۔ سخی کی سخاوت کی ایک حد ہے جس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ مگر خدا کی کسی صفت کی کوئی حد نہیں۔ خدا اور بندوں کی صفات میں بس یہی فرق ہے ۔دیکھئے کس خوبی سے مخلوق و خالق اور حادث و قدیم کا فرق سمجھایا جا رہا ہے۔

(7) وَ لَا نَعْتٌ مَّوْجُوْدٌ
’’ ہماری طرح اس کی ذات میں تغیر نہیں‘‘
ہم کبھی بچے ہیں، کبھی جوان کبھی بوڑھے ، پس تغیر کواس کی ذت میں راہ نہیں۔

(8) وَ لَا وَقْتٌ مَّعْدُوْدٌ
’’ہماری طرح کسی وقت کا شمار اس کے لئے نہیں‘‘۔
کہ کب سے ہے کب سے نہیں اُن باتوں کا اس سے تعلق نہیں۔ مخلوق کے لئے پیدائش کا ایک وقت ہوتا ہے ، زندگی کا ایک زمانہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے ایسا نہیں۔

(9) وَ لَاۤ اَجَلٌ مَّمْدُوْدٌ
’’ اس کے لئے کوئی مدت بھی نہیں‘‘۔

(10) فَطَرَ الْخَلَاۗئِقَ بِقُدْرَتِهٖ
’’اس نے اپنی قدرت سے مخلوق کو پیدا کیا‘‘۔
نہ اُسے کسی کی مدد کی ضرورت ، نہ کسی سے مقررہ کی ضرورت وہ اپنی قدرت سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔

(11) نَشَرَ الرِّیَاحَ بِرَحْمَتِهٖ
’’ اس نے اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا‘‘۔
اس کی بے شمار مخلوق ہے مگر یہاں صرف ہوا ہی کا ذکر کیا گیا ہے کیوں کہ مخلوق کی پیدائش اور بقا میں ہوا کو خاص دخل ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو کوئی چیز نہ پیدا ہو سکتی ہے اور نہ زندہ رہ سکتی ہے۔ کیسی عجیب نعمت خدا ہے۔

(12) وَ وَتَّدَ بِالصُّخُوْرِ مَیَدَانَ اَرْضِهٖ
’’ اس نے اپنی قدرت سے یہ اونچے اونچے پہاڑ زمین پر رکھ دیئے‘‘۔
تاکہ ہلے ڈلے نہیں، اس کے سوا یہ کام کون کر سکتا ہے؟

(13) اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُهٗ
’’دین ہی سب سے پہلی چیز معرفت باری تعالیٰ ہے‘‘۔
اگر معرفت ہی نہیں بندہ نے خدا کو پہچانا ہی نہیں یا غلط پہچانا تو دین کا اس سے تعلق ہی نہیں وہ بے دین ہے، کافر ہے، مشرک ہے۔

(14) وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِیْقُ بِهٖ
’’ اور معرفت حد کمال کو جب پہنچے گی تو پہلے اس کے وجود کی تصدیق ہونی چاہیے‘‘۔
یعنی صدق دل سے یہ مان لیا جائے کہ خالقِ کائنات کون ہے۔ بغیر اس کے نہ کوئی چیز پیدا ہوتی ہے نہ زندہ رہ سکتی ہے۔

(15) وَ كَمَالُ التَّصْدِیْقِ بِهٖ تَوْحِیْدُهٗ
’’اور پوری پوری تصدیق جب ہی ہو گی کہ اس کو وحدہٗ لا شریک لہٗ مانا جائے‘‘
ورنہ تصدیق بے کار صرف اقرارِ وجود سے کیا فائدہ اگر کسی کو اس کا شریک مان لیا تو پھر اس کی تصدیق کہاں ہوئی کیوں کہ وہ تو اکیلا ہے۔

(16) وَ كَمَالُ تَوْحِیْدِهِ الْاِخْلَاصُ لَهٗ
’’ توحید کا اقرار جب ہی مکمل ہو گا جب خالص یعنی سچے دل سے اس کو خدا مانا جائے ‘‘
اگر شک و شبہ رہا تو پھر توحید کا اقرار بے کار۔

(17) وَ كَمَالُ الْاِخْلَاصِ لَهٗ نَفْیُ الصِّفَاتِ عَنْهُ
’’اور اخلاص کا کمال اس وقت ہو گا جب کہ زائد بر ذات صفات کی اس سے نفی کردی جائے‘‘۔
اس ایک جملہ میں امیرالمومنین علیہ السلام نے الٰہیات کا ایک دفتر بند کر دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جتنی صفتیں انسان میں پائی جاتی ہیں ان سب کی نفی ذاتِ باری سے کر دی جائے اور اس کی تمام صفات کو عین ذات مانا جائے۔ مثلاً ہم جاہل ہیں وہ جاہل نہیں، ہم عاجز ہیں وہ عاجز نہیں، ہم مرزوق ہیں وہ مرزوق نہیں۔ ہم حادث ہیں وہ حادث نہیں، وغیر وغیرہ

(18) لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ اَنَّها غَیْرُ الْمَوْصُوْفِ
’’ہر صفت اس پر گواہ ہے وہ اپنے موصوف سے الگ ہے‘‘۔
یعنی موصوف پر صفت عارضی ہوتی ہے۔ اس کی ذات میں داخل نہیں۔ خدا کے لئے ایسا نہیں اس کی صفت عینِ موصوف ہے۔

(19) وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوْفٍ اَنَّهٗ غَیْرُ الصِّفَةِ
’’ہر موصوف اپنی صفت سے الگ ہوتا ہے۔ صفت اس کی ذات میں داخل نہیں ہوتی‘‘
خدا ایسا نہیں۔

(20) فَمَنْ وَّصَفَ اللهَ سُبْحَانَهٗ فَقَدْ قَرَنَهٗ
’’جس نے اس ذات کو صفت سے موصوف کیا تو اس نے ایک چیز کو خدا کا ساتھی بنا دیا‘‘۔
یعنی موصوف کے ساتھ صفت آئی تو دو چیزیں ہو گئیں۔

(21) وَ مَنْ قَرَنَهٗ فَقَدْ ثَنَّاهُ
’’اس سے کسی صفت کو متصل کیا تو اُسے دو بنا دیا‘‘۔

(22) وَ مَنْ ثَنَّاهُ فَقَدْ جَزَّاَهٗ
’’اور جس نے دو بنایا تو اس نے خدا کا تجزیہ کر دیا‘‘۔

(23) وَ مَنْ جَزَّاَهٗ فَقَدْ جَهِلَهٗ
’’اورجس نے تجزیہ کیا وہ اس کی ذات کی معرفت سےجاہل رہا‘‘۔

(24) وَ مَنْ جَهِلَهٗ فَقَدْ اَشَارَ اِلَیْهِ
’’جو جاہل رہا اس نے اس کی طرف ایک مخلوق کی طرح اشارہ کر دیا‘‘۔

(25) وَ مَنْ اَشَارَ اِلَیْهِ فَقَدْ حَدَّهٗ
’’جس نے اس کی طرف اشارہ کیا تو اس نے اس کے لیے حد بنا دی‘‘۔
کیوں کہ اشارہ تو محدود ہی چیز کی طرف ہو گا۔

(26) وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ
’’جس نے حدد بندی کر دی تو اس نے شمار کر دیا ‘‘۔
یعنی ایک موصوف دوسرے صفت۔

(27) وَ مَنْ قَالَ: «فِیْمَ» فَقَدْ ضَمَّنَهٗ
’’جس نے کہا وہ فلاں چیز کے اندر ہے اس نے اس کو گھیر لیا‘‘۔

(28) وَ مَنْ قَالَ: «عَلَامَ» فَقَدْ اَخْلٰى مِنْهُ
’’جس نے کہا خدا فلاں چیز پر ہے تو اس نے دوسری جگہوں کو اس سے خالی قرار دیا‘‘۔

(29) كَآئِنٌ لَّا عَنْ حَدَثٍ
’’وہ ہے مگر کسی چیز سے پیدا نہیں ہوا‘‘۔

(30) مَّوْجُوْدٌ لَّا عَنْ عَدَمٍ
’’وہ موجود ہے لیکن عدم سے وجود میں نہیں آیا‘‘۔

(31) مَعَ كُلِّ شَیْءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ
’’ہر شے کے ساتھ ہے مگر اس سے ملا ہوا نہیں‘‘۔

(32) وَ غَیْرُ كُلِّ شَیْءٍ لَّا بِمُزَایَلَةٍ
’’ہر شے کا غیر مگر اس سے الگ نہیں‘‘۔

(33) فَاعِلٌ لَّا بِمَعْنَى الْحَرَكَاتِ وَ الْاٰلَةِ
’’وہ کرنے والا ہے لیکن حرکات و آلات کے ذریعہ سے نہیں‘‘۔

یہ ہیں وہ 33 جملے جس میں عارف ربانی عالم علوم صمدانی امیر المومنینؑ نے تمام الٰہیات کو بالاختصار بیان کر دیا ہے۔ کس کی طاقت ہے کہ الٰہیات کے رموز و غوامض کی پردہ کشائی اس طرح کر سکے۔ اب سمجھیے کہ مولائے کائنات نے معرفتِ باری تعالیٰ کس طرح کرائی۔

(1) اس کی تعریف کرنا ناممکن۔
(2) اس کی نعمتیں حد شمار سے باہر ہیں۔
(3) وہ ذات عقل و فہم میں آنے والی نہیں۔
(4) اس کے لیے کوئی محدود صفت نہیں۔
(5) اس کی ذات تغیّر اور وقت و مکان کی قید سے آزاد ہے۔
(6) اس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے۔
(7) اس نے ہواؤں کو چلایا ہے۔
(8) اس نے پہاڑوں کی میخیں زمین پر ٹھوکی ہیں۔
(9) خدا کی معرفت دین میں سب سے پہلی چیز ہے۔
(10) پہلے اس کی تصدیق کرو پھر اس کی توحید کو مانو تو پھر ہر شے سے اُسے علیحدہ قرار دو۔ تمہاری طرح اس کی صفات اس کی ذات سے الگ نہیں بلکہ عین فطرت ہیں۔ اگر صفات کو اس کی ذات سے الگ کیا تو دو قدیم یعنی دو خدا ہوں گے۔ ایک موصوف ایک صفت، دو ہوگئے تو اس کے اجزاء ثابت ہوئے۔ جس نے ایسا سمجھا وہ جاہل ہے اور جو اس حقیقت سے جاہل ہے وہ اس کی طرف اشارہ کرے گا۔ یعنی کہے یہ موصوف یہ صفت۔ جس نے اشارہ کیا تو اس کے لیے ایک حد مقرر کر دی، جب ہی تو اشاره کیا۔ حد بندی ہوگئی تو پھر تو شمار ہی ہونے لگا۔ یعنی ایک حد کو، پھر جہات جس میں وہ ہو۔ وہ کسی چیز کے اندر نہیں، وہ کسی چیز سے باہر نہیں، اپنی قدرت سے ہر جگہ موجود ہے۔ قدیم ہے حادث نہیں، ہر شے کے ساتھ مگر کسی سے ملا جلا نہیں۔ ہر شے سے الگ ہے مگر بے تعلق نہیں، وہ ایسا کاریگر نہیں جس کو حرکت اور آلہ کی ضرورت ہو۔

پس جو شخص ان سب باتوں کو سمجھ لے گا اسے معرفتِ الٰہی حاصل ہو جائے گی ورنہ وہ گمراہی میں پڑ جائے گا۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کے ارشاداتِ عالیہ ہی سے جو ایک بحر نا پیدا کنار ہیں میں نے چند قطرے پیش کر دیئے ہیں۔یہ امیر المومنینؑ کی علمی خدمت ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا، ورنہ مسلمانوں نے تو اس کے بدن سے جان کو کھینچ ہی لیا تھا۔

ادیبِ اعظم مولانا سید ظفر حسن کراچی

آپ اپنی تحریر و تقریر میں ایک خاص مقام رکھتے تھے، ہزاروں مضامین اور سینکڑوں کتب کے مؤلف، مصنف اور مترجم ہیں۔ اصول کافی اور فروع کافی کا ترجمہ کیا۔پانچ جلدوں پر مشتمل تفسیر قرآن مجید کی۔ نہج البلاغہ سے خاص شغف کی وجہ سے علم جناب امیر علیہ السلام پر ایک مضمون لکھا جو آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button