خطبات

خطبہ (۸۶)

(٨٥) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۸۵)

عِبَادَ اللهِ! اِنَّ مِنْ اَحَبِّ عِبَادِ اللهِ اِلَیْهِ عَبْدًا اَعَانَهُ اللهُ عَلٰی نَفْسِهٖ، فَاسْتَشْعَرَ الْحُزْنَ، وَ تَجَلْبَبَ الْخَوْفَ، فَزَهَرَ مِصْبَاحُ الْهُدٰی فِیْ قَلْبِهٖ، وَ اَعَدَّ الْقِرٰی لِیَوْمِهِ النَّازِلِ بِهٖ، فَقَرَّبَ عَلٰی نَفْسِهِ الْبَعِیْدَ، وَ هَوَّنَ الشَّدِیْدَ، نَظَرَ فَاَبْصَرَ،وَ ذَكَرَ فَاسْتَكْثَرَ، وَ ارْتَوٰی مِنْ عَذْبٍ فُرَاتٍ سُهِّلَتْ لَهٗ مَوَارِدُهٗ، فَشَرِبَ نَهَلًا، وَ سَلَكَ سَبِیْلًا جَدَدًا.قَدْ خَلَعَ سَرَابِیْلَ الشَّهَوَاتِ، وَ تَخَلّٰی مِنَ الْهُمُوْمِ، اِلَّا هَمًّا وَّاحِدًا انْفَرَدَ بِهٖ، فَخَرَجَ مِنْ صِفَةِ الْعَمٰی، وَ مُشَارَكَةِ اَهْلِ الْهَوٰی، وَ صَارَ مِنْ مَّفَاتِیْحِ اَبْوَابِ الْهُدٰی، وَ مَغَالِیْقِ اَبْوَابِ الرَّدٰی.

اللہ کے بندو! اللہ کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ وہ بندہ محبوب ہے جسے اس نے نفس کی خلاف ورزی کی قوت دی ہے، جس کا اندرونی لباس حزن اور بیرونی جامہ خوف ہے (یعنی اندوہ و ملال اسے چمٹا رہتا ہے اور خوف اس پر چھایا رہتا ہے)۔ اس کے دل میں ہدایت کا چراغ روشن ہے اور آنے والے دن کی مہمانی کا اس نے تہیہ کر رکھا ہے، (موت کو) جو دور ہے اسے وہ قریب سمجھتا ہے اور سختیوں کو اپنے لئے آسان سمجھ لیا ہے، دیکھتا ہے تو بصیرت و معرفت حاصل کرتا ہے، (اللہ کو) یاد کرتا ہے تو عمل کرنے پر تل جاتا ہے۔ (وہ اس سر چشمہ ہدایت کا) شیریں و خوشگوار پانی پی کر سیراب ہوا ہے جس کے گھاٹ تک (اللہ کی رہنمائی سے) وہ با آسانی پہنچ گیا ہے۔ اس نے پہلی ہی دفعہ چھک کر پی لیا ہے اور ہموار راستے پر چل پڑا ہے، شہوتوں کا لباس اتار پھینکا ہے، (دنیا کے) سارے اندیشوں سے بے فکر ہو کر صرف ایک ہی دھن میں لگا ہوا ہے۔ وہ گمراہی کی حالت اور ہوس پرستوں کی ہوس رانیوں میں حصہ لینے سے دور رہتا ہے۔ وہ ہدایت کے ابواب کھولنے اور ہلاکت و گمراہی کے دروازے بند کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔

قَدْ اَبْصَرَ طَرِیْقَهٗ، وَ سَلَكَ سَبِیْلَهٗ، وَ عَرَفَ مَنَارَهٗ، وَ قَطَعَ غِمَارَهٗ، اسْتَمْسَكَ مِنَ الْعُرٰی بِاَوْثَقِهَا، وَ مِنَ الْحِبَالِ بِاَمْتَنِهَا، فَهُوَ مِنَ الْیَقِیْنِ عَلٰی مِثْلِ ضَوْءِ الشَّمْسِ، قَدْ نَصَبَ نَفْسَهٗ لِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ فِیْۤ اَرْفَعِ الْاُمُوْرِ، مِنْ اِصْدَارِ كُلِّ وَارِدٍ عَلَیْهِ، وَ تَصْیِیْرِ كُلِّ فَرْعٍ اِلٰۤی اَصْلِهٖ. مِصْبَاحُ ظُلُمَاتٍ، كَشَّافُ عَشَوَاتٍ، مِفْتَاحُ مُبْهَمَاتٍ، دَفَّاعُ مُعْضِلَاتٍ، دَلِیْلُ فَلَوَاتٍ، یَقُوْلُ فَیُفْهِمُ، وَ یَسْكُتُ فَیَسْلَمُ.

اس نے اپنا راستہ دیکھ لیا ہے اور اس پر گامزن ہے، (ہدایت کے) مینار کو پہچان لیا ہے اور دھاروں کو طے کر کے اس تک پہنچ گیا ہے، محکم وسیلوں اور مضبوط سہاروں کو تھام لیا ہے۔ وہ یقین کی وجہ سے ایسے اجالے میں ہے جو سورج کی چمک دمک کے مانند ہے۔ وہ صرف اللہ کی خاطر سب سے اونچے مقصد کو پورا کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ ہر مشکل کو جو اس کے سامنے آئے، مناسب طور سے حل کر دے، ہر فرع کو اس کے اصل و مآخذ کی طرف راجع کرے۔ وہ تاریکیوں میں روشنی پھیلانے والا، مشتبہ باتوں کو حل کرنے والا، الجھے ہوئے مسئلوں کو سلجھانے والا، گنجلکوں کو دور کرنے والا اور لق و دق صحراؤں میں راہ دکھانے والا ہے۔ وہ بولتا ہے تو پوری طرح سمجھا دیتا ہے اور کبھی چپ ہو جاتا ہے اس وقت جب چپ رہنا ہی سلامتی کا ذریعہ ہے۔

قَدْ اَخْلَصَ لِلّٰهِ فَاسْتَخْلَصَهٗ، فَهُوَ مِنْ مَّعَادِنِ دِیْنِهٖ، وَ اَوْتَادِ اَرْضِهٖ. قَدْ اَلْزَمَ نَفْسَهُ الْعَدْلَ، فَكَانَ اَوَّلُ عَدْلِهٖ نَفْیَ الْهَوٰی عَنْ نَّفْسِهٖ، یَصِفُ الْحَقَّ وَ یَعْمَلُ بِهٖ، لَا یَدَعُ لِلْخَیْرِ غَایَةً اِلَّاۤ اَمَّهَا، وَ لَا مَظِنَّةً اِلَّا قَصَدَهَا، قَدْ اَمْكَنَ الْكِتَابَ مِنْ زِمَامِهٖ، فَهُوَ قَآئِدُهٗ وَ اِمَامُهٗ، یَحُلُّ حَیْثُ حَلَّ ثَقَلُهٗ، وَ یَنْزِلُ حَیْثُ كَانَ مَنْزِلُهٗ.

اس نے ہر کام اللہ کیلئے کیا تو اللہ نے بھی اسے اپنا بنا لیا ہے۔ وہ دین خدا کا معدن اور اس کی زمین میں گڑی ہوئی میخ کی طرح ہے۔ اس نے اپنے لئے عدل کو لازم کر لیا ہے چنانچہ اس کے عدل کا پہلا قدم خواہشوں کو اپنے نفس سے دور رکھنا ہے۔ حق کو بیان کرتا ہے تو اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ کوئی نیکی کی حد ایسی نہیں جس کا اس نے ارادہ نہ کیا ہو اور کوئی جگہ ایسی نہیں ہے کہ جہاں نیکی کا امکان ہو اور اس نے قصد نہ کیا ہو۔ اس نے اپنی باگ ڈور قرآن کے ہاتھوں میں دے دی ہے۔ وہی اس کا رہبر اور وہی اس کا پیشوا ہے۔ جہاں اس کا بارِ گراں اترتا ہے وہیں اس کا سامان اترتا ہے اور جہاں اس کی منزل ہوتی ہے وہیں یہ بھی اپنا پڑاؤ ڈال دیتا ہے۔

وَ اٰخَرُ قَدْ تَسَمّٰی عَالِمًا وَّ لَیْسَ بِهٖ، فَاقْتَبَسَ جَهَآئِلَ مِنْ جُهَّالٍ وَّ اَضَالِیْلَ مِنْ ضُلَّالٍ، وَ نَصَبَ لِلنَّاسِ اَشْرَاكًا مِّنْ حَبَآئِلِ غُرُوْرٍ، وَ قَوْلِ زُوْرٍ، قَدْ حَمَلَ الْكِتَابَ عَلٰۤی اٰرَآئِهٖ، وَ عَطَفَ الْحَقَّ عَلٰۤی اَهْوَآئِهٖ، یُؤَمِّنُ النَّاسَ مِنَ الْعَظَآئِمِ، وَ یُهَوِّنُ كَبِیْرَ الْجَرَآئِمِ، یَقُوْلُ: اَقِفُ عِنْدَ الشُّبُهَاتِ، وَ فِیْهَا وَقَعَ، وَ یَقُوْلُ: اَعْتَزِلُ الْبِدَعَ، وَ بَیْنَهَا اضْطَجَعَ، فَالصُّوْرَةُ صُوْرَةُ اِنْسَانٍ، وَ الْقَلْبُ قَلْبُ حَیَوَانٍ، لَا یَعْرِفُ بَابَ الْهُدٰی فَیَتَّبِعَهٗ، وَ لَا بَابَ الْعَمٰی فیَصُدَّ عَنْهُ، وَ ذٰلِكَ مَیِّتُ الْاَحْیَآءَ!.

(اس کے علاوہ) ایک دوسرا شخص ہوتا ہے جس نے (زبردستی) اپنا نام عالم رکھ لیا ہے، حالانکہ وہ عالم نہیں۔ اس نے جاہلوں اور گمراہوں سے جہالتوں اور گمراہیوں کو بٹور لیا ہے اور لوگوں کیلئے مکرو فریب کے پھندے اور غلط سلط باتوں کے جال بچھا رکھے ہیں۔ قرآن کو اپنی رائے پر اور حق کو اپنی خواہشوں پر ڈھالتا ہے۔ بڑے سے بڑے جرموں کا خوف لوگوں کے دلوں سے نکال دیتا ہے اور کبیرہ گناہوں کی اہمیت کو کم کرتا ہے۔ کہتا تو یہ ہے کہ: میں شبہات میں توقف کرتا ہوں حالانکہ انہی میں پڑا ہوا ہے۔ اس کا قول یہ ہے کہ: میں بدعتوں سے الگ تھلگ رہتا ہوں، حالانکہ انہی میں اس کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ صورت تو اس کی انسانوں کی سی ہے اور دل حیوانوں کا سا۔ نہ اسے ہدایت کا دروازہ معلوم ہے کہ وہاں تک آ سکے اور نہ گمراہی کا دروازہ پہچانتا ہے کہ اس سے اپنا رخ موڑ سکے۔ یہ تو زندوں میں (چلتی پھرتی ہوئی) لاش ہے۔

﴿فَاَیْنَ تَذْهَبُوْنَ﴾ وَ ﴿اَنّٰی تُؤْفَكُوْنَ﴾! وَ الْاَعْلَامُ قَآئِمَةٌ،وَ الْاٰیَاتُ وَاضِحَةٌ، وَ الْمَنَارُ مَنْصُوْبَةٌ، فَاَیْنَ یُتَاهُ بِكُمْ؟ بَلْ كَیْفَ تَعْمَهُوْنَ وَ بَیْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِیِّكُمْ؟ وَ هُمْ اَزِمَّةُ الْحَقِّ، وَ اَعْلَامُ الدِّیْنِ، وَ اَلْسِنَةُ الصِّدْقِ! فاَنْزِلُوْهُمْ بِاَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْاٰنِ، وَ رِدُوْهُمْ وُرُوْدَ الْهِیْمِ الْعِطَاشِ.

اب تم کہاں جا رہے ہو؟ اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جبکہ تمہارے نبی ﷺ کی عترتؑ تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو وہیں انہیں بھی جگہ دو اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سر چشمہ ہدایت پر اترو۔

اَیُّهَا النَّاسُ! خُذُوْهَا عَنْ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ ﷺ: «اِنَّهٗ یَمُوْتُ مَنْ مَّاتَ مِنَّا وَ لَیْسَ بِمَیِّتٍ، وَ یَبْلٰی مَنْۢ بَلِیَ مِنَّا وَ لَیْسَ بِبَالٍ».

اے لوگو! خاتم النبیین ﷺ کے اس ارشاد [۱] کو سنو کہ (انہوں نے فرمایا:) «ہم میں سے جو مر جاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے اور ہم میں سے (جو بظاہر مر کر) بوسیدہ ہو جاتا ہے وہ حقیقت میں کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا»۔

فَلَا تَقُوْلُوْا بِمَا لَا تَعْرِفُوْنَ، فَاِنَّ اَكْثَرَ الْحَقِّ فِیْمَا تُنْكِرُوْنَ، وَ اعْذِرُوْا مَنْ لَّا حُجَّةَ لَكُمْ عَلَیْهِ ـ وَ اَنَا هُوَ ـ.

جو باتیں تم نہیں جانتے ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو۔ اس لئے کہ حق کا بیشتر حصہ انہی چیزوں میں ہوتا ہے کہ جن سے تم بیگانہ و ناآشنا ہو۔ (جس شخص کی تم پر حجت تمام ہو) اور تمہاری کوئی حجت اس پر تمام نہ ہو اسے معذور سمجھو اور وہ میں ہوں۔

اَ لَمْ اَعْمَلْ فِیْكُمْ بِالثَّقَلِ الْاَكْبَرِ؟! وَ اَتْرُكْ فِیْكُمُ الثَّقَلَ الْاَصْغَرَ؟! وَ رَكَزْتُ فِیكُمْ رَایَةَ الْاِیْمَانِ، وَ وَقَفْتُكُمْ عَلٰی حُدُوْدِ الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ، وَ اَلْبَسْتُكُمُ الْعَافِیَةَ مِنْ عَدْلِیْ، وَ فَرَشْتُكُمُ الْمَعْرُوْفَ مِنْ قَوْلِیْ وَ فِعْلِیْ، وَ اَرَیْتُكُمْ كَرَآئِمَ الْاَخْلَاقِ مِنْ نَّفْسِیْ، فَلَا تَسْتَعْمِلُوا الرَّاْیَ فِیْمَا لَا یُدْرِكُ قَعْرَهُ الْبَصَرُ، وَ لَا تَتَغَلْغَلُ اِلَیْهِ الْفِكَرُ.

کیا میں نے تمہارے سامنے ثقلِ اکبر (قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقلِ اصغر (اہلبیت علیہم السلام) کو تم میں نہیں رکھا [۲] ۔ میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑا، حلال و حرام کی حدیں بتائیں اور اپنے عدل سے تمہیں عافیت کے جامے پہنائے اور اپنے قول و عمل سے حسنِ سلوک کا فرش تمہارے لئے بچھا دیا اور تم سے ہمیشہ پاکیزہ اخلاق کے ساتھ پیش آیا۔ جس چیز کی گہرائیوں تک نگاہ نہ پہنچ سکے اور فکر کی جولانیاں عاجز رہیں اس میں اپنی رائے کو کار فرما نہ کرو۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز و بنی امیہ کے متعلق ہے]

حَتّٰی یَظُنَّ الظَّانُّ اَنَّ الدُّنْیَا مَعْقُوْلَةٌ عَلٰی بَنِیْۤ اُمَیَّةَ، تَمْنَحُهُمْ دَرَّهَا، وَ تُوْرِدُهُمْ صَفْوَهَا، وَ لَا یُرْفَعُ عَنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ سَوْطُهَا وَ لَا سَیْفُهَا، وَ كَذَبَ الظَّانُّ لِذٰلِكَ. بَلْ هِیَ مَجَّةٌ مِّنْ لَّذِیْذِ الْعَیْشِ یَتَطَعَّمُوْنَهَا بُرْهَةً، ثُمَّ یَلْفِظُوْنَهَا جُمْلَةً!.

یہاں تک کہ گمان کرنے والے یہ گمان کرنے لگیں گے کہ بس اب دنیا بنی امیہ ہی کے دامن سے بندھی رہے گی اور انہیں ہی اپنے سارے فائدے بخشتی رہے گی اور انہیں ہی اپنے صاف چشمہ پر سیراب ہونے کیلئے اتارتی رہے گی اور اس اُمت کی (گردن پر) ان کی تلوار اور (پشت پر) ان کا تازیانہ ہمیشہ رہے گا۔ جو یہ خیال کرے گا، غلط خیال کرے گا، بلکہ یہ تو زندگی کے مزوں میں سے چند شہد کے قطرے ہیں، جنہیں کچھ دیر تک وہ چوسیں گے اور پھر سارے کا سارا تھوک دیں گے۔

۱؂پیغمبر اکرم ﷺ کا یہ ارشاد اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ اہل بیت علیہم السلام میں سے کسی فرد کی زندگی ختم نہیں ہوتی اور ظاہری موت سے ان کے مرگ و حیات میں شعورِ زندگی کے لحاظ سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اگرچہ اس زندگی کے احوال و واردات کے سمجھنے سے انسانی شعور عاجز ہے، مگر ماورائے محسوسات کتنی ہی حقیقتیں ایسی ہیں جن تک انسان کا شعور و ادراک نہیں پہنچ سکتا۔ کون بتا سکتا ہے کہ قبر کے تنگ گوشے میں کہ جہاں سانس بھی نہیں لی جا سکتی کیونکر منکر و نکیر کے سوالات کا جواب دیا جا سکے گا۔ یونہی شہدائے راهِ خدا کہ جو نہ حس و حرکت رکھتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں ان کی زندگی کا مفہوم کیا ہے۔ گو ہمیں وہ بظاہر مُردہ نظر آتے ہیں، مگر قرآن ان کی زندگی کی شہادت دیتا ہے:

﴿وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ؕ بَلْ اَحْيَآءٌ وَّلٰـكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ‏﴾

جو لوگ خدا کی راہ میں قتل کئے گئے انہیں مردہ نہ کہنا، بلکہ وہ جیتے جاگتے ہیں، مگر تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔[۱]

دوسرے مقام پر ان کی زندگی کے متعلق ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ‌ؕ بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَۙ‏ ﴾

جو اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ گمان نہ کرنا، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں سے روزی پاتے ہیں۔[۲]

جب عام شہدائے راهِ خدا کے بارے میں قلب و زبان پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے کہ نہ انہیں مردہ کہا جائے اور نہ انہیں مردہ سمجھا جائے تو وہ معصوم ہستیاں کہ جن کی گردنیں تلوار کیلئے اور کام و دہن زہر کیلئے وقف ہو کر رہ گئے تھے کیونکر زندۂ جاوید نہ ہوں گے۔

پھر ان جسموں کے متعلق فرمایا ہے کہ امتدادِ زمانہ سے ان میں کہنگی و بوسیدگی کے آثار پیدا نہیں ہوتے، بلکہ وہ اسی حالت میں رہتے ہیں جس حالت میں شہید ہوتے ہیں۔ اور اس میں کوئی استبعاد نہیں ہے، کیونکہ مادی ذرائع سے ہزارہا برس کی محفوظ کی ہوئی میتیں اس وقت تک موجود ہیں تو جب مادی اسباب سے یہ ممکن ہے تو کیا قادرِ مطلق کے احاطۂ قدرت سے یہ باہر ہے کہ جن کی موت میں زندگی کے احساسات ودیعت کر دیئے ہوں ان کے جسموں کو تغیر و تبدل سے محفوظ رکھے؟ چنانچہ شہدائے بدر کے متعلق پیغمبر ﷺ نے فرمایا:

زَمِّلُوْهُمْ بِكُلُوْمِهِمْ – وَدِمَآئِهِمْ فَاِنَّهُمْ يُحْشَرُوْنَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ اَوْدَاجُهُمْ تَشْخَبُ دَمًا.

انہیں انہی زخموں اور خون کی روانیوں کے ساتھ لپیٹ دو، کیونکہ جب یہ قیامت میں محشور ہوں گے تو ان کے رگہائے گلو سے خون اُبلتا ہو گا۔[۳]

۲؂۲’’ثقلِ اکبر‘‘ سے مراد قرآن اور ’’ثقلِ اصغر‘‘ سے اہل بیت علیہم السلام مراد ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر ﷺ نے اپنے ارشاد «اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ» میں لفظ ’’ثقلین‘‘ سے قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اس لفظ سے تعبیر کرنے کے چند وجوہ ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ تعلیماتِ قرآن و سیرتِ اہل بیت علیہم السلام پر عمل پیرا ہونا عموماً طبائع پر ثقیل و گراں گزرتا ہے، اس لئے انہیں ’’ثقلین‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ’’ثقل‘‘ کے معنی سامانِ مسافر کے ہوتے ہیں، جس کے محل احتیاج ہونے کی وجہ سے اس کی ہر وقت حفاظت کی جاتی ہے اور چونکہ قدرت نے انہیں قیامت تک باقی و برقرار رکھ کر ان کی حفاظت کا سروسامان کیا ہے، اس لئے انہیں’’ثقلین‘‘ کہا گیا ہے۔ یا یہ کہ پیغمبر ﷺ نے راہ پیمائے جادۂ آخرت ہونے کے وقت انہیں اپنا متاعِ بے بہا قرار دے کر اُمت سے ان کی حفاظت چاہی ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ ان کی نفاست و گرانقدری کے پیشِ نظر انہیں ’’ثقلین‘‘ سے یاد کیا گیا ہے، کیونکہ ’’ثقل‘‘ کے معنی نفیس اور پاکیزہ شے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ ابنِ حجر مکی نے تحریر کیا ہے:

سَمّٰى رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الْقُرْاٰنَ وَ عِتْرَتَهٗ ثَقَلَيْنِ، لِاَنَّ الثِّقْلَ كُلُّ نَفِيْسٍ خَطِيْرٍ مَصُوْنٍ، وَ هٰذَانِ كَذٰلِكَ، اِذْ كُلٌّ مِّنْهُمَا مَعْدِنٌ لِّلْعُلُوْمِ اللَّدُنِّيَّةِ وَ الْاَسْرَارِ وَ الْحِكَمِ الْعُلْيَةِ وَ الْاَحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ، وَ لِذَا حَثَّ ﷺ عَلَى الْاِقْتِدَآءِ وَ التَّمَسُّكِ بِهِمْ وَ التَّعَلُّمِ مِنْهُمْ، ثُمَّ اَحَقُّ مَنْ يُّتَمَسَّكُ بِهٖ مِنْهُمْ اِمَامُهُمْ وَ عَالِمُهُمْ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ كَرَّمَ اللهُ وَجْهَهٗ لِمَا قَدَّمْنَاهُ مِنْ مَّزِيْدِ عِلْمِهٖ وَ دَقَآئِقِ مُسْتَنْۢبِطَاتِهٖ.

پیغمبر ﷺ نے قرآن اور اپنی عترت کا نام ’’ثقلین‘‘ رکھا ہے، کیونکہ ’’ثقل‘‘ ہر نفیس، عمدہ اور محفوظ چیز کو کہتے ہیں اور یہ دونوں ایسے ہی تھے۔ ان میں سے ہر ایک علم لدنی کا گنجینہ اور بلند پایہ اسرار و حکم اور احکام شرعیہ کا مخزن ہے۔ اسی لئے پیغمبرﷺ نے ان کی اقتدا اور ان کے دامن سے وابستگی اور ان سے تحصیل علوم کیلئے اُمت کو آمادہ کیا اور ان میں سے تمسک کئے جانے کے زیادہ حقدار امام و عالمِ آلِ محمد علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں، آپؑ کی اس علمی فراوانی اور استنباط میں دقت پسندی کی بنا پر کہ جس کا ہم پہلے تذکرہ کر چکے ہیں۔ (صواعق محرقہ، ص۹۰)

پیغمبر اکرم ﷺ نے چونکہ مقامِ تعبیر میں ’’کتاب‘‘ کی نسبت ’’اللہ‘‘ کی جانب دی ہے اور ’’عترت‘‘ کی نسبت اپنی طرف، اس لئے حفظِ مراتب کا لحاظ کرتے ہوئے اُسے ’’اکبر‘‘ اور اسے ’’اصغر‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، ورنہ مقامِ تمسک میں اہمیت کے لحاظ سے دونوں یکساں اور تعمیر اخلاق میں افادیت کے لحاظ سے ناطق کا درجہ صامت پر مقدم ہونے میں گنجائش انکار نہیں ہے۔

[۱]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۵۴۔

[۲]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۱۶۹۔

[۳]۔ منہاج البراعۃ، ج ۶، ص ۲۱۲، تیسر التحریر، ج ۴، ص ۳۹۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button