
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا تعارف اپنی زبان سے)
مقدمہ
طول تاریخ میں بہت سے بزرگان، تاریخ نویسان اور دانش مندان اسلام نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے منزلت اور فضائل پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ مگر وہ اپنی ان کتابوں میں حضرت علیؑ کی شخصیت کو واضح نہ کر سکے اور ایسی ہستی کہ جس کا مقام خدا کے نزدیک باقی مخلوق سے بلند ہو اسے شخص کے حقیقی فضائل اور منزلت کو کون بیان کر سکتا ہے؟ ایسی صورت میں ایسے شخص کا حقیقی تعارف کروانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا مقام اس کی اپنی زبان سے بیان کیا جائے۔ تاکہ اس کے فضائل اور مقام میں سے ہلکی سی جھلک لوگوں کیلئے روشن ہو جائے۔
شاہد کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو جائے کہ ایک شخص اپنی اتنی تعریف کرتا ہے اس کا کیا معنی ہے؟ آیا یہ اسلام میں جائز ہے یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینیؒ فرماتے ہیں: کہ حضرت علیؑ کا اپنی زبان سے تعریف کرنے کا وہی مبدا ہے جو خداوند متعال نے حضرت آدمؑ کو حکم دیا تھا۔ اے آدم ان باقی ملائکہ کو وہ آسمانی نام بتاؤ جو تم کو سکھائیے گئے ہیں۔ آدمؑ نے وہ نام صرف اس لئے بتائے تھے کہ ان کا مقام اور منزلت بہت بلند تھا۔ اور دوسرا امام علیؑ کا اپنی زبان سے اپنی تعریف کرنا یہ صرف لوگوں کی ہدایت کیلئے تھا۔ اس میں کوئی دوسرا مقصد نہ تھا اور یہ ایک رحمانی کام تھا جس کو امیرالمومنین حضرت علیؑ نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر انجام دیا تاکہ خدا کی رضایت حاصل کریں۔
پس ہم اسی امید کے ساتھ کہ خداوند متعال ہماری اس مختصر سی محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ یہاں پر امیرالمومنین حضرت علیؑ کی شخصیت کو ان کی زبانی سے بیان کرتے ہیں۔ (1)
پہلا مومن
خدا کی کائنات میں حضرت علیؑ کے علاوہ کون ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ میں نے سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان لایا ہوں۔ جبکہ خداوند متعال نے حضرت علیؑ کو اپنی کتاب میں پہلے مسلمان کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ ”وسابقون السابقون۔ اولیک المقربون“۔ (2)
اور خود حضرت علیؑ اپنے ایمان لانے کے بارے میں نہج البلاغہ میں یوں بیان فرماتے ہیں۔
وَ أَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي،فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَ سَبَقْتُ إِلَى الْإِيمَانِ وَ الْهِجْرَةِ۔ (3)
خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کیونکہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔
اس خطبہ میں امیرالمومنین حضرت علیؑ کا یہ کہنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں یعنی میں اس خاندان میں پیدا ہوا ہوں جس میں تمام افراد بت پرست نہ تھے بلکہ خدا کی عبادت کرتے تھے۔ اور میں نے ایمان اور ہجرت میں سبقت حاصل کی۔ ایمان میں سبقت لینے پر اہل سنت بھی قاہل ہیں مگرآپ نے ہجرت میں کس طرح سبقت حاصل کی۔ شب ہجرت رسول خدا ﷺ کے ساتھ حضرت علیؑ ہجرت کے لئے آمادہ تھے مگر رسول خدا ﷺ کے حکم کی وجہ سے آپ نے مھم ترین مسئولیت کو انجام دیا اور آپ نے اپنی ہجرت پر امر رسول ﷺ کو مقدم کیا اس طرح آپ کو پہلی ہجرت اور رسول خدا ﷺ کے حکم پر عمل کرنے دونوں کا ثواب مل گیا۔ (3)
علامہ امینی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں: کہ حضرت علیؑ نے فرمایا:
ولقد صلیت مع رسول الله صلی الله علیه واله قبل الناس بسبع سنین وانا من اول صلی معه۔ (5)
میں نے لوگوں کے ایمان لانے سے سات سال پہلے رسول خدا ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، اور سب سے پہلے میں نے رسول ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔
اور امیرالمومنین حضرت علیؑ اپنے ایمان کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں:
أَ تَرَانِي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص،وَ اللَّهِ لَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَهُ،فَلَا أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ كَذَبَ عَلَيْهِ، فَنَظَرْتُ فِي أَمْرِي،فَإِذَا طَاعَتِي قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَتِي، وَ إِذَا الْمِيثَاقُ فِي عُنُقِي لِغَيْرِي۔ (6)
کیا میں رسول خدا ﷺ کے بارے میں غلط بیانی کر سکتا ہوں جب کہ میں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی تو اب میں سب سے پہلے جھوٹ بولنے والا نہیں ہو سکتا ہوں۔ میں نے اپنے مرحلہ میں غور کیا تو میرے لئے اطاعت رسول ﷺ کا مرحلہ بیعت پر مقدم تھا اور میری گردن میں حضرت کے عہد کا طوق پہلے سے پڑا ہوا تھا۔
ابن الحدید اس خطبہ کی شرح میں بیان فرماتے ہیں: یہ خطبہ امامؑ نے اپنے دوستوں کے درمیان میں فرمایا: جب حضرت علیؑنے لوگوں کو امور غیبی اور دوسری مھم خبریں بتائیں تو ان میں بعض نے کہا کہ تم رسول خدا ﷺ کی طرف جھوٹ کی نسبت دے رہے ہو۔ اور جھوٹ بول رہے ہو۔ جس طرح رسول خدا ﷺ کے زمانے میں منافق رسول خدا ﷺ کو کہتے تھے کہ تم جھوت بول رہے ہو۔ (7)
وہ لوگ جن کے ایمان کمزور تھے اور حق سے روح گردانی کر رہے تھے تو اس وقت امام علیہ السلام نے اپنے ایمان کے بارے میں یوں فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ، وَ سَمِعَ وَ أَجَابَ، لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ ص بِالصَّلَاةِ۔ (8)
اے میرے خدا! تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیری طرف رخ کیا ہے اور تیری آواز سنی ہے اور اسے قبول کیا ہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم ﷺ کے علاوہ کسی نہیں بھی مجھ پر سبقت حاصل نہیں کی۔
ابن الحدید حضرت علیؑ کے پہلے مسلمان ہونے پر قرآن مجید کی اس آیت کو بیان کرتا ہے: ”وسابقون السابقون۔ اولیک المقربون“ (9) اور پس جب انہوں نے سب سے پہلے خدا اور اس کے رسول پر ایمان لائے تو اب کسی قسم کا جھوٹ نہیں بول سکتےکیونکہ انہوں نے اس وقت ایمان لایاجب رسول خدا ﷺ کا کوئی ساتھ دینے والا نہ تھا۔ تو اب ایسا مسلمان اپنی آخری زندگی میں حکومت کیلئے جھوٹ کیوں بولے گا۔ (10)
حضرت علیؑ اپنے دوستوں کے درمیان اپنے ایمان لانے کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:
وَ اللَّهِ لَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَهُ (11)
خدا کی قسم! میں وہ ہوں جس نے سب سے پہلے رسول خدا ﷺ کی تصدیق کی۔
ابن ابی الحدید طبری سے روایت نقل کرتا ہے:
سمت علیا علیہ السلام یقول: انا عبداللہ اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر لا یقولھا بعدی الا کاذب مفتر،صلیت قبل الناس سبع سنین۔ (12)
حضرت علیؑ سے سنا وہ فرما رہے تھے: میں خدا کا بندہ اور رسول خدا ﷺ کا بھائی ہوں، میں صدیق اکبر ہوں، میرے بعد کوئی صدیق اکبر نہیں ہو گا مگر جھوٹا شخص، میں نے باقی لوگوں سے ستر سال پہلے نماز پڑھی تھی۔
اور دوسری روایت میں ہے:میں صدیق اکبر ہوں، میں فاروق اوّل ہوں، میں نے ابوبکر سے پہلے اسلام قبول کیا ہے، اور سات سال اس سے پہلے نماز پڑھی ہے۔ (13)
اعتقاد اور یقین کامل
حضرت علیؑ فرماتے ہیں: لو کشف الغطاءماازددت یقینا۔ (14) اگر دنیا کے حجاب ظاہری اور دنیوی میرے سامنے سے ہٹ جائیں تو پھر بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا۔ اور فرماتے ہیں:
الهی ماعبدتک خوفا من نارک ولاطمعا فی جنتک،بل وجدتک اهلا للعبادۃ فعبدتک۔ (15)
اے میرے خدا !میں تیری عبادت نہ جہنم کے خوف کی وجہ سے کرتا ہوں اور نہ جنت میں داخل ہونے کیلئے بلکہ میں نے تجھے عبادت کے قابل سمجھا ہے جس کی وجہ سے تیری عبادت کرتا ہوں۔
حضرت علیؑ کا وجود مبارک صرف خدا کی محبت کیلئے تھا اور خدا سے ملنے کیلئے اتنے بے چین تھے کہ دعائے کمیل میں یوں بیان فرماتے ہیں:
فَھَبْنِی یَا إلھِی وَسَیِّدِی وَمَوْلایَ وَرَبِّی، صَبَرْتُ عَلَی عَذابِکَ، فَکَیْفَ أَصْبِرُ عَلَی فِراقِکَ (16)
اے میرے خدا، میرے مولا، میرےسردار، تیرے عذاب پر تو صبر کر سکتا ہوں مگر کس طرح تیرے فراق میں صبر کروں۔
حضرت علیؑ کا خدا پر ایمان اتنا بلند تھا جس کو اس کائنات کا کوئی شخص بھی درک نہیں کر سکتا۔ ان فرامین میں سے ایک امام کا یہ فرمان ہے:
الْيَوْمَ أُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَاءَ ذَاتَ الْبَيَانِ- عَزَبَ رَأْيُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّي- مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُهُ۔ (17)
آج میں تمہارے لئے اپنی اس زبان خاموش کو گویا بنا رہو ہوں جس میں بڑی قوت بیان ہے یاد رکھو کہ اس شخص کی رائے گم ہو گی ہے جس نے مجھ سے روگردانی کی ہے میں نے روز اول سے آج تک حق کے بارے میں کبھی شک نہیں کیا۔
امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ما شككت فى الحقّ مذ رأيته
اس خطبہ کی شرح میں ابن میثم فرماتے ہیں: کہ امامؑ کی پیروی ہر حال میں مسلمانوں پر واجب اور ان کے حکم کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ اور مولا اپنی تعریف میں یوں فرماتے ہیں: کہ مجھےحق کی شاخت کے بعد کوئی شک اور شبہ حاصل نہیں ہوا کیونکہ خداوند متعال اپنے نمائندہ کو ایسے کمالات سے مزین کرتا ہے جس کی وجہ خدا کا نمائندہ یقین کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ (18)
اور حضرت علیؑ اپنے دوستوں کے درمیان یوں بیان فرماتے ہیں۔
أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِهِ: (19)
اے لوگوں! یقین اور ایمان کامل کے ساتھ ہدایت کے راستہ پر چلو اگرچہ کہ اس راستہ پر چلنے والوں کی تعداد کم ہو۔
اور حضرت علیؑ اپنے اصحاب اور رسول خدا ﷺ کے اصحاب کا موازنہ کرتے ہوئے اور اپنے ایمان کامل کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں:
وَ إِنِّي لَعَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَ مِنْهَاجٍ مِنْ نَبِيِّي، وَ إِنِّي لَعَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ،أَلْقُطُهُ لَقْطاً۔ (20)
اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں اور رسول خدا ﷺ کے راستہ پر چل رہا ہوں اور میرا راستہ بلکل روشن ہے جس کو میں باطل کے اندھیروں میں بھی تلاش کر لیتا ہوں۔
تمام علوم میں کون افضل؟
حضرت علیؑ کی علمی شخصیت تمام عالم جہان کیلئے سورج کی روشنی کی طرح روشن اور واضح ہے جس طرح سورج کی روشنی ہر انسان کو نفع دیتی ہے اسی طرح حضرت علیؑ کی علمی شخصیت سے اپنے اور دشمن سب نے فائدہ حاصل کیا۔ اور علماء اہل سنت نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے کہ کائنات میں حضرت علیؑ سے زیادہ علم کسی کے پاس نہ تھا۔ جس طرح یہ روایت علماء اہل سنت کی معتبر کتابوں میں موجود ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:
انا مدینۃ العلم و علی بابھا ،فمن اراد العلم فلیقتبسہ من علی۔ (21)
میں علم کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے جو بھی علم کو چاہتا ہے وہ علی سے حاصل کرے۔
اور حضرت علیؑ اپنے علم کے بارے میں یوں بیان فرماتے ہیں:
أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى،يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْر۔ (22)
آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم فلاں شخص (ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھنیچ تان کر پہن رکھا ہے حالانکہ اس کو معلوم ہے کہ خلافت کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے علم کا سیلاب میری ذات سے گذر کر نیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی طائر کی فکر بھی نہیں پہنچ سکتی۔
اس خطبہ کی شرح میں محمد تقی جعفری فرماتے ہیں: کہ ابوبکر نے حضرت علیؑ کے فضائل علمی کو متعدد بار عائشہ، ابن عباس اور عمر سے سنا ہوا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ خلافت کے حق دار حضرت علیؑ ہیں مگر دنیا کی لالچ میں اس نے خلافت کو قبول کر لیا۔
يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ تمام علوم کا اصلی سرچشمہ حضرت علیؑ کی ذات گرامی ہے اور تمام مذہب کے بزرگان کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام سات علوم اسلامی حضرت علیؑ کی ذات سے نکلتے ہیں۔ (23)
اور یہ خطبہ حضرت علیؑ نے متعدد مرتبہ اپنے اصحاب کے درمیان میں بیان فرمایا:
أَيُّهَا النَّاسُ سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي- فَلَأَنَا بِطُرُقِ السَّمَاءِ أَعْلَمُ مِنِّي بِطُرُقِ الْأَرْضِ- قَبْلَ أَنْ تَشْغَرَ بِرِجْلِهَا فِتْنَةٌ تَطَأُ فِي خِطَامِهَا- وَ تَذْهَبُ بِأَحْلَامِ قَوْمِهَا۔ (24)
اے لوگوں مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو کہ میں زمین کی راہوں سے زیادہ آسمان سے واقف ہوں قبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیروں کو اٹھائےجو مہار کو بھی اپنے پیروں کے نیچے روند رہا ہو۔
ابن الحدید اس خطبہ کی شرح میں کہتے ہے:
اجمع الناس کلهم علی انه لم یقل احد من الصحابه ولا احد من العلماء، سلونی غیرعلی بن ابی طالب۔
تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام اصحاب اور علماء میں سے کسی نے بھی سلونی سلونی کا دعوی نہیں کیا اگر یہ دعویٰ کسی نے کیا ہے تو وہ صرف حضرت علیؑ کی ذات گرامی ہے۔ اور مزید کہتے ہیں: کہ حضرت علیؑ کا یہ فرمانا: کہ میں زمین کے راستوں سے آسمان کے راستوں کو بہتر جانتا ہوں یہ ایک علم کی نشانی ہے کیونکہ یہ کلام آپ کی زبان سے ایک مرتبہ صادر نہیں ہوئی کہ کہا جا سکے کہ ایک اتفاقی بات تھی امیر المومنین امام علیؑ کا اس بات کا سو بار سے زیادہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا علم کائنات کے ہر عالم سے زیادہ ہے۔ اور اگر کوئی اس قسم کے علم کا ادعی کرے تو وہ یقینی طور پر جھوٹا ہو گا اور لوگ بھی اس کو کاذب کہیں گے۔ (25)
حضرت علیؑ مسجد کوفہ کے منبر پر یوں فرماتے ہیں: علمنی الف باب من العلم یفتح کل باب الف باب۔ (26)
کہ رسول خدا ﷺ نے مجھے ہزار باب علم کے تعلیم دیے ہیں جس کے ہر باب سے ہزار باب نکلتے ہیں۔
حضرت علیؑ اپنے اصحاب اور رسول خدا ﷺ کے اصحاب کو غفلت سے بیدار کرتے ہوئے اور اپنے علم کو یوں بیان کرتے ہیں:
وَ اللَّهِ لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْكُمْ- بِمَخْرَجِهِ وَ مَوْلِجِهِ وَ جَمِيعِ شَأْنِهِ لَفَعَلْتُ- وَ لَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَكْفُرُوا فِيَّ بِرَسُولِ اللَّهِ ص- أَلَا وَ إِنِّي مُفْضِيهِ إِلَى الْخَاصَّةِ مِمَّنْ يُؤْمَنُ ذَلِكَ مِنْهُ- وَ الَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ وَ اصْطَفَاهُ عَلَى الْخَلْقِ- مَا أَنْطِقُ إِلَّا صَادِقاً- وَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ بِذَلِكَ كُلِّهِ وَ بِمَهْلِكِ مَنْ يَهْلِكُ- وَ مَنْجَى مَنْ يَنْجُو وَ مَآلِ هَذَا الْأَمْرِ- وَ مَا أَبْقَى شَيْئاً يَمُرُّ عَلَى رَأْسِي إِلَّا أَفْرَغَهُ فِي أُذُنَيَّ۔ (27)
خدا کی قسم !اگر میں چاہوں تو ہر شخص کو اس کے داخل اور خارج ہونے کی منزل سے آگاہ کر سکتا ہوں اور جملہ حالات کو بتا سکتا ہوں لیکن میں تم سے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم مجھ سے گم ہو کو رسول اکرم ﷺ کا انکا ر نہ کر دو اور یاد رکھو میں ان باتوں سے ان لوگوں کو آگاہ کر دوں گا جس سے گمراہی کا خطرہ نہیں ہے اور مجھے مخلوق میں سے منتخب قرار دیا ہے اور میں سچ کے علاوہ کوئی کلام نہیں کرتا انھوں نے ساری باتیں مجھے بتا دی ہیں اور ہر ہلاک ہونے والی کی ہلاکت اور نجات پانے والے کی نجات کا راستہ بھی مجھےبتایا گیا ہے اور اس امر خلافت کے انجام سے بھی باخبر کیا گیا ہے اور کوئی اسی شے نہیں جو میرے سر سے گذرنے والی ہو اور اسے میرے کانوں میں نہ ڈال دیا ہو۔
اور کائنات کے وارث حضرت علیؑ اپنے علم کے بارے میں فرماتے ہیں:
أَنَا وَضَعْتُ فِي الصِّغَرِ بِكَلَاكِلِ الْعَرَبِ- وَ كَسَرْتُ نَوَاجِمَ قُرُونِ رَبِيعَةَ وَ مُضَرَ- وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص- بِالْقَرَابَةِ الْقَرِيبَةِ وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِيصَةِ- وَضَعَنِي فِي حِجْرِهِ وَ أَنَا وَلَدٌ يَضُمُّنِي إِلَى صَدْرِهِ- وَ يَكْنُفُنِي فِي فِرَاشِهِ وَ يُمِسُّنِي جَسَدَهُ- وَ يُشِمُّنِي عَرْفَهُ- وَ كَانَ يَمْضَغُ الشَّيْءَ ثُمَّ يُلْقِمُنِيهِ- وَ مَا وَجَدَ لِي كَذْبَةً فِي قَوْلٍ وَ لَا خَطْلَةً فِي فِعْلٍ- وَ لَقَدْ قَرَنَ اللَّهُ بِهِ ص- مِنْ لَدُنْ أَنْ كَانَ فَطِيماً أَعْظَمَ مَلَكٍ مِنْ مَلَائِكَتِهِ- يَسْلُكُ بِهِ طَرِيقَ الْمَكَارِمِ- وَ مَحَاسِنَ أَخْلَاقِ الْعَالَمِ لَيْلَهُ وَ نَهَارَهُ- وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِيلِ أَثَرَ أُمِّهِ- يَرْفَعُ لِي فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ أَخْلَاقِهِ عَلَماً- وَ يَأْمُرُنِي بِالِاقْتِدَاءِ بِہ۔ وَ لَقَدْ كَانَ يُجَاوِرُ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِحِرَاءَ- فَأَرَاهُ وَ لَا يَرَاهُ غَيْرِي- وَ لَمْ يَجْمَعْ بَيْتٌ وَاحِدٌ يَوْمَئِذٍ فِي الْإِسْلَامِ- غَيْرَ رَسُولِ اللَّهِ ص وَ خَدِيجَةَ وَ أَنَا ثَالِثُهُمَا- أَرَى نُورَ الْوَحْيِ وَ الرِّسَالَةِ وَ أَشُمُّ رِيحَ النُّبُوَّةِ- وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّيْطَانِ حِينَ نَزَلَ الْوَحْيُ عَلَيْهِ ص- فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذِهِ الرَّنَّةُ- فَقَالَ هَذَا الشَّيْطَانُ قَدْ أَيِسَ مِنْ عِبَادَتِهِ- إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ وَ تَرَى مَا أَرَى- إِلَّا أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ وَ لَكِنَّكَ لَوَزِيرٌ- (28)
میں نے کم سنی ہی میں عرب کے سینوں کو زمین سے ملا دیا تھا اور ربیعہ و مضر کے سینگوں کو توڑ دیا تھا۔ تمھیں معلوم ہے کہ مجھے رسول خدا ﷺ سے کس قدر قریبی قربت اور مخصوص منزلت حاصل ہے۔ انھوں نے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں اس طرح جگہ دی ہے کہ مجھے اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے اور اپنےبستر پر جگہ دیتے تھے۔ اپنے کلیجہ سے لگا کر رکھتے تھے اور مجھے مسلسل اپنی خوشبو سے سرفراز فرماتے تھے اور غذا کو اپنے دانتوں سے چباکر مجھے کھلاتے تھے۔ نہ انھوں نے میرے کسی بیان میں جھوٹ پایا اور نہ میرے کسی عمل میں غلطی دیکھی۔ اور اللہ نے دودھ بڑھائی کے دور ہی سے ان کے ساتھ ایک عظیم ترین ملک کو کردیا تھا جو ان کے ساتھ بزرگوں کے راستہ اور بہترین اخلاق کے طور طریقہ چلتا رہتا تھا اور شب و روز یہی سلسلہ رہا کرتا تھا اور میں بھی ان کے ساتھ اسی طرح چلتا تھا جس طرح اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ چلتا ہے اور وہ روزانہ میرے سامنے اپنے اخلاق کا نشانہ پیش کرتے تھے اور پھر مجھے اس کی اقتداء کرنے کا حکم دیتے تھے۔
وہ سال میں ایک زمانہ غار حرا میں گزارا کرتے تھے جہاں میں صرف انہیں دیکھا کرتا تھا اور کوئی دوسرا نہ ہوتا تھا۔ میں نور وحی رسالت کا مشاہدہ کیا کرتا تھا اور خوشبو رسالتؐ سے دماغ کو معطر کیا کرتا تھا۔ میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کو سنا اور رسول خدا ﷺ سے عرض کیا تھا یا رسول اللہ یہ آواز کیسی ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:یہ شیطان ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہو گیا ہے۔ اور تم وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ سب کچھ سن رہے ہو جو کچھ میں سن رہا ہوں۔ صرف فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو۔ لیکن میرے بعد وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو۔
حضرت علیؑ غفلت کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے اور اپنے علم کی طرف یو ں اشارہ کیا:
والله لو شئت ان اخبر کل رجل منکم بمخرجه و مولجه وجمیو شانه نفعلت۔ (29)
خدا کی قسم! اگر میں بتانا چاہوں تو تم میں سے ہر ایک شخص کو بتا سکتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں جانا ہے اور اس کے پورے حالات کیا ہیں یہ بھی بتا سکتا ہوں۔
سلمان اور ابوذر نے حضرت علیؑ سے پوچھا :اے ہمارے مولا خدا نے آپ کو کیا کیا اختیار دئے ہیں تو امیر کائنات نے ان سے فرمایا: انا احی وامیت باذن ربی وانا انبئکم بما تاکلون وما تد خرون فی بیتو تکم باذن ربی وانا عالم بضمائر قلوبکم۔ میں اپنے رب کے حکم سے زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اور اپنے رب کے حکم سے جانتا ہوں جو کچھ کھاتے ہوں اور جو کچھ تمھارے گھروں میں ہے اور میں وہ بھی جانتا ہوں جو کچھ تمھارے دلوں میں چھپا ہوا ہے۔
اے سلمان میں ہر مومن و مومنہ کا باپ ہوں میں جلد آنے والا ہوں میں جب آ جاؤں تو سب کو گھیر لیتا ہوں سب کے دلوں پر ضرب لگانے والا، میں امتحان لینے والا، میں وہ ہوں جس کا نام عرش پر لکھا ہوا اور اسی وجہ سے وہ قائم ہیں میرا نام زمین پر لکھا گیا جس کی وجہ سے و ہ قائم ہے اور پہاڑوں پر لکھا گیا جس کی وجہ سے وہ بلند ہیں، ہوا پر لکھا گیا جس کی وجہ سے وہ اڑتی ہے، برق ہر لکھا گیا جس کی وجہ وہ چمکتی، بارش کے قطروں پر لکھا گیا جس کی وجہ سے وہ جاری ہوتے ہیں، نور پر لکھا گیا جس کی وجہ سے وہ روشن ہوئے، بادلوں پر لکھا گیا جس کی وجہ برسنے لگے اور رعد پر لکھا گیا تو اس سے خشوع کی صدا بلند ہوئی، رات پر لکھا گیا تو وہ تاریک ہوئی، دن پر لکھا گیا تو وہ چمک اٹھا۔(30)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت
حضرت علیؑ کی شجاعت کی حد کو کون معین کر سکتا ہے جس کی ایک ضربت تمام انسانوں اور جنوں کی عبادت سے افضل ہو؟
جس کے لئے آسمان سے جبرائیل تلوار لائیں اور احد کے میدان میں یہ قصد یہ پڑھے۔ لا سیف الاذوالفقار ولا فتی الا علی۔
اور آپ اپنی شجاعت کے بارے میں خود یوں فرماتے ہیں: والله لو تظاهرت العرب علی قتالی لماو لیت مدبرا۔ (31)
خدا کی قسم اگر تمام عرب کے لوگ مل کر مجھ سے جنگ کریں تو پھر بھی میں ان کو پشت نہیں دیکھاؤں گا۔
کس طرح مکمن ہے جس کے ہاتھوں کو خدا یاد اللہ کہے، جس کی تلوار کو خدا سیف اللہ کہے وہ میدان جنگ میں کس سے دڑے۔
امام علیہ السلام دین اسلام کے دفاع کے لئے اور خدا پر یقین کامل رکھتے ہوئے معاویہ کے مقابلے میں نکلتے وقت یوں ارشاد فرماتے ہیں:
إِنِّي وَ اللَّهِ لَوْ لَقِيتُهُمْ وَاحِداً وَ هُمْ طِلَاعُ الْأَرْضِ كُلِّهَا- مَا بَالَيْتُ وَ لَا اسْتَوْحَشْتُ- وَ إِنِّي مِنْ ضَلَالِهِمُ الَّذِي هُمْ فِيهِ- وَ الْهُدَى الَّذِي أَنَا عَلَيْهِ- لَعَلَى بَصِيرَةٍ مِنْ نَفْسِي وَ يَقِينٍ مِنْ رَبِّي- وَ إِنِّي إِلَى لِقَاءِ اللَّهِ لَمُشْتَاقٌ- وَ حُسْنِ ثَوَابِهِ لَمُنْتَظِرٌ رَاج۔ (32)
خدا کی قسم! اگر میں تنہا ان کے مقابلہ پر نکل پڑوں اور ان سے زمین چھلک رہی تو بھی مجھے فکر اور وحشت نہ ہوگی کہ میں ان کی گمراہی کے بارے میں بھی اور اپنے ہدایت یافتہ ہونے کے بارے میں بھی بصریت رکھتا ہوں اور پروردگار کی طرف سے منزل یقین پر بھی ہوں اور میں لقائے الہی کا اشتیاق بھی رکھتا ہوں اور اس کے بہترین اجر اور ثواب کا منتظر اور امیدوار بھی ہوں۔
اور اسی طرح حضرت علیؑ نے جنگ نہروان سے واپسی پر اپنے دوستوں کو بتایا کہ میں نے کس طرح دین خدا اور رسول اللہ ﷺ کی مدد کی: حضرت امیرالمومنین علیؑ فرماتے ہیں:
فَقُمْتُ بِالْأَمْرِ حِينَ فَشِلُوا،وَ تَطَلَّعْتُ حِينَ تَقَبَّعُوا،وَ نَطَقْتُحِينَ تَعْتَعُوا،وَ مَضَيْتُ بِنُورِ اللَّهِ حِينَ وَقَفُوا،وَ كُنْتُ أَخْفَضَهُمْ صَوْتاً وَ أَعْلَاهُمْ فَوْتاً،فَطِرْتُ بِعِنَانِهَا وَ اسْتَبْدَدْتُ بِرِهَانِهَا،كَالْجَبَلِ لَا تُحَرِّكُهُ الْقَوَاصِفُ،وَ لَا تُزِيلُهُ الْعَوَاصِفُ،لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ فِيَّ مَهْمَزٌ وَ لَا لِقَائِلٍ فِيَّ مَغْمَزٌ،الذَّلِيلُ عِنْدِي عَزِيزٌ حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ لَهُ،وَ الْقَوِيُّ عِنْدِي ضَعِيفٌ حَتَّى آخُذَ الْحَقَّ مِنْه۔ (33)
میں نے اس وقت اپنے فرائض کو انجام دیئے جب کوئی بھی اس راہ میں قدم بڑھانے کی جرات نہ کرتا تھا۔ اور میں اس وقت سر اٹھا کر سامنے آیا۔ جس وقت دوسرے گوشوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اس وقت زبان کھولی جس وقت دوسرے گنگ نظر آ رہے تھے۔ اور اس وقت نور خدا کی روشنی میں آگے بڑھا، جس وقت دوسرے زمین گیر ہو چکے تھے۔ گوی امیری آواز ان سب سے دھیمی تھی، مگر سبقت اور پیش قدمی میں سب سے آگے تھا۔ اور میں صاف تھا جو اس میدان میں بازی لے گیا۔ کسی کیلئے بھی مجھ میں عیب گیری کا موقع اور حرف گیری کی گنجائش نہ تھی۔ یاد رکھو! تمہارا کمزور میری نگاہ میں طاقت ور تھا یہاں تک کہ اس کا حق دلوا دوں اور تمہارا طاقت ور میرے سامنے کمزور ہے یہاں تک کہ اس سے دوسروں کا حق لے لوں۔
اور اسی طرح امیرالمومنین حضرت علیؑ جنگ جمل میں شرکت کرنے والوں سے دشمن کے فتنہ اور اپنی شجاعت کے بارے میں یوں فرمایا:
َلَا وَ إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ جَمَعَ حِزْبَهُ- وَ اسْتَجْلَبَ خَيْلَهُ وَ رَجِلَهُ- وَ إِنَّ مَعِي لَبَصِيرَتِي مَا لَبَّسْتُ عَلَى نَفْسِي وَ لَا لُبِّسَ عَلَيَّ-وَ ايْمُ اللَّهِ لَأُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضاً أَنَا مَاتِحُهُِ۔ (34)
آگاہ ہو جاؤ کہ شیطان نے اپنے گروہ کو جمع کر لیا ہے اور اپنے پیادہ و سوار سیمٹ لئے ہیں لیکن میرے ساتھ میری بصیرت ہے نہ میں نے کسی کو دھوکہ دیا ہے اور نہ دھوکہ کھایا ہے اور خدا کی قسم میں ان کے لئے ایسے حوض چھلکاأں گا جس کاپا نی نکالنے والا بھی میں ہی ہوں گا۔
اس خطبہ کے آخری حصہ کی ”أَنَا مَاتِحُهُِ“ کی شرح میں ابن میثم فرماتے ہیں: حضرت علیؑ نے اپنے دوستوں سے فرمایا: کہ میں اس جنگ کے سارے فرائض اپنے عہدہ پر لیتا ہوں۔ یہاں پر امامؑ نے جنگ کو پانی کے ساتھ کیوں تشبیہ دی؟ کیونکہ امامؑ کہنا یہ چاہتے تھے جب انسان دریا میں ڈوب جائے تو اس کو کوئی بھی نہیں بچا سکتا اب اگر کوئی بھی میرے مقابلہ میں آئے گا تو اس کو کوئی بھی بچا نہیں سکتا۔ (35)
اور اسی طرح مزید فرماتے ہیں:
فَإِنْ أَبَوْا أَعْطَيْتُهُمْ حَدَّ السَّيْفِ- وَ كَفَى بِهِ شَافِياً مِنَ الْبَاطِلِ وَ نَاصِراً لِلْحَقِّ- وَ مِنَ الْعَجَبِ بَعْثُهُمْ إِلَيَّ أَنْ أَبْرُزَ لِلطِّعَانِ وَ أَنْ أَصْبِرَ لِلْجِلَادِ- هَبِلَتْهُمُ الْهَبُولُ- لَقَدْ كُنْتُ وَ مَا أُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ وَ لَا أُرْهَبُ بِالضَّرْبِ- وَ إِنِّي لَعَلَى يَقِينٍ مِنْ رَبِّي وَ غَيْرِ شُبْهَةٍ مِنْ دِينِي۔ (36)
اب اگر ان لوگوں نے حق سے انکار کیا تو میں ان کو تلوار کی باڑھ عطا کروں گا کیونکہ وہی باطل کی بیماری سے شفا دینے والی اور حق کی واقعی مددگار ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ لوگ مجھے نیزہ بازی کے میدان سے نکلنے اور تلوار سےکی جنگ کرنے کی دعوت دیتے ہیں، رونے والی ان کے غم میں روئیں۔ مجھے تو کبھی بھی جنگ سے خوف زدہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ میں شمشر زنی سے مرغوب ہوا ہوں میں اپنے پروردگار کی طرف سے منزل یقین پر ہوں اور مجھے دین کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے۔
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا زہد و تقویٰ
لغت:(زهد) فی الشی و عنه ایضا۔ (زهدا) بمعنی ترکه و اعرض عنه فهو زاهد۔ ۔ ۔ ۔(37)
زہد کے لغوی معنی، چھوڑ دینا، کناره کشی کرنا، دل کو پاک کرنا۔
اصطلاح: اصطلاح میں زہد کا کوئی ایک خاص معنی بیان نہیں کیا گیا۔ بعض لوگ زہد کا تصور غربت، ناداری، دنیا بیزاری، اور پھٹے کپڑوں میں محصور کر دیا گیا ہے حالانکہ اسلام میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اسلام کے نزدیک زہد دولت کے ساتھ بھی جمع ہو سکتا ہے اور غربت کے ساتھ بھی۔ اور زہد کی تعریف ہم نھج البلاغہ سے
امیرالمومنین حضرت علیؑ کی زبانی بیان کرتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ الزَّهَادَةُ قِصَرُ الْأَمَلِ،وَ الشُّكْرُ عِنْدَ النِّعَمِ وَ التَّوَرُّعُ عِنْدَ الْمَحَارِم۔ (38)
اے لوگوں! زہد امیدوں کے کم کرنے، نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کا نام ہے۔
حضرت علیؑ خود قرآن کی آیت سےاستفادہ کرتے ہوئے زہد کی یوں تعریف کرتے ہیں:
وَ قَالَ ع: الزُّهْدُ كُلُّهُ بَيْنَ كَلِمَتَيْنِ مِنَ الْقُرْآنِ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ( لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَ لا تَفْرَحُوا بِما آتاكُمْ)وَ مَنْ لَمْ يَأْسَ عَلَى الْمَاضِي وَ لَمْ يَفْرَحْ بِالْآتِي- فَقَدْ أَخَذَ الزُّهْدَ بِطَرَفَيْهِ۔ (39)
تمام زہد قرآن مجید کے دو فقروں کے اندر سمٹا ہوا ہے۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس کا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ لہذا جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اور آنے والے سے مغرور نہ ہو جائے تو اس نے سارا زہد سمیٹ لیا ہے۔
اسی طرح امام علی علیہ السلام بصرہ میں اپنے ایک صحابی کی بیمار پرسی کیلئے گئے۔ جب امام علیہ السلام نے اس کا وسیع گھر اور دینا کی ہر چیز اس کے گھر میں دیکھی تو امام علیہ السلام نے اس کو یوں فرمایا:
مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِسِعَةِ هَذِهِ الدَّارِ فِي الدُّنْيَا- وَ أَنْتَ إِلَيْهَا فِي الْآخِرَةِ كُنْتَ أَحْوَجَ- وَ بَلَى إِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الْآخِرَةَ- تَقْرِي فِيهَا الضَّيْفَ وَ تَصِلُ فِيهَا الرَّحِمَ- وَ تُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوقَ مَطَالِعَهَا- فَإِذاً أَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الْآخِرَةَ۔ (40)
تم اس دنیا میں اس قدر وسیع مکان کو لے کر کیا کرو گے جب کہ آخرت میں اس کی احتیاج زیادہ ہے۔ تم اگر چاہو تو اس کے ذریعہ آخرت کا سامان تہیہ کر سکتے ہو کہ اس میں مہمانوں کی ضیافت کرو، قرابت داروں سے صلہ رحمی کرو اور موقع اور محل کے مطابق حقوق ادا کرو۔ اس سے تم آخرت حاصل کر سکتے ہو۔
دنیا حضرت علی علیہ السلام کی زبانی
کائنات کے امیر حضرت علیؑ کے دل میں خداوند متعال کی محبت کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہ تھی۔ ان کے نزدیک خدا کی محبت کائنات کی ہر چیز سے افضل تھی اور اس دنیا کے بارے میں خود آپ یوں بیان فرماتے ہیں:
وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا- عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُهُ- وَ إِنَّ دُنْيَاكُمْ عِنْدِي لَأَهْوَنُ مِنْ وَرَقَةٍ فِي فَمِ جَرَادَةٍ تَقْضَمُهَا- مَا لِعَلِيٍّ وَ لِنَعِيمٍ يَفْنَى وَ لَذَّةٍ لَا تَبْقَى۔ (41)
خدا گواہ ہے کہ اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت تمام زیر آسمان دولتوں کے ساتھ دی جائے اور مجھ سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ میں کسی چونٹی پر صرف اس قدر ظلم کرو کہ اس منہ سے چھلکے کو چھین لوں جسے وہ چبا رہی ہے تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔ تماری یہ دینا میری نظر میں اس پتے سے زیادہ بے قیمت ہے جو کسی ٹڈی کے منہ میں ہو اور وہ اس کو چبا رہی ہو۔ بھلا علیؑ کو ان نعمتوں سے کیا واسطہ جو فنا ہو جانے والی ہیں اور اس لذت سے کیا جو باقی رہنے والی نہیں ہے۔ میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں عقل کے خواب غفلت میں پڑ جانے اور لغزشوں کی برائیوں سے۔
اس خطبہ کی شرح میں ابن الحدید فرماتے ہیں: کہ امامؑ کی کلام کا مصداق عبداللہ ملک بن مروان ہے کیونکہ اس نے اپنی حکومت میں بہت سے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا، اور لوگوں کا مال لوٹ لیا، لیکن اگر مجھے کائنات کی حکومت دی جائے اور کہا جائے کہ خدا کے ایک جانور پر ظلم کرو تو میں کسی صورت میں بھی اس پر ظلم نہیں کروں گا۔ (42)
جب انسان کسی چیز سے بھی حقیقی محبت کرتا ہے تو جو چیزیں اس کے محبوب کو پسند نہیں ہوتی ان سب کو چھوڑ دیتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت علیؑ کو خداوند متعال کے ساتھ حقیقی پیار تھا جس کی وجہ سے آپ نے اس دنیا کے بارے میں یوں فرمایا:
يَا دُنْيَا يَا دُنْيَا إِلَيْكِ عَنِّي أَ بِي تَعَرَّضْتِ أَمْ إِلَيَّ تَشَوَّقْتِ، لَا حَانَ حِينُكِ هَيْهَاتَ غُرِّي غَيْرِي لَا حَاجَةَ لِي فِيكِ،قَدْ طَلَّقْتُكِ ثَلَاثاً لَا رَجْعَةَ فِيهَا۔ (43)
اے دنیا۔ اے دنیا! مجھ سے دور ہو جا۔ تو میرے سامنے بن سنور کر آئی ہے؟یا واقعاً میری مشتاق بن کر آئی ہے؟ خدا وہ وقت نہ لائے کہ تو مجھے دھوکہ دے مجھے تیری ضرورت نہیں ہے۔ میں تجھے تین طلاق دے چکا ہوں جس کے بعد رجوع کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تیری زندگی بہت تھوڑی ہے اور تیری حیثیت بہت معمولی ہے اور تیری امید بہت حقیر شے ہے۔
یہاں پر مولائے کائنات امیرالمومنین امام علیؑ نے لفظ طلاق کیوں استعمال کیا؟ کیوں کہ کوئی شخص جب بھی کسی عورت کو تین مرتبہ طلاق دیتا ہے تو وہ عورت اس سے ناراض ہو جاتی ہے۔ امیرالمومنین امام علیؑ سے دینا کے انحراف کا راز بھی یہی تھا کہ آپ نے اس کو تین مرتبہ طلاق دی۔ تو اس کا کوئی امکان نہیں کہ اہل دنیا آپ سے کسی قیمت پر بھی راضی ہو جائے اور یہی وجہ ہے کہ پہلے ابناء دنیا نے تین خلافتوں کے موقع پر اپنی بیزاری کا اظہار کیا اور اس کے بعد تین جنگوں کے موقع پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا لیکن آپ کسی قیمت پر بھی دنیا سے صلح کرنے پر راضی نہ تھے۔ (44)
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،دَخَلْتُ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ع بِذِي قَارٍ وَ هُوَ يَخْصِفُ نَعْلَهُ۔ فَقَالَ لِي مَا قِيمَةُ هَذَا النَّعْلِ،فَقُلْتُ لَا قِيمَةَ لَهَا،فَقَالَ ع وَ اللَّهِ لَهِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ إِمْرَتِكُمْ- إِلَّا أَنْ أُقِيمَ حَقّاً أَوْ أَدْفَعَ بَاطِلا۔ (45)
ابن عباس فرماتے ہیں: کہ میں مقام ذی قار میں حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا: اے ابن عباس اس جوتے کی کیا قیمت ہو گی؟ میں نے کہا اس کی اب تو کوئی قیمت نہیں ہے۔ تو امیرامومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہوتا تو تم لوگوں پرحکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے۔
حضرت علیؑ نے اس دینا کا تعارف یوں کروایا:
أَنَا كَابُّ الدُّنْيَا لِوَجْهِهَا،وَ قَادِرُهَا بِقَدْرِهَا وَ نَاظِرُهَا بِعَيْنِهَا۔ (46)
میں دنیا کو منہ کے بل اوندھا کر دینے والا اور اس کی صحیح اوقات کا جاننے والا اور اس کی حالت کو ا س کے شایان شان نگاہ سے دیکھنے والا ہوں۔
امام علیؑ نے انسان اور دینا کے درمیان رابطہ کو مسافر والا رابطہ قراردیا ہے اور فرماتے ہیں کہ یہ دنیا ایک کم رہنے والی جگہ ہے۔ حقیقی زندگی گذرانے کی جگہ آخرت ہے اور یو ں بیان فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا الدُّنْيَا دَارُ مَجَازٍ وَ الْآخِرَةُ دَارُ قَرَارٍ- فَخُذُوا مِنْ مَمَرِّكُمْ لِمَقَرِّكُمْ- وَ لَا تَهْتِكُوا أَسْتَارَكُمْ عِنْدَ مَنْ يَعْلَمُ أَسْرَارَكُمْ- وَ أَخْرِجُوا مِنَ الدُّنْيَا قُلُوبَكُمْ- مِنْ قَبْلِ أَنْ تَخْرُجَ مِنْهَا أَبْدَانُكُمْ- فَفِيهَا اخْتُبِرْتُمْ وَ لِغَيْرِهَا خُلِقْتُم۔ (47)
لوگو!یہ دینا ایک گزرگاہ ہے قرار کی منزلت آخرت کی جگہ ہے لہذا اس گذرگاہ سے وہاں کا سامان لے کر آگے بڑھو اور اس کے سامنے اپنے پردہ راز کو چاک مت کرو۔ کیونکہ وہ تمارے اسرار سے باخبر ہے دنیا کو اپنے دلوں سے باہر نکال دو قبل اس کے کہ تمہارے بدن کو یہاں سے نکالا جائے۔ یہاں صرف تمہارا امتحان لیا جا رہا ہے ورنہ تمہاری خلقت کسی اور جگہ کے لیے ہے۔
اس خطبے کی شرح میں حبیب اللہ ہاشمی فرماتے ہیں: اسلام کا مدعی تارک دینا نہیں ہے اور نہ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان رہبانیت کی زندگی گذارے۔ اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ دنیا انسان کی زندگی کا وسیلہ رہے اور اس کو دل کا مکین نہ بناؤ ورنہ دنیا کی محبت انسان کو زندگی کے ہر موڑ پر خطرہ سے دو چار کر سکتی ہے۔ (48)
امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی عدالت :
عدالت حضرت علیؑ کی نگاہ میں اصول دین میں سے ہے جس کی وجہ سے آپ نے اپنی ساری زندگی میں عدالت کو رائج کرنے کا حکم دیا۔ جب آپ ظاہری ظاہری خلافت پر آئے تو سب سے پہلے آپ نے اس طرح عدالت کو قائم کیا اور یوں بیان فرمایا:
وَ اللَّهِ لَوْ وَجَدْتُهُ قَدْ تُزُوِّجَ بِهِ النِّسَاءُ وَ مُلِكَ بِهِ الْإِمَاءُ- لَرَدَدْتُهُ- فَإِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً- وَ مَنْ ضَاقَ عَلَيْهِ الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْهِ أَضْيَقُ۔ (49)
خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دے دیا گیا ہو تو میں اس کو بھی واپس کر دیتا کیونکہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کیلئے عدل میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہے۔
اس خطبہ کی شرح میں علامہ محمد تقی نقوی فرماتے ہیں: کہ امیرالمومنین علیؑ جب بھی بیت المال میں داخل ہوتے بیت مال کا تمام مال غربیوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور اس کے بعد جھاڑو لگا کر دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔ تاکہ یہ زمین روز قیامت علیؑ کے عدل اور انصاف کی گواہی دے اور اسی بنیاد پر آپ نے حضرت عثمان کی عطا کردہ جاگیروں کو واپسی کا حکم دیا اور صدقہ کے اونٹ عثمان کے گھر سے واپس منگوا لئے کیونکہ وہ زکوۃ لینے کا مستحق نہ تھا۔ (50)
امام علیؑ نے اپنے خاص صحابہ کو عدالت قائم کرنے کے بارے میں یوں فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ،أَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ، وَ لَا الْتِمَاسَ شَيْءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ- وَ لَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ- وَ نُظْهِرَ الْإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ- فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ- وَ تُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ۔ (51)
خدایا! تو جانتا ہے کہ میں نے جو حکومت کے بارے میں اقدام کیا ہے اس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہ مال و دنیا کی لالچ تھی میر امقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثار کو ان کی منزل تک پہنچا دوں اور شہروں میں اصلاح پیدا کردوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہو جائیں اور معطل حدود قائم ہو جائیں۔ ۔ ۔
أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ،وَ ايْمُ اللَّهِ لَأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِهِ وَ لَأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِهِ،حَتَّى أُورِدَهُ مَنْهَلَ الْحَقِّ وَ إِنْ كَانَ كَارِهاً۔ (52)
لوگو! اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلے میں میری مدد کرو۔ خدا کی قسم میں مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلواؤں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کر کھنیچوں گا تاکہ اسے حق کے چشمے پر وارد کر دوں چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہو۔
اس خطبہ کی شرح میں محمد جواد مغنیہ فرماتے ہیں کہ یہاں پر امامؑ نے ظالم کو اونٹ کی نکیل کے ساتھ تشبیہ دی ہے کیونکہ امامؑ کہہ رہے تھے جس طرح اونٹ کی رسی مالک کے پاس ہو اور اونٹ پانی کو نہ پینا چاہے۔ مگر مالک زبردستی اس رسی سے اونٹ کو پانی پلاتا ہےْ پس امامؑ بھی یہی کہ رہے ہیں کہ میں ظالم سے مظلوم کا حق ضرور لوں گا چاہے ظالم حق دینے پر راضی نہ ہو پھر بھی میں اس سے مظلوم کا حق لوں گا۔ (53)
کائنات کے وارث کو خدا کی زمین میں عدالت قائم کرنے کا اتنا شوق تھا کہ اپنی زندگی کے آخری لمحہ میں فرمایا: کہ میرے قاتل کے ساتھ بھی عدالت کے ساتھ پیش آنا اور اپنے بچوں کو یوں فرمایا: انْظُرُوا إِذَا أَنَا مِتُّ مِنْ ضَرْبَتِهِ هَذِهِ- فَاضْرِبُوهُ ضَرْبَةً بِضَرْبَةٍ-
(54) اگر میں اس کی ایک ضرب سے مرجاؤں تو اس کی ایک ضرب کا جواب ایک ہی ضرب ہے۔
نتیجہ
اس مقالہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت علیؑ اخلاق اور فضائل میں عالی ترین درجہ پر فائز تھے۔ اور امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے نزدیک اس دنیا کی حقیقت ہاتھوں کی انگلیوں کی طرح واضح تھی۔ اور آپؑ کو یہ معلوم تھا کہ یہ دنیا ایک عارضی دنیا ہے حقیقی دنیا کانام آخرت ہے۔ اور خدا کی حقیقت آپ کے لئے اتنی روشن تھی کہ خدا کی کائنات میں آپ کے علاوہ کسی نہیں یہ جملہ نہیں کیا۔ لو کشف الغطاء ما ازددت یقینا۔ (55) اگر دنیا کے حجاب ظاہری اور دنیوی میرے سامنے سے ہٹ جائیں تو پھر بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا۔
ہم یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں: حضرت علیؑ اسم اعظم ،نمائندہ کامل اسلام، پہلا مسلمان، شجاع اسلام اور عادل اسلام ہیں۔ اور ان کی گفتگو قرآن کی طرح لوگوں کو صرف ہدایت اور نیکی کی طرف لے کر چلتی ہے۔
حوالہ جات
[1] خلاصہ بیانات امام خمینی: ج2، ص 839! مؤسسہ و نشر امام خمینی! چاپ اول 1381ھ ش[2] قرآن مجید سورہ واقعہ آیت 56
[3] نہج البلاغہ: خطبہ 57، ص 109! مترجم محمد دشتی، ناشر و جدانی، چاپ بعثت، بھار 85۔
[4] ترجمہ گویا اور شرح نھج البلاغہ محمد جعفر امامی، ج 1 ص 373، ناشر مدرسہ امام علی بن ابی طالب (ع) 1377ش
[5] الغدیر: علامہ امینی، ج 3 ص 221 بیروت دارالفکر، چاپ اول، بی جا، بی تا۔ بحارالانوار: محمد باقر مجلسی، ج 38، ص204، مؤسسہ العفا و داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1983م۔
[6] شرح نھج البلاغہ: ج 37، ص 47
[7] شرح ابن ابى الحديد: ج 1، ص 208، ناشر انور الھدی، الطبعۃ الاولی 1429ھ۔
[8] نہج البلاغہ: خطبہ 131، ص 253
[9] سورہ واقعہ! آیت 56
[10] شرح ابن ابى الحديد: ج2 ص 379
[11] نہج البلاغہ: خطبہ 37، ص 194
[12] شرح ابن ابى الحديد: ج 3، 250
[13] شرح نھج البلاغہ: ابن الحدید ج 3، ص 251
[14] تحف العقول عن آل رسول: حرانی، ابن شعبۃ، ص، 236 ناشر اسلامی جامعہ مدرسین چاپ دوم، 1404ق۔ المناقب: احمد بن محمد خورازمی ص 375 ناشر اسلامی جامعہ مدریسن چاپ دوم 1411ق
[15] عوالی اللئالی: ابن ابی الجمھور ج1، ص 20! چاپ خانہ قم سید الشھداء، چاپ اول 1403 ق
[16] دعائے کمیل
[17] نھج البلاغہ: خطبہ 4، ص 45
[18] ترجمہ اورشرح نھج البلاغہ ابن میثم: ج1، ص 545 ناشر قدس رضوی مشہد مقدس 1375
[19] نھج البلاغہ: خطبہ 210، ص 420
[20] نھج البلاغہ: خطبہ 97، ص 191
[21] المجروحین، من المحدثین، ابن حبان ج2، ص 94، بی جا، بی تا۔ الجامع الصغیر، جلال الدین سیوطی: ج 1، ص 415، بیروت دارالفکر، چاپ اول، 1401ق اور دوسری کتابوں میں
[22] نھج البلاغہ: خطبہ 3، ص 39۔
[23] شرح نھج البلاغہ: محمد تقی جعفری: ج2، ص 52 ناشر فرھنگ اسلامی تہران، چاپ11، 1386۔
[24] نہج البلاغہ: خطبہ 189، ص 512
[25] شرح ابن ابى الحديد: ج2، ص 175
[26] الخصال، شیخ صدوق، ص 572، انتشارات مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت لبنان، الطبعۃ الاولیٰ، 1410ھ۔ ینابیع المودۃ لذوی القربیٰ: سیلمان بن ابراھیم، ج1، ص 231! ناشر دار الاسوہ، چاپ اول، 1416 ق۔
[27] نھج البلاغہ: خطبہ 175، ص 331
[28] نہج البلاغہ: خطبہ 192، ص397
[29] نھج البلاغہ: جعفر حسین خطبہ 173، ص 466
[30] القطرہ ج 1، ص 200، ناشر حاذق خیابان ارم، چاپ پنجم 1384۔
[31] نھج البلاغہ: نامہ 45، ص 557
[32] نھج البلاغۃ: خط نمبر :62، ص 606
[33] نہج البلاغہ: خطبہ37، ص 91
[34] نہج البلاغہ: خطبہ 10، ص48
[35] شرح نھج البلاغہ: ابن میثم ج 1، ص 569
[36] نہج البلاغہ: خطبہ22، ص 63
[37] المصابح المنیر: المقری ،احمد بن محمدبن علی، مادہ زھد:ج1، ص 257، انتشارات دار ھجر، قم، الطبعۃالثانیۃ 1414ھ۔ لسان العرب: ابن منظور، محمد بن بکر، ج2، ص 196 ناشر ادب الحوزہ 1405 ق۔
[38] نہج البلاغہ: خطبہ 81، ص 131
[39] نھج البلاغہ: حکمت، 439 ص784
[40] نہج البلاغہ: خطبہ 209، ص 427
[41] نہج البلاغہ: خطبہ 224، ص 457
[42] شرح ابن ابى الحديد جلد 7 صفحه 99!
[43] نہج البلاغہ: حکمت 77!ص 653! امالی شیخ صدوق، ص 371! انشتارات مکتبۃ الداوری، قم، بی تا۔
[44] شرح نہج البلاغہ: علامہ ذشیان حیدر جوادی، حکمت 77، ص 653 ناشر انصاریان، چاپ چہارم 1430ھ
[45] نہج البلاغہ: خطبہ 33، ص 184
[46] نہج البلاغہ: خطبہ 33، ص 184
[47] نہج البلاغہ: خطبہ 203، ص 423
[48] منھاج البراعۃ فی شرح نھج البلاغہ میرزا حبیب اللہ الہاشمی خوئی ج 14، ص 54
[49] نہج البلاغہ :خطبہ 15، ص 53
[50] مفتاح السعادۃ فی شرح نھج البلاغہ سید محمد تقی نقوی قائنی ج 2، ص 73 ناشر قائن، الطبعۃ الاولی 1384 ش
[51] نہج البلاغہ: خطبہ 131، ص 253
[52] نہج البلاغہ: خطبہ 136، ص 259
[53] فی ظلال نھج البلاغہ محمد جواد مغنیہ ج 2، ص 421 ناشر دارالعلمہ للملایین، الطبعۃ الرابعۃ بیروت لبنان، بی تا
[54] نہج البلاغہ: خط نمبر 47 ص 567
[55] تحف العقول عن آل رسول ص، 236



