مقالات

زخمی علیؑ کی وصیت

سب سے پہلے میں وصیت کے معنیٰ و مفہوم کی غرض سے یہاں کچھ اہم باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتی ہوں، واضح رہے کہ وصیت ایک عربی لفظ اور ایک اسلامی و فقھی حکم ہے۔
عربی لغت کے اعتبارسے وصیت کے معنیٰ کسی خاص حالت،وقت،اورزمانے کی قید کے بغیر ’’سفارش و نصیحت ،، کے ہوتے ہیں ۔


لیکن اسلامی و فقھی حکم ہونے کے لحاظ سے اصطلاح فقہ میں وصیت کی تعریف اس طرح کی گئی ہے …..
وصیت:یعنی انسان یہ سفارش کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے کچھ امور انجام دیئے جائیں ، 
مرنے والا جس شخص کو یہ ’’انجام امور،، کی ذمہ داری سونپتا ہے اسے وصی کہا جاتا ہے(۱)
عرف عام میں بھی وصیت سے یہی فقھی معنیٰ مراد لئے جاتے ہیں اور لفظ وصیت سے افراد عرف کا ذہن لغوی معنیٰ کی طرف نہیں جاتا ہے ،اگرچہ قرآن اور روایات میں وصیت لغوی و فقھی دونوں معنیٰ میں استعمال ہواہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وصیت ایک فطری و اجتماعی عمل ہے چونکہ یہ ہر سماج اور معاشرے میں با قاعدہ رائج و شایع ہے ،غالباََدنیا کے ہر سماج میں اسے مرکز توجہ ،لائق عمل ،قابل احترام سمجھا جاتا ہے ۔
خصوصاََ مذہب اسلام نے وصیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور فرائض و واجبات کے زمرے میں قرار دیا ہے چنانچہ قرآن کریم کے سورۂ بقرہ آیت:۱۸۰ میں ارشاد ہوتا ہے :۔کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیراَ الوصیۃ :تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی قریب المرگ ہو تو اگر مال و متاع رکھتا ہے تو وصیت کرے ،یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسلام کے تمام انبیاء ، اولیاء ، اوصیاء، اور علماء،کی وصیتیں انتہائی اہتمام کے ساتھ با قاعدہ ثبت و ضبط نظر آتی ہیں سردست ان سب سے غض نظر کرتے ہوئے ہمیں صرف ولی خدا ،وصی رسول،امیر المومنین،امام المتقین،حضرت علی ابن ابی 
(۲)
طالب علیھما الصلوٰۃ والسلام کی وصیتوں کا مختصر تذکرہ کرنا مقصود ہے ،یوں تو مولائے کائناتؑ کی متعدد وصیتیں مختلف کتابوں میں نقل کی گئی ہیں ،لیکن ہمیں آپؑ کی مشہور زمانہ اور شہرۂ آفاق کتاب نہج البلاغہ سے آ پؑ کی وصیتوں کے کچھ اقتباسات پیش کرنا ہیں۔
قارئین کرام :آپ بہتر جانتے ہیں کہ فطری اور عادی حالت میں مرنے والے انسان کے لئے بھی حکم وصیت پر عمل کرنا بہت دشوار ہوتا ہے تو سوچئے کہ اس قریب المرگ انسان کے لئے وصیت کرنا کس قدرکٹھن ہوگا؟کہ جس کا سر زہر ہلاہل میں بجھی ہوئی تلوار سے مجروح ہو چکا ہو اور پورا بدن مسموم ہو چکا ہو ،لیکن یہ مولائے کائناتؑ ہیں جو ایسے کربناک عالم میں بھی حکم وصیت پر کما حقہ عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور انتہائی ہدایت افروز اور ارشاد وحکمت سے لبریز وصیتیں فرماتے ہیں جو واقعاََ اپنی مثال آپ ہیں اور دنیا کے تمام با شعور انسانوں کے لئے بعنوان وصیت دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہیں ،
اب ہم اپنے موضوع کے تحت مولائے کائناتؑ کی ان وصیتوں کے کچھ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں جو آپؑ نے اپنے معصوم بیٹوں سے ابن ملجم ملعون کی ضربت کھانے کے بعد فرمائی تھیں …….مولاؑ نے امام حسن ؑ و امام حسینؑ کو خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلی وصیت اس طرح فرمائی. 
۱ؔ ؂ اوصیکمابتقویٰ اللہ (اے میرے بیٹو!)’’میں تم دونوں کو تقوائے الٰہی کی وصیت کرتا ہوں ،،
اللہ رے تقوائے الٰہی کی عظمت و اھمیت ! کہ زندگی کے کٹھن اور انتہائی سخت لمحات میں بھی مولاؑ اسے فراموش نہیں فرماتے ایسے حساس ھنگام میں تقوائے الٰہی کا بطور وصیت دائمی حکم دینا اس کی غیر معمولی اھمیت و عظمت پر دلالت کرتا ہے اور کیوں نہ ہو اس لئے کہ قرآن کریم نے ’’انما یتقبل اللہ من المتقین،،(۲)کہہ کر یہ واضح کردیا کہ تمام اعمال کی قبولیت کا انحصار تقوائے الٰہی پر ہے ! ظاہر ہے کہ اعمال کی قبولیت ہی اعمال میں وزن و سنگینی پیدا کرتی ہے اور قبولیت جب تقوائے الٰہی کے بغیر ممکن نہیں ہے تو اس کا صاف سا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ انسان کی عملی زندگی میں ایک کلیدی اور اساسی اہمیت رکھتا ہے۔
۲؂ مولا ؑ نے دوسری وصیت کرتے ہوئے فرمایا :(دیکھو بیٹو!)’’دنیا کی طرف راغب نہ ہونا اگرچہ وہ تمھاری طرف راغب ہو،،
اس وصیت کی اہمیت مرسل اعظم ﷺکی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے ’’حب الدنیا رأس کل خطیءۃ،،(۳)دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے ،
(۳)
مولاؑ نے دنیا سے بے رغبتی کی وصیت فرماکر گویا ہر برائی سے نجات پانے کی بہترین تدبیر تعلیم فرمادی ہے ۔
۳؂ مولاؑ نے تیسری وصیت کرتے ہوئے فرمایا :(دیکھو)’’متاع دنیا میں سے جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرنا ،،
مولائے کائنات ؑ کی یہ وصیت قرآن کریم کے اس حکم ’’لکیلا تأسو علیٰ مافاتکم ولا تفرحوا بما اتٰکم ،،(۴) سے مأخوذ ہے اور یہ زھدکی بہترین تعلیم ہے ۔
۴؂ چوتھی وصیت میں مولا ؑ نے فرمایا :(ہمیشہ)’’حق بولتے رہنا،،………اللہ اکبر…..علیؑ عالم نزع میں بھی دنیا کو حق گفتاری کا پیغام دے رہے ہیں جو حدیث پیغمبر ﷺ ’’علی مع الحق والحق مع علی،،کی بہترین غمازی کر رہا ہے ۔
۵؂ پانچویں وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :(دیکھو)’’تم دونوں اجر کے لئے عمل کرنا ،واضح ہے کہ کسی عمل پر اجر اسی وقت متحقق ہوتا ہے جب اسے قربت الٰہی کے لئے انجام دیا جائے او ر اسی کا دوسرا نام اخلاص ہے ۔
۶؂ چھٹی وصیت کرتے ہوئے مولاؑ نے فرمایا:(دیکھو)’’ظالم کے دشمن اور مظلوم کے ناصر و مدد گار رہنا ،، مولاؑ کی اس وصیت کی اہمیت آ نے والی حدیث رسول ﷺ سے بخوبی ظاہر ہو جاتی ہے ،مرسل اعظم ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ظالمین اور ان کے حامی و مددگار جہنمی ہیں (۵)
ایک دوسری حدیث میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: جو مظلوم کی ندائے ’’یا للمسلمین،، کو سنے اور اس کی فریاد رسی نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے(۶)
اس کے بعد مولاؑ کا لہجۂ وصیت عمومیت اختیار کرتاہوا نظر آتا ہے ؛گویا مولائے کائناتؑ تمام عالم انسانیت کو فلاح و ہدایت بخش تعلیمات سے فیضیاب کرنا چاہتے ہیں ۔
۷؂ اس حصہ میں:۔آپؑ سب کو تقوائے الٰہی اختیار کرنے کی وصیت کے بعد اپنے امور کو منظم رکھنے کی تاکید فرماتے ہیں ؛مولاؑ کی یہ وصیت بھی بہت اہم درجہ رکھتی ہے چونکہ تاریخ اس بات کی با قاعدہ گواہی دیتی ہے کہ دنیا کی تمام کامیاب شخصیتیں ’’نظم و ضبط،، ہی سے منزل کمال تک پہونچی ہیں ۔
۸؂ آٹھویں وصیت میں مولا ؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اپنے درمیان صلح و آشتی کو بر قرار رکھنا،،اور اس اہم چیز کی اہمیت کو واضح 
(۴)
کرتے ہوئے خود مولائے کائناتؑ حدیث مرسل اعظم ﷺ ’’صلاح ذات البین افضل من علمۃ الصلوٰ ۃ و الصیام ،،(۷)سے استناد فرماتے ہیں ۔
۹؂ نویں وصیت میں مولاؑ نے فرمایاکہ: ’’یتیموں کے سلسلہ میں خدا سے ڈرتے رہنا ،خدا سے ڈرتے رہنا چونکہ یتیم ظاہراََاصلی حامی و مدافع سے محروم ہوتا ہے اس لئے اذیت و آزار کے وقت اسے اپنی محرومی و یتیمی کا احساس ہوتا ہے شاید اسی لئے مرسل اعظم ﷺ نے بھی حکم دیا ہے کہ یتیم کے لئے پدر مہربان کی مانند رہو(۸)
۱۰؂ دسویں وصیت میں آپؑ نے فرمایا کہ:ہمسایوں کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرتے رہنا ،اللہ سے ڈرتے رہنا ،،دختر رسول ﷺاور زوجۂ مولائے کائناتؑ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھاکا یہ قول بھی ہمسایگی کی اہمیت کے سلسلہ میں کافی شہرت رکھتا ہے ’’الجار ثم الدار،،
۱۱؂ گیارھویں وصیت میں مولاؑ فرماتے ہیں کہ: قرآن کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا،اللہ سے ڈرتے رہنا،، قرآن کریم انسان کے لئے دستورحیات کی اہمیت رکھتا ہے اگر انسان اپنے دستور حیات ہی سے غفلت برتے گا تو دنیاو آخرت دونوں جگہ خسارہ اور گھاٹا اٹھائے گا۔ 
۱۲؂ بارھویں وصیت میں آپ ؑ نے فرمایاکہ: (دیکھو)’’نماز کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا، اللہ سے ڈرتے رہنا،،چونکہ وہ تمھارے دین کا ستون ہے ،
ظاہر ہے کہ اگر کسی عمارت کے ستون کو گرا دیا جائے تو اس کا پورا وجود خطرہ کی زد میں آسکتا ہے ،
۱۳؂ تیرھویں وصیت کے طور پر آپ ؑ نے فرمایا کہ: اللہ کے گھر کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا ، اللہ سے ڈرتے رہنا،، شاید اسی عظیم وصیت کا اثر تھا کہ خانۂ خدا کی تعظیم بجا لاتے ہوئے آپ ؑ کی اولاد نے متعدد مرتبہ پا پیادہ حج کئے ہیں ،
۱۴؂ آپ ؑ نے بعنوان وصیت فرمایا کہ:اپنے اموال،جان،اور زبانوں سے جھاد کرنے کے بارے میں اللہ سے ڈریئے ،اللہ سے ڈریئے،،
مولاؑ نے تمام اسلامی سماج کو دین اسلام کی خاطر ہر جھاد کے لئے آمادگی کی تلقین فرماکر اسے مجاھدانہ زندگی گذارنے کی ہدایت فرمائی ،ظاہر ہے کہ اگر ہر مسلمان ایسی زندگی گذارنے پر آمادہ ہو جائے تو اسلام کسی دور میں بھی بیچارگی و غربت میں مبتلا نہیں ہو سکتا ،
(۵)
۱۵؂ اس و صیت میں مولاؑ نے فرمایاکہ:تم پر ایک دوسرے سے ملنا جلنا اور آپس میں جود و بخشش سے کام لینا فرض و واجب ہے۔
بلا تردید مولاؑ کی اس وصیت کو ہم آیۂ قرآن :’’انما المومنون اخوۃ،، کی بہترین تفسیر قرار دے سکتے ہیں چونکہ حقیقتاََ ’’تواصل و تباذل ہی،، ایسی چیز ہے جس سے اخوت و برادری کا پتہ چلتا ہے ،
۱۶؂ سولھویں وصیت میں اس طرح گویا ہیں:(اور دیکھو)’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کر دینا ،ظاہر ہے کہ امرو نہی کا ترک کر دینا دین میں کمزوری کا باعث بنتا ہے اور یہ ایک غیر ت مند مسلمان کے لئے قابل تحمل نہیں ہونا چاہیئے ۔
۱۷؂ اے فرزندان عبد المطلب :۔میرے بعد ایسا نہ ہو کہ تم قتل امیر المومنینؑ کے نعرے بلند کرتے ہوئے خون مسلمین سے ہاتھ رنگ بیٹھو ،خبردار میرے بعد فقط میرے قاتل کو قتل کرنا(۹)
مولاؑ نے یہ وصیت فرماکر عالم اسلام میں ’’فتنہ انگیزی،، کا مطلقاََ سد باب فرمادیا ہے چونکہ آپ ؑ کی نظریں دیکھ چکی تھیں کہ کچھ دنیا پرست مشہور شخصیتیں قتل عثمان کے بہانے مسلمانوں کے خون سے با قاعدہ ہولی کھیل چکی تھیں ،
قابل ذکر ہے کہ سید رضی علیہ الرحمۃنے نہج البلاغہ ہی میں مولائے کائناتؑ کی شہادت سے تھوڑی دیر پہلے کے ایک وصیت نامہ کا تذکرہ بھی کیا ہے لیکن ہم طوالت کے خوف سے اسے یہاں پیش کرنے کی سعادت سے معذور ہیں ،
منا بع و مأخذاور حالہ جات:۔ 
(۱)توضیح المسائل ،آیۃ اللہ فاضل لنکرانی ،ص:۵۳۰ (۲)قر آن کریم،سورہ: مائدہ ؍آیہ:۲۷
(۳)بحار الانوار،ج:۷۰؍ ص:۲۳۹ (۴)قرآن کریم،سورہ:حدید؍آیہ:۲۳
(۵)کنز العمال،ج:۳؍ص:۴۹۸ (۶)اصول کافی ،ج:۲؍ص:۱۶۲؍ح:۵
(۷)نہج البلا غہ ،وصیت:۴۷؍ص: ۳۹۸؍ترجمہ آقا�ئدشتی (۸)بحار الانوار،ج:۷۷؍ص:۱۷۳؍ح:۷
(۹)اس مقالہ میں وصیت نامہ مولائے کائناتؑ کے تمام اقتباسات کا ایڈریس یہ ہے………………. نہج البلاغہ ،ترجمہ آقائ دشتی؍وصیت :۴۷؍ص :۳۹۸

تحریر: سکینہ مولائی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button