نہج البلاغہ اور فارسی شعراء

امیر بیان سلطان سخن علی علیہ السلام کے کلام کا مجموعہ ”نہج البلاغہ“ فصاحت و بلاغت کا معجزہ اور معانی و بیان کا لطیف و شفاف سرچشمہ ہے۔ عربی ادبیات پر اس کا جو اثر ہے اس پر متعدد دانشوروں کے مقالے موجود ہیں۔
فارسی زبان کے علم دوست اور محبان علی علیہ السلام نے بھی ادبی اور معنوی دونوں پہلوؤں سے نہج البلاغہ سے استفادہ کیا۔
اس موضوع پر فارسی میں کئی کتابیں موجود ہیں مثلا ”تاثیر نہج البلاغہ و کلام علیؑ در شعر فارسی“ یا ”دربارگاہ آفتاب-نہج البلاغہ در ادب فارسی“۔ اس کتاب میں بڑی تفصیل سے فارسی کی ادبیات و معنویات پر نہج البلاغہ کے اثر کو لکھا گیا ہے۔
نہج البلاغہ کی مشہور خدمت گزار جناب شیخ محمد دشتی اور ان کی ٹیم نے دو جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی ”معارف نہج البلاغہ در شعر شاعران“ یعنی شعرا کے کلام پر نہج البلاغہ کے معارف کا اثر۔
نہج البلاغہ کے فارسی میں چند منظوم ترجمے بھی شائع ہو چکے ہیں۔
مرکز افکار اسلامی نے ان دنوں اردو شعراء سے نہج البلاغہ سے متعلق کلام کہنے کی درخواست کی اور الحمدللہ سو سے زائد کلام موصول ہوئے۔ شعراء کے اس کلام پر مشتمل ایک کتاب ان شاءاللہ جلد شائع ہو رہی ہے۔ جس کا نام ”نہج البلاغہ اور اردو شعراء“ طے پایا ہے۔
اس دوران عرب عربی اور فارسی شعراء کے کلام کے مطالعہ کا موقع بھی ملا تو نمونے کے طور پر کچھ عربی اور فارسی کلام کو اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے اور عرب شعراء کے کلام کو الگ اور فارسی شعراء کے کلام کو الگ ویب سائٹ پر نشر کیا جا رہا ہے۔
امید ہے اردو کے نوجوان شعراء کے لیے یہ ترجمے مفید ثابت ہوں گے۔
مرکز افکار اسلامی جناب حجت الاسلام مولانا سید عقیل عباس نقوی مقیم حوزہ علمیہ قم کا شکر گزار ہے جنہوں نے فارسی کلام کا اردو میں ترجمہ کیا اور اس کلام کو محنت سے مرتب کیا۔ پروردگار ان کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔
فارسی میں علامہ اقبالؒ نے امام علی علیہ السلام کے کلام کے بارے میں کیا خوبصورت مصرع کہا:
قوتِ دینِ مبین فرمودہ اش
علی علیہ السلام کے فرامین دینِ مبین کی قوت و طاقت کا سبب ہیں۔
پروردگار ہمیں نہج البلاغہ جیسے علمی، ادبی اور معنوی سرمائے سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
مقبول حسین علوی
مرکز افکار اسلامی

(1)
شیخ الرئیس قاجار، ابوالحسن مرزا، متوفی 1336ھ
اس لیے کہ بیان میں میرے آقا علی ہی
وہی کلام کے امیر ہیں، میں انہی کی پیروی کرتا ہوں۔

(2)
معاصر شاعر محمدرضا جلالی فر”نویدؔ“
وہ بلاغت کے فصیح ترین بادشاہ ہیں، دریاۓ سخن کے موتی ہیں
کہ آپ کے کلام سے لوح و قلم (تحریر) پربھی شیرینی ہو گئی ہے
ایسا عرش نشین آشیانہ ہے کہ سخن کے سمندر کا ہر غوطہ خور
اپنے لعل و گوہر اس کے قدموں میں نچھاور کر دیتا ہے۔

(3)
فقیہ و عارف فیض کاشانی، متوفی 1091ھ
امیرالمؤمنینؑ کے کلام نے میرا دل موہ لیا ہے
میں نے حقائق کے اسرار سے عشق و معرفت پا لی ہے
اگرچہ جمالِ عالم آرائی (خدا) میری آنکھوں سے اوجھل ہے
میں نے اس کے کلام کو جان، گوش اور زبان سے پا لیا ہے
ان کا کلام اہلِ معنی کے مشام کو حق کی خوشبو عطا کرتا ہے
میں نے اپنے رب کے گلستان سے ایک خوشبوئی باغ پا لیا ہے

(4)
”فیض کاشانی“
اگر میں علیؑ کی ولایت سے ایک نکتہ پا لوں
تو میں دونوں جہانوں کو ایک سانس میں سمیٹ سکتا ہوں
ان کی دلربا حدیث کا ایک کلام اگر سن لوں
تو میں اس سے علم کی سو کتابیں تخلیق کر سکتا ہوں

(5)
علی رضا میرزا محمد (الف)
نہج البلاغہ (ایک ایسی) روحانی قوت ہے
جس سے ایمان کو چمک ملتی ہے
حیدر کرّار کی باعظمت یادگار ہے
جو سخن میں بادشاہوں کے بادشاہ تھے

(ب)
علی کے بغیر زندگی بے ثمر ہے
علی کے ساتھ کبھی کوئی غم، غم نہیں ہے
معرفت کی باصفا و دلربا بہشت میں
نہج البلاغہ سے بہتر کوئی ساتھی نہیں ہے

(ج)
آسمانی وحی کی زندہ کر دینے والی ندا کے بعد
دلوں کو روشن کرنے والا ہے ہمیشہ رہنے والا نور
نہج البلاغہ، اختِ قرآن ایک تحفہ ہے
ہر دور اور ہر زمانے میں بیدار کرنے والا ہے

(6)
شاعر معاصر سید رضا مؤید
روحِ علم آپ کے نہج البلاغہ سے حیران و سرگردان ہے
اے علیؑ! آپ نے حقِ سخن کو کتنی خوبی سے ادا کیا ہے
آپ کے کلام کی قدرت و طاقت نہج البلاغہ سے واضح ہے
خدا کے بندوں کے لیے بہترین نمونہ آپ کے احکام ہیں
آپکے علم کی کثرت آپکے دلنشین کلام سے عیاں ہے
آپکے حلم و بردباری کا معجزہ آپکی بے پناہ مصیبتوں سے ظاہر ہے

(7)
شاعر معاصر بلبلِؔ گویا
اے علی! اے تلوار اور قلم دونوں کے مالک!
ہر مقام اور ہر قدم پر خدا کے ساتھ رہنے والے!
اے وہ وجود جو ایمان باللہ کا مظہر ہے
اے وہ جس کا کلام حقیقت میں قرآن کے بعد درخشان ہے!

(8)
”حیدر انصاری“
فصاحت میں، بلاغت میں، مختلف علوم میں
نہج البلاغہ سے برتر فقط اور فقط قرآن کریم کا متن ہے

(9)
نور قزوینی ”رسولی“
ایک رات نہج البلاغہ کی باطنی حقیقت سے آشنائی کے لئے
ہم نے نہج البلاغہ کا سفر کیا
گویا یہ وہی دوسرا قرآن پاک ہے
جس کی مثال دنیائے ادب میں نہیں ملتی
یہ مسلمانوں کے لئے ہدایت کا چراغ ہے
یہ کلام جو اہل یقین کے لئے نمونۂ عمل ہے
بازار تکلم میں یہ نایاب در ہے
جو چاندنی رات میں روشن ہے
زمین و آسمان کی بنیادہے یہ
یہ امیر المومنینؑ کی محبت کی شراب ہے
یہی میخانہ و پیمانہ ہے اور یہ
عقلمند اور دانا لوگوں کے لئے سرشار کرنے والی شراب ہے
کسی دانشورنے اسے معنویت کا گلزار کہا
تو کسی حکیم نے کہا کہ یہ مولا کی جامع درسگاہ ہے
ایک ارادتمند نے اسے طوبیٰ کا سرسبز وشاداب نخلستان کہا
کیونکہ اس کے ہر لفظ میں ہزاروں نکات پوشیدہ ہیں
اس راہ میں محبت کی ایسی حرارت ہے
جو ہزاروں لا علاج بیماریوں کا علاج ہے
اس کی پاکیزگی بہار کی نرم اور خوشگوار ہوا کی طرح ہے
جو ذہن کو طراوت بخشتی ہے
اس کی ہوا ہر موسم میں بہار جیسی ہے
جس کی فضا ہر طرح کےغبار نقص سے عاری ہے
یہ نہج البلاغہ ساقیٔ کوثر کا ہی نغمہ ہے
یہ سورۂ کوثر کی شادمانی ہے
جس کے ہر سمت چھوٹے چھوٹے ہزاروں چشمے بہہ رہے ہیں
جس کے ہر سوتے سے علم وحلم کے چشمے پھوٹتے ہیں
یہ فنون و علوم کا راستہ ہے
دنیا سے بے نیاز افراد کا راستہ ہے یہ
یہ دنیا سے بے نیاز لوگوں کی راہ ہے
یہ قرآنی راہوں میں اصل داخلہ ہے
جو اس راہ کے راہی ہیں وہ بے خودی کی حالت میں رہتے ہیں
ساقی سے جنہیں محبت ہے اور اسی کو مانتے ہیں
یہ مولا کی عطا کردہ وہ شراب ہے
جوباغِ طہ کے میٹھے پھلوں کا شہد ہے
غزل کی سبز راہ یعنی یہی راستہ
جو نہج البلاغہ ہمیں دکھاتا ہے۔
پروردگارا!تو اپنے ان بندوں کو جو اس روشنی کے زیر سایہ ہیں
انہیں اس گلشن سے محروم قرار نہ دے!

(10)
«شفق» / محمّدحسین بھجتی، متخلّص بہ «شفق» (و. 1313ھ. ش)
فکر و سوچ نہج البلاغہ کے لطف و لذت میں ڈوبی ہے
ساری دنیا نہج البلاغہ کے مرہونِ احسان ہے
جان، دل اور عقلمند لوگوں کی سمجھ
نہج البلاغہ کی خوشبو سے مست ہیں
اگر دلدار کا چہرہ بے پردہ دیکھنا چاہو
اے دل! آ کر نہج البلاغہ کی تنہائی میں بیٹھ
پاکیزگی پانے کے لیے عرفاء اپنی جان کو
نہج البلاغہ کی حکمت کی آبشار میں دھوتے ہیں
زندگی کے ہزاروں چشمے پھوٹتے ہیں
وجودِ نہج البلاغہ کے ہر حصے سے
ہدایت کی صبح، عرفان کا نور اور عنایت
نہج البلاغہ کے نور سے روح پر چمکتی ہے
پوشیدہ اسرار کی بارش اور مخفی علم کی لہریں
نہج البلاغہ کی ہر آیت اور جملے سے برستی ہیں
خدا کی تلاش کے مجذوب اور مشتاق فلاسفہ
نہج البلاغہ کے حیرت میں ڈوبے ہوئے ہیں
شیریں بیانی، میٹھا پن، جوش اور مضبوطی
نہج البلاغہ کی فطرت میں پنہاں ہے
جاذبیت، جان بخشی اور عشق کی تخلیق
نہج البلاغہ کی کیفیت کا ایک راز ہے
اگر سب سے بڑا علم اور بیان شکل پکڑے
تو وہ نہج البلاغہ کی صورت میں نظر آئے گا
فصاحت و بلاغت کا ہر شاہکار
نہج البلاغہ کی برق غیرت سے جلتا ہے
فقه، سیاست، معیشت اور زہد و پرہیزگاری
نہج البلاغہ کے صحن میں جمع ہیں
اخلاص، ایمان، حکمت، اخلاق اور عرفان
نہج البلاغہ کی جنت سے ہی حاصل ہوتے ہیں
اس قدر قیمتی اور بیش بہا ہے کہ اس کی قیمت
خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا
اٹھو پیارے ساتھیو اور عاشقو! کہ ہم بیٹھیں
نہج البلاغہ کے دسترخوان ناز و نعمت پر
دوسروں سے گدائی بڑے شرم کی بات ہے
ہمارے پاس جب نہج البلاغہ کی دولت ہے
اٹھو تاکہ اس کے راہ پر سر رکھ کر
ہم نہج البلاغہ کی حرمت کی حفاظت کریں
اے خدا! علیؑ، راہ عشق کے خضر کے اخلاص کے واسطے
یارب! نہج البلاغہ کے جوش و جلال کے واسطے
علیؑ کا راستہ ہی ہمارا راستہ قرار دے
اور ہمیں نہج البلاغہ کے پرچم تلے جگہ دے
ہمارے پیاسے دل کو ہمیشہ سیراب کر
نہج البلاغہ کے رحمت کے چشمے سے
شفق خاموش ہو جاؤ چونکہ خوش الحان پرستاروں کی زبان بھی
نہج البلاغہ کی تعریف میں لکنت کھا جاتی ہے

(11)
صغیر اصفہانی (1390-1312 ھ. ش)
شاعر عارف اور مداحِ اہل بیت، صغیر اصفہانی اس بات کی صراحت کرتے ہوئے کہ حضرت امام علی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی درحقیقت فصاحت و بلاغت کے راستوں اور اسلوب کو دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کے لیے ظہور پذیر ہوئی، کہتے ہیں:
حرم کعبہ میں شاہِ انس و جان ظاہر ہوا
وہ جو دونوں جہانوں کا مقصود تھا، وہی ظاہر ہوا
تاکہ بلاغت کا طریقہ زمانے میں دکھائے
(گویا) وہ خدائے نطق اور خالق بیان ظاہر ہوا

(12)
دیوان صحبت لاری (1251-1162 ہجری قمری)
صحبت لاری جو اہلِ شعر و فضل و کمال تھے اور تاریخ و فنونِ ادب میں ماہر تھے، کے دیوان میں ہم پڑھتے ہیں:
کبھی سخن موتی برساتا ہے اور ازلی علم کے سرچشمے سے باہر نکالتا ہے
نہج البلاغہ ایک نمونہ ہے جو اُس گوہرِ بے بہا(علیؑ) سے وجود میں آیا ہے

(13)
صباحی بیدگلی (وفات 1218 ہجری قمری)
شاعر صباحی بیدگلی، جو بارھویں صدی کے آخر اور تیرھویں صدی کے آغاز کے مرثیہ نگار تھے اور ان کے ”چودہ بند“ مراثی میں مشہور ہیں، حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے معجز نما کلام کی عظمت بیان کرتے ہوئے یہ شعر کہتے ہیں:
ان (علیؑ) کا سایہ سورج کی مانند ہے اور ان کا دستِ مبارک خیبر فتح کرنے والا ہے
ان کی گفتار معجز نمائی کرتی ہے اور ان کا قلم قرآن لکھنے والا ہے

(14)
ابن حسام خوسقی (ف. 875 ھ. ق) شاعر شیعی مذھب قرن نھم
ابنِ حسام خوسقی (وفات: 875 ہجری قمری) نویں صدی ہجری کے شیعہ مذہب شاعر اور مثنوی ”خاورنامہ“ کے مصنف ہیں۔ وہ حضرت علی علیہ السلام کی غزوات (جہادی مہمات) میں بھی فضل و ادب کے چشمہ سار کو اس نورانی امام کی بلاغت (فصاحت) سے جاری و ساری مانتے ہیں، اور دوسرے شاعروں کے ہم آواز ہو کر اس طرح نغمہ سرائی کرتے ہیں:
جہاں کہیں کسی نے فصاحت (و بلاغت) کے ساتھ کوئی عبارت پیش کی
(درحقیقت) اس نے اس (حضرت علیؑ) کے بلاغت کے طریقے (طریقہٴ بیان) سے ہی اسے انتخاب کیا

(15)
شاعر متصوف قرن ھشتم، اوحدی مراغھای (ف. 738 ھ. ق)
تیری رائے اور فیصلہ مال (دولت) کا دشمن ہے (یعنی تو مال و دولت کو اہمیت نہیں دیتا)
تیرا چہرہ فال (شگون) کے لیے مبارک ہے (یعنی تیرا چہرہ دیکھنا اچھی علامت ہے)
تیرا طریقہ (راستہ) اہلِ حال (صاحبِ دل لوگ) کے لیے ہے (یعنی تیرا راستہ صاحبِ دل لوگوں کا راستہ ہے)
(جس نے) بلاغت (فصاحت) سے مدد کی ہے (یعنی تو نے فصاحت و بلاغت کے ذریعہ مدد دی ہے)

(16)
ملک الشعرای آستان قدس رضوی، دکتر قاسم رسا (1356-1290 ھ. ش)
علیؑ کے قیمتی کلام کو موتی کے مانند کان سے آویزاں کر لو
کیونکہ وہ گوہر (موتی) اور چاندی اور سونے سے زیادہ قیمتی ہے
آپ کی نثر ایک وسیع باغ ہے جو سنبل و گُل سے بھرا ہوا ہے
آپ کی نظم بلند درخت ہے جو کھجوروں سے لدا ہوا ہے
کوثر کے ساقی (پلانے والے) علی بن ابی طالب ہیں، کہ جو
پہلے (لوگوں) کے امام اور آخری (لوگوں) کے رہنما ہیں
ان کی نظم و نثر نرمی و لطافت میں ایک دلکش باغ کی مانند ہے
(جیسے) خوشبو میں خوشبو ہے اور یاسمین کے اندر یاسمین (ہو)
ان کی نظم جنت کے پرندوں کی آواز کی مانند زندگی بخشتی ہے
ان کی نثر (تحریر) آسمانی غموں کی مانند دلنشین ہے
آپ کی خوبصورت اور لطیف نظم تازگی میں بہشت جیسی ہے
ان کی واضح اور انوکھی نثر مٹھاس میں شکر جیسی ہے
سونے کے قلم سے سب (کچھ) چاندی کے صفحہ پر لکھو
آپ کی تحریریں جو چاندی اور سونے سے زیادہ قیمتی ہیں

(17)
”بشیر اراکی“ (الف)
اے بشریت پرسورج کی طرح چمکنے والی کتاب ،نہج البلاغہ!
تو خدا کے کلام کے بعد سب سے بلند وبرترکلام ہے
اے حکمرانوں کی رہبر اور عوام کو ہدایت بخشنے والی!
تیرے وعظ و نصائح سے لبریز کلام سے انسان کامران ہوتے ہیں
مالک اشتر تیرے ہی فرمان سے سربلند و عزیز ہوئے
فقہاکے لئے تو زندگی گزارنے کا رہنما اصول ہے۔
تو ایسا مستحکم اور بلند قامت محل ہے،جو تا قیامت باقی رہنے والاہے
اے ابوطالب کے بیٹے علی مرتضیٰ!
تو ہی راستہ دکھانے والا اور عزت وسربلندی کی ضمانت ہے
تیرے خطبوں سے روحانیت اور نورانیت جھلکتی ہے
سید رضی کی طرح تجھے عام کرنےمیں بزرگان دین کوشاں ہیں
ہر زمانے اور ہر دور کا تو مشکل کشا ہے
تیری توصیف بیان کر کے خود کو قابل ذکر بنا لیا ہے
بشیرؔ جیسے گمنام نے بھی روح و دل وجان سے، اے نہج البلاغہ

(ب)
جس کا ہر کلام سونے کے پہاڑ کی طرح ہے، نہج البلاغہ
یہ کتاب در و گوہر کا سمندر ہے،نہج البلاغہ
اے علم وہنر کی مشعل، نہج البلاغہ
ہر عالم و دانشور تجھ سے بہرہ ور ہے، نہج البلاغہ
جیسے باپ کی اپنی اولاد کو وصیت، نہج البلاغہ
ہر ادیب کے لئے بال و پر، نہج البلاغہ
جہالت اور شر کی بنیادوں کو متزلزل کر نے والی، نہج البلاغہ
ماہ منیر کی طرح جلوہ گر ہے، نہج البلاغہ
مظالم اور خطرات کو دور کرنے والی، نہج البلاغہ
تیرا سوز دلوں میں چنگاری پیدا کرتا ہے، اے نہج البلاغہ
کامیابی کا راز اور کنجی ہے، نہج البلاغہ
یہ دو جہاں میں مثمرِ ثمر ہے، نہج البلاغہ

(18)
شاعر اہل بیتؑ، اختر طوسی (متوفی 1268ھ)
آپؑ کے نہج البلاغہ کو جب غور سے دیکھو گے تو تمہیں نظر آئے گا
کہ یہ ہر غافل کے لیے اول سے آخر تک ایک مکمل نصیحت ہے
جو کچھ نہج البلاغہ میں اس دنیا کے بارے میں کہا گیا ہے
اے امیرالمومنین! اس سے آپ کی بے رغبتی ظاہر ہوتی ہے

(19)
حکیم میرزا مہدی الھی قمشہ ای (متوفی 1352 ھ ش) (الف)
جب پڑھتا ہوں آپ کی تحریر و لکھائی، آپ کے کلام کی بے حد فصاحت
بڑھاتی ہے میری معرفت آپ کے پیغام کی، مٹاتی ہے شکوک و گمان میرے
مبارک ہو وہ خوبصورت کتابِ ایمان، جو قرآن کے مجملات کی مفسر ہے
اس کی فصاحت و بلاغت سحبان کی آنکھوں کا نور ہے، جو عقلمندوں کی عقل کو مسخر کر لیتی ہے

(ب)
یہ مرتضیٰ کا فرمان ہے، سنو!
مرتضیٰ کے کلام سے بہتر کوئی کلام نہیں
آپ کی نصیحت سنو کہ وہ ایک ایسا خطیب ہے
کہ علیؑ جیسا شہِ اولیا کوئی نہیں

(20)
سرھنگ بدرالدین رشیدپور، بدریؔ
نہج البلاغہ سے اس کے کلام کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے
اس کے عمل اور اس کے گفتار پر ہزاروں آفرین ہو

(21)
شاعر معاصر خراسانی سید محمد خسرونژاد (تخلص ”خسرو“)
کامیابی کا راستہ دکھایا ہے انسانوں کو
آپؑ کے دلکش کلام اور پر تاثیر خطبات نے

(22)
شاعر معاصر شیرازی محمد خلیل مذنب متخلص بہ ”جمالی“
علیؑ کی وسیع فکر سےآسمان بھی بلندتر نہیں
آپ کے بلند مقام کے آگے جبرائیل کو قوتِ پرواز نہیں
خدا کی کتاب بہت بڑی کتاب ہے
اس کے ہر لفظ میں لاکھوں موتی ہیں

(23)
مولانا محتشم کاشانی (متوفی 991ھ)
اے علی! آپ کی گفتار نبی کی گفتار کی مانند بہترین گفتار ہے
اور آپ کا کلام واضح قرآن کے بعد بہترین کلام ہے
میں کہاں اور آپ جیسے معجز کلام کی تعریف کہاں
خصوصاً اس ناپختہ اور بے ترتیب شعروں کے ساتھ

(24)
شاعر معاصر حسن خلیلی راد
نہج البلاغہ جو علم و دانش کا منشور ہے
عالم کے گنبد پر عارفان کے لیے چمک رہا ہے
نہج البلاغہ عدالت کا پیکر اور دوسرا قرآن ہے
کیونکہ یہ علی کے کلام کے گوہر سے گفتگو کرتا ہے
نوٹ:
ان اشعار کی تفصیل جاننے کے لئے ان لنکس کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے:
https://asadallah.r98.ir/post/84
https://library.tebyan.net/fa/Viewer/Text/63802/23





