مکتوبات

مکتوب (۶۴)

(٦٤) وَ مِنْ كِتَابٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

مکتوب (۶۴)

اِلٰى مُعَاوِیَةَ جَوَابًا

بجواب معاویہ

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّا كُنَّا نَحْنُ وَ اَنْتُمْ عَلٰى مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْاُلْفَةِ وَ الْجَمَاعَةِ، فَفَرَّقَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمْ، اَمْسِ اَنَّاۤ اٰمَنَّا وَ كَفَرْتُمْ، وَ الْیَوْمَ اَنَّا اسْتَقَمْنَا وَ فُتِنْتُمْ، وَ مَاۤ اَسْلَمَ مُسْلِمُكُمْ اِلَّا كُرْهًا، وَ بَعْدَ اَنْ كَانَ اَنْفُ الْاِسْلَامِ كُلُّهٗ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ حِزْبًا.

جیسا کہ تم نے لکھا ہے (اسلام سے پہلے) ہمارے اور تمہارے درمیان اتفاق و اتحاد تھا، لیکن کل ہم اور تم میں تفرقہ یہ پڑا کہ ہم ایمان لائے اور تم نے کفر اختیار کیا اور آج یہ ہے کہ ہم حق پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور تم فتنوں میں پڑ گئے ہو۔ اور تم میں سے جو بھی اسلام لایا تھا وہ مجبوری سے، اور وہ اس وقت کہ جب تمام (اشراف عرب)اسلام لا کر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو چکے تھے۔

وَ ذَكَرْتَ اَنِّیْ قَتَلْتُ طَلْحَةَ وَ الزُّبَیْرَ، وَ شَرَّدْتُّ بِعَآئِشَةَ، وَ نَزَلْتُ بَیْنَ الْمِصْرَیْنِ، وَ ذٰلِكَ اَمْرٌ غِبْتَ عَنْهُ، فَلَا عَلَیْكَ وَ لَا الْعُذْرُ فِیْهِ اِلَیْكَ.

تم نے (اپنے خط میں) ذکر کیاہے کہ میں نے طلحہ و زبیر کو قتل کیا اور عائشہ کو گھر سے نکالا اور (مدینہ چھوڑ کر) کوفہ و بصرہ میں قیام کیا، مگر یہ وہ باتیں ہیں جن کا تم سے کوئی واسطہ نہیں، نہ یہ تم پر کوئی زیادتی ہے، نہ تم سے عذر خواہی کی اس میں ضرورت ہے۔

وَ ذَكَرْتَ اَنَّكَ زَآئِرِیْ فِی الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ قَدِ انْقَطَعَتِ الْهِجْرَةُ یَوْمَ اُسِرَ اَخُوْكَ، فَاِنْ كَانَ فِیْكَ عَجَلٌ فَاسْتَرْفِهْ، فَاِنِّیْۤ اِنْ اَزُرْكَ فَذٰلِكَ جَدِیْرٌ اَنْ یَّكُوْنَ اللّٰهُ اِنَّمَا بَعَثَنِیْۤ اِلَیْكَ لِلنِّقْمَةِ مِنْكَ، وَ اِنْ تَزُرْنِیْ فَكَمَا قَالَ اَخُوْ بَنِیْۤ اَسَدٍ:

اور تم نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ تم مہاجرین و انصار کے جتھے کے ساتھ مجھ سے ملنے (مقابلہ) کو نکلنے والے ہو، لیکن ہجرت کا دروازہ تو اسی دن بند ہو گیا تھا جس دن تمہارا بھائی گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اگر جنگ کی تمہیں اتنی ہی جلدی ہے تو ذرا دم لو۔ ہو سکتا ہے کہ میں خود تم سے ملنے آ جاؤں اور یہ ٹھیک ہو گا اس اعتبار سے کہ اللہ نے تمہیں سزا دینے کیلئے مجھے مقرر کیا ہو گا۔ اور اگر تم مجھ سے ملنے کو آئے تو وہ ہو گا جو شاعر بنی اسد نے کہا ہے:

مُسْتَقْبِلِیْنَ رِیَاحَ الصَّیْفِ تَضْرِبُهُمْ

’’وہ موسم گرما کی ایسی ہواؤں کا سامنا کر رہے ہیں

بِحَاصِبٍ بَیْنَ اَغْوَارٍ وَ جُلْمُوْدِ

جو نشیبوں اور چٹانوں میں ان پر سنگریزوں کی بارش کر رہی ہیں‘‘۔

وَ عِنْدِی السَّیْفُ الَّذِیْۤ اَعْضَضْتُهٗ بِجَدِّكَ وَ خَالِكَ وَ اَخِیْكَ فِیْ مَقَامٍ وَّاحِدٍ، وَ اِنَّكَ وَ اللّٰه!ِ مَا عَلِمْتُ الْاَغْلَفُ الْقَلْبِ، الْمُقَارِبُ الْعَقْلِ، وَ الْاَوْلٰى اَنْ یُّقَالَ لَكَ: اِنَّكَ رَقِیْتَ سُلَّمًا اَطْلَعَكَ مَطْلَعَ سُوْٓءٍ عَلَیْكَ لَا لَكَ،‏ لِاَنَّكَ نَشَدْتَّ غَیْرَ ضَالَّتِكَ، وَ رَعَیْتَ غَیْرَ سَآئِمَتِكَ، وَ طَلَبْتَ اَمْرًا لَّسْتَ مِنْ اَهْلِهٖ، وَ لَا فِیْ مَعْدِنِهٖ.

میرے ہاتھ میں وہی تلوار ہے جس کی گزند سے تمہارے نانا، تمہارے ماموں اور تمہارے بھائی کو ایک ہی جگہ پہنچا چکا ہوں۔ خدا کی قسم! تم جیسا میں جانتا ہوں ایسے ہو جس کے دل پر تہیں چڑھی ہوئی ہیں اور جس کی عقل بہت محدود ہے۔ تمہارے بارے میں یہی کہنا زیادہ مناسب ہے کہ تم ایک ایسی سیڑھی پر چڑھ گئے ہو جہاں پر سے تمہارے لئے برا منظر پیش نظر ہو سکتا ہے، جس میں تمہارا برا ہی ہو گا، بھلا نہیں ہو گا۔ کیونکہ غیر کی کھوئی ہوئی چیز کی جستجو میں ہو اور دوسرے کے چوپائے چرانے لگے ہو، اور ایسی چیز کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہو جس کے نہ تم اہل ہو اور نہ تمہارا اس سے کوئی بنیادی لگاؤ ہے۔

فَمَاۤ اَبْعَدَ قَوْلَكَ مِنْ فِعْلِكَ، وَ قَرِیْبٌ مَاۤ اَشْبَهْتَ مِنْ اَعْمَامٍ وَ اَخْوَالٍ، حَمَلَتْهُمُ الشَّقَاوَةُ، وَ تَمَنِّی الْبَاطِلِ عَلَى الْجُحُوْدِ بِمُحَمَّدٍ ﷺ، فَصُرِعُوْا مَصَارِعَهُمْ حَیْثُ عَلِمْتَ، لَمْ یَدْفَعُوْا عَظِیْمًا، وَ لَمْ یَمْنَعُوْا حَرِیْمًۢا بِوَقْعِ سُیُوْفٍ، مَا خَلَا مِنْهَا الْوَغٰى، وَ لَمْ تُمَاشِهَا الْهُوَیْنٰى.

تمہارے قول و فعل میں کتنا فرق ہے اور تمہیں اپنے ان چچاؤں اور ماموؤں سے کتنی قریبی شباہت ہے جنہیں بدبختی و آرزوئے باطل نے محمد ﷺ کے انکار پر ابھارا تھا، جس کے انجام میں وہ قتل ہو ہو کر گرے۔ اور جیسا تمہیں معلوم ہے کہ نہ کسی بلا کو وہ ٹال سکے اور نہ اپنے محفوظ احاطہ کی حفاظت کر سکے، ان تلواروں کی مار سے جن سے میدان وَغا خالی نہیں ہوتا اور جن میں سستی کا گزر نہیں۔

وَ قَدْ اَكْثَرْتَ فِیْ قَتَلَةِ عُثْمَانَ، فَادْخُلْ فِیْمَا دَخَلَ فِیْهِ النَّاسُ، ثُمَّ حَاكِمِ الْقَوْمَ اِلَیَّ، اَحْمِلْكَ وَ اِیَّاهُمْ عَلٰى كِتَابِ اللّٰهِ تَعَالٰى، وَ اَمَّا تِلْكَ الَّتِیْ تُرِیْدُ، فَاِنَّهَا خُدْعَةُ الصَّبِیِّ عَنِ اللَّبَنِ فِیْۤ اَوَّلِ الْفِصَالِ، وَ السَّلَامُ لِاَهْلِهٖ.

اور تم نے عثمان کے قاتلوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے تو پہلے میری بیعت میں داخل ہو جاؤ جس میں سب داخل ہو چکے ہیں۔ پھر میری عدالت میں ان لوگوں پر مقدمہ دائر کرنا، تو میں کتاب خدا کی رو سے تمہارا اور ان کا فیصلہ کر دوں گا۔ لیکن یہ جو تم چاہ رہے ہو تو یہ وہ دھوکا ہے جو بچہ کو دودھ سے روکنے کیلئے دیا جاتا ہے۔ سلام اس پر جو اس کا اہل ہو!۔

۱؂معاویہ نے امیر المومنین علیہ السلام کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں باہمی یکجہتی و اتفاق کا تذکرہ کرنے کے بعد آپؑ پر طلحہ و زبیر کے قتل اور اُمّ المومنین عائشہ کو گھر سے بے گھر کرنے کا الزام لگایا اور مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو مرکز قرار دینے پر اعتراض کیا اور آخر میں جنگ کی دھمکی دیتے ہوئے لکھا کہ میں انصار و مہاجرین کے جتھے کے ساتھ جنگ کیلئے نکلنے والا ہوں۔ حضرتؑ نے اس کے جواب میں یہ مکتوب اس کے نام لکھا جس میں اس کے دعوائے اتحاد و یکجہتی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یہ مانا کہ ہم میں اور تم میں اتحاد ہوگا، مگر اسلام کے بعد ہم میں اور تم میں ایسی خلیج حائل ہو چکی ہے جسے پاٹا نہیں جا سکتا اور ایسا تفرقہ پڑ گیا ہے جسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ اس طرح کہ ہم نے پیغمبر ﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام میں سبقت کی اور تمہاری حالت یہ تھی کہ تم اس وقت کفر و جہالت میں پڑے ہوئے تھے جس سے ہماری اور تمہاری راہیں الگ الگ ہو گئیں۔ البتہ جب اسلام کے قدم جم گئے اور اشرافِ عرب حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تو تم نے مجبوری کے عالم میں اطاعت قبول کر لی اور چہروں پر اسلام کی نقاب ڈال کر اپنی جانوں کا تحفظ کر لیا، مگر درپردہ اس کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کیلئے فتنوں کو ہوا دیتے رہے اور ہم نے چونکہ رضا و رغبت سے اسلام قبول کیا تھا اس لئے راہ حق پر جمے رہے اور کسی مرحلہ پر ہمارے ثباتِ قدم میں جنبش نہ آئی، لہٰذا تمہارا اسلام لانا بھی ہمیں تمہارا ہمنوا نہ بنا سکا۔

اب رہا اس کا یہ الزام کہ حضرتؑ نے طلحہ و زبیر کے قتل کا سروسامان کیا تو اگر اس الزام کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ انہوں نے حضرتؑ کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کی تھی اور بیعت کو توڑ کر جنگ کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا اگر وہ بغاوت کے سلسلہ میں مارے گئے تو ان کا خون رائیگاں سمجھا جائے گا اور قتل کرنے والے پر الزام عائد نہ ہوگا۔ کیونکہ امام برحق کے خلاف بغاوت کر نے والے کی سزا قتل اور اس سے جنگ و قتال بلا شبہ جائز ہے۔ اور اصل واقعہ یہ ہے کہ اس الزام کی کوئی اصلیت ہی نہیں ہے، کیونکہ طلحہ اپنے ہی گروہ کے ایک فرد کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ چنانچہ صاحب استیعاب تحریر فرماتے ہیں:

رَمٰى مَرْوَانُ طَلْحَةَ بِسَهْمٍ، ثُمَّ الْتَفَتَ اِلٰۤى اَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ فَقَالَ: قَدْ كَفَيْنَاكَ بَعْضَ قَتَلَةِ اَبِيْكَ.

مروان نے طلحہ کو تیر سے مارا اور پھر ابان ابن عثمان سے کہا کہ ہم نے تمہارے باپ کے بعض قاتلوں سے بدلہ لے کر تمہیں اس مہم سے سبکدوش کر دیا ہے۔ (استیعاب، ج۲، ص۲۲۳)

اور زبیر بصرہ سے پلٹتے ہوئے وادی السباع میں عمرو ابن جرموز کے ہاتھ سے قتل ہوئے تھے، جس میں امیر المومنین علیہ السلام کا کوئی ایمانہ تھا۔

اسی طرح حضرت عائشہ اس باغی گروہ کی سربراہ بن کر خود سے نکل کھڑی ہوئی تھیں اور امیر المومنین علیہ السلام نے انہیں متعدد دفعہ سمجھایا کہ وہ اپنے موقف کو پہچانیں اور اپنے حدود کار سے قدم باہر نہ نکالیں۔ مگر ان پر ان باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اسی نوعیت کی یہ نکتہ چینی ہے کہ حضرتؑ نے مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو اس لئے دارالخلافہ بنایا کہ مدینہ بُروں کو اپنے سے الگ کر دیتا ہے اور گندگی کو چھانٹ دیتا ہے۔

اس کا جواب تو بس اتنا ہی ہے کہ وہ خود بھی تو مدینہ کو چھوڑ کر ہمیشہ شام ہی کو اپنا مرکز بنائے رہا تو اس صورت میں اسے حضرتؑ کے مرکز بدلنے پر کیا حق اعتراض پہنچتا ہے۔ اگر حضرتؑ نے مدینہ کو چھوڑا تو اس کی وجہ وہ شورشیں تھیں جو ہر طرف سے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں جن کی روک تھام کیلئے ایسے ہی مقام کو مرکز قرار دینا مفید ثابت ہو سکتا تھا کہ جہاں سے ہر وقت فوجی امداد حاصل کی جا سکے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام نے جنگ جمل کے موقع پر دیکھ لیا تھا کہ اہل کو فہ کی خاصی بڑی اکثریت نے آپؑ کے ساتھ تعاون کیا ہے، لہٰذا اسے فوجی چھاؤنی قرار دے کر بڑی آسانی سے دشمن کا دفاع کیا جا سکتا ہے اور مدینہ نہ فوجی کمک کے اعتبار سے اور نہ رسد رسانی کے لحاظ سے مفید تھا۔

آخر میں معاویہ کی یہ دھمکی کہ وہ مہاجرین و انصار کے گروہ کے ساتھ نکلنے والا ہے تو حضرتؑ نے اس کا بڑے لطیف پیرایہ میں یہ جواب دیا ہے کہ اب تم مہاجر کہاں سے لاؤ گے جبکہ ہجرت کا دروازہ اسی دن بند ہو گیا تھا کہ جب تمہارا بھائی یزید ابن ابی سفیان اسیر ہوا تھا اور یہ فتح مکہ کے موقع پر گرفتار ہوا تھا اور فتح مکہ کے بعد ہجرت کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ کوئی ’’مہاجر‘‘ کہلا سکے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ: لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ: ’’فتح کے بعد ہجرت نہیں ہے‘‘۔ (صحیح البخاری، ج۷، ص۱۹۳، حدیث۲۷۸۳)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button