مقالات

 امیرالمومنین علی (ع)کے درد و پیغامات(۱)

کوئی قوم و ملک تب ترقی کر سکتا ہےجب اس ملک اور اس قوم کے افراد بہترین راہنما اور رہبر کی باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کریں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو اچھا پروگرام رکھتے ہیں، اچھا منصوبہ رکھتے ہیں ، کمال کی سیاست اور پالیسی رکھتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات کو سننے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یہ ایک ایسا درد ہوتا ہے کہ جس کی تکلیف وہی درک کر سکتا ہے کہ جو اس سے گزر رہا ہو۔ امیرالمومنین کے کئی دردوں میں سے ایک مہم ترین درد یہ بھی تھا۔
اپنی فوج اور لشکر کے سامنے درد بیان کرنا
امیرالمومنین حضرت علی (ع)کی زندگی میں اکثر لوگوں نے ان کی مخالفت کی اور آپ کے احکامات پر عمل کرنا تو کجا بعض اوقات گفتگو کو سنا بھی نہیں کرتے تھے، اگر سنتے بھی تھے تو بہت کم ایسے تھے کہ جو اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ یہ مولا کا ایک بہت بڑا درد تھا جس کو آپ نے کئی مقامات پر بیان بھی کیا ہے جن میں سے ایک مقام نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۹۶ ہے جس میں شامی فوج کی طرف اپنی فوج کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
یہ قوم تم پر غلبہ حاصل کر لے گی اس لئے نہیں کہ وہ تم سے زیادہ حق پر ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے باطل حکمران کی فوری اطاعت کر لیتے ہیں جبکہ تم میرے حق میں سستی سے کام لیتے ہو۔ دنیا کی قومیں اپنے حکمرانوں کے ظلم سے ڑرتی ہیں جبکہ میں اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں۔ میں نے تم کو جہاد کے لئے آمادہ کیا لیکن تم آمادہ نہ ہوئے، میں نے تمہیں جس سنانے کی ضرورت تھی وہ سنایا لیکن تم نے نہ سنا۔ ہر حوالے سے تمہیں بلایا لیکن تم نے میری بات کا جواب نہ دیا اور اسے قبول نہ کیا۔ تمہیں نصیحت کی تم نے اسے بھی قبول نہ کیا۔ تمہارا حضور وغیاب ایک جیسا ہے یعنی ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ تم ایسے اطاعت کرنے والے ہو کہ گویا خود مالک ہو، میں تمہارے لئے حکمت والی باتیں کرتا ہوں اور تم بیزار ہو جاتے ہو۔ بہترین نصیحت کرتا ہوں اور تم چلے جاتے ہو اور متفرق ہو جاتے ہو۔ تم کو باغیوں کے جہاد پرآمادہ کرتا ہوں اور ابھی بات مکمل نہیں کر چکا ہوتا کہ تم قوم سبا کی طرح منتشر اور جدا ہو جاتے ہو۔ اپنی محفلوں میں پلٹ جاتے ہو اور ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہو۔ صبح تم کو سیدھا کرتا ہوں تو شام کو تم ٹیڑھے ہو جاتے ہو۔ تمہیں سیدھا کرنے والا عاجز آ گیا ہے اور تمہاری اصلاح بھی ناممکن ہو چکی ہے۔ اے لوگو! تمہارے بدن تو حاضر ہیں لیکن عقلیں اور ذہن غائب ہیں۔ تمہاری خواہشات مختلف ہیں اور تمہارے حکمران تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں۔ تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے جبکہ تم اس کی مخالفت کرتے ہو، شام کا حاکم اللہ کی مخالفت کرتا ہے جبکہ اس کی قوم اس کی اطاعت کرتی ہے۔
اللہ گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ کے ساتھ تمہارا دینار و درہم کی طرح سودا کر لوں کہ وہ تم سے دس لیکر اپنا ایک دے دے۔ اے اہل کوفہ تم تین طرح کی خصوصیات اور دو طرح کی کیفیات رکھتے ہو۔ قوت سماعت رکھنے کے باوجود بہرے ہو، صاحب کلام ہونے کے باوجود گونگے ہو، آنکھیں رکھنے کے باوجود اندھے ہو۔ تمہاری کیفیت یہ ہے کہ نہ میدان جنگ کے سچے جوان مرد ہو اور نہ ہی مصیبت کے وقت قابل اعتماد ساتھی ہو۔ تمہاری قوتیں خاک میں مل جائیں، تمہاری مثال ان اونٹوں کی طرح ہے کہ جن کے چرانے والے غائب ہو گئے ہوں اور یہ اونٹ ایک طرف سے جمع کئے جائیں تو دوسری طرف منتشر ہو جائیں، خدا کی قسم تمہارے بارے میں میرا گمان ایسے ہے گویا کہ تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ اگر جنگ تیز ہو گئی اور میدان جنگ گرم ہو گیا تو تم ابوطالب کے بیٹے کو انتہائی بی شرمی کے ساتھ چھوڑ کر چلے جاو گے۔
کسی شخص، قوم اور ملک کواگربہترین رہبر اور راہنما مل جائے تو وہ شخص، قوم اور ملک سالوں کے ترقی اور کمال کے راستے دنوں اور راتوں میں طے کیا کرتے ہیں۔ جس گھر کا سربراہ، جس ادارہ کا رئیس کمال کا آدمی ہو وہ گھر اور وہ ادارہ بھی کمال کا بن جایا کرتا ہے، لیکن اس تمام امر میں شرط یہ ہے کہ گھرکے افراد گھر کے سربراہ اور ادارہ کے افراد ادارہ کے رئیس کی باتوں کو مان کر اس پر عمل کریں۔ اگر مسلمان اور مومنین کرام مولاعلی (ع)کی باتوں کا مطالعہ ہی نہ کریں یا مطالعہ تو کریں لیکن ان پر عمل نہ کریں تو نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو ہوا اور ہو رہا ہے۔
اوصیکما و جمیع ولدی و اهلی و من بلغه کتابی
امام اپنے اس وصیت نامے میں اپنے دونوں بیٹوں امام حسن (ع)اور امام حسین(ع) کو پھر تمام اولاد اور گھر والوں کو اور ہر اس شخص کو کہ جس تک امام کا یہ وصیت نامہ پہنچے خطاب فرما رہے ہیں۔ امام حسن اور امام حسین کو جداگانہ خطاب فرمانا یہ ظاہرا ان دو کے مقام عظمت کی بنیاد پر ہے۔ امام یہاں پر اپنی ساری اولاد اور سارے گھر والوں کے لئے امام المتقین اپنی زندگی کے آخری لمحات میں انتہائی مہم ترین نکات بیان فرما رہے ہیں۔ مولا کی سیرت کا یہ نکتہ انتہائی مہم ہے جو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ اولاد اور گھر والوں کی تربیت کی ذمہ داری والدین کی گردن پر ہے اور یہ کام اتنا مہم ہے کہ انسان اپنی زندگی کے آخری ترین لمحات تک اس امر سے غافل نہ رہے۔ امیرالمومنین(ع) کی شب ضربت سے لیکر روز شہادت تک اگر اللھ نے مولا کے مراسم میں ہمیں توفیق دی ہے اور ہم چودہ سو سال کے بعد مولا کو یاد کر رہے تو مولا نے بھی آج سے چودہ سو سال پہلے ہماری سعادت اور ہدایت کا نظم اور سسٹم بناتے ہوئے جہاں پر امام حسن اور امام حسین اور اپنی باقی اولاد و گھر والوں کو یاد کیا ہے تو اپنے ماننے والوں کو بھی وہیں پر یاد فرماتے اور ان کو بھی وہی نصیحت کرتے ہیں جو اپنی اولاد سے کرتےہیں۔
بتقوی اللَّه
انسان عام طور پر زندگی کے آخری لمحات میں اپنی زندگی اور تجربات کا ما حصل دوسروں کو بیان کرتا ہے اور اگر وہ جن سے بیان کیا جا رہا ہے اپنی اولاد اور خاص افراد ہوں تو انسان عام طور پر اہم و مہم میں سے فقط اہم چیزوں کو بیان کرتا ہے ۔ مولا کائنات کی نگاہ میں تقوی یعنی عظمت خدا کے سامنے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا اور سب امید اور تمنا کا مرکز اسے قرار دے کر اس کی عظمت کے سامنے یہ اقرار کرنا کہ الہی و ربی من لی غیرک، تیرے علاوہ میرا کون ہے؟ انسان اپنے دل کی تمرین اور مختلف مشقوں سے یہ کیفیت بنائے کہ یہ دل قیامت کے دن کے عذاب سے خوف کھائے، دل میں خشیت خداوندی پیدا ہو اور انسان اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڑرے۔ اس منزل اور مقام کے حصول کا بہترین طریقہ اپنے واجبات پر عمل کرنا اور محرمات سے پرہیز کرنا ہے۔خواہشات نفسانی پر قابو پانا ہے، بی لگام ہو کر زندگی نہیں گزارنا بلکہ اپنی لگام عقل اور وحی الہی کے سپرد کرنی ہے۔ اس کام کے حاصل کرنے کا ایک بہترین راہ ماہ مبارک کے روزے رکھنے ہیں اور اللہ نے ان روزو کا فلسفہ بھی تقوی کا حصول بتایا ہے۔ تقوی ہی قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کی بنیادی شرط قرار پایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے ماننے والوں کو جو قیمتی ترین نسخہ بتا رہے ہیں وہ تقوی خداوندی ہے۔ آج عالم اسلام کی، اہل علم کی ، علماء کی حتی مدارس دینیہ اور حوزہ ہای علمیہ کی سب سے بڑی مشکل تقوی سے خالی ہونا ہے۔ اگر انسان کے وجود اور اس کے دل کے اندر تقوی آجائے تو یہ دل ایسا خدائی ایٹم بم بنتا ہے کہ جو تباہی نہیں بلکہ تباہی پھیلانے والے تمام امکانات اور ان کے بنانے والوں پر غالب آکر دنیا کو خیر و برکت اور صلح و امن کی نوید دیتا ہے۔

تحریر: محمد اشرف ملک malikashraf110@gmail.com

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button