مقالات

مظلومیت امام علی علیہ السلام

حنا زہراء جامعۃ الزھراء، قم مقدس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

الحمد للہ رب العالمین الصلواۃ والسلام علی سیدنا و نبینا و مولانا ابی القاسم محمد ﷺ

امام علی علیہ السلام ہمیشہ حضرت پیامبر ﷺ کے شانہ بشانہ رہتے تھے حضرت پیامبر ﷺ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہوئے نظر آرہے ہیں:
من کنت مولاہ فھذا علی مولا جس جس کا میں مولا اس اس کا علی مولا ہے۔

حضرت پیامبر ﷺ کی رحلت ہوئی تھی کہ لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو بھلا دیا، یہ حضرت علی علیہ السلام کی مظلومیت ہے۔ ان شاء اللہ مقالہ میں مختصراً مولا علی علیہ السلام کی مظلومیت کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔ امام علی علیہ السلام کی مظلومیت حکومت و خلافت کہ امام کا حق تھا کہ حضرت پیامبر ﷺ کی رحلت کے بعد حکومت کریں لیکن عوام نے یہ حق حضرت علی علیہ السلام سے چھین لیا۔

مظلومیت امام علی علیہ السلام اور عوام کی نافرمانی، مظلومیت امام علیہ السلام اور قریش کی ستمکاری، مظلومیت امام علی اور مظلومیت شیعیان، اور آخرین مظلومیت سیاسی امام علی،

ان تمام مظلومیت مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی مختصر توضیح دی جائے گی۔

اگر تاریخ اسلام پر نظر ڈالی جائے تو حضرت علی علیہ السلام حضور پاک ﷺ کے ساتھ نظر آئیں گے، حضرت علی علیہ السلام ہی تھے کہ سب سے پہلے حضرت پیامبر ﷺ پر ایمان لائے۔ حضرت پیامبر ﷺ نے ہر مقام پر حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت بیان کی۔ حدیث ثقلین، حدیث غدیر، حدیث منزلت…… بہت ساری احادیث و آیات قرآنی حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت کے بارے میں نازل ہوئی۔

حضرت پیامبر ﷺ کی رحلت ہوئی کہ مردم نے سقیفہ میں جاکر اور کمیٹی کے تحت خلیفہ بنایا درحالیکہ یہ حق خلافت حضرت علیہ السلام کا تھا، لیکن افسوس اصحاب پیامبر ﷺ نے یہ حق حضرت علی علیہ السلام کو نہیں دیا۔ یہ ایک بہت بڑی مظلومیت امام علی علیہ السلام ہے۔ امام علی علیہ السلام کی مظلومیت حضرت پیامبر ﷺ کی رحلت کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی۔

میں ان شاء اللہ تعالیٰ چند مورد مظلومیت امام علی علیہ السلام کو بیان کرنا چاہتی ہوں!

امام علی علیہ السلام کی مظلومیت، خلافت میں

خدا کی قسم، ہرگز، کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عرب حضرت پیامبر ﷺ کی رحلت کے بعد حق امامت اور رہبری کو جو اہل بیت علیہم السلام کا حق تھا، ان سے لے کر دوسروں کو حق خلافت دے دیا۔ تنہا چیز جو امام علی علیہ السلام کو ناراض کیا، مردم کا جمع ہونا اس شخص کیلئے جو اس خلافت کے لائق نہیں تھا۔ کچھ افراد چاہتے تھے کہ دین محمد ﷺ کو ختم کردیں اس لیے بیعت کی، امام علی علیہ السلام اس لیے خاموش رہے کیونکہ دین اسلام کو باقی رکھنا تھا اور دین اسلام کو ہر مشکلات و مصیبت سے بچانا تھا۔

ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ سرزمین ذی قار خدمت امام علی علیہ السلام میں حاضر ہوا، امام علیہ السلام جوتے کو پیوند لگا رہے تھے، جب مجھے دیکھا تو مجھ سے پوچھنے لگے: اے ابن عباس، اس جوتے کی قیمت کتنی ہوگی، میں نے کہا، اس کی قیمت تو نہیں ہے۔ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: یہ جوتا میرے لیے آپ کی اس حکومت سے برتر ہے۔ لیکن افسوس یہ حق امام علی علیہ السلام کو نہ دیا۔ [1]

حضرت علی علیہ السلام کی حکومت پر نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ افراد جو حضرت علی علیہ السلام کی حکومت سے خوش نہیں تھے وہ جنگ کرنے پر آمادہ ہو گئے، یہاں تک کہ حضرت کے بعض دوست بھی اپنے کو حضرت علیہ السلام کے عادلانہ نظام میں نہ ڈھال سکے اور حضرت علی علیہ السلام   کے احکام کی نافرمانی کرنے لگے۔ [2]

امام علی علیہ السلام کی مظلومیت اور عوام کی نافرمانی

اگر دیکھا جائے تو امام علی علیہ السلام کی مظلومیت اور لوگوں کی نافرمانی اس طرح سے واضح ہے کہ جب امام علی علیہ السلام نے خط لکھا اور کوفہ والوں کو بتایا کہ سب لوگ حضرت عثمان کو اچھا نہیں سمجھ رہے اور اس کو قتل کرنا چاہتے ہیں لیکن میں اس کی حفاظت کر رہا ہوں، طلحہ و زبیر اور عائشہ بہت عضہ میں ہیں بعض لوگوں نے تنگ آکر حضرت عثمان کو قتل کردیا ہے۔
جس وقت یہ خط آپ لوگوں تک پہنچے میری طرف حرکت کرو اگر مجھ کو نیک سمجھتے ہو، میری مدد کرو۔
لیکن افسوس اس بار بھی کسی نے امام علی علیہ السلام کی مدد نہ کی امام علی علیہ السلام تنہا رہ گئے۔ [3]

امام علیہ السلام کی مظلومیت اور قریش کی ستمکاری

میرے ساتھ قریش کو کیا کام! خدا کی قسم جس وقت قریش کافر تھے ان کے ساتھ جنگ کی اور ابھی بھی فریب و مکار یھا کہا رہے ہیں، ابھی بھی میں ان کے ساتھ جنگ کروں گا۔
قسم بخدا قریش مجھ سے انتقام نہیں لے سکتے،
کیونکہ خداوند نے مجھے انہیں میں سے خلق کر کر مجھے فضیلت عطا کی ہے [4]

مظلومیت امام علی علیہ السلام اور مظلومیت شیعیان

امام علی علیہ السلام کے ایک دوست دنیا سے چل بسے جس کو امام علی علیہ السلام بہت چاہتے تھے۔ اس کے مرنے کے بعد امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر پہاڑبھی ہمیں دوست رکھتا ہے تو ہماری محبت میں وہ دو ٹکڑے ہو کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔

امام علی علیہ السلام کا اس سے مراد یہ تھا کہ جو کوئی بھی ہم اہل بیت علیہ السلام کو دوست رکھتا ہے اس کو حتماً ظلم و ستم برداشت کرنے ہوں گے، اور ہر مصیبت اور دکھ کو اٹھانا ہوگا، یہ مظلومیت امام علی علیہ السلام اور مظلومیت شیعیان ہے کہ اگر جو کوئی بھی اہل بیت علیہ السلام کو دوست رکھتا ہے تو اس پر ظلم کئے جاتے ہیں۔ لیکن شیعوں نے ہر ظلم کو برداشت کیا فقط اہل بیت علیہم السلام کی محبت میں۔ [5]

مظلومیت سیاسی امام علی علیہ السلام

امام علی علیہ السلام کے زمانہ میں لوگ حضرت علی علیہ السلام کے پاس آتے تھے اور کہتے تھے کہ معاویہ آپ علیہ السلام سے زیادہ سیاستدان ہے۔ معاویہ اس قدر ہوشیاری اور چالاکی سے کام کرتا تھا۔آپ علیہ السلام اس طرح انجام نہیں دیتے تھے۔ معاویہ کی سیاست اس طرح مشہور ہوگئی کہ بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام کو سیاست نہیں آتی۔ یہ مظلومیت امام علی علیہ السلام کو ظاہر کرتی ہے۔ [6] لیکن امام علیہ السلام نہج البلاغہ [7] میں اس طرح فرماتے ہیں کہ خداوند کی قسم معاویہ مجھ سے عاقل تر نہیں ہے وہ خیانت کرتا ہے اور معصیت و نافرمانی کرتا ہے۔ اگر معاویہ فریب و بے وفائی نہ کرتا تو میں ہوشیار و عاقل ترین مرد ہوں۔
سیاست دین سے جدا نہیں ہے۔ امام علی علیہ السلام اس قدر سیاست میں اعلیٰ درجہ پر تھے کہ جب منبر پر تھے تو لوگوں سے فرمایا:

ایھا الناس سلونی قبل ان تفقدونی۔
اے مردم! اس سے پہلے کہ میں اس دنیا سے چلا جاؤں جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو مجھ سے پوچھ لو میں آسمانوں اور زمینوں کے راستوں کو خوب جانتا ہوں۔

نتیجہ گیری

رسول اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد ہی امام علی علیہ السلام کی مظلومیت شروع ہو گئی حضرت علی علیہ السلام خلافت و حکومت کے حقدار تھے لیکن ان کے حق کو غضب کر لیا گیا اور خلافت و حکومت اسے دی گئی جو خلافت کے لائق و حقدار نہ تھا، یہی نہیں بلکہ اگر مولا علیہ السلام کی مظلومی کا اندازہ لگانا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ عوام کی نافرمانی، قریش کی بدکاری، جیسا کہ مولاء علی علیہ السلام قریش کے بارے میں فرماتے ہیں رسول خدا ﷺ کے بعد خلافت میرا حق تھا لیکن مجھ سے چھین لیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ امام علیہ السلام و ان کے شیعوں کی مظلومیت کا یہ عالم تھا کہ ان کے محبوں پر ظلم وستم کیا جاتا تھا دوسری طرف امام علیہ السلام سیاست کے بہترین و ماہر جاننے والے تھے یہیں لوگوں نے انہیں نہ پہچانا، ہمارے مولا علیہ السلام اپنے زمانے میں تو مظلوم تھے ہی لیکن آج بھی ہمارے مولا مظلوم ہیں۔

کیا ہم اپنے امام کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں؟
کیا ہم سچے پیروکار ہیں؟
کیا ہمارا امام علیہ السلام آج بھی مظلوم نہیں ہے؟
یہ امام کو مظلوم کس نے بنایا؟
ہم ہی لوگ تو ہیں جو محبت کا دعوی کرتے ہیں لیکن حق محبت ادا نہیں کرتے۔
آئیے ہم سب ملکر بارگاہ الہی میں دعا کریں:

خدایا ہمیں اہلبیت علیہم السلام کا سچا پیروکار بنا اور امام زمانہ (عج) کے ظہور میں تعجیل عطا فرما،
ہمیں ان کے اعوان و انصار میں شمار کر (آمین)

حوالہ جات

[1] نامہ ۶۳، شرح نہج البلاغہ، مکارم شیرازی, مترجم آشتیابی، محمد رضا، امانی، محمد جعفر
[2] حضرت علی، تقریر، مجلس مصنفین، ترجمہ سید احمد علی عابدی: ص ۳۵
[3] نامہ ۱، شرح نہج البلاغہ ، مکارم شیرازی ص۳ ج:۳
[4] خطبہ۳۳، شرح نہج البلاغہ، مکارم شیرازی: ج۱ ص۱۲۰، ۱۲۱
[5] ایضا، حکمت، ۱۱۱۔۱۱۲ ص ۲۵۰۔۲۵۱ ج: ۳
[6] بر امیر مومنان علیؑ چہ گذشت، کاشانی، سید محمد حسن موسوی: ص۱۸۴
[7] نہج البلاغہ، فیض الاسلام، خطبہ ۱۹۱ ص ۶۴۸

منابع کی فہرست

[1] بر امیر مومنان علیؑ چہ گذشت، کاشانی، محمد حسن موسوی  تاریخ نشر۱۳۷۰، چاپ مہر
[2] حضرت علیؑ، مجلس مصنفین، ترجمہ سید احمد علی عابدی، ناشر، نور اسلام، امام باڑہ فیض آباد، کاتب حسن اختر لکھنو، سرورق، ابو الفضل حامد حسن طباعت سلمان فارسی پریس قم ۔ تاریخ اشاعت ۱۴۵۶م ۔ ۱۹۸۵ء
[3] نہج البلاغہ، مولف سید رضی، مترجم محمد دشتی، ناشر، انتشارات مسجد مقدس جمکران تاریخ نشر: زمیستان، ۱۳۸۳ چاپ دوم
[4] نہج البلاغہ، سید رضی، فیض الاسلام
[5] شرح نہج البلاغہ، محقق: ناصر مکارم شیرازی، مترجم آسیابی، محمد رضا، آمانی، محمدجعفر ناشر، از انتشارات مطبوعاتی ہدف قم

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button