منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ 33

جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

امیر المومنین جب اہل بصرہ سے گئے لڑنے

سفر کرتے ہوئے ذی قار کی منزل پہ جب پہنچے

تو عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ حضرت کی

میں خدمت میں گیا تو سی رہے تھے جوتیاں اپنی

مجھے نزدیک اپنے پا کے یوں گویا ہوئے حضرت

کہو ان جوتیوں کی ہوگی کیا بازار میں قیمت؟

تو میں نے عرض کی قیمت بھلا اب ان کی کیا ہوگی ؟!

تو فرمایا کہ اے عباس کے بیٹے قسم رب کی

تمہاری اس حکومت سے زیادہ اچھی لگتی ہیں

یہ بوسیدہ ہیں لیکن سلطنت سے مہنگی لگتی ہیں

مگر یہ کہ حکومت کی مدد سے حق کو پھیلاؤں

یا اس سے میں کسی باطل کی بنیادیں ہلا ڈالوں

پھر اس کے بعد یہ منظر مری ان آنکھوں نے دیکھا

کہ لوگوں میں یہ خطبہ آپ نے ارشاد فرمایا

محمد ص کو خدائے پاک نے اس دور میں بھیجا

کہ عربوں میں کتابوں کا نہ کوئی پڑھنے والا تھا

نہ دعویدار تھا کوئی نبوت اور رسالت کا

نہ مطلب جانتا تھا کوئی ربانی قیادت کا

اتارا آپ نے لوگوں کو ان کی اصلی منزل پر

نجات و کامرانی کا دکھایا آپ نے پھر گھر

یہاں تک کہ کجی سب ہٹ گئی جاتے رہے سب خم

ہوئے ان لوگوں کے حالات سب مضبوط اور محکم

قسم اللہ کی ان لوگوں میں اک میں بھی شامل تھا

تغیر کررہے تھے جو کہ ان حالات میں برپا

یہاں تک کہ مکمل طور پر اک انقلاب آیا

مگر میرے ارادے میں نہ کوئی پیچ و تاب آیا

نہ ہی حالات سے گھبرا کے مجھ میں بزدلی آئی

مرے اقدام میں اب تک ہے بس ویسی ہی مضبوطی

میں باطل کے شکم کو چاک کرکے اس کے پہلو سے

وہ حق باہر نکالوں گا کہ جس پر ہیں پڑے پردے

بھلا مجھ کو قریش مکہ سے آخر تعلق کیا؟

وہ کافر تھے تو ان سے جنگ کی ورنہ میں کیوں لڑتا؟

قسم اللہ کی اب بھی کروں گا جنگ میں ان سے

کہ پھر وہ آج برپا کررہے ہیں ہر طرف فتنے

میں کل مد مقابل ان کا تھا تیار ہوں اب بھی

مرے اقدام میں آئی ہے کب کوئی بھی کمزوری

ختم شد

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button