منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ 29

جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

اے وہ لوگو کہ جن کے دیکھنے میں جسم ہیں یکجا

مگر دیکھو تو خواہشات ہیں جن کے پراکندہ

تمہاری گفتگو تو سنگ کو بھی نرم کرتی ہے

مگر حرکت تمہی پر دشمنوں کو گرم کرتی ہے

تم اپنی محفلوں میں بیٹھ کر دعوے تو کرتے ہو

مگر جب جنگ چھڑتی ہے تو اس سے دور رہتے ہو

مدد کے واسطے اپنی تمہیں جو بھی پکارے گا

تو جنگل کی صدا کی طرح کوئی سن نہ پائے گا

جو تم سے آشنا ہوگا جو تم سے ہوگا وابستہ

تو اس کا دل سدا پہلو میں اس کے مضطرب ہوگا

تم اپنے پاس دنیا بھر کے جھوٹے حیلے رکھتے ہو

گذارش جنگ میں تاخیر کی جو مجھ سے کرتے ہو

حقیقت میں مری نظروں میں یہ ویسی ہی صورت ہے

نہ دینے والا جیسے ٹالتا ہے قرض کو اپنے

ذلیل انسان ذلت سے کبھی بھی بچ نہیں سکتا

کسی کو بھی تگ و دو کے بنا یاں حق نہیں ملتا

جب اپنے ہی مکاں کی تم حفاظت کر نہ پاوگے

تو پھر کس کے مکاں کی پاسبانی ہوگی اب تم سے؟

مرے ہمراہ راہ حق میں جب تم لڑ نہیں سکتے

تو پھر کس پیشوا کے ساتھ حصہ جنگ میں لوگے؟

قسم اللہ کی دھوکہ دیا تم لوگوں نے جس کو

وہی ہے در حقیقت دھوکہ کھانے والا اے لوگو

تم ایسے لوگوں کا جو شخص بھی دنیا میں ساتھی ہو

تو اس کے حصہ میں وہ تیر آتا ہے جو خالی ہو

تمہارے ساتھ جس نے دشمنوں پر تیر پھینکا ہے

تو ایسا تیر پھینکا اس نے جو پیکاں شکستہ ہے

نہ مجھ سے اب تمہارے قول کی تصدیق ممکن ہے

نہ تم سے اب مری امداد کی توثیق ممکن ہے

نہ دشمن کو تمہارے بل پہ اب للکار سکتا ہوں

نہ اس کو دھمکا سکتا ہوں نہ ہی دم مار سکتا ہوں

تمہیں کیا ہوگیا کیا ہے مرض کیا اس کا درماں ہے؟

یہ آخر شام والا بھی تمہارے جیسا انساں ہے

یہ بے سر پیر کی کرتے رہوگے گفتگو کب تک؟

یہ تقوا کے بنا غفلت رہے گی چار سو کب تک؟

بلندی اور رفعت کی ہوس حق کے بنا کب تک؟

(یوں ہی کرتے رہوگے پیش و پس حق کے بنا کب تک ؟)

ختم شد

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button