مقالاتنہج البلاغہ مقالات

آل محمد علیہم السلام بنیاد دین

مریم انصاری

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمداللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین و الہ الطیبن و الطاھرین

نہج البلاغہ وہ عظیم کتاب ہے جس کی عظمت کو بیان نہیں کر سکتے مگر اتنا کہنا کافی ہے کہ ’’فوق کلام المخلوق و تحت کلام الخالق’’ ہیں۔ اس کی عظمت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ یہ کلام مولا علی امیرالمومنینؑ کی کلام ہے اس کی فصاحت و بلاغت کے مثل بعد از قرآن مجید آج تک کوئی کتاب نہیں لکھا گیا۔ میں نے اس عظیم کتاب سے کچھ استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ نہج البلاغہ میں اھل بیت کی کیا مقام و منزلت ہے اور اھلبیت ہی بنیاد دین ہیں اور مولا علیؑ کے ارشادات و خطبہ میں سے کچھ کی طرف اشارہ کیا ہے بعد یا آیۃ قرآن کریم و یا احادیث سے اس بات کی و ضاحت کی ہے کہ شان اھل بیت کیا ہے اور مقام و منزلت اھل بیت کیا ہے در نظر خدا و رسول و علیؑ۔
رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ھم اھل بیت ہیں اور ہمارے اوپر کسی کا قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
ان شاء اللہ بندہ حقیر کی یہ کو شش پڑھنے والوں کے لیے کچھ قابل استفادہ ہوگا اورباعث خشنودی خداوند و اھلبیت علیہم السلام ہونگے دعا برای ظہور تعجیل امامؑ کے ساتھ:
والسلام
مریم انصاری پاکستانی
جامعۃ زھرا قم

دوسرے لوگوں کا کردار اور اھل بیت اطھار
لا یقاس بآل محمد صلی اللہ علیہ و الہ من ھذہ الامۃ احد…ھم اساس الدین و عماد الیقین(خطبہ نمبر۴)
مولائے کائنات اپنے عظیم کتاب و ارزش مند ترین کتاب میں فرما رہے ہیں کہ اس امت میں کسی کا بھی آل محمد ؑ سے قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ وہ ان کے برابر ہو سکتے ہیں جن پر ہمیشہ ان کے احسانات جاری ر ہے۔
وہ دین کے بنیاد اور یقین کے ستون ہیںحد سے تجاوز کرنے والاانہی کی طرف پلٹتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا انہی سے مل کر نجات پاتا ہے حق ولایت و امامت کی خصوصیت انہی سے وابستہ ہیں انہی کے حق میں( حضور کی) وصیت ہے اوروہی نبی کے وارث ہیں اور جو اس کی جگہ تھی وہاں منتقل ہو گیا۔
حضرت امیر المو ّمنینؑ نے خصا ئص ولایت اور اس کے بعد حضرت رسول اکرمؐ کی وصیت اور شرعی وراثت کا ذکر کرکے اعلان فرما دیا کہ ہر لحاظ سے خلافت و امامت و ولایت صرف اھل بیت کا حق ہے ان کے سوا کسی اور کا نہیں اور یہ استحقاق میری ذات تک محدود نہیں بلکہ میری نسل سے گیارہ اماموں کا بھی حق ہے جن کے لیے آنحضرت نے بار بار نام بہ نام وصیت فرمائی ہے اور ان کے وراثت کے بھی حق دار ہیں اور اگر قرآن و حدیث کے اعلانات کو نظر انداز کر دی جائے تو بھی یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہر منصب کے کچھ شرائط و خصو صیات ہوتے ہیں دنیاوی حکومت کے خصو صیات جو بھی ہوں حکومت الہیہ کے منصب دار کے بلکہ شرئط میں سب سے پہلے علم ہے اس لئے مسائل شرعیہ کا حل مقدمات کا فیصلہ،حدود کا اجراء اور مشکل امور کی عقدہ کشائی منشاء قدرت کا ا ظہار غیب کی خبریں، خلقت عالم سے روز آخر تک حقیقی واقعات سے اطلاع، مادی اور روحانی علوم کی عقدہ کشائی یہ صرف عرفی علوم سے حل نہیں ہو سکتے جب تک درسگاہ قدرت سے علم حاصل نہ کیا گیا ہو۔ پھر شجاعت و سخاوت و عبادت اور دیگر صفات کمال میں و حید و فرید اور یکتا سے روزگار ہونے کے علاوہ ثبوت حقانیت کے لیے معجزات و کرامات کے ذریعے دلیل و برہان پیش کر سکتا ہو سب کمالات بلا شبہ او ر بلا اختلاف امیر المومنینؑ میں موجود تھے اور ان کی ذریت طا ھرہ میں بھی اپنے اور بیگانے دوست اور دشمن دیکھتے رہے ہیں۔
کہ علی ؑ اپنے دوسرے خطبہ میں اہل بیت کی شان میں فرماتے ہیں :اہل البیت ابواب الحکم وضیاء الامر…( خطبہ نمبر۱۲۰)فرماتے ہیں ہم اہل بیت کے پاس حکمت کے دروازے اور امر خدا کی روشنی ہے یاد رکھو دین کی شریعتیں ایک اور ان کے راستے سیدھے ہیں جس نے انہیں اختیار کرلیا وہ حق تک پہنچ گیا اور کامیاب ہوگیا اور جو اسے چھور کر رک گیا وہ گمراہ ہوا اور آخر کار نادم و پشیمان ہوا۔
خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے {یوتی الحکمۃ من یشاء و من یوت الحکمۃ}( سورہ بقرہ :ایۃ ،۲۶۹ (
وہ اللہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جس کو خدا کی طرف سے حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اسے خوبیوں کی بڑی دولت ہاتھ لگی اور عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت مانتا ہی نہیں ۔
حضرت علی ؑ کی یہ خصوصیت کہ آپ علم و حکمت کے دروازہ کہا گیا ہے حضرت رسولخداؐ نے فرمایا کہ میں حکمت کا گھر اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت رسول کے پاس تھا تو حضرت سے جناب امیر ؑ کی علمی حالت پوچھی گئی فرمایا حکمت کے دس حصہ کئے گئے ہیں ۔ان سے صرف علی ؑکو نو حصے دیا گیا ہے اس دسویں حصہ کا علم باقی دنیا بھر کے لوگوں کو دیا ہے وہی حصہ بھی سب سے زیادہ علی ؑ ہی کو دیا ہے (ینابیع المودۃ ص۵۷)ہمیں آپ کے فرمان کہ جس نے انہیں (اہل بیت) کو اختیار کیا وہ حق تک پہنچ گیا اور کامیاب ہوگیا اور جس نے چھوڑکر رک گیا وہ گمراہ ہوا خدا وند عالم بھی اپنے عظیم کتاب میں اسی بات کا حکم دیا ہے ۔
{واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا}( سورہ آل عمران آیۃ ۱۰۳)اور تم سب کے سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔
اس آیت کی تفسیر میں ایک عالم جلیل نے لکھا ہے ’’حضرت امام جعفر صادقؑ سے روایت ہے کہ آپ ؑ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ ہم اہل بیت خدا کی رسی ہیں اور سب کو جس کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم خدا نے دیا ہے ۔
زاذان سے روایت ہے کہ ہم لوگ ایک دن حضرت علی ؑ کے پاس بیٹھے تھے کہ کچھ لوگ راس الجالوت یہودی کے عالم اور جاثلیق نصرانیوں کے عالم کو ساتھ لئے ہوئے حضرت کے پاس آئے ،آپ ؑ نے پہلے راس الجالوت سے پوچھا تجھے کچھ اس کی بھی خبر ہے کہ حضرت موسی کے بعد ان کی امت کے کتنے فرقے ہوگئے وہ بولا کتاب دیکھوں پھر بولوں آپ ؑ نے فرمایا تم کس بات پر لوگوں کے امام بنے ہوئے ہو ۔کتاب جل جائے یا چوری ہوجائے اور پھر تجھے کوئی مسئلہ پوچھے تو کیا کہے گا کہ کتاب ہوتی تو بتلاتا اس کے بعد جاثلیق کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ کچھ تجھے خبر ہے کہ حضرت عیسی کے بعد نصری کے کتنے فرقے ہوئے وہ بولا پنتالیس فرقے ۔آپؑ نے فرمایاقسم بخدا تو جھوٹا ہے میں توریت کو تجھ سے بہتر جانتا ہوں۔اور انجیل کو تجھ سے بہتر ۔امت موسی کے اکہتر فرقے تھے ۔ستر ناری اور ایک ناجی جس کے بارے میں فرمایا{ و من قوم موسی امۃ یھدون بالحق}امت عیسی کے بہتر فرقے ہوئے اکہتر ناری اور ایک ناجی جس کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے {تری اعینھم تفیض من الدمع حزنا} اور مسلمانوں کے تہتر فرقے ہونے بہتر ۷۲ ناری اور ایک ناجی جس کے بارے میں خداوند فرماتا ہے {ممن خلقنا امۃ یھدون بالحق و بہ یعدلون}وہ میرے شیعہ ہیں (حمائل ،مولانا سید فرمان علی مرحومص۹۹)
میرے مولاء نہج البلاغہ کے ایک اور خطبہ میں آل محمد کے بارے میں فرماتے ہیں یذکر فیھا آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وھم عیس الحلم و موت الجھل (خطبہ ۲۳۷) اس میں آل محمد علیہم السلام کا ذکر فرماتا ہے
آل محمد علیہم السلام کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں ان کا حلم ان کے علم کی خبر دیتا یہ اور ان کا ظاہر انکے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کا پتہ دیتی ہے ۔وہ کبھی حق کی مخالفت نہیں کرتے اور نہ حق میں باہم اختلاف کرتے ہیں وہ اسلام کے ستون اور اس کی پناہ گاہیں ہیں۔انہی کی بدولت حق اپنے مقام پر واپس آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔
انہوں نے دین کو اس کی حفاظت کرکے اور اس پر عمل کر کے پہچانا ہے نہ یہ کہ سن سنا کر اور نقل سے اسے جانا ہے یوں تو علم کے راوی بہت ہے مگر اس پر عمل کرکے اس کی نگرانی کرنے والے کم ہیں۔
قرآن مجید فرقان حمید کے سورہ آل عمران آیۃ {والرسخون فی العلم} کا ذکر ہوا ہے انس بن مالک کہتے ہیں میں نے رسول اللہ سے پوچھا راسخون فی العلم کون لوگ ہے؟آپ نے فرمایا وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھ نیکی، زبان سچی دل مستقیم ہو )جو حرام پیٹ اور فرج سے محفوظ ہوںا اور یہ ظاہر ہے کہ یہ صفات حضرت رسول اور ائمہ معصومین ؑ کے سوا کسی میں پائے نہیں گئے کیونکہ ان حضرات کے سواء اس امت میں کوئی ایسا نہیں کہ جن کی ہاتھوں نے نیکی کے سوا ظلم ،زبان نے سچ کے سوا جھوٹ ،دل نے استقامت کے سوا کجی اور پیٹ اور فرج نے حلا ل کے سواء حرام اختیار کیا ہو ۔( تفسیر در المنثور ج۲ ص۷ مطبوعہ مصر کتاب: مقام علی خدا کی نگاہ میں)
کتاب نہج البلاغہ میں مولاء علی کرم اللہ وجہہ نے ایک خطبہ میں بھی اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو لوگ ہمارے خلاف اور ہم سے بغاوت کرکے یہ غلط دعوی کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم(علم میں کمال پر پہنچے ہوئے )ہیں وہ کہاں ہے سامنے آئیں خدا نے ہم لوگوں کو درجہ بہت اونچا اور ان کا درجہ بہت نیچا کیا ہے خدا نے ہم لوگوں کو ہر قسم کی مذہبی عزت عطا فرمائی اور ان لوگوں کو اس سے محروم رکھا ۔اس نے ہم لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کیا اور ان لوگوں کو نکال دیا۔ہم لوگوںہی کے ذریعے سے آدمیوں کو ہدایت ملتی اور ہمارے ہی سبب سے(باطن کے)نابینا لوگوں کو روشنی حاصل ہوتی ہے.

میرے بعد لوگوں پرایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں کوئی چیز حق سے زیادہ چھپی ہوئی اور باطل سے زیادہ نمایاں اور خدا و رسول پر جھوٹ سے زیادہ اور دکھائی دینے والی نہیں مل سکتی ،اور اس زمانے والوں کے نزدیک کتاب خدا سے زیادہ حقیر اور شہروں میں اچھائی سے زیادہ قابل نفرت اور برائی سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز بھی نطر نہیں آئے گی اور جان لو کہ تم لوگ سیدھے راستے کو اس وقت تک نہیں پہچانو گے جب تک اس کو نہ پہچان لو جس نے اس (اہل بیت) کو چھوڑا اور قرآن کے عہد کو نہیں پکڑو گے جب تک اس کو نہ پہچان لو اور جس نے اس کو توڑ دیا اور اس سے تمسک نہیں کرسکو گے جب تک اس کو نہ سمجھ لو جس نے اس کو چھوڑ دیا تو تم لوگ ان باتوں کو ان لوگوں سے حاصل کرو جو ان کے اہل ہیں ۔کیونکہ وہی لوگ علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں وہی (اہل بیت طاہرین)تم لوگوں کو خدا کے سچے احکام بتائیں گے۔

ہم کتنے خوش بخت ہیں کہ ایسے ائمہ معصومین کے ہم پیروکار ہیںاور ان کے محبت ہیں ان کے محب ہونا اس کے شیعہ ہونا ہمارا فخر ہے مولا فرماتے ہیں لو احبی جبل …( ارشادات نمبر۱۱۱۰)اگر کوئی پہاڑ مجھ سے محبت رکھے گا تو پاش پاش ہوکر گر پڑے گا ،سید رضی فرماتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس محب کے سر پر ایسی کڑی آزمائش ٹوٹ پڑتی ہے کہ مصیبتیں اس کی طرف دوڑی چلی آتی ہیں اور یہ آزمائش صرف پرہیز گاروں نیکو کاروں برگزیدہ و منتخب لوگوں ہی کی ہوتی ہے اور یہ ارشاد بھی ایسا ہی ہے جیسے آپنے فرمایا ۔امام نے حقیقی محبت کرنے والے کی تعریف میں فرمایا
پس ہم خود کودیکھے کہ ہم حقیقی محب ہے یا فقط نام کے ۔اس محبت کا حکم خداوند نے قرآن میں بھی دیا ہے فرماتے ہیں{قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی}
اے رسول تم مسلمانوں سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قربتداروں (اہلبیت) کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا
انصار اپنے ایک بڑے جلسہ میں اپنا فخر و مباہات بیان کررہے تھے کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا،جب ان کی باتیں ناز کی حد سے بھی گزریں تو حضرت عباس یا ابن عباس سے نہ رہا گیا اور بے ساختہ بول اٹھے کہ تم لوگوں کو فضیلت سہی مگر لوگوں پر ترجیح نہیں ہوسکتی ۔اس بات کی خبر رسول ؐ کو پہنچی تو آپؐ خود ان کے مجمع میں تشریف لائے اور فرمایا ۔اے گروہ انصار کیا تم ذلیل نہ تھے تو خدا نے ہماری بدولت تمہیں معزز کیا؟سب نے عرض کیا بے شک پھر فرمایا تم لوگ گمراہ نہ تھے خدا نے میری وجہ سے تمہاری ہدایت کی؟عرض کیا یقینا ۔پھر فرمایا کیا تم میرے مقابلہ میں جواب نہیں دیتے وہ بولے کیا ؟آپ نے فرمایا کیا تم لوگ یہ نہیں کہتے ہو کہ تمہارے قوم نے تمہیں نکال دیا اور ہم نے پناہ دی تمہاری قوم نے جھٹلایا ہم نے تصدیق کی تمہاری قوم نے ذلیل کیا تو ہم نے مدد کی غرض اس قسم کی باتیں فرما گئے یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے زانوئوں کے بل بیٹھے اور عاجزی سے عرض کرنے لگے سارے مال اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ سب خدا اور رسول ؐ کا ہے یہی باتیں تھیں کہ یہ آیۃ نازل ہوئی ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا

جو شخص آل محمد کی دوستی پر مر جائے وہ شہید مرتا ہے سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ مغفور ہے سنو جو آل محمدکی دوستی پر مرے وہ توبہ کرکے مرا۔ سنو جوآل محمد کی دوستی پرمرے وہ کامل الایمان مرا،سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا اس کو ملک الموت اور منکر و نکیر بہشت کی خوشخبری دیتے ہیں۔سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا وہ بہشت میں اس طرح بھیجا جائے گا جیسے دلہن اپنے شوہرکے گھر ،سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا اس کی قبر میں جنت کے دروازہ کھول دئیے جاتے ہیں ،سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا اس کی قبر کو خدا کی رحمت کے فرشتوں کی زیارت گاہ بناتا ہے،سنو جو آل محمد کی دوستی پر مرا وہ سنت اور جماعت کے طریقے پر مرا ،

سنو جو آل محمد کی دشمنی پر مرا قیامت میں اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت سے مایوس ہے یاد رکھو! جو آل محمد کی دشمنی پر مرا وہ کافر ہے ،سن رکھو جو آل محمد کی دشمنی پر مرا وہ بہشت کی بو نہ سونگھے گا پھر اسی وقت کسی نے پوچھا یا رسول اللہ جن کی محبت کو خدا نے ہم پر واجب کیا ہے وہ کون ہے؟ فرمایا :علی ؑفاطمہ اور ان کے بیٹے حسن اور حسین ۔ پھر فرمایا جو شخص میرے اہلبیت پر ظلم کرے اور مجھے میری عترت کے بارے میں اذیت دے اس پر بہشت حرام ہے (تفسیر کشاف زمخشری ج:۳ ص۶۷ مطبوعہ مصر ۔صحیح بخاری)

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button