مقالات

حضرت علی علیہ السلام کا تعارف اپنی زبانی

ملک غنضفر عباس

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

یہ جملہ کہ حضرت علی علیہ السلام کا تعارف اپنی زبان سے جس کو ہم نے عنوان بحث قرار دیا ہے۔ یہ بحث اس شخص کیلئے مفید ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اطلاع نہیں رکھتا یا ان کا مقام و رتبہ کو نہیں پہنچانتا یا ان کے بارے میں علمی اطلاعات نہیں رکھتا، تو اسے حالات میں سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس شخصیت کا تعارف اپنی زبان سے کروایا جائے تاکہ اس کے مقام اور منزلت کو نہ جاننے والے جان لیں اور پھر اسے شخص کا اپنی زبان سے تعارف کروانا جس نے اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت کیلئے وقف کر دی ہو سچائی کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔

اس مقالہ میں حضرت علی علیہ السلام کا تعارف اپنی زبان سے کرواتے ہیں تاکہ ان کے کچھ فضائل ہمارے لیے روشن ہو جائیں۔

علم علی علیہ السلام

حضرت علی علیہ السلام اپنے علم کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي- فَلَأَنَا بِطُرُقِ السَّمَاءِ أَعْلَمُ مِنِّي بِطُرُقِ الْأَرْضِ- قَبْلَ أَنْ تَشْغَرَ بِرِجْلِهَا فِتْنَةٌ تَطَأُ فِي خِطَامِهَا- وَ تَذْهَبُ بِأَحْلَامِ قَوْمِهَا.
اے لوگوں مجھے کھو دینےسے پہلے مجھ سے پوچھ لوکہ میں زمین کی راہوں سے زیادہ آسمان سے واقف ہوں قبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیروں کو اٹھائےجو مہار کو بھی اپنے پیروں کے نیچے روند رہا ہو۔

اصبغ بن نباتہ رویت کرتا ہے۔ کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام اس طرح مسجد جا رہے تھے کہ رسول خدا ﷺ کی چادر اوڑھے ہوئے،  عمامہ زیب کئے ہوئے، پاؤں میں پاپوش رسول خدا ﷺ اور کمر میں رسول خدا ﷺ کی تلوار تھی۔ مسجد میں پہنچ کر حضرت منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا:

یا معشر الناس !سلونی سلونی قبل ان تفقدونی وھذاسفط العلم، ھذالعاب رسول اللہ ،ھذا ما زقنی رسول اللہ زقازقا، سلونی فان عندی علم الاولین والاضرین اما واللہ لو ثنیت لی الوسادفة فجلست علیھا لا فتیت اھل التوراة بتوراتھم واھل الابجیل بالجلیھم ،واھل الزابور بزبورھم ،واھل القرآن بقرانھم حتیٰ ینطق کل کتاب من کتاب اللہ فی قیقول صدق علی ۔۔۔۔۔۔۔
اے لوگو: سوال کرلو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ یہ نہ ختم ہونے والاعلم ہے، یہ لواب رسول کا اثر ہے، یہ وہی علم ہے جو رسول اللہ نے میرے سینے میں بھرا ہے۔ سوال کرلو مجھ سے کہ میرے پاس اولین اور آخرین کا علم ہے خدا کی قسم اگر میرے لئے مسند بچھا دی جائے اور میں اس پر بیٹھ جاؤں اور اہل تورات کے فیصلے تورات سے، اہل انجیل کے انجیل سے، اہل زبور کے زبور سے، اہل قرآن کے قرآن سے کروں گا تو خدا کی قسم خدا کی تمام کتابیں کہنے لگیں گی جو کچھ علی نے کہا وہ سچ ہے۔

پھر فرمایا: سوال کرو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ اس کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور روح کو پیدا کیا۔ اگر تم مجھ سے آیات کے متعلق سوال کرو تو میں تم کو بتاؤں گا کہ کون سی آیت رات کو نازل ہوئی اور کون سی دن میں؟ کون سی مکی ہے اور کون سی مدنی؟ کوسی سفر میں نازل ہوئی اور کون سی حضر میں؟ کون سی آیت ناسخ ہے اور کون سی منسوخ، کون سی محکم اور کون سی متشابہ، اور کس کی کیا تاویل ہے جس کی تمھیں خبر ہی نہیں۔

حضرت علی علیہ السلام اپنے علم کے بارے میں یوں بیان فرماتے ہیں:
أَمَا وَ اللَّهِ لَقَدْ تَقَمَّصَهَا فُلَانٌ وَ إِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلِّي مِنْهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحَى٬يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ وَ لَا يَرْقَى إِلَيَّ الطَّيْر.
آگاہ ہو جاؤ کہ خدا کی قسم فلاں شخص (ابن ابی قحافہ)نے قمیص خلافت کو کھنیچ تان کر پہن رکھا ہے حالانکہ اس کو معلوم ہے کہ خلافت کی چکی کے لئے میری حثیت مرکزی کیل کی ہے علم کاسیلاب میری ذات سے گذر کر نیچے جاتاہے اور میری بلندی تک کسی طاہر کی فکر بھی نہیں پہنچ سکتی۔

يَنْحَدِرُ عَنِّي السَّيْلُ اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ تمام علوم کا اصلی سرچشمہ حضرت علی علیہ السلام کی ذات گرامی ہے اور تمام مذہب کے بزرگان کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام سات علوم اسلامی حضرت علی علیہ السلام کی ذات سے نکلے ہیں۔

اور مزید فرماتے ہیں:
وَ اللَّهِ لَوْ شِئْتُ أَنْ أُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْكُمْ- بِمَخْرَجِهِ وَ مَوْلِجِهِ وَ جَمِيعِ شَأْنِهِ لَفَعَلْتُ- ……….مَا أَنْطِقُ إِلَّا صَادِقاً- وَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ بِذَلِكَ كُلِّهِ وَ بِمَهْلِكِ مَنْ يَهْلِكُ- وَ مَنْجَى مَنْ يَنْجُو وَ مَآلِ هَذَا الْأَمْرِ- وَ مَا أَبْقَى شَيْئاً يَمُرُّ عَلَى رَأْسِي إِلَّا أَفْرَغَهُ فِي أُذُنَيَّ- وَ أَفْضَى بِهِ إِلَيَّ.
خدا کی قسم! اگر میں چاہوں تو ہر شخص کو اس کے داخل اور خارج ہونے کی منزل سے آگاہ کر سکتا ہوں اور جملہ حالات کو بتا سکتا ہوں…. میں سچ کے علاوہ کوئی کلام نہیں کرتا انہوں نے ساری باتیں مجھے بتا دی ہیں اور ہر ہلاک ہونے والی کی ہلاکت اور نجات پانے والے کی نجات کا راستہ بھی مجھے بتایا گیا ہے اور اس امر خلافت کے انجام سے بھی باخبر کیا گیا ہے اور کوئی اسی شے نہیں جو میرے سر سے گذرنے والی ہو اور اسے میرے کانوں میں نہ ڈال دیا ہو اور مجھ تک پہنچا نی دیا ہو۔

معرفت علی

ابوزر غفاری نے سلمان سے سوال کیا؟ کہ حضرت علی علیہ السلام کی معرفت نورانی سے کیا مراد ہے؟ سلمان نے جواب دیا: آو خود حضرت علی علیہ السلام سے جا کر پوچھتے ہیں کہ آپ کی معرفت نورانیت سے کیا مراد ہے؟

حضرت نے جواب دیا: اے سلمان، مومن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک ہو وہ مجھے معرفت نورانیت کےساتھ پہچان نہیں لیتا اور جب اس نے مجھے نورانیت کے ساتھ پہچان لیا تو پھر وہ مومن بن جائے گا جس کے قلب کا خدا نے ایمان کے ساتھ امتحان لے لیا اور اس کے سینہ کو اسلام کیلئے کھول دیا پس وہ اپنے دین کا عارف اور مستبصر ہو گیا اور جو اس معرفت سے قاصر رہا وہ شک کرنے والا اور شبہات میں گرفتار ہے۔

اے سلمان اور جندب:
معرفتی بالنورانیة معرفة اللہ ومعرفةاللہ معرفتی وھو الذین الخالص بقول اللہ سبحانہ وما امروا لابالتوحیدھو الاخلاص
کہ نورانیت کے ساتھ میری معرفت خدا کی معرفت ہے، اور خدا کی معرفت میری معرفت ہے اور یہی دین خالص ہے
اے سلمان اور جندب جان لو! کہ خدا نے مجھے اپنی مخلوق پر امین قرار دیا ہے اور اپنی سر زمین اور بندوں پر اپنا خلیفہ قرار دیا ہے اور جو کچھ چاہتے ہو میری فضیلت اور برتری کے بارے میں جانتے ہو بیان کرو مگر جان لو میری روحانی مقام تک نہیں پہنچ سکتے اور اللہ نے مجھے وہ مقام اور منزلت عطا کی ہے جس کا نہ ہی وصف کرنے والے وصف کر سکتے ہیں اور نہ ہی عارفین جان سکتے ہیں۔

اے سلمان ہم خدا کے وہ راز ہیں جو مخفی نہیں اور خدا کا وہ نور ہیں جو کبھی بجھایا نہیں جا سکتا اور ہم اس کی وہ نعمت ہیں جس کا کوئی معاوضہ نہیں ہو سکتا ہے، پس میں اور رسول خدا ﷺ خدا کے ایک نور سے ہیں وہ محمد مصطفیٰ اور میں علی مرتضیٰ۔ محمد ﷺ ناطق اور میں صامت اور، ہر زمانہ میں صامت اور ناطق دونوں متصرف رہتے ہیں۔

پس محمد ﷺ صاحب الجمع ہیں اور میں صاحب حشر ،محمد ﷺ ڈرانے والے اور میں ہدایت کرنے والا، محمد ﷺ صاحب جنت اور میں صاحب رجعت، محمد ﷺ صاحب حوض اور میں صاحب لوا، محمد ﷺ صاحب مفاتیح اور میں صاحب جنت اور جہنم، محمد ﷺ صاحب وحی اور میں صاحب الہام، محمد ﷺ صاحب دلالت اور میں صاحب معجزات، محمد ﷺ صاحب دعوت اور میں صاحب سیف و سطوف، محمد ﷺ نبی کریم اور میں صراط مستقیم، محمد ﷺ خاتم النبین اور میں خاتم الواصین ہوں۔

اے سلمان اور جندب خدا نے فرمایا: کہ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے روح سے ابقا کرتا ہے اور یہ روح کسی کو عطا نہیں کرتا مگر فرشتہ مقرب کو یا نبی مرسل کو یا نبی کے جانشین کو اور جس کو یہ روح خدا عطا کر دے اس کا مقام بلند ہوتا ہے اور پھر خدا اس کو طاقت عطا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور جو کچھ ہو چکا ہے اورجو کچھ آیندہ ہو گا اس کو جانتا ہے اور مشرق سے مغرب ایک لحمہ میں سیر کرتا ہے اور جو کچھ لوگوں کے دلوں میں ہوتا وہ اس کو جانتا ہے اور جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اس کے بارے میں اس کو معلوم ہوتا ہے۔

انی اعطیت علم المنایا والبلایا وفصل الخطاب ،واستودعت علم القرآن وما ھو کائن الی یوم القیامة.
زندگی اور موت، فصل الخطاب (حکم قاطع)، علمِ قرآن اور جو کچھ بھی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والا ہے ان سب کا علم مجھے عطا کیا گیا ہے۔

حضرت محمد ﷺ قائم کرنے والے ہیں حجت کے، اور میں مخلوق پر حجت خدا ہوں اور خدا نے مجھے وہ چیزیں عطا کی ہیں جو اولین اور آخرین میں سے کسی کو عطا نہیں کی، یہاں تک کہ پیغبمران مرسل بھی اس سے محروم ہیں۔

الویل کل الویل لمن انکرا فضلنا وخصوصنا وقد اعطینا اللہ الاسم الاعظم لو شئنا خرفنا السموات و الارض والجنة النارونعرج بہ السماء ونھبط بہ الارض نغرب ونشرق وننتھی بہ الی العرش۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہلاکت ہو پوری ہلاکت اس کیلئے جس نے ہماری فضلیت سے اور ہماری خصوصیت سے انکار کیا۔ خدا عزوجل نے ہم کو اسم اعظم عطا کیا ہے اگر ہم چاہیں تو آسمانوں، زمینوں اور جنت اور جہنم کو شگافتہ کر دیں اور اسی اسمائے اعظم کی وجہ سے آسمانوں پر بلند ہو جائیں اور زمین کے اندر چلے جاہیں اور مشرق و مغرب میں چلے جاہیں اور اسی کی وجہ سے عرش کی طرف منتھی ہو جاہیں اور خدا عزوجل کے سامنے بیٹھ جائیں اور ہر چیز یہاں تک کہ سماوات، زمین، شمس، و قمر، ستارے، پہاڑ، سمندر، درخت، چوپائے اور جنت اور جہنم ہماری اطاعت میں ہیں باوجود ان تمام فضائل کے ہم کھاتے ہیں پیتے ہیں اور بازاروں میں چلتے ہیں یہ سب ہم اپنے رب کے حکم سے کرتے ہیں اور ہم اللہ کے وہ مکرم بندے ہیں جو اس کے حکم سے ہر عمل کرتے ہیں ہم معصومین اور مطہرین ہیں اس نے ہم کو اپنے مومنین بندوں پر فضلیت عطا کی ہے۔

ایمان علی علیہ السلام

خدا کی کائنات میں سب سے پہلے مومن حضرت علی علیہ السلام ہیں اور خود حضرت علی اپنے ایمان لانے کے بارے میں نہج البلاغہ میں یوں بیان فرماتے ہیں:
أَ تَرَانِي أَكْذِبُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص٬وَ اللَّهِ لَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَهُ٬فَلَا أَكُونُ أَوَّلَ مَنْ كَذَبَ عَلَيْهِ٬ فَنَظَرْتُ فِي أَمْرِي٬فَإِذَا طَاعَتِي قَدْ سَبَقَتْ بَيْعَتِي٬ وَ إِذَا الْمِيثَاقُ فِي عُنُقِي لِغَيْرِي.
کیا میں رسول خدا ﷺ کے بارے میں غلط بیانی کر سکتا ہوں جب کہ میں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی تو اب میں سب سے پہلے جھوٹ بولنے والا نہیں ہو سکتا ہوں۔ میں نے اپنے مرحلہ میں غور کیا تو میرے لئے اطاعت رسول (ص) کا مرحلہ بیعت پر مقدم تھا اور میری گردن میں حضرت کے عہد کا طوق پہلے سے پڑا ہوا تھا۔

جواد مغنیہ اس خطبہ کی شرح میں بیان فرماتے ہیں: یہ خطبہ امامؑ نے اپنے دوستوں کے درمیان میں فرمایا:جب حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کو امور غیبی اور دوسری اہم خبریں بتائیں تو ان میں سے بعض نے کہا کہ تم رسول خدا (ص) کی طرف جھوٹ کی نسبت دے رہے ہو اور جھوٹ بول رہے ہو۔ جس طرح رسول خدا (ص) کے زمانے میں منافق رسول خدا (ص) کو کہتے تھے کہ تم جھوت بول رہے ہو۔

للَّهُمَّ إِنِّي أَوَّلُ مَنْ أَنَابَ٬وَ سَمِعَ وَ أَجَابَ٬لَمْ يَسْبِقْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ ص بِالصَّلَاةِ.
اےمیرے خدا! تجھے معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے تیری طرف رخ کیا ہےاور تیری آواز سنی ہے اور اسے قبول کیا ہے اور تیری بندگی میں رسول اکرم ﷺ کے علاوہ کسی نے بھی مجھ پر سبقت حاصل نہیں کی۔

حضرت علی علیہ السلام اپنے دوستوں کے درمیان اپنے ایمان لانے کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:
وَ اللَّهِ لَأَنَا أَوَّلُ مَنْ صَدَّقَهُ
خدا کی قسم ! میں وہ ہوں جس نے سب سے پہلے رسول خدا (ص) کی تصدیق کی۔

ابن ابی الحدید طبری سے روایت نقل کرتے ہیں:
سمت علیا (ع) یقول :انا عبداللہ اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر لا یقولھا بعدی الا کاذب مفتر٬صلیت قبل الناس سبع سنین .
علامہ امینی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں :کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
ولقد صلیت مع رسول الله صلی الله علیه واله قبل الناس بسبع سنین وانا من اول صلی معه.
میں نے لوگوں کے ایمان لانے سے سات سال پہلے رسول خدا ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور سب سے پہلے میں نے رسول ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔

وَ أَمَّا الْبَرَاءَةُ فَلَا تَتَبَرَّءُوا مِنِّي٬فَإِنِّي وُلِدْتُ عَلَى الْفِطْرَةِ وَ سَبَقْتُ إِلَى الْإِيمَانِ وَ الْهِجْرَةِ.
خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کیونکہ میں فطرت اسلام پرپیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

یقین علی علیہ السلام

خدا کی کائنات میں رسول خدا ﷺ کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی بھی انسان کا خدا کی ذات پر اتنا ایمان یقین کی حدتک نظر نہیں آتا اور اپنے ایمان کے مطلق خود فرماتے ہیں:

الهی ماعبدتک خوفا من نارک ولاطمعا فی جنتک٬بل وجدتک اهلا للعبادۃ فعبدتک .
اے میرے خدا! میں تیری عبادت نہ جہنم کے خوف کی وجہ سے کرتا ہوں اور نہ جنت میں داخل ہونے کیلئے بلکہ میں نے تجھے عبادت کے قابل سمجھا ہے جس کی وجہ سے تیری عبادت کرتا ہوں۔

اور ایک مقام پر اس طرح فرماتے ہیں:
لْيَوْمَ أُنْطِقُ لَكُمُ الْعَجْمَاءَ ذَاتَ الْبَيَانِ- عَزَبَ رَأْيُ امْرِئٍ تَخَلَّفَ عَنِّي- مَا شَكَكْتُ فِي الْحَقِّ مُذْ أُرِيتُهُ.
آج میں تمہارے لئے اپنی اس زبان خاموش کو گویا بنا رہو ہوجس میں بڑی قوت بیان ہے یاد رکھو کہ اس شخص کی رائے گم ہو گی ہے جس نے مجھ روگردانی کی ہے میں روز اول سے آج تک حق کے بارے میں کبھی شک نہیں کیا ہے۔

اور مزید فرماتے ہیں:
أَيُّهَا النَّاسُ- لَا تَسْتَوْحِشُوا فِي طَرِيقِ الْهُدَى لِقِلَّةِ أَهْلِهِ 
اے لوگو! یقین اور ایمان کامل کے ساتھ ہدایت کے راستہ پر چلو اگرچہ کہ اس راستہ پر چلنے والوں کی تعداد کم ہیں۔

اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
وَ إِنِّي لَعَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَ مِنْهَاجٍ مِنْ نَبِيِّي٬ وَ إِنِّي لَعَلَى الطَّرِيقِ الْوَاضِحِ٬أَلْقُطُهُ لَقْطاً .
اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل رکھتا ہوں اور رسول خدا ﷺ کے راستہ پر چل رہا ہوں اور میرا راستہ بالکل روشن ہے جس کو میں باطل کے اندھیروں میں بھی تلاش کر لیتا ہوں۔

عدالت علی علیہ السلام

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے دور خلافت میں جس طرح مکمن تھا عدالت کو قائم کیا اور یہ عدالت خدائی عدالت تھی جس میں سب برابر تھے کہ جس کا جتنا حق بنتا ہے اتنا ہی عطا کیا جائے گا ایک مرتبہ آپ کے بھائی عقیل نے آپ سے سفارش کی کہ مجھے بیت مال سے زیادہ مال دیا جائے تو آپ نے ان سے فرمایا:

وَ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ عَقِيلًا وَ قَدْ أَمْلَقَ- حَتَّى اسْتَمَاحَنِي مِنْ بُرِّكُمْ صَاعاً- وَ رَأَيْتُ صِبْيَانَهُ شُعْثَ الشُّعُورِ غُبْرَ الْأَلْوَانِ مِنْ فَقْرِهِمْ- كَأَنَّمَا سُوِّدَتْ وُجُوهُهُمْ بِالْعِظْلِمِ- وَ عَاوَدَنِي مُؤَكِّداً وَ كَرَّرَ عَلَيَّ الْقَوْلَ مُرَدِّداً- فَأَصْغَيْتُ إِلَيْهِ سَمْعِي فَظَنَّ أَنِّي أَبِيعُهُ دِينِي- وَ أَتَّبِعُ قِيَادَهُ مُفَارِقاً طَرِيقَتِي- فَأَحْمَيْت لَهُ حَدِيدَةً ثُمَّ أَدْنَيْتُهَا مِنْ جِسْمِهِ لِيَعْتَبِرَ بِهَا- فَضَجَّ ضَجِيجَ ذِي دَنَفٍ مِنْ أَلَمِهَا- وَ كَادَ أَنْ يَحْتَرِقَ مِنْ مِيسَمِهَا- فَقُلْتُ لَهُ ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ يَا عَقِيلُ- أَ تَئِنُّ مِنْ حَدِيدَةٍ أَحْمَاهَا إِنْسَانُهَا لِلَعِبِهِ- وَ تَجُرُّنِي إِلَى نَارٍ سَجَرَهَا جَبَّارُهَا لِغَضَبِهِ- أَ تَئِنُّ مِنَ الْأَذَى وَ لَا أَئِنُّ مِنْ لَظَى- وَ أَعْجَبُ مِنْ ذَلِكَ طَارِقٌ طَرَقَنَا بِمَلْفُوفَةٍ فِي وِعَائِهَا- وَ مَعْجُونَةٍ شَنِئْتُهَا- كَأَنَّمَا عُجِنَتْ بِرِيقِ حَيَّةٍ أَوْ قَيْئِهَا- فَقُلْتُ أَ صِلَةٌ أَمْ زَكَاةٌ أَمْ صَدَقَةٌ- فَذَلِكَ مُحَرَّمٌ عَلَيْنَا أَهْلَ الْبَيْتِ- فَقَالَ لَا ذَا وَ لَا ذَاكَ وَ لَكِنَّهَا هَدِيَّةٌ- فَقُلْتُ هَبِلَتْكَ الْهَبُولُ أَ عَنْ دِينِ اللَّهِ أَتَيْتَنِي لِتَخْدَعَنِي- أَ مُخْتَبِطٌ أَنْتَ أَمْ ذُو جِنَّةٍ أَمْ تَهْجُرُ- وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا- عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُهُ-
خدا کی قسم میِں نے عقیل کو خود دیکھا ہے کہ انہوں نےفقر وفاقہ کی بنا پر تمہار ے حصہ گندم میں سے تین کیلو کا مطالبہ کیا تھا جب کہ ان کے بچوں کے بال غربت بنا پر پراگندہ ہو چکے تھے اور ان کےچہروں کے رنگ یوں بدل چکے تھے جیسے انہیں تیل چھڑ ک کر سیاہ بنایا گیا ہو انہوں نے مجھ سے باربار تقاضا کیا اور مکرر اپنے مطالبہ کو دہرایا تو میں نے ان کی طرف کان دہر دیے اور وہ یہ سمجھے کہ شاید میں دین بیچنے اور اپنے راستہ کوچھوڑ کر ان کے مطالبہ پر چلنے کیلے تیار ہو گیا ہوں لیکن میں نے ان کیلے لوہا گرم کرایا اور پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تا کہ اس سے عبرت حاصل کریں انہوں نے لوہا دیکھ کر یوں فریاد شروع کر دی جیسے کوئی بیمار اپنے درد الم سے فریاد کرتا ہو اور قریب تھا ان کا جسم اسں کے داغ دینے سے جل جائے تو میں نے کہا رونے والیاں آپ کی غم میں روئیں اے عقیل آپ اس لوہے سے فریاد کر رہے ہیں جسے ایک انسان نے فقط ہنسی مزاق میں تپایا ہے اور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہیں جس کو خدا نے اپنے غضب کی بنیاد پر بھڑکایا ہے آپ اذیت سے فریاد کریں اور میں جہنم سے فریاد نہ کروں۔

اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ رات ایک شخص اشعت بن قیس میری پاس شہد میں گندھا ہوا حلوہ برتن میں رکھ کر لایا جو مجھے اسن قدر ناگوار تھا جیسے سانپ کے تھوک یا قے سے گوندھا گیا ہو۔ میں نے پوچھا: کہ یہ کوئی انعام ہے یا زکوۃ یا صدقہ جو ہم اہلیبت پر حرام ہے اس نے کہا یہ کچھ نہیں ہے یہ فقط ایک ہدیہ ہے میں نے کہا کہ پسر مردہ عورتیں تجھ کو روئیں تو نے دین خدا کے راستہ پر آکر مجھے دھوکا دیا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام عدالت کو قائم کرنے کیلئے فرماتے ہیں:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ٬أَنَّهُ لَمْ يَكُنِ الَّذِي كَانَ مِنَّا مُنَافَسَةً فِي سُلْطَانٍ٬ وَ لَا الْتِمَاسَ شَيْ‏ءٍ مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ- وَ لَكِنْ لِنَرِدَ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ- وَ نُظْهِرَ الْإِصْلَاحَ فِي بِلَادِكَ- فَيَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ- وَ تُقَامَ الْمُعَطَّلَةُ مِنْ حُدُودِكَ.
خدایا!تو جانتا ہے کہ میں نے جو حکومت کے بارے میں اقدام کیا ہےاس میں نہ سلطنت کی لالچ تھی اور نہ مال و دنیا کی لالچ تھی میر امقصد صرف یہ تھا کہ دین کے آثار کو ان کی منزل تک پہنچا دوں اور شہروں میں اصلاح پید اکردوں تاکہ مظلوم بندے محفوظ ہوجائیں اور معطل حدود قائم ہوجائیں …

أَيُّهَا النَّاسُ أَعِينُونِي عَلَى أَنْفُسِكُمْ٬وَ ايْمُ اللَّهِ لَأُنْصِفَنَّ الْمَظْلُومَ مِنْ ظَالِمِهِ وَ لَأَقُودَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِهِ٬حَتَّى أُورِدَهُ مَنْهَلَ الْحَقِّ وَ إِنْ كَانَ كَارِهاً.
لوگو! اپنی نفسانی خواہشات کے مقابلے میں میری مدد کرو.خدا کی قسم میں مظلوم کو ظالم سے اس کا حق دلواوں گا اور ظالم کو اس کی ناک میں نکیل ڈال کر کھنیچوں گا تاکہ اسے حق کے چشمےپرواردکردوں چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہو۔

وَ اللَّهِ لَوْ وَجَدْتُهُ قَدْ تُزُوِّجَ بِهِ النِّسَاءُ وَ مُلِكَ بِهِ الْإِمَاءُ- لَرَدَدْتُهُ- فَإِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً- وَ مَنْ ضَاقَ عَلَيْهِ الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْهِ أَضْيَقُ.
خدا کی قسم اگر میں کسی مال کو اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دے دیا گیا ہوتو میں اسکو بھی واپس کر دیتا کیونکہ انصاف میں بڑی وسعت پائی جاتی ہے اور جس کیلئے عدل میں تنگی ہو اس کے لئے ظلم میں تو اور بھی تنگی ہے۔

فہرست منابع

القطرہ: سید احمد مستبط ناشر، حاذق خیابان ارم موئوسسہ حاذق، چاپ پنجم 1384
بحارالانوار  محمد باقر مجلسی ج 38 ص 204، موسسہ العفا و داراحیاء التراث العربی، بیروت 1983م
ترجمہ اور تفسیر نہج البلاغہ: علامہ محمد تقی جعفری، ناشر فرھنگ اسلامی تہران، چاپ11، 1386
شرح نہج البلاغہ: کمال الدین میثم بن علی بن میثم، ابن میثم، ترجمہ قربان علی محمدی، ناشر قدس رضوی مشہد مقدس 1375
شرح نہج البلاغہ: ابن ابی الحدید، ناشر انور الھدی، الطبعۃ الاولی 1429ھ
عوالی اللئالی: ابن ابی الجمھور: چاپخانہ قم سیدالشھداء٬چاپ اول 1403ق
فی ظلال نہج البلاغہ: محمد جواد مغنیہ، ناشر دارالعلمہ للملایین، الطبعۃ الرابعۃ بیروت لبنان، بی تا 
نہج البلاغہ: مترجم محمد دشتی، ناشر وجدانی، چاپ بعثت، بھار 85
نہج البلاغہ: ترجمہ اور تشریح علامہ ذیشان حیدر جوادی، ناشر انصاریان، چاپ چہارم 1430ھ
نہج البلاغہ: ترجمہ اور تشریح علامہ مفتی جعفر حسین، ناشر امامیہ پبلی کیشنز تاریخ اشاعت 2002ء

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button