ترجمه قرآن کریم

سورہ یونس

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ الف لام را۔یہ اس کتاب کی آیات ہیں جو حکمت والی ہے۔

٢۔ کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے خود انہیں میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی کہ لوگوں کو تنبیہ کرے اور جو ایمان لائیں انہیں بشارت دے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچا مقام ہے ، (اس پر) کافروں نے کہا: یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے۔

٣۔ یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے ، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے ، یہی اللہ تو تمہارا رب ہے پس اس کی عبادت کرو، کیا تم نصیحت نہیں لیتے ؟

٤۔ تم سب کی بازگشت اسی کی طرف ہے ، اللہ کا وعدہ حق پر مبنی ہے ، وہی خلقت کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے انہیں انصاف کے ساتھ جزا دے اور جو کافر ہوئے انہیں اپنے کفر کی پاداش میں کھولتا ہوا پانی پینا ہو گا اور انہیں دردناک عذاب (بھی) بھگتنا ہو گا۔

٥۔ وہی توہے جس نے سورج کو روشن کیا اور چاند کو چمک دی اور اس کی منزلیں بنائیں تاکہ تم برسوں کی تعداد اور حساب معلوم کر سکو، اللہ نے یہ سب کچھ صرف حق کی بنیاد پر خلق کیا ہے ، وہ صاحبان علم کے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے۔

٦۔ بے شک رات اور دن کی آمد و رفت میں اور جو کچھ اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے ان میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو (ہلاکت سے ) بچنا چاہتے ہیں۔

٧۔ بے شک جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی ہی پر راضی ہیں اور اسی میں اطمینان محسوس کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ،

٨۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کی پاداش میں جن کا یہ ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔

٩۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے بے شک ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انہیں نعمتوں والی جنتوں کی راہ دکھائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔

١٠۔ جہاں ان کی صدا سبحانک اللھم (اے اللہ تیری ذات پاک ہے ) اور وہاں ان کی تحیت سلام ہو گی اور ان کی دعا کا خاتمہ الحمد للّہ رب العالمین ہو گا۔

١١۔ اور اگر اللہ لوگوں کے ساتھ (ان کی بداعمالیوں کی سزا میں ) برا معاملہ کرنے میں اسی طرح عجلت سے کام لیتا جس طرح وہ لوگ (دنیا کی) بھلائی کی طلب میں جلد بازی کرتے ہیں تو ان کی مہلت کبھی کی ختم ہو چکی ہوتی، لیکن جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ہم انہیں مہلت دیے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔

١٢۔ اور انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے ، بیٹھے اور کھڑے ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اس سے تکلیف دور کر دیتے ہیں تو ایسا چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف پر جو اسے پہنچی ہمیں پکارا ہی نہیں ، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔

١٣۔ اور بتحقیق تم سے پہلی قوموں کو بھی ہم نے اس وقت ہلاک کیا جب وہ ظلم کے مرتکب ہوئے اور ان کے رسول واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے مگر وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لاتے ، ہم مجرموں کو ایسے ہی سزا دیتے ہیں۔

١٤۔ پھر ان کے بعد ہم نے زمین میں تمہیں جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔

١٥۔ اور جب انہیں ہماری آیات کھول کر سنائی جاتی ہیں تو جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں : اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لے آؤ یا اسے بدل دو، کہہ دیجیے : مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اپنی طرف سے اسے بدل دوں ، میں تو اس وحی کا تابع ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے ، میں اپنے رب کی نافرمانی کی صورت میں بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

١٦۔ کہہ دیجیے : اگر اللہ چاہتا تو میں یہ قرآن تمہیں پڑھ کر نہ سناتا اور نہ ہی اللہ تمہیں اس سے آگاہ کرتا، اس سے پہلے میں ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں ، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔

١٧۔پس اس شخص سے بڑ ھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا اس کی آیات کی تکذیب کرے ؟ مجرم لوگ یقیناً فلاح نہیں پائیں گے۔

١٨۔ اور یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اور نہ انہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں اور (پھر بھی)کہتے ہیں : یہ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں ، کہہ دیجیے : کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اللہ کو نہ آسمانوں میں معلوم ہے اور نہ زمین میں ؟ وہ پاک و بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔

١٩۔ اور سب انسان ایک ہی امت تھے پھر اختلاف رونما ہوا اور اگر آپ کا پروردگار پہلے طے نہ کر چکا ہوتا تو ان کے درمیان اس بات کا فیصلہ کر دیا جاتا جس میں یہ اختلاف کرتے ہیں۔

٢٠۔ اور کہتے ہیں :اس (نبی) پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں ہوئی؟ پس کہہ دیجیے :غیب تو صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔

٢١۔ اور جب انہیں پہنچنے والے مصائب کے بعد ہم لوگوں کو اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیات کے بارے میں حیلے بازیاں شروع کر دیتے ہیں ، کہہ دیجیے : اللہ کا حیلہ تم سے زیادہ تیز ہے ، بے شک ہمارے فرشتے تمہاری حیلے بازیاں لکھ رہے ہیں۔

٢٢۔ وہی تو ہے جو تمہیں خشکی اور دریا میں چلاتا ہے ، چنانچہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو اور وہ لوگوں کو لے کر باد موافق کی مدد سے چلتی ہیں اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں اتنے میں کشتی کو مخالف تیز ہوا کا تھپیڑا لگتا ہے اور ہر طرف سے موجیں ان کی طرف آنے لگتی ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ (طوفان میں ) گھر گئے ہیں تو اس وقت وہ اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے بچایا تو ہم ضرور بالضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے۔

٢٣۔ پھر جب خدا نے انہیں بچا لیا تو یہ لوگ زمین میں ناحق بغاوت کرنے لگے ، اے لوگو یہ تمہاری بغاوت خود تمہارے خلاف ہے ، دنیا کے چند روزہ مزے لے لو پھر تمہیں ہماری طرف پلٹ کر آنا ہے پھر اس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔

٢٤۔ دنیا وی زندگی کی مثال یقیناً اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے برسایا جس سے زمین کی نباتات گھنی ہو گئیں جن میں سے انسان اور جانور سب کھاتے ہیں پھر جب زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہو گئی اور زمین کے مالک یہ خیال کرنے لگے کہ اب وہ اس پر قابو پا چکے ہیں تو (ناگہاں ) رات کے وقت یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آ پڑا تو ہم نے اسے کاٹ کر ایسا صاف کر ڈالا کہ گویا کل وہاں کچھ بھی موجود نہ تھا، غور و فکر سے کام لینے والوں کے لے ے ہم اپنی نشانیاں اس طرح کھول کر بیان کرتے ہیں۔

٢٥۔ اللہ (تمہیں ) سلامت کدے کی طرف بلاتا ہے اور جسے وہ چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت فرماتا ہے۔

٢٦۔ جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لیے نیکی ہے اور مزید بھی، ان کے چہروں پر نہ سیاہ دھبہ ہو گا اور نہ ذلت (کے آثار)، یہ جنت والے ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

٢٧۔ اور جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے تو بدی کی سزا بھی ویسی ہی (بدی) ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہو گی، انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا گویا ان کے چہرے پر تاریک رات کے سیاہ (پردوں کے ) ٹکڑے پڑے ہوئے ہوں ، یہ جہنم والے ہیں ، اس میں یہ ہمیشہ رہیں گے۔

٢٨۔ اور جس دن ہم ان سب کو (اپنی عدالت میں ) جمع کریں گے پھر ہم مشرکوں سے کہیں گے : تم اور تمہارے شریک اپنی اپنی جگہ ٹھہر جاؤ، پھر ہم ان میں جدائی ڈال دیں گے تو ان کے شریک کہیں گے : تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے۔

٢٩۔ پس ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے ، تمہاری اس عبادت سے ہم بالکل بے خبر تھے۔

٣٠۔ اس مقام پر ہر کوئی اپنے اس عمل کو جانچ لے گا جو وہ آگے بھیج چکا ہو گا اور پھر وہ اپنے مالک حقیقی اللہ کی طرف لوٹائے جائیں گے اور جو بہتان وہ باندھا کرتے تھے ان سے ناپید ہو جائیں گے۔

٣١۔کہہ دیجیے : تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے ؟سماعت اور بصارت کا مالک کون ہے ؟ اور کون ہے جو بے جان سے جاندار کو پیدا کرتا ہے اور جاندار سے بے جان کو پیدا کر تا ہے ؟ اور کون امور (عالم ) کی تدبیر کر رہا ہے ؟ پس وہ کہیں گے : اللہ، پس کہہ دیجیے : تو پھر تم بچتے کیوں نہیں ہو؟

٣٢۔پس یہی اللہ تمہارا برحق پروردگار ہے ، پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا رہ گیا؟ پھر تم کدھر پھرائے جا رہے ہو؟

٣٣۔ اس طرح (ان فاسقوں کے بارے میں ) آپ کے پروردگار کی بات ثابت ہو گئی کہ یہ لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔

٣٤۔ کہہ دیجیے : کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہو پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے ؟ کہہ دیجیے : اللہ تخلیق کی ابتدا بھی کرتا ہے پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے گا، پھر تم کدھر الٹے جا رہے ہو۔

٣٥۔ کہہ دیجیے : کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے ؟ کہہ دیجیے : حق کی طرف صرف اللہ ہدایت کرتا ہے تو پھر (بتاؤ کہ ) جو حق کی راہ دکھاتا ہے وہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یاوہ جو خود اپنی راہ نہیں پاتا جب تک اس کی رہنمائی نہ کی جائے ؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر رہے ہو؟

٣٦۔ ان میں سے اکثر محض ظن کی پیروی کرتے ہیں جب کہ ظن انسان کو حق (کی ضرورت) سے ذرہ برابر بے نیاز نہیں کرتا، اللہ ان کے اعمال سے خوب آگاہی رکھتا ہے۔

٣٧۔ اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس قرآن کو اللہ کے سوا کوئی اور اپنی طرف سے بنا لائے بلکہ یہ تو اس سے پہلے جو (کتاب) آ چکی ہے اس کی تصدیق ہے اور تمام (آسمانی) کتابوں کی تفصیل ہے ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ رب العالمین کی طرف سے ہے۔

٣٨۔ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو (محمدؐ نے ) از خود بنایا ہے ؟ کہہ دیجیے : اگر تم (اپنے الزام میں ) سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جسے تم بلا سکتے ہو بلا لاؤ۔

٣٩۔بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انہوں نے اس چیز کو جھٹلایا جو ان کے احاطہ علم میں نہیں آئی اور ابھی اس کا انجام بھی ان کے سامنے نہیں کھلا، اسی طرح ان سے پہلوں نے بھی جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو ان ظالموں کا کیا انجام ہوا۔

٤٠۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو ایمان نہیں لاتے اور آپ کا پروردگار ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔

٤١۔ اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلائیں تو کہہ دیجیے : میرا عمل میرے لیے ہے اور تمہارا عمل تمہارے لیے ، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں۔

٤٢۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو آپ کی طرف کان لگائے بیٹھے ہیں ، پھر کیا آپ بہروں کو سنا سکتے ہیں خواہ وہ عقل نہ رکھتے ہوں ؟

٤٣۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو آپ کی طرف دیکھتے ہیں پھر کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا سکتے ہیں خواہ وہ کچھ بھی نہ دیکھتے ہوں۔

٤٤۔ اللہ یقیناً لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔

٤٥۔اور جس (قیامت کے ) دن اللہ انہیں جمع کرے گا تو (دنیا کی زندگی یوں لگے گی) گویا وہ دن کی ایک گھڑی بھر سے زیادہ یہاں نہیں رہے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان لیں گے ، جنہوں نے اللہ سے ملاقات کو جھٹلایا وہ خسارے میں رہے اور وہ ہدایت یافتہ نہ تھے۔

٤٦۔اور جس (عذاب) کا ہم ان کافروں سے وعدہ کر رہے ہیں اس کا کچھ حصہ ہم آپ کو زندگی میں دکھا دیں یا آپ کو پہلے (ہی دنیا) سے اٹھا لیں انہیں بہرحال پلٹ کر ہماری بارگاہ میں آنا ہے پھر جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس پر اللہ شاہد ہے۔

٤٧۔ اور ہر امت کے لیے ایک رسول(بھیجا گیا) ہے ،پھر جب ان کا رسول آتا ہے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم روا نہیں رکھا جاتا۔

٤٨۔ اور وہ کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہو گا ؟

٤٩۔ کہہ دیجیے : میں اللہ کی منشا کے بغیر اپنے نقصان اور نفع کا بھی اختیار نہیں رکھتا، ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے ، جب ان کا مقررہ وقت آئے گا تو وہ گھڑی بھر کے لیے نہ تاخیر کر سکیں گے اور نہ تقدیم۔

٥٠۔ ان سے کہہ دیجیے : یہ تو بتاؤ کہ اللہ کا عذاب رات کو یا دن کو تم پر آ جائے ؟ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے یہ مجرم جلد بازی کرتے ہیں ؟

٥١۔کیا جب عذاب آ چکے گا تب اس پر ایمان لاؤ گے ؟ کیا اب (بچنا چاہتے ہو؟) حالانکہ تم خود اسے جلدی چاہ رہے تھے۔

٥٢۔ پھر ظالموں سے کہا جائے گا:دائمی عذاب چکھو، جو تم کرتے رہے ہو اس کی سزا کے علاوہ اور تمہیں کیا مل سکتا ہے ؟

٥٣۔اور یہ لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں (کہ جو آپ کہ رہے ہیں ) کیا وہ حق ہے ؟ کہہ دیجیے : ہاں ! میرے رب کی قسم یقیناً یہی حق ہے اور تم اللہ کو کسی طرح عاجز نہیں کر سکتے۔

٥٤۔ اور جس جس نے ظلم کیا ہے اگر اس کے پاس روئے زمین کی دولت بھی ہو تب بھی وہ (عذاب سے بچنے کے لیے یہ پوری دولت) فدیہ دینے پر آمادہ ہو جائے گا اور جب عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو دل ہی دل میں پشیمان ہوں گے اور ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

٥٥۔ آگاہ رہو! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے یقیناً وہ اللہ کی ملکیت ہے ، اس بات پر بھی آگاہ رہو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

٥٦۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔

٥٧۔ اے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے (یہ قرآن) تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بن کر آیا ہے۔

٥٨۔کہہ دیجیے : اللہ کے اس فضل اور اس کی اس رحمت کو پا کر لوگوں کو خوش ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس (مال و متاع) سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں ۔

٥٩۔کہہ دیجیے : یہ تو بتاؤ کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لیے نازل کیا ہے اس میں سے تم از خود کچھ کو حرام اور کچھ کو حلال ٹھہراتے ہو؟ کہہ دیجیے : کیا اللہ نے تمہیں (اس بات کی) اجازت دی ہے یا تم اللہ پر افترا کر رہے ہو؟

٦٠۔ اور جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان کا کیا خیال ہے قیامت کے دن کے بارے میں کہ (اللہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟) اللہ تو لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے۔

٦١۔ اور (اے نبی) آپ جس حال میں ہوتے ہیں اور آپ قرآن میں سے اللہ کی طرف سے جو تلاوت کر رہے ہوتے ہیں اور تم لوگ جو عمل بھی کرتے ہو دوران مصروفیت ہم تم پر ناظر ہیں اور زمین اور آسمان کی ذرہ برابر اور اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے رب سے پوشیدہ ہو اور روشن کتاب میں درج نہ ہو۔

٦٢۔سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

٦٣۔ جو ایمان لائے اور تقویٰ پر عمل کیا کرتے تھے۔

٦٤۔ ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی، اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں آ سکتی، یہی بڑی کامیابی ہے۔

٦٥۔ اور (اے نبی) آپ کو ان (کافروں ) کی باتیں رنجیدہ نہ کریں ساری بالا دستی یقیناً اللہ کے لیے ہے ، وہ خوب سننے والا، دانا ہے۔

٦٦۔ آگاہ رہو! جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے یقیناً سب اللہ کی ملکیت ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ کسی چیز کے پیچھے نہیں چلتے بلکہ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں اور وہ فقط اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

٦٧۔ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ اس میں تم آرام کرو اور دن کو روشن بنایا، بتحقیق سننے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔

٦٨۔ وہ کہتے ہیں : اللہ نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے اس کی ذات پاک ہے وہ بے نیاز ہے ، جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کاہے ،تمہارے پاس اس بات پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے ، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جو تمہارے علم میں نہیں ؟

٦٩۔ کہہ دیجیے : جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ یقیناً فلاح نہیں پائیں گے۔

٧٠۔ یہ دنیا کی عیش ہے پھر انہیں ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے پھر ہم انہیں شدید عذاب چکھائیں گے اس کفر کی پاداش میں جس کے وہ مرتکب رہے ہیں۔

٧١۔ انہیں نوح کا قصہ سنا دیجیے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم! اگر میرا تمہارے درمیان رہنا اور اللہ کی آیات سنا کر تمہیں نصیحت کرنا تمہیں ناگوار گزرتا ہے تو میرا بھروسہ اللہ پر ہے پس تم اپنے شریکوں کے ساتھ مل کر مضبوطی سے اپنا فیصلہ کر لو پھر اس فیصلے کا کوئی پہلو تم پر پوشیدہ نہ رہے پھر میرے ساتھ جو کچھ کرنا ہے کر گزرو او ر مجھے مہلت بھی نہ دو۔

٧٢۔پس اگر تم نے منہ موڑ لیا تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگا میرا اجر تو صرف اللہ پر ہے اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں شامل رہوں۔

٧٣۔ مگر جب انہوں نے نوح کی تکذیب کی تو ہم نے انہیں اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے بچا لیا اور انہیں (زمین پر) جانشین بنا دیا اور ان سب کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا تھا، پھر دیکھ لو جنہیں تنبیہ کی گئی تھی (نہ ماننے پر) ان کا کیا انجام ہوا۔

٧٤۔ پھر نوح کے بعد ہم نے بہت سے پیغمبروں کو اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا پس وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے مگر وہ جس چیز کی پہلے تکذیب کر چکے تھے اس پر ایمان لانے والے نہ تھے ، اس طرح ہم حد سے تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔

٧٥۔ پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم لوگ تھے۔

٧٦۔پھر جب ہمارے ہاں سے حق ان کے پاس آیا تو کہنے لگے : بے شک یہ تو صریح جادو ہے۔

٧٧۔ موسیٰ نے کہا : جب حق تمہارے پاس آیا تو کیا اس کے بارے میں یہ کہتے ہو، کیا یہ جادو ہے ؟ جب کہ جادوگر تو کبھی فلاح نہیں پاتے۔

٧٨۔ وہ کہنے لگے : کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالا دستی قائم ہو جائے ؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔

٧٩۔اور فرعون نے کہا :تمام ماہر جادوگروں کو میرے پاس لے آؤ۔

٨٠۔جب جادوگر حاضر ہوئے تو موسیٰ نے ان سے کہا:تمہیں جو کچھ ڈالنا ہے ڈالو۔

٨١۔ پس جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ نے کہا: جو کچھ تم نے پیش کیا ہے وہ جادو ہے ، اللہ یقیناً اسے نابود کر دے گا، بے شک اللہ مفسدوں کے کام نہیں سدھارتا۔

٨٢۔ اور اللہ اپنے فیصلوں سے حق کو ثابت کر دکھاتا ہے خواہ مجرموں کو ناگوار گزرے۔

٨٣۔ چنانچہ موسیٰ پر ان کی اپنی قوم کے چند افراد کے سوا کوئی ایمان نہ لایا، فرعون اور اس کے سرداروں کے خوف کی وجہ سے کہ کہیں وہ انہیں مصیبت سے دوچار نہ کر دیں کیونکہ ملک میں فرعون کی بالا دستی تھی اور وہ حد سے بڑھا ہوا تھا۔

٨٤۔اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسا کرو اگر تم مسلمان ہو۔

٨٥۔ پس انہوں نے کہا:ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے ، اے ہمارے پروردگار! ہمیں ظالموں کے لیے (ذریعہ) آزمائش نہ بنا۔

٨٦۔ اور اپنی رحمت سے ہمیں کافر قوم سے نجات عطا فرما۔

٨٧۔ اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لیے مکانات مہیا کرو اور اپنے مکانوں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو اور مومنوں کو بشارت دو۔

٨٨۔ اور موسیٰ نے عرض کی: اے ہمارے پروردگار! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے پروردگارا! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں ؟ پروردگارا ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں۔

٨٩۔ اللہ نے فرمایا: تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ہے پس تم دونوں ثابت قدم رہنا اور ان لوگوں کے راستے پر نہ چلنا جو علم نہیں رکھتے۔

٩٠۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے گزار دیا تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی اور زیادتی کرتے ہوئے ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ جب فرعون غرق ہونے لگا تو کہنے لگا: میں ایمان لے آیا کہ اس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمانوں میں سے ہو گیا ہوں۔

٩١۔ (جواب ملا) اب (ایمان لاتا ہے ) جب تو پہلے نافرمانی کرتا رہا اور فسادیوں میں سے تھا؟

٩٢۔ پس آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کی نشانی بنے ، اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں۔

٩٣۔ بتحقیق ہم نے بنی اسرائیل کو خوشگوار ٹھکانے فراہم کیے اور انہیں پاکیزہ رزق سے نوازا پھر انہوں نے اختلاف نہیں کیا یہاں تک کہ ان کے پاس علم آ گیا، آپ کا رب قیامت کے دن ان کے درمیان یقیناً ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ لوگ اختلاف کرتے رہے ہیں۔

٩٤۔اگر آپ کو اس بات میں کوئی شبہ ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لیں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھ رہے ہیں ، بتحقیق آپ کے رب کی طرف سے آپ کے پاس حق آ چکا ہے لہٰذا آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔

٩٥۔ اور ہرگز ان لوگوں میں سے نہ ہوں جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی ورنہ آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔

٩٦۔ جن لوگوں کے بارے میں آپ کے رب کا فیصلہ قرار پا چکا ہے وہ یقیناً ایمان نہیں لائیں گے۔

٩٧۔ اگر چہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آ جائے جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔

٩٨۔ کیا کو ئی بستی ایسی ہے کہ (بروقت ) ایمان لائی ہو اور اس کا ایمان اس کے لیے سودمند ثابت ہوا ہو سوائے قوم یونس کے ؟ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب ان سے ٹال دیا اور ایک مدت تک انہیں (زندگی سے ) بہرہ مند رکھا۔

٩٩۔اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے ، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر سکتے ہیں ؟

١٠٠۔ اور کوئی شخص اللہ کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لا سکتا اور جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ انہیں پلیدی میں مبتلا کر دیتا ہے۔

١٠١۔ کہہ دیجیے : آسمانوں اور زمین میں نظر ڈالو کہ ان میں کیا کیا چیزیں ہیں اور جو قوم ایمان لانا ہی نہ چاہتی ہو اس کے لیے آیات اور تنبیہیں کچھ کام نہیں دیتیں۔

١٠٢۔ اب یہ لوگ اس کے سوا کس کے انتظار میں ہیں کہ اس طرح کے برے دن دیکھیں جو ان سے پہلے کے لوگ دیکھ چکے ہیں ؟ کہہ دیجیے : پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔

١٠٣۔پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے ، یہ بات ہمارے ذمے ہے کہ ہم مومنین کو نجات دیں۔

١٠٤۔ کہہ دیجیے : اے لوگو ! اگر تمہیں میرے دین میں کوئی شک ہے تو (جان لو کہ) تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی پرستش کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا بلکہ میں تو صرف اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری روحیں قبض کرتا ہے اور مجھے یہی حکم ملا ہے کہ میں ایمان والوں میں سے رہوں۔

١٠٥۔ اور یہ کہ آپ یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ دین کی طرف ثابت رکھیں اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہوں۔

١٠٦۔ اور اللہ کے سوا کسی ایسی چیز کو نہ پکاریں جو آپ کو نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان، اگر آپ ایسا کریں گے تو یقیناً آپ ظالموں میں شمار ہوں گے۔

١٠٧۔ اور اگر اللہ آپ کو کسی تکلیف میں ڈالے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس تکلیف کو دور کرے اور اگر اللہ آپ سے بھلائی کرنا چاہے تو اس کے فضل کو روکنے والا کوئی نہیں ، وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے فضل کرتا ہے اور وہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

١٠٨۔ کہہ دیجیے : اے لوگو! جب تمہارے رب کی جانب سے حق تمہاری طرف آ چکا ہے ، پس جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو اپنی ذات کے لیے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ بھی اپنی ذات کو گمراہ کرتا ہے اور میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں۔

١٠٩۔ اور (اے نبی) آپ کی طرف جو وحی بھیجی جاتی ہے اس کی پیروی کریں اور اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کریں اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button