منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ 32

دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

ہم ایسے دور میں پیدا ہوئے ہیں جو کہ ٹیڑھا ہے

جو ناشکرا ہے اور کفران نعمت جس کا شیوہ ہے

کہ جس میں نیک کرداروں کو خاطی سمجھا جاتا ہے

جہاں ظالم کا ظلم و جور لوگو بڑھتا جاتا ہے

جنہیں ہم جانتے ہیں ان سے بہرہ ور نہیں ہوتے

ہیں جن سے بے خبر ان سے شناسائی نہیں رکھتے

مصیبت جب تلک آتی نہیں غم آ نہیں جاتا

تو احساس خطر اس وقت تک ہم کو نہیں ہوتا

یہاں لوگوں کی گر تقسیم ہوں تو چار قسمیں ہیں

اور ان چاروں میں دیکھو غور سے تو چار باتیں ہیں

ہیں کچھ ایسے کہ جن کے نفس کی کمزور حالت نے

اور ان کی دھار کی کندی نے ان کے فقر و غربت نے

فساد و فتنہ سے روکا ہے ہر شورش سے ٹوکا ہے

انہیں تخریب سے ، ہنگامہ و یورش سے ٹوکا ہے

ہیں کچھ ایسے جو شر پھیلا رہے ہیں تیغ کو لیکر

سواروں اور پیادوں کا ہے جن کے پاس اک لشکر

جنہوں نے مال کی خاطر یا لشکر کی قیادت کو

یا منبر کی بلندی کو یا مذہب کی تجارت کو

خودی کو وقف کرکے دین کو خطرہ میں ڈالا ہے

یہ کتنی اوچھی قیمت ہے یہ کتنا بودا سودا ہے

کہ تم دنیا کو اپنے نفس کی قیمت بنا ڈالو

یا اس کو اخروی انعام کی اجرت بناڈالو

ہیں کچھ ایسے کہ جو دنیا طلب کرتے ہیں عقبی سے

وہ عقبی کو طلب کرتے نہیں اعمال دنیا سے

یہ اپنی شخصیت کو پرسکوں اکثر بناتے ہیں

یہ اپنے قدموں کو آہستہ آہستہ اٹھاتے ہیں

سمیٹے رہتے ہیں اوپر کی جانب اپنے دامن کو

امانتدار بتلانے کو شستہ رکھتے ہیں من کو

خداوند دوعالم کی انہوں نے پردہ داری کو

گناہوں کا بنایا ہے ذریعہ عیب پوشی کو

ہیں کچھ ایسے جنہیں نفسوں کی نرمی اور نزاکت نے

وسائل کی کمی اسباب اور ساماں کی قلت نے

حصول اقتدار و جاہ میں نا کام رکھا ہے

اور اپنی عاجزی ہی کا قناعت نام رکھا ہے

لباس زہد کو پہنا ہے زیب زندگانی کو

( حقیقی روپ دینا چاہتے ہیں وہ کہانی کو )

نہ ان کی شام شام زاہدانہ ہوتی ہے اکثر

نہ ان کی صبح صبح عابدانہ ہوتی ہے اکثر

پھر اس کے بعد باقی رہ گئے ہیں لوگ کچھ ایسے

جھکا ڈالا ہے جن کی آنکھوں کو یاد قیامت نے

تصور حشر کے منظر کا ان پر طاری رہتا ہے

اور ان کی آنکھوں سے اشکوں کا دریا جاری رہتا ہے

اور ان میں بعض تو لوگوں سے کٹ کر رہنے والے ہیں

کچھ ایسے ہیں کہ جو خلوت میں ذلت سہنے والے ہیں

کچھ ایسے ہیں کہ مہر خامشی ہے جن کے ہونٹوں پر

کچھ ایسے ہیں کہ جو محو دعا ہیں ہاتھ پھیلا کر

کچھ ایسے ہیں کہ جو رنجیدہ خاطر غم کے مارے ہیں

بہ وجہ خوف جو گمنامی کے گوشہ میں بیٹھے ہیں

اور ان کو خستگی و عاجزی نے گھیر رکھا ہے

اور ان کا گویا اک کھارے سمندر میں بسیرا ہے

جہاں منہ بند ہیں ان کے جہاں دل زخمی ہیں ان کے

جہاں پانی کی کثرت ہے مگر پھر بھی ہیں وہ پیاسے

انہوں نے لوگوں کو اتنا منایا رہ گئے تھک کر

دبایا اس قدر لوگوں نے ان کو دب گئے آخر

انہیں مارا گیا اتنا کہ قلت رہ گئی ان کی

بہا دریائے خوں اتنا کہ کثرت بہہ گئی ان کی

تمہاری نظروں میں یوں پست اب دنیا کے جلوے ہوں

کہ جیسے اون کے ریزے ہوں اور کیکر کے چھلکے ہوں

لہذا پہلے کے لوگوں سے تم حاصل کرو عبرت

کہ تم سے بعد والے تم سے عبرت میں کریں سبقت

نظر انداز کردو اس کو ایسوں کے نہ آئی کام

کہ جو تم سے زیادہ اس کے شیدا تھے بہ شوق تام

ختم شد

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button