مرکزی سلائیڈرمقالات

حضرت علیؑ کا علمی مقام نہج البلاغہ کی روشنی میں

مؤلف: فدا حسین عابدی

مقدمہ

تمام دانشمندوں کا اس بات پر اتفاق ہے  کہ قرآن مجید کے بعد نہج البلاغہ فصاحت و بلاغت اور دیگر معارف کو اپنے دامن میں سمونے کے لحاظ سے اس کا اپنا خاص مقام ہےـ  نہج البلاغہ ”اخت القرآن“ سے مشہور  ہےـ

رہبر معظم حضرت آیت اللہ خامنہ ‌ای ‌فرماتے ہیں: ہم نے کافی عرصہ تک کو نہج البلاغہ سے رابطہ قطع کرکے رکھا ہوا ہے اور آج جو فرصت ہمیں ملی ہے اس سے ان نقائص کو جبران کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ [1]

نہج البلاغہ میں بہت سے حقائق کو امیر کلام علیہ السلام نے  روشن کیا ہے اور اسے تشگان معرفت کے لیے پیش کیا ہے خلاصہ یہ کہ نہج البلاغہ کتاب حقیقت ہے انسان کو زندگی اور بندگی کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہےـ

عظمت نہج البلاغہ کے لیے اتنا کافی ہے کہ کہا جاتا ہے: «دون کلام خالق و فوق کلام مخلوق» لہذا یہ کتاب اسی راہ کی راہنمائی کرتی ہے جس کی خاطر قرآن نازل ہوا تھا۔

نہج البلاغہ جس کی زبان مبارک سے صادر ہوا ہے ان کے بارے میں اس نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے جن کے لب  وحی کے بغیر جنبش نہیں کرتے: «علی مع القرآن و القرآن مع علی لن یفترقا حتی یردا عليّ الحوض» [2] ؛ علی علیہ السلام حق کے ساتھ اور حق، علی علیہ السلام کے ساتھ ہے اور یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے  پاس حوض کوثر تک پہنچ جائیں۔

نہج البلاغہ کی عظمت یہ ہے جسے امام خمینی  نے اپنی الٰہی وصیت نامہ میں افتخار سے فرمایا ہے: ہم مفتخر ہیں کہ نہج البلاغہ جو قرآن کے بعد معنوی اور مادی زندگی کا دستور ہیں اور بشر کو آزادی دینے  والی اور اس کےمعنوی اور حکومتی  دستورات بالا ترین راہ نجات ہیں وہ ہمارے معصوم امام کے فرامین ہیں۔ [3]

رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ‌ای فرماتے ہیں: آج کی شرائط امیر المؤمنین علیہ السلام کی حکومت کی شرائط جیسی ہیں۔ پس ہمارا زمانہ نہج البلاغہ کا زمانہ ہے، آج ممکن ہے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی دقیق اور عمیق فکر سے دنیا کی واقعیت اور معاشرے پر نظر کرے اور بہت سے حقائق کو دیکھے اور پہچانے اور ان کا علاج کرے لہذا آج ہر زمانے کی نسبت ہم نہج البلاغہ کے محتاج ہیں۔ [4]

شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں کہ: علیؑ کے لیے ان کے فرامین ہدف نہیں تھا بلکہ وسیلہ تھا آپؑ یہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ادبی شاہکار یا ہنر کا مظاہرہ  کریں۔ اس  کے علاوہ  آپؑ کے خطبات کلی ہیں کسی زمان و مکان  اور افراد کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ ان کا مخاطب انسان ہے یہی وجہ آپ کا کلام محدود نہیں ہےـ نہج البلاغہ تمام جہات سے قرآن سے متأثر ہے بلکہ حقیقت میں یہ فرزند قرآن ہے۔ [5]

اس مختصر مقالہ میں گنجائش نہیں ہے کہ نہج البلاغہ  کی روشنی میں  حضرت علی علیہ السلام کی زبانی ان کی تمام اوصاف اور خصوصیات کو بیان کیا جائے اس کے لیے ایک بڑی کتاب کی ضرورت ہے لہذا ہم یہاں یہ کوشش کریں گے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے علمی مقام کو مختصراً نہج البلاغہ کی روشنی میں زیر قلم لائیں اور اس موضوع کی تیاری میں نہج البلاغہ کے علاوہ  نہج البلاغہ کے شروح اور اس سے مربوط دوسری کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے البتہ محور اصلی نہج البلاغہ ہی کو قرار دیا گیا ہےـ

حضرت علی علیہ السلام کی خصوصیات نہج البلاغہ کی روشنی میں

یہاں ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بارے میں کیا فرمایا ہے تو یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کیا حضرت علی علیہ السلام کو انہی کی  زبانی پہچان کرانا معقول ہے؟ کیونکہ  اس قسم کی تعریف ہمارے عرف میں قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ ہر انسان اپنے آپ کو ضرور چاہتا ہے اور اپنی تعریف پسند کرتا ہےـ

جواب سادہ اور واضح ہے کیونکہ اس قسم کے اشکال عام لوگوں پر تو کیے جا سکتے لیکن کسی معصوم کے بارے میں یہ اشکال قابل قبول نہیں ہے۔ مگر کیا خداوند عالم نے متعدد جگہوں پر اپنی تعریف نہیں کی؟ خدا صادق مطلق ہے اور کمال مطلق ہے لہذا کوئی اشکال نہیں ہے کہ وہ اپنی تعریف کرے اور حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام ﷺ کے بعد اس کائنات میں سب سے کامل اور عظیم کمالات کے مالک ہیں جس کے پیش نظر جو کلام آپ کی زبان مبارک سے صادر ہوتا ہے وہ صداقت پر مبنی ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا :«و الذی بعثہ بالحق و اصطفاہ علی الحق ما أنطق إلا صادقاً» [6] اس خدا کی قسم جس نے پیغمبر اسلام ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے  اور انہیں حق کے ساتھ چنا ہے میں سچ کے علاوہ کچھ بولتا ہی نہیں ہوں۔

اور آپ نے فرمایا: «فواللہ الذی لا إلہ الا ہو إنی لعلی جادة الحق» [7] قسم ہے اس خدا کی کہ اس کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں، میں صرف راہ حق پر ہوں بنا بر این، حضرت کے علمی مقام کو بیان کرنے سے پہلے آپ کی کچھ خصوصیات کو نہج البلاغہ کی روشنی میں بیان کرنا مناسب ہے:

عبادت میں اخلاص

حضرت علی علیہ السلام نے عبادت الٰہی میں اخلاص کو یوں بیان فرمایا: «إلہی ما عبدتک خوفاً‌ من عقابک و لا رغبة فی ثوابک و لکن وجدتک اہلاً للعبادة فعبدتک» [8]؛ خداوندا! میں تیرے عذاب کے ڈر سے اور ثواب کے لالچ میں تیری عبادت نہیں کی ہے بلکہ اگر تیری عبادت کی ہے تو تجھے لائق عبادت سمجھ کرـ

عدالت علی علیہ السلام

«واللہ لو اعطیت الاقالیم السبعة بما تحت افلاکہا علی ان اعصی اللہ فی غلة اسلبہا جلبَ ما فَعَلْتُ» [9]؛ خدا کی قسم! اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت تمام زیر آسمان دولت کے ساتھ دے دی جائے مجھ سے یہ مطالبہ کیا جائے میں کسی چیونٹی پر اس قدر ظلم کروں اس کے منہ سے اس چھلکے کو چھین لوں جو وہ چبا رہی ہے تو ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہوں۔

دنیا شناسی علی علیہ السلام

«أنا کابُّ الدنیا لوجہہا و قادرہا بقَدِرہا و ناظرہا بعینہا» [10] میں نے اس فریب کار دنیا کو اسی پر چھوڑ دیا ہے اور اسی کے حساب سے محاسبہ کیا ہے اور اسے اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس کی وہ شایستہ ہےـ

حضرت علی علیہ السلام نے کسی شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوا سنا تو اس کو سمجھاتے ہوا فرمایا:

«انّ الدنیا دار صدق لمن صدقہا و دار عافیة لمن عرِفہا و دار غنی لمن تزوّد عنہا و دار موعظة لمن اتّعظ بہا مسجد احباء اللہ و مصلی ملائکة‌ اللہ و مہبط الوحی اللہ و متجر اولیاء‌ اللہ» [11]؛ یاد رکھو دنیا باور کرنے والے کے لئے سچائے کا کھر ہے اور سمجھ دار کے لئے امن و عافیت کی منزل ہے اور نصیحت  حاصل کرنے والے لئے نصیحت کا مقام ہے یہ دوستان خدا کے سجود کی منزل اور ملائکہ آسمان کا مصلىٰ ہے یہیں پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور یہیں اولیا خدا آخرت کے لیے سودا کرتے ہیں۔

قول وعمل  میں یکسانی

«ایہا الناس إنّی وا للہ ما احثّکم علی طاعة إلا اسبقکم الیہا و لا انہاکم عن معصیة إلا أتناہی قبلکم عنہا» [12] لوگو! خدا گواہ ہے تمہیں کسی اطاعت پر آمادہ نہیں کرتا ہوں مگر پہلے خود سبقت کرتا ہوں اور کسی معصیت سے نہیں روکتا ہوں مگر یہ پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔

لوگوں کے شریک غم

«أأقنع من نفسی أن یقال لی امیر المؤمنین و لا اشارکہم فی مکارہ الدہر أو أکون أسوة لہم فی جشوبة العیش فما خلقت لیشغلنی أکل الطیبات کالبہیمة المربوطة ہمہا علفہا ، أو المرسلة شغلہاتقممہا… ». [13] کیا میرا نفس اس بات سے مطمئن ہو سکتا ہے مجھے امیر المؤمنین کہا جائے اور میں زمانے کے ناخوشگوار حالات میں مؤمنین کا شریک حال نہ بنوں اور معمولی غذا کے استعمال میں  ان کے واسطہ نمونہ پیش نہ کرسکوں میں اس لیے تو نہیں پیدا کیا گیا ہوں مجھے بہترین کھانے میں مشغول کرلے اور میں جانوروں کے مانند ہو جاؤں کہ وہ بندھے ہوتے ہیں تو کل مقصد چارہ ہوتا ہے اور … انہیں اس کی فکر نہیں ہوتی ہے ان کا مقصد کیا ہےـ

شجاعت علی علیہ السلام

واللہ لو تظاہرت العرب علی قتالی لما ولیت عنہا ، ولو أمکنت الفرص من رقابہا لسارعت إلیہا ، وسأجہد فی أن أطہر الارض من ہذا الشخص المعکوس والجسم المرکوس حتی تخرج المدرة من بین حب الحصید؛ خدا کی قسم تمام عرب مجھ سے جنگ کرنے پراتفاق کرلیں تو بھی میں میدان سے منہ نہیں پھیر سکتا اور اگر مجھے ذرہ بھر موقع مل جائے تو میں ان کی گردنیں اڑادوں گا اور اس بات کی کوشش کروں گا کہ زمین کو اس الٹی کھوپڑی اور بے ہنگم ڈیل ڈول والے سے پاک کر دوں تاکہ کھلیاں کے دانوں میں سے کنکر پتھر نکل جائیں ـ[14]

امام اور مأمون کا وظیفہ

«ایہا الناس إنّی لی علیکم حقّاً و لکم عليّ حقٌ فأمّا حقکم عليّ فالنصیحة لکم و توفیر فیئکم علیکم و تعلیمکم کیلا تجہلوا و تأدیبکم کیما تعلموا و أمّا حقی علیکم فالوفاء‌ بالبیعة و النصیحة فی المشہد و المغیب و الاجابة حین ادعوکم و الطاعة حین امرکم» [15] اے لوگو! یقیناً ایک حق میرا تمہارے ذمہ ہے اور ایک حق تمہارا حق میرے ذمہ ہے تمہارا حق میرے ذمہ یہ ہے کہ تمہیں نصیحت کروں اور بیت المال کا مال تمہارے حوالہ کر دوں اور تمہیں تعلیم دوں تاکہ تم جاہل نہ رہ جاؤ اور ادب سکھاؤں تاکہ با عمل ہو جاؤـ اور میرا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ بیعت کا حق ادا کرو اور حاضر و غائب ہر حال میں خیر خواہ ہوـ جب پکاروں تو لبیک کہو اور جب حکم دوں تو اطاعت کروـ

علی علیہ السلام کی ہوشمندی اور زکاوت

«واللہ ما معاویة بأدہی منّی ولکنّہ یغدر ویفجر ولولا کراہیة الغدر لکنت من ادہی الناس و لکن کل غدرة فجرہ و لکل فجرة کفرہ و لکل غادر لواء یعرف بہ یوم القیامہ» [16] خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ ہوشیار نہیں ہے لیکن وہ مکر و فریب اور فسق و فجورکا مرتکب ہوتا ہے اور اگر یہ چیز مجھے ناپسند نہ ہوتی تو مجھ سے زیادہ ہوشیار کوئی اور نہ ہوتا لیکن مکر و فریب گناہ ہے اور گناہ پروردگار کی نا فرمانی ہے اور ہر غدار کے ہاتھ میں  قیامت کے دن ایک جھنڈا دیا جائے گا جس سے  محشر میں اسے پہچانا جائے گاـ

نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کا علمی مقام

شخصیت انسانی کی پہچان اور بالا ترین کمال علم ہے لہٰذا علم کی اہمیت کے پیش نظر وحی الٰہی کے آغاز "علم الانسان مالایعلم”  نازل کرکے خدوند متعال انسانوں کو علم کی عظیم نعمت سے آگاہ کیا ہم اس مختصر مقالہ میں حضرت علی علیہ السلام کے علمی مقام کو انہی کی زبانی بیان کرنے کی کوشش کریں گےـ علم  کے میدان میں علی وہ تنہا شہسوار ہے کہ جس کی زبان سے تاریخ انسانیت میں وہ کلمات جاری ہوئے جسے سن کر دنیا کے دانش مندان اور ماہرین علم انگشت بہ دندان ہوکر رہ جاتے ہیں اس کائنات میں صرف علیؑ کی شخصیت ہے جس نے پوری تاریخ بشریت میں یہ دعویٰ کیا ہو کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھو!

علم و دانشِ علی علیہ السلام

«ینحدر عنّی السیل و لایرقی اليّ الطیر»[17] ”علم کا سیلاب میری ذات سے گذر کرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکربھی پرواز نہیں کرسکتا ہے“۔

یہ دو وصف، جسےامیر کلامؑ نے بیان فرمایا ہے دو قسم کے استعارے ہیں کہ سیلاب بلندی اور پہاڑ کی چوٹی سے جاری ہوتا ہے۔ امامؑ نے اپنے علمی مقام  اور اس کی بلندی کو اس سیلاب سے  تشبیہ دی ہے کہ جب وہ بلندی سے جاری ہوتا ہے تو ہر چیز پر غالب آجاتا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنےسے ہرکوئی بے بس ہوجاتا ہے۔ شاید آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ علم کی ابتدا اور اس کی انتہا علیؑ سے ہی ہوتی ہےـ

اور حضرت علی علیہ السلام کی علمی بلندی تک کوئی بلند پر اڑنے والا پرندہ اپنا پر اس تک چھو نہیں سکتا یہ جملہ، پہلے جملہ سے دقیق تر ہے کیونکہ ممکن ہے سیلاب آنے کا مقام کتنا بلند ہی کیوں نہ ہو پرندہ وہاں جا سکتا ہے لیکن یہ ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے کہ جس بلندی تک پرندہ پرواز کر سکتا ہے وہاں تک کسی انسان کی پہنچ ممکن ہو۔[18]

بصیرت علی علیہ السلام

«و إن معی لبصیرتی ما لبست علی نفس و لا لُبّس علَيَّ» [19] میں ایسی بصیرت کا مالک ہوں کہ نہ کسی حقیقت کو مشبتہ پایا ہے اور نہ کوئی چیز مجھ پر مشتبہ ہوئی۔

یعنی کسی وقت بھی نفس آمارہ مجھ پر غالب نہیں آیا ہے یا شیطان اور اس کے کسی لشکر مجھ پر مسلط ہونے کی جرأت نہیں کر سکا یہاں پر مولا نے دو اہم صفات کو بیان کیا ہے:

1- کمال عقل: علی کی عقل اپنے کمال تک پہنچی ہوئی تھی جسکی روشنی میں  کبھی بھی علی پر کوئی چیز مشتبہ نہیں ہوتی تھی۔

2- شیطان خبیث کے مکر و حیلوں کے سامنے تسلیم نہ ہونا: کیونکہ علی علیہ السلام خود مجسمہ حق ہے پھر حق کا باطل کے ساتھ ملتبس ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے: «الحق مع علی و علی مع الحق»۔

علی علیہ السلام اور اسلام شناسی

«لانسبَنّ الاسلام نسبتةً لم ینسبہا احد قبلی: الاسلام ہو التسلیم و التسلیم ہو الیقین و الیقین ہو التصدیق والتصدیق ہو الاقرار و الاقرار ہو الاداء و الاداء ہو العمل»[20] میں اسلام کی وہ تعریف کر رہا ہوں  کہ مجھ سے پہلے کسی نے ایسی  تعریف  نہیں کی ہےـ اسلام تسلیم ہے اور تسلیم یقین، یقین تصدیق ہے اور تصدیق اقرار اور اقرار ادائے فرض عمل۔

یہ قیاس، قیاس مفصول سے بنا ہے یعنی چند قیاس سے مرکب ہوا ہے اور ان کے نتیجے میں ایک دوسرے کے ساتھ ضمیمہ ہوئے ہیں اور اس کا نتیجہ وہی قیاس اول ہے کہ اسلام اسی جاننے کا نام ہے دوسرا یہ کہ جاننا وہی قبول کرنا ہے قبول کرنا وہی اقرار کرنا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے اقرار عمل کو انجام دینا ہے اور پانچویں نمبر پر لازم و ملزوم ایک واضح امر ہے۔ ان تمام قیاسوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فرمان الٰہی کے مطابق عمل کرنے کا نام اسلام ہے۔ [21]

علی علیہ السلام اور علم غیب سے آگاہی

«فأسلونی قبل أن تفقدونی فوالذی نفسی بیدہ لاتسألونی عن شئ فیما بینکم و بین الساعة و لا عن فئة تہدی مئة و تضل مئة الا أنبأتکم و بناعتہا و قائدہا و سألقہا و مناخ رکابہا و محط رحالہا و من یقتل من اہلہا قتلاً و من یموت و منہم موتاً و لو فقدتمونی و نزلَتْ بکم کرائہ الامور و حوازب الخطوب لا طرق کثیر من السائلین و فشل کثیر من المسؤولین و…»۔ [22] اب تم مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاہتے ہو پوچھ لو اس سے قبل  کہ  میں تمہارے درمیان نہ رہ جاؤں۔ اس پروردگار کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم اب سے قیامت تک کے درمیان جس چیز کے بارے میں سوال کرو گے اور جس گروہ کے بارے میں دریافت کرو گے اور جو سو افراد کو ہدایت دے اور سو لوگوں کو گمراہ کر دے گا تو میں اس کے للکارنے والے کھینچنے والے ہنکانے والے سواریوں کے قیام کی منزل سامان اتارنے کی جگہ کون ان میں قتل کیا جائے گاـ کون اپنی موت سے مرے گا سب بتا دوں گا حالانکہ اگر یہ بدترین حالات اور سخت ترین مشکلات میرے بعد پیش آئیں تو دریافت کرنے والا بھی پریشانی سے سر جھکا لے گا اور جس سے دریافت کیا جائے گا وہ بھی بتانے سے عاجز رہے گاـ

تمام مؤرخین اور صاحب نظروں نے اعتراف کیا ہے اسلام کی طول تاریخ میں علی علیہ السلام کے علاوہ ہر سوال کا جواب دینے والا نہیں ملا ہے۔ [23]

ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ وہ خبریں جس کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام نےخبر دی ہے ہم نے اسے حقیقت کے عین مطابق پایا ہے اسی لیے ہم استدلال کر سکتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ اور حقیقت پر مبنی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ [24]

ابن ابی الحدید نے علی علیہ السلام کے علم غیب کی خبروں سے آگاہ کرنے کے سلسلے میں دسیوں مثالیں نقل کیا ہے کہ اگر کوئی تفصیل کے متمنی ہے تو ان کی شرح نہج البلاغہ خطبہ نمبر 92 اور 93 کے ذیل میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

اسی طرح امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام خطبہ نمبر 189 میں فرماتے ہیں:

«ایہا الناس سلونی قبل ان تفقدونی فلاَنا بطرق السماء اعلم منّی بطرق الارض قبل أن تشغر برجلہا فتنة تطأُ فی خطامہا و تذہبُ باحلام قومہا»۔ [25] اے لوگو! جو چاہو مجھ سے دریافت کرلو قبل  اس کے کہ مجھے نہ پاؤـ میں آسمان کے راستوں کو زمین کی راہوں سے بہتر جانتا ہوں۔ مجھ سے دریافت کرلو قبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیر اٹھا لے۔ جو اپنی مہار  کو بھی پیروں تلے روندنے والا ہے اور جس سے قوم کی عقلوں کے زوال کا اندیشہ ہےـ

ایک اور مقام پر فرمایا: «و اللہ لو شئت أن أخبر کل رجل منکم لمخرجہ و مولجہ و جمیع شأنہ لفعلتُ و لکن اخافُ أن تکفروا فِيَّ برسول اللہ  (ص) إلا و أنّی مفضیہ الی الخاصة ممّن یؤمنُ ذلک منہ و الذی بعثہ بالحق و اصطفاہ علی الخلق ما انطق إلا صادقاً و قد عہد إليّ بذلک کلہ و بمہلک من یہلک و منجی من ینجو و مآل ہذا الامر و ما بقی شیئاً یمرّ علی رأسی إلا افرغہ فی اُذنی و افضی بہ اِلَيَّ»[26] خدا کی قسم! اگر میں چاہوں تو تم میں سے ہر ایک کی زندگی کےتمام مراحل کے آغاز اور انجام  بتا سکتا ہوں لیکن مجھے ڈر ہے کہ اس قسم کی خبروں سے تم لوگ رسول خدا ﷺ کی نسبت کفر کی منزل تک نہ  پہنچ جاؤ۔  آگاہ رہو میں اس قسم کے اسرار کو اس کے اہل اور اپنے مورد اعتماد افراد کے سپرد کرتا ہوں۔ اس خدا کی قسم جس نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور تمام سے اسے چنا ہے۔ سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہوں گا۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے تمام  علوم کو میرے سپرد کیا ہے۔ جن افراد نے ہلاک ہونا ہیں اور کن لوگوں نے نجات پانا ہیں اور اس حکومت کا پایان کب ہے سب کو مجھے خبر دی ہے کوئی بھی حادثہ واقع ہونا ہے سبھی کو مجھے آگاہ کیا ہیں۔

علی علیہ السلام مصداق راسخون فی العلم

«أین الذین زعموا أنہم الرّاسخون فی العلم دوننا کذباً و بغیاً علینا ان رفضنا اللہ و وضعہم و اعطانا و حرمہم و ادخلنا و اخرجہم بنا یستعطی الہدی و يُستجلّی العمی…» [27] کہاں ہیں وہ لوگ جن کا خیال یہ ہے ہمارے بجائے راسخون فی العلم وہ لوگ ہیں یہ خیال صرف جھوٹ اور ہمارے خلاف بغاوت سے پیدا  ہوا ہے کہ خدا نے ہمیں بلند کیا ہے اور انہیں پست رکھا ہے۔ ہمیں کمالات عنایت سے نوازا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے۔ ہمیں اپنی رحمت میں داخل اور انہیں باہر رکھا ہے۔ ہمارے ہی ذریعہ سے ہدایت طلب کی جاتی ہے اور اندھیروں میں روشنی حاصل کی جاتی ہےـ

افسوس اور تعجب کی بات یہ ہے کہ علم و بصیرت کے عظیم اور بالا ترین مرتبہ پر علی علیہ السلام فائز ہو لوگوں کے درمیان زندگی کرے لیکن علی علیہ السلام کو کوئی نہ پہچان سکا۔ اگر علی علیہ السلام ساتھ رہنے والے علمی معرفت رکھتے تو علی علیہ السلام سے وہ سوالات کرتے جس کا ثمر رہتی دنیا تک بشر کو ملتا رہے جیسا کہ ایک  مسیحی دانشمند نے کہا: اگر میں اس زمانے میں ہوتا، علی علیہ السلام سے اس قدر سوال کرتا کہ آج دنیا اس سے استفادہ کر لیتی!

لیکن اس زمانے کے لوگوں نے امام علی علیہ السلام کو اس قدر ستایا کہ آپ نے ان سے تنگ آکر موت کی تمنا کی اور ان لوگوں پر حجّاج‌، معاویہ، عمر و عاص‌ و ابن زیاد‌ جیسے لوگ مسلط ہو گئے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

«أما واللہ لَيُسلّطَنّ علیکم غلام ثقیف الذَّیال الصيّال، یأکل خضرتکم و یذیب شحمتکم» [28] آگاہ رہو خدا کی قسم ثقیف کا ایک شخص (حجاج بن یوسف) تم لوگوں پر مسلط ہوگا۔ جو ہوا پرست، متکبر اور ظالم ہے کہ اس قدر تم لوگوں پر ظلم کرے گا تمہارے سب چیزوں کو لوٹ لے گا اور تم لوگوں کو کمزور بنا دے گا۔

اسی طرح علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے مختلف موارد پر لوگوں کے آئندہ کی خبر دی ہے یہ ساری خبریں تحقق پائی ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام کی آئندہ کے بارے میں پیشنگوئیاں

بصرہ کے بارے میں آپ کی پیشنگوئی

«کأنی بمسجدکم کجؤجؤ سفینة قد بعث اللہ علیہا العذاب من فوقہا و من تحتہا و غرق من فی ضمنہا» میں تمہاری اس مسجد کو اس طرح سے  دیکھ رہا ہوں  جیسے کشتی کا سینہ جب خدا تمہاری زمین پر اوپر اور نیچے ہر طرف سے عذاب بھیجے گا اور سارے اہل شہر غرق ہو جائیں گے۔

کسی اور روایت میں نقل ہواہے: «و ایم اللہ لتغرقنّ بلدتکم حتی کأنی انظر إلی مسجدہا کجؤجؤ سیفینة او نعامة جاثمة…» [29]

خدا کی قسم تمہارا شہر غرق ہونے والا ہے یہاں تک کہ گویا میں اس کی مسجد کو ایک کشتی کے سینہ کی طرح یا بیٹھے ہوئے شتر مرغ کی شکل میں دیکھ رہا ہوں۔

امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے اس خبر کو بصرہ والوں کو دیا ہے۔ نقل ہوا ہے بصرہ دو بار غرق ہوا ہے ایک دفعہ القادر باللہ کے زمانے میں اور ایک دفعہ قائم باللہ کے زمانے میں جو کچھ اس شہر میں تھا غرق ہوا۔ جیسا کہ مولا نے خبر دی تھی صرف شہر کی جامع مسجد کے بالائی حصہ مرغ کے سینہ کی طرح مشاہدہ ہو رہا تھا۔ [30]

کسی اور جگہ پر آپ نے فرمایا:

«یا احنف، کأنّی بہ و قد سار بالجیش الذی لا یکون لہ غبار و لا لجب و لا قعقة لُجُم و لا صمحة خیل، یثیرون الارض بأقدامہم کأنہا اقدام النعام» اے احنف! [31] گویا میں اسے دیکھ رہا ہوں ایک لشکر کے ساتھ بغیر کسی گرد و غبار اور کسی شور و شرابہ کے بغیر چلے ہیں اور زمین کو اپنے پاؤں تلے اس طرح روند رہے ہیں جس طرح گھوڑے شتر مرغ کو کچلتے ہیں۔

سید رضیؒ فرماتے ہیں: یہ اشارہ صاحب زنج  کی طرف ہے جسے ابن ابی الحدید نے اسی خطبہ کے ذیل میں اس کی حالت زندگی کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہیں [32]

اس کے بعد حضرت امام علی­­ علیہ السلام  اہل بصرہ  کے حالات کی طرف اشارہ کرکے‌ فرمایا:

«ویل لسکککم العامرة والدُّور المزخرفة لہا اجنحة کأجنحة النُسوروخراطیم کخراطیم الفیلة من اولئک الذین لایندب قتیلُہم ولا یفقد عائبہم أنا کابُّ الدنیا لوجہہا و قادرہا بقدرہا و ناظرہا بعینہا»۔ [33] افسوس  ہو تمہاری آباد گلیوں اور ان سجے سجائے حال پر جن کے چھجے گدٍِّوں کے اور ہاتھیوں کے سونڈ کے مانند ہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے جن کے مقتول پر گریہ نہیں کیا جاتا ہے اور ان کے غائب کو تلاش نہیں کیا جاتا ہے۔ میں دنیا کو منہ کے بل اوندھا کر دینے والا اور ان کے صحیح اوقات کا جاننے والا اور اس کی حالت کو اس کے شایان شان نگاہ سے دیکھنے والا ہوں۔

کوفہ کے آیندہ حالات کےبارے میں  تحلیل

امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے مختلف مقامات پر کوفیوں کی شکست کے علل، کوفہ والوں کی مذمت اور دوسرے موضوعات پر خطبے دیے ہے ہم یہاں پر ایک مورد کو نمونہ کے طور پر بیان کریں گے:

«کأنّی یا کوفة تمدّین مدّ الادیم العکاظی تعرکین بالنوازل و ترکبین بالزلازل و إنّی لا علم أنہ ما راد بک حبّار سوءاً الا ابتلاہ بشاغلٍ و رماہ بقاتل»۔ [34] اے کوفہ! جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں تجھے بازار عکاظ کے چمڑے کی طرح کھینچا جا رہا ہےـ تجھ پر حوادث کے حملے ہو رہے ہیں اور تجھے زلزلوں کا مرکب بنا دیا گیا ہے اور مجھے یہ معلوم ہے کہ جو ظالم و جابر بھی تیرے ساتھ کوئی برائی کرنا چاہے گا پروردگار اسے کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردے گا اور اسے کسی قاتل کی زد پر لے آئے گا۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے ان جملات میں آیندہ واقع ہونے والے دو حوادث کے بارے میں خبر دی ہے:

ان میں سے ایک کوفہ والوں پر کیا مصیبت آئے گی دوسرے یہ ہے جو افراد کوفہ والوں پر ستم کرے گا ان کی عاقبت کیا ہوگی۔

کوفہ والے جن مصیبتوں میں گرفتار ہوئے وہ بہت زیادہ ہیں کہ اس کی تفصیل تاریخی کتابوں میں آئیں ہے لیکن وہ ستمگر جس نے کوفہ والوں کو ظلم و ستم سے دوچار کر دیا۔ اس کے نتیجے میں خداوند عالم کا عذاب ان کے دامن گیر ہوا۔ وہ بھی تاریخ میں روشن ہے ان میں سے بعض افراد جو عذاب الٰہی سے دوچار ہوئے وہ یہ ہیں:

1- زیاد بن ابیہ: نقل  ہوا ہے زیاد بن ابیہ نے لوگوں کو مسجد کوفہ میں جمع کرکے حکم دیا کہ علی علیہ السلام کو نا سزا کہیں اور ان سے بیزاری کا اظہار کریں وہ چاہتا تھا جو بھی اس کے حکم سے سر پیچی کرے اسے قتل کرڈالے۔ جب لوگ مسجد میں جمع ہوئے زیاد کا دربان لوگوں کے درمیان آیا اور سب سے کہا مسجد سے نکل جاؤ کیونکہ اسی وقت زیاد فلج سے دوچار ہوا ہے۔

2- عبداللہ بن زیاد: جذام کی بیماری میں  مبتلا ہوا۔

3- حجاج بن یوسف ثقفی: اس کا پیٹ کیڑوں سے بھر گیا  اور کیڑوں کی اذیت سے افاقہ کی خاطر اس کے مقعد کو گرم کیا جاتا تھا اور وہ اسی حالت میں مر گیاـ

4- عمر بن ہبیر اور اس کا بیٹا: یہ دونوں پیسی کی بیماری میں گرفتار ہوئےـ

5- خالد: یہ شخص بے حد مار کھانے کے بعد زندانی ہوا اور زندان میں بھوکا مر گیا۔ [35]

خوارج کی عاقبت کےبارے میں خبر

خوارج وہ گروہ ہے:

الف: امیر المؤمنین علیہ السلام کے خلاف خروج  کیا اور حکمیت کے مسئلہ میں اختلاف کیاـ

ب: صفین میں جیتی جنگ ان کی وجہ سے شکست میں بدل گئی۔

ج: ابو موسىٰ کو حکم بنانے میں ان کا بڑا کردار تھاـ

د: حکمیت کے بعد توبہ نہ کرنے پر حضرت علی علیہ السلام پر کفر کا فتوىٰ لگا دیاـ

ھ: آپ کے خلاف جنگ نہروان برپا کر دی۔

و: اور آخر کار انہی کے ہاتھوں آپ شہید ہوئےـ

اب اس گروہ کے بارے میں آپ کی پیشنگوئی کے چند جملات ملاحظہ فرمائے:

«اصابکم حاصبٌ و لا بقی منکم آثر (آبرٌ) ابعد ایمانی باللہ و جہادی مع رسول اللہ اشہد علی نفسی بالکفر «لقد ضللت إذاً و ما أنا من المہتدین!» فَأُوبوا شرّ مآب و ارجعوا علی أثر إلا عقاب أما انّکم ستلقون بعدی ذُلّاً شاملاً و سیفاً قاطعاً و اثرة یتخذہا الظالمون فیکم سنّة» [36]؛ خدا کرے تم پر سخت آندھیاں آئیں اور کوئی تمہارے کام کی اصلاح کرنے والا نہ رہ جائے۔ کیا میں پروردگار پر ایمان لانے اور رسول اکرم ﷺ کے ساتھ جہاد کرنے کے بعد اپنے بارے میں کفر کا اعلان کر دوں؟ ایسا کروں گا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہیں ہوں گا۔ اپنی بدترین منزل کی طرف پلٹ جاؤ اور اپنے نشانات قدم پرواپس چلے جاؤ۔ مگر آگاہ رہو کہ میرے بعد تمہیں ہمہ گیر ذلت اور کاٹنے والی تلوار کا سامنا کرنا ہوگا اور اس طریقہ کار کا مقابلہ کرنا ہوگا جسے ظالم تمہارے بارے میں اپنی سنت پالیں گے یعنی ہر چیز کو اپنے لیے کرلیناـ

«آبر» کے بارے میں سید رضی (رہ) تین احتمال دیا ہے:

الف: «آبر» وہ  شخص جو درخت خرمہ کو کانٹ چھانٹ  کر اس کی اصلاح کرےـ

ب: «آثِرٌ» یعنی روایت کرنے والاـ یعنی تمہاری خبر دینے والا بھی کوئی رہ نہ جائے گاـ  (یہی زیادہ مناسب ہے)

ج: «آبزٌ» کودنے والا یا ہلاک ہونے والا کہ مزید ہلاکت کے لیے بھی کوئی رہ نہ جائےـ

حضرت اس نورانی کلام میں خوارج پر آنے والی ذلت و خواری کی خبر دی ہے کہ ان پر کیا کیا مصائب اور مشکلات آنے والے ہیں اور یہ کنایہ تھا ان مشکلات اور ذلت و خواری کی طرف جو مہلّب بن ابی صُفرہ کے ہاتھوں ان پر پڑی۔ یہ خبر آپ نے اس لئے ان کو قبل از وقت دی تھی کہ وہ لوگ حق کی طرف پلٹ آئیں اور دوسروں کی فریب کاریوں میں گرفتار نہ ہو جائیں۔

حضرت علی علیہ السلام کی نفرین متحقق ہوئی اور آپ کی شہادت کے بعد وہ لوگ بے رحمانہ طریقے سے مارے گئے اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہا خدوند عالم نے سب کو نیست و نابود کردیاـ [37]

خوارج کی قتل گاہ کی خبر

«مصارعہم دون النطفة [38] و اللہ لایفلتُ منہم عشرةُ و لایہلک منکم عشرة» [39] ان  کی قتل گاہ دریا کی اس طرف ہے خدا کی قسم! نہ ان میں سے دس باقی بچیں گے اور نہ تمہارے دس ہلاک ہوں گے!

ابن ابی الحدید کا کہنا ہے: یہ خبر ان خبروں میں سے ہے جو بہت مشہور عام لوگوں تک نے اسے نقل کیا ہے اور تواتر کے حد تک پہنچی ہے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے معجزات اور آپ کی غیبی خبروں میں سے ہےـ  اور یہ ان اخباروں میں سے ہے جسے علی علیہ السلام نے رسول خدا ﷺ سے سیکھا ہے اور پیغمبر اسلام ﷺ نے خداوند عالم سے حاصل کیا ہے اور بشر کی معمولی قدرت اس قسم کے علم سے عاجز ہے اور یہ علم علیؑ کے ساتھ مخصوص ہے۔ دوسرے افراد ان موارد سے محروم ہیں۔ اس قسم کے معجزات جو عام لوگوں کی قدرت کے ساتھ منافات ہیں جب لوگوں نے علی علیہ السلام کے اندر یہ قدرت دیکھی تو بعض لوگوں نے آپ کے بارے میں اس قدر مبالغہ کردیا  اور کہنے لگے: خدا وند کی ذات نے آپ کے وجود میں حلول کیا ہے اور یہ وہی باتیں ہیں جسے عیسائیوں  نے حضرت عیسىٰ علیہ السلام کے بارے میں گمان کیا۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو اس کی خبر دی ہے اور فرمایا:

تمہارے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے، ایک گروہ وہ ہے جو آپ کی دوستی میں غلو کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو آپ سے دشمنی کرے گا۔ ایک دفعہ آپ سے فرمایا: «اس خدا کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر مجھے اس کا خوف نہ ہوتا  کہ میری امت میں سے ایک گروہ تمہارے بارے میں وہی بات کہیں گے جو بات عیسائیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہی ہیں تو تمہارے بارے میں آج وہ بات کہہ دیتا کہ اس کے بعد جہاں سے بھی تمہارا کا گزر ہوتا مگر یہ کہ آپ کے خاک پا اٹھا کر لوگ تبرک کر دیتے»۔ [40]

جب حضرت علی علیہ السلام خوارج کی تعاقب کے قصد سے آئے تو آپ کو خبر دی گئی کہ آپ کو بشارت ہو آپ کی آنے کی خبر سنتے ہی وہ لوگ فرار کرگئے ہیں اور نہر کی اس طرف بھاگ گئے ہیں تو آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ لوگ نہر سے نہیں گزرے ہیں اور گزر بھی نہ سکیں گے ان کی قتل گاہ نہر کے کنارے پر ہے۔ اس خدا کی قسم جس نے دانہ  کو چیرا ہے اور ذی روح کو زندگی بخشی ہے ان میں سے صرف تین افراد نہر تک پہنچیں گے نہر کے کنارے پہنچنے سے پہلے خدا انہیں قتل کردے گا! افترا باندھنے والے خسارے میں ہوں گےـ  روایت میں آیا ہےجب  آپ  نے خوارج کی قتل گاہ کے بارے میں خبر دی تو آپ کے انصار میں سے ایک جوان نے اپنے آپ سے کہا:خدا کی قسم! اگر وہ لوگ نہر سے گزر چکے ہوں تو  علی کے پاس جا کر نیزہ کو ان کی آنکھوں میں ماروں گا اور کہوں گا کیا تم علم غیب کا ادعا کرتے ہو؟

لیکن میرے وسوسے کے برعکس دیکھا وہ لوگ نہر سے عبور نہیں کئے ہیں اس وقت میں اپنے گھوڑے سے اتر کرامام کی خدمت میں گیا اور جو کچھ گمان کیا تھا آپ کے سامنے  بیان کیا اور ان سے عذر خواہی کی حضرت نے فرمایا: خدا ہے جو تمام گناہوں کو بخشنے والا ہے لہذا خدا سے طلب بخشش کرو اس جنگ میں خوارج کے صرف نو افراد نے فرار کیا اور لشکر امام کے آٹھ لوگ شہید ہوئے۔[41]

خوارج کا انحراف پر باقی رہنے کی خبر

خوارج کے قتل کے بعد جب لوگوں نے کہا: اب تو اس قوم کا خاتمہ ہو چکا ہے، اس وقت آپ نے فرمایا:

«کلا و اللہ انّہم نطف فی اصلاب الرجال و قرارات النساء کلمّا نجم منہم قرن قطع حتی یکون آخرہم لصوصاً سلّابین» [42] ہرگز نہیں  خدا گواہ ہے کہ یہ ابھی مردوں کے صلب اور عورتوں کے رحم میں موجود ہیں اور جب بھی ان میں کوئی سر نکالے گا اسے کاٹ دیا جائے گا یہاں تک آخر میں صرف لٹیرے اور چور ہو کر رہ جائیں گےـ

امیر کلام کا یہ بیان اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے  ممکن ہے ایک گروہ ہر زمانے میں آئے گا جو خوارج کے طرز تفکر کے مالک ہوں گے۔ کسی بھی زمانے میں وہ سر اٹھا سکتے ہیں اور حق کے خلاف نبرد کرنے کے لئے آمادہ ہوگا۔ گرچہ ظاہراً آپ کے زمانے میں وہ نابود ہو چکے تھےـ  امامؑ کی یہ پیشنگوئی کہ جب بھی وہ سر اٹھائے گا قطع ہوگا یہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں تحقق پائی۔ خوارج مہلّب کی سرکردگی میں جب نابود ہوئے اور جو افراد باقی رہے تھے اصفہان،‌ اہواز، و قراء عراق  کے اطراف میں لوگوں کے اموال اور  بیت المال کے غارت کے ذریعے زندگی گذارتے تھے۔ [43]

معاویہ کی سلطنت اور ظلم کی پیشنگوئی

«أما انّہ سیظہرُ علیکم بعدی رجلٌ رحبُ البلعوم مند حق البطن یأکل ما یجد و یطلب ما لایجد فاقتلوہ و لن تقتلوہ! إلا و إنّہ سیأمرکم بسبّی و البرائة منّی فأمّا السبُّ فسبّونی فانّہ لی زکاة و لکم نجاة و اما البرائة فلا تتبرأ و منّی فانّی ولدت علی الفطرة و سبقت الایمان و الہجرة» [44]؛ آگاہ ہو جاؤ کہ عنقریب تم پر ایک شخص مسلط ہوگا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگاـ جو پائے گا وہ کھایا جائے گا اور جو نہ پائے گا اس کی جستجو میں رہے گاـ تمہاری ذمہ داری ہوگی کہ اسے قتل کر دو مگر ہرگز قتل نہ کرو گےـ مگر یہ کہ  وہ عنقریب تمہیں، مجھے گالیاں دینے اور مجھ سے بیزاری کرنے کا حکم دے گا۔ تو اگر گالیوں  کی بات ہو تو مجھے برا بھلا کہہ لینا کہ میرے لئے پاکیزگی کا سامان ہے اور تمہارے لئے دشمن سے نجات کا راستہ۔ لیکن خبردار مجھ سے برائت نہ کرنا کہ میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور میں نے ایمان اور ہجرت دونوں میں سبقت کی ہے۔

اس کلام میں امام علیہ السلام اپنے ماننے والوں پرآیندہ وارد ہونے والے ناگوارحوادث کے بارے میں خبر دے رہے ہیں۔

جو شخص جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا یہ کون ہے؟

ابن ابی الحدید کے مطابق حضرت کی مراد معاویہ ابن ابی سفیان ہے کیونکہ اس کا پیٹ بڑا اور وہ پر خور تھا روایت میں ہے کہ معاویہ اس قدر کھاتا تھا کہ وہ تھک جاتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ دسترخوان کو جمع کرو خدا کی قسم ! تھک گیا ہوں لیکن بھوک ختم نہیں ہوئی ہے! وہ رسول خدا ﷺ کے نفرین سے اس بیماری میں مبتلا ہوا تھا۔ [45]

امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نےاپنے کلام میں معاویہ کے ذلت آمیز اوصاف کی طرف اشارہ کیا ہے:

الف: معاویہ بہت زیادہ کھانے والا آدمی ہے: یأکل ما یجد و یطلب ما لایجد۔

ب: بد ترین کام جو اس نے شام پر حکومت کرنے کے دوران انجام دیا وہ امیرالمؤمنین علیہ السلام پر سب کرنے کا حکم دینا تھا۔

ابن ابی الحدید کا کہنا ہے: معاویہ نے شام و عراق اور دوسرے مقامات پر لوگوں کو حکم دیا کہ حضرت علی علیہ السلام کو برا بھلا کہیں اور ان سے بیزاری کا اعلان کریں اور منبروں سے اس بارے میں خطبہ دیا گیا اور یہ کام بنی امیہ و بنی مروان کی حکومتوں کے دوران معمول کی سنت اور  رواج  کی شکل اختیار کر چکی تھی عمر بن العزیز کے دور میں یہ غلط رسم ختم ہوئی۔

جاحظ اس طرح نقل کرتے ہیں: بنی امیہ کے ایک گروہ نے  معاویہ سے کہا: اے امیر المؤمنین! تو اپنے مقصد میں کامیاب ہوا ہے اب مناسب ہے کہ اس شخص پر لعنت کرنے سے اجتناب کرو ـ  کہا: نہیں!خدا کی قسم ! اس کام سے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا یہاں تک کہ بچے اس پر لعن کرتے ہوئے بڑے ہو جائیں اور جوان بوڑھے اور کوئی بھی اس کی فضیلت کو بیان نہ کرےـ [46]

حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا: اگر کسی ظالم نے مجبور کر دیا کہ مجھ پر سبّ کرے تو کرو لیکن مجھ سے بیزاری کا اعلان نہ کروـ

ناسزا و بیزاری میں فرق

سبّ اور برائت میں  کیا فرق ہے کہ حضرت نے سب کو مصلحت کے موقع پر جائز اور برائت سے مطلقاً نہی فرمایا ہے؟

شارح نہج البلاغہ ابن میثم کا کہنا ہے: ان دونوں کے درمیان ایک ظریف اور خاص فرق ہے کہ اسے مد نظر رکھنا چاہئے مثلاً ناسزا کلام کی صفت ہے ممکن ہے بغیر اعتقاد کے اظہار کیا جائے اور ایک احتمال یہ ہے کہ کبھی ناسزا کنایہ سے بولا جاتا ہے  حقیقت میں قصد نہ کیا ہو اور اس کا فائدہ  یہ ہے کہ خون بہانے سے روکا جائے اور ظالم کے شر سے رہائی مل جائےـ لیکن بیزاری کا اظہار کرنا صرف کلام کی صفت نہیں ہے بلکہ کبھی قلبی عقیدہ اور دشمنی کی حد تک چلی جاتی ہے اور خاندان عصمت سے دشمنی کرنے سے منع ہوا ہے کسی سے نفرت اور بیزاری مخفی امر ہے انسان اس سے خوداری کرسکتا ہے اور اس کے ترک کرنے سے کسی کو کوئے خطرہ نہیں ہوتا ہےـ

ناسزا کے لیے زکات، سبب بلندی اور ناسزا کہنے والے کے لیے نجات کا باعث ہے ممکن ہے کہ حضرت کے لیے دو لحاظ سے ناسزا باعث زکات ہو:

الف: شاید اس نظر سے فرمایا ہو کہ روایت میں ہے کہ مؤمن کو بدی سے یاد کرنا اس کے لیے زکات محسوب ہوتا ہے اور مؤمن کی ایسی صفت سے بد گوئی کرنا کہ وہ صفت اس میں نہیں ہے اس کی بزرگی اور شرافت کی علامت  ہےـ

ب: اس قاعدہ کے مطابق کہ ”لوگوں کو جس چیز سے زیادہ منع کیا جائے اس کی طرف زیادہ میل پیدا ہوتا ہے“۔ اس عمومی خصلت  کے مطابق  دشمن لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام سے محبت کرنے اور اظہار مودت کرنے سے منع کرتا تھا اور آپ سے بیزاری کرنے پر مجبور کرتا تھا ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں اور زیادہ ہوتی تھی اور آپ کی شرافت اور بزرگی لوگوں  کے دلوں میں اضافہ ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے بنی امیہ نے ہزار مہینے منبروں پر حضرت علی علیہ السلام کو دشنام دیا مگر ان کے ہدف کے برخلاف امام کی محبت لوگوں کے دلوں میں کم نہ ہوئی بلکہ اضافہ ہوتا گیا۔[47]

علامہ تقی جعفری کا کہنا ہے: اس جملہ کے معنا میں  غور کرنا چاہئے کہ فرمایا: ناسزا گوئی مجھے پاک کرتا ہے، اس کا مقصد کیا ہے؟

احتمال یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا مقصود یہ ہو کہ: چونکہ جسے ناحق ناسزا  اور دشنام دیا جائے یہ اس کے لیے باعث اذیت و آزار ہے اور اس کا تحمل کرنا روح کی پاکیزگی کا سبب ہے۔

ایک اور احتمال یہ ہے کسی کو بغیر کسی دلیل کے ناسزا اور دشنام دینا سبب بنتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں تحقیق کرے اور یہ بیداری کا سبب بنتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ ناسزا گوئی کی علت کیا ہے؟ جب لوگ سمجھیں گے کہ حضرت علی علیہ السلام نہ صرف ان نا شایستہ الفاظ کے مستحق نہیں ہے بلکہ عظیم اوصاف کے مالک ہے اور یہ ایک اعلىٰ انسان ہی کے لائق ہے۔ پھر تحقیق کرنے والے اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ حضرت علی علیہ السلام کی بے پناہ عظمت اور آپ کے دشمنوں کی انتہائی پستی حقیقت میں آپ کو ناسزا گوئی کو رواج دینے کا سبب ہوئی ہےـ

مگر امیر المؤمنین علیہ السلام سےتبری و بیزاری  کا مسئلہ ایسی چیز ہے کہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے چونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں پاک فطرت کے ساتھ متولد ہوا ہوں۔ اس بنا پر امیر المؤمنین سے بیزاری در حقیقت اسلام  اور قرآن سے بیزاری ہے اور  اسلام و قرآن  سے بیزاری پیغمبر اسلام ﷺ کی تکذیب ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی امیر المؤمنین علیہ السلام کو حق کا مرکز اور محور قرار دیا ہےـ [48]

بنی امیہ کے بارے میں غیبی خبریں

«حتی یظن الظّان أنّ الدنیا معقولة علی بنی اميّة تمنحُہم درّہا و توردہم صفوہا و لایرفع عن ہذہ الماسة سوطہا و لاسیفہا و کذب الظّان لذلک بل ہی حجة من لذیذ العیش یتطعمونہا بُرہة ثم یلفظونہا جملة» [49]

(بنی امیہ کے مظالم نے اس قدر دہشت زدہ بنا دیا ہے کہ) بعض لوگ خیال کر رہے ہیں کہ دنیا بنی امیہ کے دامن سے باندھ دی گئی ہے۔ انہی کو اپنے فوائد سے فیض یاب کرتی رہے گی اور وہی اس کے چشمہ پر وارد ہوتے رہیں گے۔ اب اس امت کے سر سے ان کا تازیانہ اور تلوار اٹھ نہیں سکتی۔ حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے یہ حکومت فقط ایک لذیذ قسم کا آب دہن ہے جسے تھوڑی دیر چوسیں گے اور پھر خود ہی تھوک دیں گےـ

امام، اپنے اس کلام کے ذریعہ بنی امیہ کی حکومت ہمیشہ کے ہونے کے حوالےسے ان لوگوں کے خیال کو باطل قرار دیا: ”یہ خام خیالی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، بنی امیہ کا یہ زرق و برق چند دنوں کا ہے اور اس کے بعد دنیا ان کے ہاتھوں نکل جائے گی“۔

بنی امیہ کی فتنہ گری کی خبر

«الا و إنّ اخوف الفتن عندی فتنة بنی اميّة فإنّہا فتنة عمیاء مظلمة عمَّت خُطَّتُہا و خصَّت بليَّتُہا و أصاب البلاء من ابصر فیہا و أخطاء‌ البلاء من عمی عنہا» [50] یاد رکھو ! میری نظر میں سب سے خوف ناک فتنہ بنی امیہ کا ہے جو خود بھی اندھا ہوگا اور دوسروں کو بھی اندھیرے میں رکھے گا۔ اس کے خطوط عام ہوں گے لیکن اس کی بلا خاص لوگوں کے لئے ہوگی جو اس فتنہ میں آنکھ کھولے ہوں گے ورنہ اندھوں کے پاس سے بآسانی گذر جائے گاـ

امیر المؤمنین نے بنی امیہ کے فتنہ کی خصوصیات کو بیان فرمایا:

الف: یہ فتنہ تاریک اور اندھا کرنے والا ہے کیونکہ بنی امیہ کےکردار کسی قانون اور اصل کے مطابق نہیں تھا جو ان کے مدنظر تھا وہ شہوت، اقتدار اور ظلم تھا اور ان کے لیے کوئی مبنىٰ نہیں ہوتا ہے اور یہ روشن ہے جس کام کے لئے کوئی مبنیٰ نہ ہو اس کا نتیجہ تاریک اور اندھا پن کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہےـ

ب: یہ فتنہ سارے لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لے گا کیونکہ:

اولاً: قدرت ان کےہاتھ میں ہےـ

ثانیاً: ظاہر میں حق کے طور پر معاشرے میں پہچانا جاتا تھاـ

ثالثاً: عوام پسند نعرے بلند کرتے تھے جیسا کہ صفین میں قرآن کو نیزوں پر بلند کرکے لوگوں اس کی طرف بلایا گیاـ

یہ فتنہ اہل بصیرت کِے لئے مشکل ہے نہ ان کے لیے جو اندھا ہو جو کچھ ہو جائے انہیں خبر نہ ہوـ [51]

آپؑ فرماتے ہیں:

«و ایم اللہ لتجدنّ بنی اميّة لکم ارباب سوءٍ بعدی کالنّاب الضّروس تعذم بفیہا و تخبط بسیدہا و تزین برجلہا و تمنع درّہا لا یزالون بکم حتی لایترکوا منکم إلا لہم او غیر ضائر بہم و لا یزال بلاؤہم عنکم حتی لایکون انتصار احدکم منہم کانتصار العبد من ربّہ و الصاحب من مستصحبہ ترد علیکم فتنتہم شوہاء فحشیة و قطعاً جاہلیة لیس فیہا منا زُہدی و لا علم یری» [52]  خدا کی قسم! تم بنی امیہ کو میرے بعد بدترین صاحب اقتدار پاؤ گے۔ جن کی مثال اس کاٹنے والی اونٹنی کی ہوگی جو منہ سے کاٹے گی اور ہاتھ سے مارے گی یا پاؤں چلائے گی اور دوھ نہ دوھنے دے گی اور یہ سلسلہ یوں ہی برقرار رہے گا جس سے وہ افراد بچیں گے جو ان کے حق میں مفید ہوں یا کم سے کم نقصان دہ نہ ہوں۔ یہ مصیبت تمہیں اسی طرح گھیرے رہے گی یہاں تک کہ تمہاری داد خواہی ایسے ہی ہوگی جیسے غلام اپنے آقا سے یا مرید اپنے پیر سے انصاف کا تقاضا کرےـ تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانگ شکل میں وارد ہوگا جس سے ڈر لگے گا اور اس میں جاہلیت کے اجزا بھی ہوں گے نہ کوئی منارہ ہدایت ہوگا اور نہ کوئی راستہ دکھانے والا پرچم۔

«ثم یفرّجہا عنکم کتفریج الادیم عن سیومہم خسفاً و لسیوقہم عُنُفاً و یسقیہم بکأس مصبّرة لا یعطیہم إلا السیف و لا یحلسُهُم إلا الخوف فعند ذلک تودّ قریش بالدنیا و ما فیہا لو یروننی مقاماً و احداً و لو مدر جزر جزور لا قبل فہم ما اطلب الیوم بعضہ فلا یعطہ فیہ» [53] اس کے اللہ تم سے اس فتنہ کو  اس طرح الگ کر دے گا جس طرح جانور کی کھال اتار دی جاتی ہےـ اس شخص کے ذریعے جو انہیں ذلیل کرے گا اور سختی سے ہنکائے گا  اور موت کے تلخ گھونٹ پلائے گا اور تلوار کے علاوہ کچھ نہ دے گا اور خوف کے علاوہ کوئی لباس نہ پہنائے گا۔ یہ وہ وقت ہوگا کہ قریش کو یہ آرزو ہوگی کہ کاش دنیا اور اس کی تمام دولت دے کر ایک منزل پر مجھے دیکھ لیتے چاہے صرف اتنی دیر کےلئے جتنی دیر میں اونٹ نحر کیا جاتا ہے۔ تاکہ میں ان سے اس چیز کو قبول کر لوں جس کا ایک حصہ آج میں مانگتا ہوں تو وہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

معاویہ و عمر و عاص جو اسلام کے مقابلہ میں قوم پرستی کا علم بلند کرکے چند دنوں کی حکومت کو بچانے اور اسے دوام دینے کےلئے کتنے مقدس خونوں کو انہوں نے بہایا اس بات کو بھلا دیا تھا کہ قوم عاد و ثمود اور دوسرے سینکڑوں ظالم اقوام و ملل اسی تلوار سے نابود ہوئے جس سے ہزاروں بے گناہوں کا خون بہایا تھا۔ آیا انسان اس قدر پست ہے مال و منال، مقام و جاہ دنیا اسے اس قدر اپنے آپ میں گم کردے کہ دنیا کے تمام قوانین حتىٰ قانون علیت اور رد عمل اور مکافات عمل سے اپنے آپ کو مستثنىٰ جان لےـ

جرد جرداق مسیحی اپنی کتاب ”صوت العدالة‌ الانسانیة“ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:‌

«و ماذا علیک یا دنیا لو حشدتِ قواكِ و اتیتِ فی کل زمن بعليّ بلسانہ و عقلہ و قلب و ذی فقارہ؟» اےدنیا! تمہیں کیا ہوتا کہ تمہاری پوری قورت کو جمع کر لیتی اور ہر زمانے میں ایک علی علیہ السلام کو اس کی زبان، عقل اور ذوالفقار کے ساتھ  پیدا کر لیتی؟

لیکن کاش! بشر کو ایک ایسا حاکم نصیب ہو جو اپنی جوتی کو پیوند لگا دے تاکہ اس کے رعایا  کے پا برہنوں کو جوتے نصیب ہو جائے اور اپنی پیراہن کو اس قدر وصلہ لگا دے کہ دوبارہ وصلہ کےلئے دینے سے شرمائے!

کاش! وہ دن آئے یہ کرہ خاکی ایک ایسے مرد کو دیکھےجو جھوٹ میں مرتکب ہونے سے بچنے کے لئے وسیع و عریض حکومت اسلامی کو ٹھکرائے اور اپنی حاکمیت میں ایک یہودی عورت کے پاؤں سے خلخال چھینے جانی کی خبر سن کرمضطرب ہو جائے اور کہے: ایک با ایمان انسان! اس قسم کی خبر سن کر اگر مرجائے میرے نزدیک وہ قابل مذمت نہیں ہے۔

تاریخ ان صفحات  کو مشاہدہ کرے تاکہ  یہ ثابت ہوجائے کہ اس قسم کے الٰہی انسان کی تربیت کرنا اس کی بس کی بات نہیں ہے تا ایک بار پھر حجة ابن الحسن عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف جیسے ملکوتی انسان اپنے جد بزرگوار امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام کی صورت و سیرت کے ساتھ آئے اور جوامع بشری کو عدالت علیؑ کا نسخہ دے کر تاریخ کی تمام تلخیوں کا ازالہ کردےـ

ای منتظریم تا کہ فصل دی بر ‌آید     باغ شود سبز و باغبان بدر آید

بلبل عاشق بہ پای گلبن توحید       اشک فشان باش تا دم سحر آید

بگذرد این روزگار تلختر از زہر        بار دیگر روزگار چون شکر آید[54]

ہم منتظر ہیں کہ فصل بہار آجائے اور باغ دوبارہ سر سبز ہو جائے اور اس کاباغبان آ جائے

عاشق بلبل توحید کے زیر سایہ اشک بار آنکھوں کے ساتھ منتظر رہے تاکہ سحر طلوع ہو جائے

یہ تلخی کے ایام دوسرے ایام کی طرح گذر جائے تاکہ شیرین ایام آجائے۔

فرزندان امیہ کے لئے آنے والی  تلخیوں کی خبر

«فاقسم باللہ یا بنی امیہ عمّا قلیل لتصرفنّہا فی ایدی غیرکم و فی دار عدوّکم! ألا أنّ ابصر الابصار ما نفذ فی الخیر طرفہ! ألا انّ اسمع السماع ماوعی التذکیر و قبلہ» [55]

میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں بنی امیہ کہ عنقریب تم اس دنیا کو اغیار کے ہاتھوں اور دشمنوں کے دیار میں  دیکھو گےـ آگاہ ہو جاؤ! بہترین نظر وہ ہے جو خیر میں ڈوب جائے اور بہترین کان وہ ہے جو نصیحت کو سن  اسے قبول کرلیں۔

بنی امیہ نے (132ھـ) تک حکومت کی ہیں ان کا آخری حکمران مروان حمار تھا جسے ابو مسلم خراسانی و احمد سفاح  نےنابود کر دیا۔ پھر بنی عباس نے قدرت  پر قبضہ کر لیا اور صرف سفاح نے ایک مرحلہ میں بنی امیہ کےستّر  ہزار (70000) بزرگان کا قتل عام کیاـ

فرزندان مروان کی حکمرانی کی خبر

کہا جاتا ہے (36ھـ) میں حضرت عثمان کا داماد مروان بن حکم جنگ جمل میں اسیر ہوا۔ امام حسن و امام حسین علیہما السلام نے حضرت علی علیہ السلام سے اس کی رہائی سفارش کی اور حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: بابا جان! مروان  آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے تو آپ نے فرمایا:

«او لم یبایعنی بعد قتل عثمان؟ لا حاجة لی فی بیعتہ! انہا کفّ یہودیة لو بایعنی بکفّہ لغدر بسبّتهِ اما انّ لہ امرة کلعقةِ الکلب انفسہ و ہو ابو الاکبش الاربعة و ستلقی الامة ضد و من ولدہ یوماً احمر!».[56]؛ کیا اس نے قتل عثمان کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ مجھے اس کی بیعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ ایک یہودی قسم کا ہاتھ ہے اگر ہاتھ سے بیعت کر بھی لے گا تو رکیک طریقہ سے اسے توڑ ڈالے گا یاد رکھو! اسے بھی حکومت ملے گی مگر صرف اتنی دیر جتنی دیر میں کتا اپنی ناک چاٹتا ہے اس کے علاوہ یہ چار بیٹوں کا باپ بھی ہے اور امت اسلامیہ اس سے اور اس کی اولاد سے بدترین دن دیکھنے والی ہےـ


فهرست منابع و مآخذ

  1. ابن ابي شبيه كوفي، عبدالله بن محمد، المصنف، بيروت: دار الفكر، 1409 ھ .ق.
  2. ابن جبر، علي بن يوسف، نهج الايمان، مشهد: مجتمع امام هادي، 1418 ھ ق.
  3. ابن جمهور احسائي، محمد بن زين الدين، عوالي اللئالي، قم: سيد الشهدا، 1403 ھ ق.
  4. اميني عبد الحسين ، الغدير، بيروت: دار الكتاب العربي، بي‌تا.
  5. ثقفي كوفي ابراهيم بن محمد ، الغارات،‌ بي‌تا، نشر بهمن.
  6. جرداق، جرج، صوت العدالة‌ الانسانيه، بي‌‌جا، دار الرسالة، 1335 ش.
  7. جعفري، محمد تقي ، شرح نهج البلاغه، تهران: دفتر نشر فرهنگ اسلامي،  1357ش.
  8. جهرمي، آيت الله كريمي، سيماي امام علي در نهج البلاغه، قم: نشر راسخون، 1380 ش.
  9. جوادی، سيد ذيشان حيدر،ترجمه نهج البلاغه،قم: انتشارات انصاريان،1999م.
  10. حاكم نيشابوري، محمد بن عبدالله، المستدرك علي الصحيحين، بيروت: دار المعرفة، 1406.
  11. حر عاملي، وسائل الشيعه، قم: مؤسسه آل البيت، 1414Ú ق.
  12. خميني، روح الله، وصيت‌نامه سياسي الهي، تهران:‌ وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامي، تيرماه، چاپ چهارم.
  13. خوارزمي، موفق بن احمد، المناقب،‌ قم: مؤسسه نشر اسلامي، 1411 ھ .ق.
  14. دشتي، محمد، ترجمه نهج البلاغه، قم: مؤسسه انتشارات حضور، 1381.
  15. ري‌شهري، محمد محمدي، ميزان الحكمة، قم: دار الحديث، بي‌تا.
  16. شيخ صدوق، محمد بن علي بن ابن بابويه، الامالي الصدوق، بيروت: مؤسسه اعلمي، 1410 ھـ ق.
  17. —————–، معاني الاخبار، قم: مؤسسه نشر اسلامي، 1379 ھ ق.
  18. صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، تهران، موسسه اعلمي، 1404 ھ ق.
  19. طوسي، محمد بن الحسن، الامالي، قم: دار الثقافة، 1414 ھ ق.
  20. عبده، محمد ، نهج البلاغه، بيروت: دار المعرفة، بي‌تا.
  21. علامه مجلسي، محمد باقر ، بحار الانوار، بيروت: دار احياء التراث العربي، بي‌تا.
  22. عليقلي، محمد مهدي، سيماي نهج البلاغه، تهران:‌ نشر غياث، 1374.
  23. كليني، محمد بن يعقوب، اصول الكافي، قم: دار الكتب الاسلاميه، (آخوندي) چاپ سوم، 1367 Ú .
  24. ليثي واسطي، علي بن محمد ، عيون الحكم و المواعظ، قم: دار الحديث، 1476Ú ق.
  25. متقي هندي، علي بن حسام الدين، كنز العمال، بيروت: مؤسسه الرسالة، بي‌تا.
  26. محمديان، محمد ، حياة‌ امير المؤمنين من لسانه، قم: مؤسسه نشر اسلامي، 1417 ھ ق.
  27. محمودي، محمد باقر، نهج السعادة في مستدرك نهج البلاغه، ناشر: نعمان نجف اشرف، 1385 ھ ق.
  28. مطهري، شهيد مرتضي، سيري در نهج البلاغه، قم: دار التبليغ اسلامي، 1354 ش.
  29. نيشابوري، فتال ، روضة الواعظين، قم: منشورات رضي، بي‌تا.

حوالہ جات

[] [1] – محمد مهدي عليقلي، سيماي نهج البلاغه، قم: نشر مطهر، 1374، ص 15.
[2] – حاكم نيشابوري، المستدرك، ج3، ص 124، بيروت: دار المعرفة، 1406؛ متقي هندي، كنز العمال، ج11، ص 603.
[3] – امام خميني ، وصيت‌نامه سياسي الهي،‌ تهران: وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامي،‌چاپ سوم، ص 3.
[4] –  محمد مهدي عليقلي، سيماي نهج البلاغه، ص 89.
[5] – سيري در نهج البلاغه، قم: دار التبليغ اسلامي، 1345، ص 30.
[6] – شيخ محمد باقر محمودي، نهج السعادة في مستدرك نهج البلاغه، ناشر: نعمان نجف اشرف، 1385 Ú ق.، ج7، ص 146 و ج8، ص 309.
[7] – شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، بيروت:دار المعرفة، ج2، ص 172؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، دار الاحياء‌ مكتبة‌العربيه، ج10، ص 179؛ شيخ سليمان بن ابراهيم قندوزي، ينابيع لمودة، ج1، ص 90 و 266.
[8] – ابن ميثم، شرح بحراني نهج البلاغه، (ابن ميثم)، ج1، ص80؛ ابن جمهور احسائي، عوالي اللئالي، قم: سيد الشهدا، 1403 ھـ  ق. ج1، ص 20 و ج2، ص 11.
[9] – همان،‌ ج2، ص 218،‌خطبه 224.
[10] – همان، ج2، ص 10، خطبه 228.
[11] – همان، ج4، ص 32، كلمات حكمت، ش 131؛‌ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج18، ص 325.
[12] – خطبه، 175؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج2، ص 90؛ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج10، ص 10.
[13] – نهج البلاغه نامه ،45؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج3، ص 72؛‌ سليمان قندوزي، ينابيع المودة، ج1، ص 440.
[14] ـ نهج البلاغه، نامه؛ 45ـ
[15] – نهج البلاغه ،خطبه 34؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 84؛ ابن قتيبه دينوري، الامامة‌ و السياسة، قم: انتشارات شريف، 1413 Ú ق. ج1، ص 171.
[16] – همان، ج2، ص 180، خطبه 200؛‌ ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، ج10، ص 211.
[17] – شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 31، خطبه 3؛ ابن ابي الحديد شرح نهج البلاغه، ج1، ص 151؛ ابن جبر، نهج الايمان، مشهد: مجتمع امام هادي، 1418 Ú ق. ص 518.
[18] – ابن ميثم، شرح  نهج البلاغه، ج1، ص 506.
[19] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج1، ص 43، دار المعرفة، بيروت: و ج2، ص 20؛ ليثي واسطي، علي بن محمد، عيون الحكم والمواعظ، دارالحديث، 1276؛ مجلسي بحار الانوار، ج32، ص 52؛ علامه عبد الحسين ‌اميني،  الغدير، ج9، ص 103.
[20] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج4، ص 29؛‌ شيخ صدوق، الامالي، ص 432؛ شيخ صدوق، معاني الاخبار، ص 186- 185؛ شريف رضي، خصائص الائمه، آستان مقدس رضوي، 1406Ú ق؛‌ فتال نيشابوري، روضة‌ الواعظين، ص 43؛‌ وسائل الشيعه،‌ج15، ص 183 و ج11، ص 141؛ كراجكي ابو الفتح، معدن الجواهر، ص 54؛ احسائي، ابن ابي جمهور،‌ عوالي اللئالي، ج4، ص 126؛ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه، ج18، ص 313.
[21] – ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج5، ص 521.
[22] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج1، ص 182، خطبه 93؛ محمد بن حسن صفار، بصائر الدرجات، تهران، موسسه اعلمي، 1404 Ú ق، ص 316.
[23] – محمد دشتي، ترجمه  نهج البلاغه، ص 173.
[24] – ابن ابي الحديد، ترجمه و شرح  نهج البلاغه، ج3، ص 360.
[25] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج2، ص 130،خ89ـ
[26] – شيخ محمدعبده،  نهج البلاغه، ج2، ص 89؛‌ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه، ج10، ص 10؛‌ سليمان قندوزي، ينابيع المودة، ج1، ص 27.
[27] – ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، خطبه 144، ج9، ص 84: ابراهيم بن سليمان قندوزي، ينابيع المودة، ج1، ص 207 و ج3، ص 293 و 450.
[28] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج1، ص 230، خطبه، 115؛ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه، ج7، ص 277.
[29] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج1، ص 45، خطبه 13؛ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه. ج1، ص 251؛ موفق خوارزمي، المناقب،‌ قم: مؤسسه نشر اسلامي، 1411 Ú .ق، ص 189.
[30] – ابن ميثم، شرح  نهج البلاغه، ج1، ص 584؛ ابن ابي الحديد، ، ترجمه و شرح  نهج البلاغه، ج1، ص 121.
[31] – احنف بن قيس، پىغمبر اسلام 1كے صحابى هے  رسول خدا1 نے ان كے مىں دعا كى هے ـ وه با هوش اور عاقل تھا جنگ جمل كے موقع پر حضرت على Cسے كها ىا على كىا آپ چاهتے هىں كه مىں دو سو سوارىوں كے ساتھ آپ كے لشكر مىں شامل هو جاؤں ىا ىا بنى سعىد كے ساتھ جنگ سے كناره گىرى كروں اور اس وقت چھ هزار تلواروں كو آپ كے خلاف روكا جاسكتا هےـ آپ نے فرماىا: جنگ سے كناره گىرى كرو ـ وه فتح بصره كے بعد امام اور آپ كے ساتھىوں سے ملحق هوگىاـ  (محمد دشتي، ترجمه نهج البلاغه، ص 243).
[32] – ابن ابي الحديد، ترجمه و شرح  نهج البلاغه، ج4، ص 84 تا 128.
[33] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج2، ص 9؛ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه، ج8، ص 125؛ علامه محمد باقر مجلسي، بحار الانوار، ج41، ص 334.
[34] – نهج البلاغه كلام ش،كلام 27؛ شيخ محمد عبده  نهج البلاغه، ج1،‌ص 97؛ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه، ج3، ص 197؛ علامه محمد باقر مجسلي، بحار الانوار، ج97، ص 385
[35] – ابن ميثم، شرح  نهج البلاغه، ج2، ص 265.
[36] – همان، خطبه 58، طبق شرح ابن ميثم و ابن ابي الحديد خطبه 57 مي‌باشد.
[37] – ابن ميثم، شرح  نهج البلاغه، ج2، ص 327؛ محمد محمدي ري‌شهري، ميزان الحكمة، قم: دار الحديث، بي‌تا، ج3، ص 2319.
[38] ـ سىد رضى: نطفه سے مراد نهر كا صاف وشفاف  پانى هےـ
[39] ـ نهج البلاغه، خ59ـ
[40] – ابن ابي الحديد، ترجمه و شرح  نهج البلاغه، ج3، ص 3-2.
[41] – ابن ميثم، شرح  نهج البلاغه،ج2،
[42] – نهج البلاغه، خ 60؛  شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج1، ص 107؛ شيخ محمد باقر محمودي، نهج السعادة، ج2، ص 417.
[43] – ابن ميثم، شرح  نهج البلاغه، ج2، ص 331.
[44] – نهج البلاغه، خ 57؛ شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج1، ص 106؛ حر عامل، وسائل الشيعه، قم: مؤسسه آل البيت، 1414Ú ق، ج16، ص 228؛‌ علامه عبد الحسين اميني، الغدير، بيروت:‌ دار الكتب العربي، 1397Ú ق، ج2، ص102.
[45] – ابن ميثم، شرح نهج البلاغه، ج2، ص 320؛‌ ابن ابي الحديد، ترجمه و شرح نهج البلاغه، ج2، ص 223.
[46] – ابن ابي الحديد،  نهج البلاغه، ج2، ص 224 به بعد.
[47] – ابن ميثم، شرح  نهج البلاغه، ج2، ص 220 به بعد.
[48] – علامه محمد تقي جعفري، شرح  نهج البلاغه، ج10، ص 223.
[49] – نهج البلاغه خ، 87؛ شيخ محمد عبده، نهج البلاغه، ج1، ص 155 خطبه، 87؛‌ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه، ج6، ص 381.
[50] -نهج البلاغه،خ 93؛ شيخ محمد عبده،‌  نهج البلاغه، ج1، ص 183؛ ابراهيم محمد ثقفي كوفي، الغارات،‌بي‌تا، نشر بهمن، ج1، ص 10.
[51] – علامه محمد تقي جعفري، شرح  نهج البلاغه، ج16، ص 308.
[52] – ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه، ج7، ص 44؛ ابن ابي شبيه كوفي، المصنف، بيروت: دار الفكر، 1409 Ú .ق، ج8، ص 699؛ شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج1، ص 183.
[53] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه، ج1، ص 184؛ ابراهيم محمد ثقفي كوفي، الغارات، ج2، ص 677؛‌ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه، ج7، ص 45.
[54] – علامه محمد تقي جعفري، شرح  نهج البلاغه، ج16، ص 313 به بعد. علاوه بر اين در باره سرنوشت بني اميه در خطبه 105 هم آمده است ملاحظه فرمائيد.
[55] – شيخ محمد عبده،  نهج البلاغه،  ج1، ص 201؛‌ ابن ابي الحديد، شرح  نهج البلاغه،  ج7، ص 117.
[56] –  همان، ج6، ص 146. نهج البلاغه،خ73ـ

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button