
منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ
جہاد راہ حق درہائے جنت میں سے اک در ہے
جسے مخصوص ولیوں کے لئے کھولا ہے مالک نے
یہ مستحکم ذرہ محکم سپر تقوی کا جامہ ہے
جو روگردانی کرتا ہے جو اس کو چھوڑ دیتا ہے
تو مالک اس کو رسوائی کا پہنا دیتا ہے جامہ
ردائے غم اڑھادیتا ہے ہو جاتا ہے وہ رسوا
اور اس کے دل پہ چھا جاتا ہے مدہوشی کا اک پردہ
اور اس کو ضائع کرنے کا فقط انجام یہ ہوگا
نکل جائے گا حق ہاتھوں سے ذلت جھیلنا ہوگا
اور انصاف و عدالت سے وہ ہو جائے گا بے بہرہ
میں ان لوگوں سے لڑنے کو صدا دیتا رہا تم کو
بلایا دن میں راتوں کو بھی چلاتا رہا تم کو
علی الاعلان بھی پوشیدہ بھی آواز دی میں نے
بہت للکارا ہر دم دعوت آغاز دی میں نے
کہ ان کے وار سے پہلے ہی اپنا وار کرڈالو
اور ان لوگوں پہ ان سے پہلے ہی یلغار کر ڈالو
قسم اللہ کی جن پر ہو ان کے گھر میں ہی حملہ
تو اس کا حصہ ذلت کے علاؤہ کچھ نہیں ہوتا
مگر تم لوگوں نے ہر وقت ٹالا ان سنی کردی
یہاں تک کہ بڑھے حملے ہوئی غارت گری بھاری
زبردستی علاقوں پر تمہارے ہوگیا قبضہ
بنی غامد کے لشکر نے کیا انبار پر حملہ
اور حسان ابن حساں بکری کے سر کو اڑا ڈالا
خبر یہ بھی ملی ہے کچھ سپاہی فوج دشمن کے
مسلماں اور ذمی عورتوں کے گھر میں گھس جاتے
کڑے پیروں کے ، کنگن ہاتھ کے اور کانوں کے بندے
گلے کے پٹکے بھی ان عورتوں سے چھین وہ لیتے
اور ان کے پاس اس سے بچنے کا چارہ نہ تھا کوئی
سوائے انا للہ پڑھ کے ہر خاتون چپ رہتی
یا ان سے التجائے رحم کرکے صبر ہی کرتیں
وہ سارا ساز و سامان لاد کر کندھوں پہ جاتا تھا
نہ کوئی زخم کھاتا تھا نہ قطرہ خوں کا بہتا تھا
اور اس صدمے سے کوئی مرد مسلم مر بھی گر جائے
تو میری نظروں میں مرجانا اس کا حق بجانب ہے
خدا جانے یہ صورت کتنی حیرت ناک صورت ہے
خدا جانے یہ کس درجہ تعجب خیز حالت ہے
قسم اللہ کی باطل پہ ان سب کا ٹھہر جانا
تمہاری جمعیت کا حق کے مرکز سے بکھر جانا
یہ دل کو مردہ کرتا ہے جگر کو خون کرتا ہے
یہ ہم و غم یہ رنج و حزن کو افزون کرتا ہے
تمہارا ہو برا اور غم تمہارا ا ب ٹھکانہ ہو
کہ تیراندازوں کے تیروں کا تم از خود نشانہ ہو
وہ حملہ کررہے ہیں اور تم حرکت نہیں کرتے
وہ غارت کررہے ہیں اور تم ہمت نہیں کرتے
وہ رب کی کررہے ہیں معصیت تم اس پہ ہو راضی
وہ نافرمانی میں جکڑے ہیں تم کو ہے خوشی اس کی
میں گرمی میں بلاتا ہوں پئے حملہ تو ہو کہتے
یہ گرمی کا زمانہ ہے گذر جانے ذرا دیجے
میں سردی میں بلاتا ہوں تو کہتے ہو کہ جاڑا ہے
ذرا رک جائیے سردی گذر جائے تو اچھا ہے
یہ سردی اور گرمی جنگ سے بچنے کی باتیں ہیں
یہ اس کی سمت آگے بڑھنے سے رکنے کی باتیں ہیں
بھلا جو قوم سردی اور گرمی کو نہ جھیلے گی
وہ نیزوں اور تلواروں سے جانے کتنا بھاگے گی
اے مردوں جیسی صورت شکل رکھنے والے نامردو
( اے کوفہ والو اے غداری کرنے والے نا مردو )
تمہاری عقلیں خام و نارسا اور بچوں جیسی ہیں
تمہاری فکریں گویا عورتوں سے ملتی جلتی ہیں
یہی میری دلی خواہش تھی اور ارمان تھا میرا
نہ تم کو دیکھتا ہرگز نہ تم سے آشنا ہوتا
یہ ایسی آشنائی ہے یہ تم سے وہ تعارف ہے
کہ جس کا آخری انجام ذلت ہے تاسف ہے
خدا مارے کہ تم نے پیپ سے دل بھر دیا میرا
غم و اندوہ سے چھلکا دیا تم نے مرا سینہ
پلائے رنج و غم کے گھونٹ ہر ہر سانس میں تم نے
کچل ڈالا مری رائے کو تم نے سرکشی کر کے
یہاں تک کہ قریش مکہ یہ کہنے لگے ہیں اب
علی تو مرد ہے پر جنگ کے آتے نہیں ہیں ڈھب
بھلا ہو ان کا، کیا ان میں کوئی بھی مرد ہے ایسا؟
فنون جنگ کا جو مجھ سے زائد علم ہو رکھتا
ابھی میں بیس سالہ بھی نہ تھا پوری طرح لیکن
اٹھا میں جنگ کو اور اب تو پورے ساٹھ کا ہے سن
مگر وہ شخص اپنی کیا کرے تدبیر کو لے کر
کہ جس کی بات ہی مانی نہ جائے اول و آخر
ختم شد





