مقالات

علی و علی

تحریر: عابد علی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

علی کو جاننا ایک مشکل کام ہے اور اس لامحدود فضائل کے حامل وجود کی کوئی معرفت حاصل نہیں کر سکتا اور ان کی ذات کاانسانی افق ہر طرح سے چھپا ہوا ہے کہ کسی کا وہم اور فکر ان کی شناخت نہیں کر سکتا اور ہر ایک نے انہیں کسی نہ کسی انداز میں اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ اور اس کے دوستوں نے اسے ایک عظیم شخص سمجھا جس کو انہوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور خدا بنا لیا اور یہ وہی محب غال ہیں۔

دوسری طرف ان کے دشمن بغض و کینہ میں اس قدر آگے چلے گئے کہ ان کو کافر کہہ دیا اور یہ وہی مبغض قال ہیں اور حضرت علیؑ نے ان دونوں گروہوں کو ہلاک ہونے والے شمار کیا ہے۔ اور ضروری ہے کہ حضرت علیؑ کی شناخت کے لیے آنحضرت ﷺ کے فرمان کی طرف توجہ دی جائے کہ آپؐ نے فرمایا کہ اے علی آپ کو خدا اور میرے سوا کوئی نہیں پہچان سکتا تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس عظیم شخصیت کو خدا، رسول خدا ﷺ اور خود ان کی زبان سے ان کو پہچاننے کی کوشش کریں۔

خدا نے قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر حضرت علی علیہ السلام کی شان کو بیان کیا ہے لیکن ان کے نام کو لیے بغیر صفات کو بیان کیا ہے تاکہ ان کے دشمن قرآن جیسی کتاب پر حملہ آور ہو کر نام علی کو حذف نہ کر دیں اور قرآن جیسی کتاب میں تحریف نہ کر سکیں۔ لیکن قرآن کی آیات اس قدر واضح ہیں کہ کوئی بھی علی کے علاوہ ان کا مصداق نہیں بن سکتا۔

علی کو خدا اور رسول خداؐ کے ساتھ مومنین کا آقا و سرپرست کہا کیونکہ خدا قرآن میں فرما رہا ہے کہ آپ کا سرپرست خدا و رسول خدا اور وہ ہیں جو نماز ادا کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں (سورہ مائدہ آیہ ۵۵) اس فضیلت کا مصداق سنی مفسرین کے نزدیک بھی علی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ علی کو آنحضرتؐ کی رسالت کا گواہ بناتا ہے اور (علی وہ ہے کہ) جس کے پاس کتاب کا علم ہے: کہدیجئے: میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے اللہ اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔ (سورہ رعد آیہ ۴۳) اگر کتاب تشریع، تکوین اور کتاب انسان مجھے مبالغہ والا نہ بنائے اور قرآن مجید جو کہ (تحریف) سے پاک ہے اور علم غیب اس میں رکھا گیا ہے کیونکہ یہ ساری کتابیں ہیں اور علی بھی اللہ کے نزدیک ایک کتاب ہے اور یہ ایک ہدیہ ہے جو کہ نبی اور علی جیسے پاک اور طاہر نفوس کو ہی ملتا ہے۔

ان سب سے اہم کہ ختم نبوت اور رسالت کی ادائیگی علی کی امامت کے اعلان کے ساتھ مشروط ہے۔ یعنی اگر نبی علی کی امامت کے اعلان میں لیت و لعل سے کام لے تو گویا اپنے وظیفہ پر عمل نہیں کیا (اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا سورہ مائدہ آیت ۶۷) اور جب خم کے میدان میں علی کی امامت کا اعلان ہوا تو گویا اسلام بھی مکمل ہو گیا۔

خدا فرماتا ہے: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا (سورہ مائدہ آیت ۳) ایک اور مقام پر اللہ فرما رہا ہے: اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ (سورہ احزاب آیت ۳۳) اس کے علاوہ بہت ساری آیات حضرت علی کی شان میں آئی ہیں کہ ہماری اس مختصر کتاب میں سب کو بیان کرنے کی گنجاش نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ اہل ذوق متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کریں۔

آنحضرت ﷺ کی علی علیہ السلام کے بارے میں احادیث اس قدر زیادہ ہیں کہ شیعہ اور سنی کی کتب بھری پڑی ہیں۔ ہر جگہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کے ایمان،عمل اور فیصلوں کی بات کی ہے اور فرمایا کہ علی کی جنگ خندق میں ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے ۔علی رسول ﷺ کی جان، خون اور گوشت ہے اور رسول ﷺ کا خلیفہ، جانشین اور علمدار ہے اور علی کو رسول ﷺ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے ہے۔ علی وحی کی آواز سنتا ہے اور فرشتے کو دیکھتا ہے اور اسی طرح دسیوں آحادیث پیغمبر جو کہ آحادیث اور تفایسر کی کتب میں موجود ہیں اور اہل ذوق تفسیر مجمع البیان، برہان، المیزان اور صحاح ستہ، احقاق الحق، الغدیر،عبقات اور ینابیع المودۃ۔۔۔۔۔ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے علی علیہ السلام کو اب بھی عالم اسلام یہاں تک کہ تشیع میں بھی صحیح طرح نہیں پہچانا گیا اور ان کی شخصیت مجروح کو کیا گیا ہے اور ابھی بھی حضرت علی کا واسطہ محب غال اور مبغض قال سے ہے اور یہ آپ علیہ السلام کی مظلومیت کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کو ابھی تک درست نہیں پہچانا گیا اور نہ ہی لوگوں کی ان کی پہچان کرائی۔ اور جب تک ہم ان کی درست معرفت حاصل نہیں کریں گے تو ان کی پیروی اور اطاعت نہیں کر پائیں گے اور جب تک ان کی اطاعت نہیں کریں گے ان کے شیعہ نہیں بن پائیں گے اور اس سعادت اور کمال تک نہیں پہنچ سکیں گے جس کے ہم منتظر ہیں۔

اہل سنت کے ایک گروہ نے بے انصافی کرتے ہوئے حضرت علی کو عثمان، سعد ابن ابی وقاص، عبد الرحمن بن عوف اور خالد بن ولید جیسے ظالموں کی صف میں لا کھڑا کیا کہ یہ سب عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جب کہ کائنات کا اپنی نعمتوں سمیت خاک سے کیا مقابلہ؟ حضرت علی جیسی بزرگ اور معنوی شخصیت کہاں اور یہ منحرفین اور ظالمین کا گروہ کہاں؟ یہ وہ ہیں جنہوں نے کئی برسوں تک حضرت علی علیہ السلام کو منبر پر سب و شتم کیا ور ان کی اولاد اور سچے ماننے والوں کو شہید کیا اور ان کو تختہ دار پر لٹکایا اور زندان مین قید کیا۔

لیکن وہ روشن و چمکتا ستارہ، انسانیت کا مربی، پاک ومقدس، کرامات دکھانے والا اور لوگوں کو اپنے فضائل و کمالات متعجب کرنے والا باقی رہا۔ ایک گروہ نے ان ایک داستانی اور ذہنی شخصیت بنا کر پیش کیا اور محبت سے ان کے بارے میں اشعار اور کہانیاں بنائیں اور ان کو آسمانوں پر بھیج دیا اور زمین کی قیادت سے ان کو دور کر دیا اور پیروی کرنے والوں کی دسترس سے دور پہنچا دیا او ر حضرت کے لیے وہم پرست ،ذلیل اور جاہل شیعہ بنائے جو کہ نہ فقط حضرت علی علیہ السلام کے لیے باعث افتخار نہیں ہیں بلکہ ان کے لیے باعث ننگ و عار بنے۔

شاعروں نے ان کی آنکھوں، اور ابرو کے بارے میں باتیں کی اور ان کے قد و قامت اور بالوں کی سیاہی او ر رخساروں کی سفیدی کو بیان کیا جو کہ درویشوں کے ہاتھ لگے اور ان درویشوں کی فضولیات اور بیکار باتیں حضرت علی کے باعث ننگ اور عار بنیں۔ اہل نقاش نے ان کو سنہری گنبد اور تخت پر بٹھا دیا اور دو شیروں کی ان کے ساتھ بٹھا دیا اور دو تلواریں ان کے زانوں پر رکھ دیں اور علی علیہ السلام کو قتل و غارت کرنے والا پیش کیا اور عیسائیوں نے ان ساری صفات والا پایا تو ایک بد صورت قیافہ اور بے رحم شخص کے طور پر پیش کیا اور آپ کو جنگی اوزار جیسا کہ زرہ، تلوار وغیرہ ان کی پہنا دی تاکہ لوگوں کو بتا سکیں کہ اسلام ایک قتل و غارت اور بے رحم دین ہے اور یہ اس دین کے امام ہیں۔

کچھ صوفیوں نے بھی حضرت کے نام حق ھو کا نعرہ لگایا اور آپ علیہ السلام کو خدا سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور دسیوں بیہودہ باتیں ان کی طرف منسوب کیں اور ناد علی پڑھا اور ان کے ان نمازیں پڑھیں اور عیسائیوں اور ہندوں کی رسومات کو زندہ کیا اور توحید جس کے حضرت علی نے قربانیاں دی تھیں اس کو داغدار کر دیا اور مسجد سے خانقاہوں کی طرف چلے گئے اور وہم پرستی کی طرف چلے گئے۔

جاہل خطبا منبر پر بیٹھ گئے اور قرآنی آیات، آحادیث نبوی اور خود حضرت علی کے نہج البلاغہ کے خطبوں کی بجائے اشعار اور قصوں کو بیان کیا اور علی کو کامیاب زندگی کے لیے رہبر و رہنما کی بجائے فقط قبر کی پہلی رات اور پل صراط پر مدد کرنے والے کے طور پر پیش کیا اور ولایت علی رکھنے والے کو گناہوں کے باوجود کھلی چھٹی دے کر آپ علیہ السلام کو شفیع بنا دیا اور جاہل لوگوں کو گناہ کرنے کے لیے گستاخ بنا دیا۔ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل کو بڑھانے کے بجائے کم کر دیے۔ فضول داستانوں کے ذریعے تشیع کو ایک خرافات اور وہم پرست گروہ کے طور پر پیش کیا اور دشمنان کو موقع فراہم کیا کہ وہ شیعہ کو مشرک، مھدور الدم (جس کو قتل کرنا جائز ہو) سمجھنے لگے اور اس کے ذمہ دار احمد امینی، موسی جرال، فرید وجدی اور شہرستانی وغیرہ ہیں اور اگر علامہ امینی ،سید شرف الدین اور کاشف الغطا جیسے مصلح نہ ہوتے تو نہیں معلوم کیا کیا بلائیں اور بد بختیاں تشیع پر آتیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button