خطبات

خطبہ (۱۱۰)

(۱٠٩) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۰۹)

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْۤ اُحَذِّرُكُمُ الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا حُلْوَةٌ خَضِرِةٌ، حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ، وَ تَحَبَّبَتْ بِالْعَاجِلَةِ، وَ رَاقَتْ بِالْقَلِیْلِ، وَ تَحَلَّتْ بِالْاٰمَالِ، وَ تَزَیَّنَتْ بِالْغُرُوْرِ، لَا تَدُوْمُ حَبْرَتُهَا، وَ لَا تُؤْمَنُ فَجْعَتُهَا، غَرَّارَةٌ ضَرَّارَةٌ، حَآئِلَةٌ زَآئِلَةٌ، نَافِدَةٌ بَآئِدَةٌ، اَكَّالَةٌ غَوَّالَةٌ، لَا تَعْدُوْـ اِذَا تَنَاهَتْ اِلٰۤی اُمْنِیَّةِ اَهْلِ الرَّغْبَةِ فِیْهَا وَ الرِّضَآءِ بِهَا ـ اَنْ تَكُوْنَ كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالٰی سُبْحَانَهٗ: ﴿كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا۝﴾.

میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں، اس لئے کہ یہ (بظاہر) شیریں و خوشگوار، تر و تازہ و شاداب ہے، نفسانی خواہشیں اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں، وہ اپنی جلد میسر آ جانے والی نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو محبوب ہوتی ہے اور اپنی تھوڑی سی (آرائشوں) سے مشتاق بنا لیتی ہے۔ وہ (جھوٹی) امیدوں سے سجی ہوئی اور دھوکے اور فریب سے بنی سنوری ہوئی ہے۔ نہ اس کی مسرتیں دیرپا ہیں اور نہ اس کی ناگہانی مصیبتوں سے مطمئن رہا جا سکتا ہے۔ وہ دھوکے باز، نقصان رساں، ادلنے بدلنے والی اور فنا ہونے والی ہے، ختم ہونے والی اور مٹ جانے والی ہے، کھا جانے اور ہلاک کر دینے والی ہے۔ جب یہ اپنی طرف مائل ہونے والوں اور خوش ہونے والوں کی انتہائی آرزوؤں تک پہنچ جاتی ہے تو بس وہی ہوتا ہے جو اللہ سبحانہ نے بیان کیا ہے: ’’ (اس دنیاوی زندگی کی مثال ایسی ہے) جیسے وہ پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو زمین کا سبزہ اس سے گھل مل گیا اور (اچھی طرح پھولا پھلا) پھر سوکھ کر تنکا تنکا ہو گیا جسے ہوائیں (اِدھر سے اُدھر) اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

لَمْ یَكُنِ امْرُؤٌ مِّنْهَا فِیْ حَبْرَةٍ اِلَّاۤ اَعْقَبَتْهُ بَعْدَهَا عَبْرَةً، وَ لَمْ یَلْقَ مِنْ سَرَّآئِهَا بَطْنًا اِلَّا مَنَحَتْهُ مِنْ ضَرَّآئِهَا ظَهْرًا، وَ لَمْ تَطُلَّهُ فِیْهَا دِیْمَةُ رَخَآءٍ اِلَّا هَتَنَتْ عَلَیْهِ مُزْنَةُ بَلَآءٍ، وَ حَرِیٌّ اِذَا اَصْبَحَتْ لَهٗ مُنْتَصِرَةً اَنْ تُمْسِیَ لَهٗ مُتَنَكِّرَةً، وَ اِنْ جَانِبٌ مِّنْهَا اعْذَوْذَبَ وَ احْلَوْلٰی، اَمَرَّ مِنْهَا جَانِبٌ فَاَوْبٰی.

جو شخص اس دنیا کا عیش و آرام پاتا ہے تو اس کے بعد اس کے آنسو بھی بہتے ہیں اور جو شخص دنیا کی مسرتوں کا رخ دیکھتا ہے وہ مصیبتوں میں دھکیل کر اس کو اپنی بے رخی بھی دکھاتی ہے اور جس شخص پر راحت و آرام کی بارش کے ہلکے ہلکے چھینٹے پڑتے ہیں اس پر مصیبت و بلا کی دھواں دھار بارشیں بھی ہوتی ہیں یہ دنیا ہی کے مناسب ِ حال ہے کہ صبح کو کسی کی دوست بن کر اس کا (دشمن سے) بدلہ چکائے اور شام کو یوں ہو جائے کہ گویا کوئی جان پہچان ہی نہ تھی۔ اگر اس کا ایک جنبہ شیریں و خوشگوار ہے تو دوسرا حصہ تلخ اور بلا انگیز۔

لَا یَنَالُ امْرُؤٌ مِّنْ غَضَارَتِهَا رَغَبًا، اِلَّاۤ اَرْهَقَتْهُ مِنْ نَّوَآئِـبِهَا تَعَبًا، وَ لَا یُمْسِیْ مِنْهَا فِیْ جَنَاحِ اَمْنٍ، اِلَّاۤ اَصْبَحَ عَلٰی قَوَادِمِ خَوْفٍ، غَرَّارَةٌ غُرُوْرٌ مَّا فِیْهَا، فَانِیَةٌ فَانٍ مَّنْ عَلَیْهَا، لَا خَیْرَ فِیْ شَیْءٍ مِّنْ اَزْوَادِهَا اِلَّا التَّقْوٰی، مَنْ اَقَلَّ مِنْهَا اسْتَكْثَرَ مِمَّا یُؤْمِنُهٗ، وَ مَنِ اسْتَكْثَرَ مِنْهَا اسْتَكْثَرَ مِمَّا یُوْبِقُهٗ، وَ زَالَ عَمَّا قَلِیْلٍ عَنْهُ.

جو شخص بھی دنیا کی تر و تازگی سے اپنی کوئی تمنا پوری کرتا ہے تو وہ اس پر مصیبتوں کی مشقتیں بھی لاد دیتی ہے۔ جسے امن و سلامتی کے پر و بال پر شام ہوتی ہے تو اسے صبح خوف کے پروں پر ہوتی ہے۔ وہ دھوکے باز ہے اور اس کی ہر چیز دھوکا، وہ خود بھی فنا ہو جانے والی ہے اور اس میں رہنے والا بھی فانی ہے۔ اس کے کسی زاد میں سوا زادِ تقویٰ کے بھلائی نہیں ہے۔ جو شخص کم حصہ ليتا ہے وہ اپنے لئے راحت کے سامان بڑھا لیتا ہے اور جو دنیا کو زیادہ سمیٹتا ہے وہ اپنے لئے تباہ کن چیزوں کا اضافہ کر لیتا ہے۔ (حالانکہ) اسے اپنے مال و متاع سے بھی جلد ہی الگ ہونا ہے۔

كَمْ مِّنْ وَّاثِقٍۭ بِهَا قَدْ فَجَعَتْهُ، وَ ذِیْ طُمَاْنِیْنَةٍ اِلَیْهَا قَدْ صَرَعَتْهُ، وَ ذِیْۤ اُبَّهَةٍ قَدْ جَعَلَتْهُ حَقِیْرًا، وَ ذِیْ نَخْوَةٍ قَدْ رَدَّتْهُ ذَلِیْلًا، سُلْطَانُهَا دُوَلٌ، وَ عَیْشُهَا رَنِقٌ، وَ عَذْبُهَا اُجَاجٌ، وَ حُلْوُهَا صَبِرٌ، وَ غِذَآؤُهَا سِمَامٌ، وَ اَسْبَابُهَا رِمَامٌ، حَیُّهَا بِعَرَضِ مَوْتٍ، وَ صَحِیْحُهَا بِعَرَضِ سُقْمٍ، مُلْكُهَا مَسْلُوْبٌ، وَ عَزِیْزُهَا مَغْلُوبٌ، وَ مَوْفُوْرُهَا مَنْكُوْبٌ، وَ جَارُهَا مَحْرُوْبٌ.

کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے دنیا پر بھروسا کیا اور اس نے انہیں مصیبتوں میں ڈال دیا اور کتنے ہی اس پر اطمینان کئے بیٹھے تھے جنہیں اس نے پچھاڑ دیا اور کتنے ہی رعب و طنطنہ والے تھے جنہیں حقیر و پست بنا دیا اور کتنے ہی نخوت و غرور والے تھے جنہیں ذلیل کر کے چھوڑا۔ اس کی بادشاہی دست بدست منتقل ہونے والی چیز، اس کا سر چشمہ گدلا، اس کا خوشگوار پانی کھاری، اس کی حلاوتیں ایلوا (کے مانند تلخ) ہیں، اس کے کھانے زہر ہلاہل اور اس کے اسباب و ذرائع کے سلسلے بودے ہیں، زندہ رہنے والا معرض ہلاکت میں ہے اور تندرست کو بیماریوں کا سامنا ہے، اس کی سلطنت چھن جانے والی، اس کا زبردست زیردست بننے والا، مالدار بدبختیوں کا ستایا ہوا اور ہمسایہ لُٹا لُٹایا ہوا ہے۔

اَلَسْتُمْ فِیْ مَسَاكِنِ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ اَطْوَلَ اَعْمَارًا، وَ اَبْقٰۤی اٰثَارًا، وَ اَبْعَدَ اٰمَالًا، وَ اَعَدَّ عَدِیْدًا، وَ اَكْثَفَ جُنُوْدًا، تَعَبَّدُوْا لِلدُّنْیَا اَیَّ تَعَبُّدٍ، وَاٰثَرُوْهَا اَیَّ اِیْثَارٍ، ثُمَّ ظَعَنُوْا عَنْهَا بِغَیْرِ زَادٍ مُّبَلِّغٍ وَّ لَا ظَهْرٍ قَاطِعٍ؟ فَهَلْ بَلَغَكُمْ اَنَّ الدُّنْیَا سَخَتْ لَهُمْ نَفْسًۢا بِفِدْیَةٍ؟ اَوْ اَعَانَتْهُمْ بِمَعُوْنَةٍ؟ اَوْ اَحْسَنَتْ لَهُمْ صُحْبَةً‍‍؟ بَلْ اَرْهَقَتْهُمْ بِالْفَوَادِحِ، وَ اَوْهَنَتْهُمْ بِالْقَوَارِعِ، وَ ضَعْضَعَتْهُمْ بِالنَّوَآئِبِ، وَ عَفَّرَتْهُمْ لِلْمَنَاخِرِ، وَ وَطِئَتْهُمْ بِالْمَنَاسِمِ، وَ اَعَانَتْ عَلَیْهِمْ ﴿رَیْبَ الْمَنُوْنِ۝﴾، فَقَدْ رَاَیْتُمْ تَنَكُّرَهَا لِمَنْ دَانَ لَهَا، وَ اٰثَرَهَا وَ اَخْلَدَ اِلَیْهَا، حَتّٰی ظَعَنُوْا عَنْهَا لِفِرَاقِ الْاَبَدِ. وَ هَلْ زَوَّدَتْهُمْ اِلَّا السَّغَبَ؟ اَوْ اَحَلَّتْهُمْ اِلَّا الضَّنْكَ؟ اَوْ نَوَّرَتْ لَهُمْ اِلَّا الظُّلْمَةَ؟ اَوْ اَعْقَبَتْهُمْ اِلَّا النَّدَامَةَ؟ اَفَهٰذِهٖ تُؤْثِرُوْنَ؟ اَمْ اِلَیْهَا تَطْمَئِنُّوْنَ؟ اَمْ عَلَیْهَا تَحْرِصُوْنَ؟.

کیا تم انہی سابقہ لوگوں کے گھروں میں نہیں بستے جو لمبی عمروں والے، پائیدار نشانیوں والے، بڑی بڑی امیدیں باندھنے والے، زیادہ گنتی و شمار والے اور بڑے لاؤ لشکر والے تھے؟ وہ دنیا کی کس کس طرح پرستش کرتے رہے اور اسے آخرت پر کیسا کیسا ترجیح دیتے رہے۔ پھر بغیر کسی ایسے زاد و راحلہ کے جو انہیں راستہ طے کر کے منزل تک پہنچاتا، چل دئیے۔ کیا تمہیں کبھی یہ خبر پہنچی ہے کہ دنیا نے ان کے بدلہ میں کسی فدیہ کی پیشکش کی ہو؟ یا انہیں کوئی مدد پہنچائی ہو؟ یا اچھی طرح ان کے ساتھ رہی سہی ہو؟ بلکہ اس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے، آفتوں سے انہیں عاجز و در ماندہ کر دیا اور لوٹ لوٹ کر آنے والی زحمتوں سے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل انہیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے کھروں سے کچل ڈالا اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹایا۔ تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا تو اس نے (اپنے تیور بدل کر ان سے کیسی) اجنبیت اختیار کر لی، یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے جدا ہو کر چل دئیے اور اس نے انہیں بھوک کے سوا کچھ زادِ راہ نہ دیا، اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہرنے کا سامان نہ کیا اور سوا گھپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا۔ تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو؟ یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو؟ یا اسی پر مرے جا رہے ہو؟۔

فَبِئْسَتِ الدَّارُ لِمَنْ لَّمْ یَتَّهِمْهَا، وَ لَمْ یَكُنْ فِیْهَا عَلٰی وَجَلٍ مِّنْهَا، فَاعْلَمُوْا ـ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ـ بِاَنَّكُمْ تَارِكُوْهَا وَ ظَاعِنُوْنَ عَنْهَا، وَ اتَّعِظُوْا فِیْهَا بِالَّذِیْنَ ﴿قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ؕ ﴾، حُمِلُوْا اِلٰی قُبُوْرِهِمْ فَلَا یُدْعَوْنَ رُكْبَانًا، وَ اُنْزِلُوْا الْاَجْدَاثَ فَلَا یُدْعَوْنَ ضِیْفَانًا، وَ جُعِلَ لَهُمْ مِنَ الصَّفِیْحِ اَجْنَانٌ، وَ مِنَ التُّرَابِ اَكْفَانٌ، وَ مِنَ الرُّفَاتِ جِیْرَانٌ.

جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کیلئے یہ بہت بُرا گھر ہے۔ جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو کہ (ایک نہ ایک دن) تمہیں دنیا کو چھوڑنا ہے اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ: ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے؟ انہیں لاد کر قبروں تک پہنچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انہیں سوار سمجھا جائے، انہیں قبروں میں اتار دیا گیا مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے، پتھروں سے ان کی قبریں چن دی گئیں اور خاک کے کفن ان پر ڈال دیئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے۔

فَهُمْ جِیْرَةٌ لَّا یُجِیْبُوْنَ دَاعِیًا، وَ لَا یَمْنَعُوْنَ ضَیْمًا، وَ لَا یُبَالُوْنَ مَنْدَبَةً، اِنْ جِیْدُوْا لَمْ یَفْرَحُوْا، وَ اِنْ قُحِطُوْا لَمْ یَقْنَطُوْا، جَمِیْعٌ وَّ هُمْ اٰحَادٌ، وَ جِیْرَةٌ وَّ هُمْ اَبْعَادٌ، مُتَدَانُوْنَ لَا یَتَزَاوَرُوْنَ، وَ قَرِیْبُوْنَ لَا یَتَقَارَبُوْنَ، حُلَمَآءُ قَدْ ذَهَبَتْ اَضْغَانُهُمْ، وَ جُهَلَآءُ قَدْ مَاتَتْ اَحْقَادُهُمْ، لَا یُخْشٰی فَجْعُهُمْ، وَ لَا یُرْجٰی دَفْعُهُمْ.

وہ ایسے ہمسائے ہیں کہ جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر بادل (جھوم کر) ان پر برسیں تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی۔ وہ ایک جگہ ہیں مگر الگ الگ، وہ آپس میں ہمسائے ہیں مگر دور دور۔ پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں، قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے۔ وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں۔ ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے۔ نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے، نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے۔

اِسْتَبْدَلُوْا بِظَهْرِ الْاَرْضِ بَطْنًا، وَ بِالسَّعَةِ ضِیْقًا، وَ بِالْاَهْلِ غُرْبَةً، وَ بِالنُّوْرِ ظُلْمَةً، فَجَآؤُوْهَا كَمَا فَارَقُوْهَا، حُفَاةً عُرَاةً، قَدْ ظَعَنُوْا عَنْهَا بِاَعْمَالِهِمْ اِلَی الْحَیَاةِ الدَّآئِمَةِ وَ الدَّارِ الْبَاقِیَةِ، كَمَا قَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُهٗ ؕ وَعْدًا عَلَیْنَا ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِیْنَ۝﴾.

انہوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے اور گھر بار پر دیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک) ہو گئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرما یا ہے: ’’جس طرح ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے، اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کر کے رہیں گے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button