ترجمه قرآن کریم

سورہ حٰمۤ السجدہ۔ مکی۔ آیات ۵۴

بنام خدائے رحمن و رحیم

١۔ حا، میم۔

٢۔ خدائے رحمن و رحیم کی نازل کردہ (کتاب) ہے۔

٣۔ ایسی کتاب جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں ، ایک عربی(زبان کا) قرآن علم رکھنے والوں کے لیے ،

٤۔ بشارت دیتا ہے اور تنبیہ بھی کرتا ہے لیکن ان میں سے اکثر نے منہ پھیر لیا ہے پس وہ سنتے نہیں ہیں۔

٥۔ اور وہ کہتے ہیں : جس چیز کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے اس کے لیے ہمارے دل غلاف میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بھاری پن (بہرا پن) ہے اور ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہے ، پس تم اپنا کام کرو، ہم اپنا کام کرتے ہیں۔

٦۔کہہ دیجئے : میں بھی تم جیسا آدمی ہوں ،میری طرف وحی ہوتی ہے کہ ایک اللہ ہی تمہارا معبود ہے لہٰذا تم اس کی طرف سیدھے رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور تباہی ہے ان مشرکین کے لیے ،

٧۔ جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور جو آخرت کا انکار کرتے ہیں۔

٨۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے یقیناً ان کے لیے نہ ختم ہونے والا ثواب ہے۔

٩۔ کہہ دیجئے : کیا تم اس ذات کا انکار کرتے ہو اور اس کے لیے مدمقابل قرار دیتے ہو جس نے زمین کود د دن میں پیدا کیا؟ وہی تو عالمین کا پروردگار ہے۔

١٠۔ اور اسی نے زمین میں اس کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکات رکھ دیں اور اس میں چار دنوں میں حاجتمندوں کی ضروریات کے برابر سامان خوراک مقرر کیا۔

١١۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا پھر آسمان اور زمین سے کہا: دونوں آ جاؤ خواہ خوشی سے یا کراہت سے ، ان دونوں نے کہا: ہم بخوشی آ گئے۔

١٢۔ پھر انہیں دو دنوں میں سات آسمان بنا دیے اور ہر آسمان میں اس کا حکم پہنچا دیا اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا اور محفوظ بھی بنایا، یہ سب بڑے غالب آنے والے ، دانا کی تقدیر سازی ہے۔

١٣۔ اگر یہ منہ پھیر لیں تو کہہ دیجئے : میں نے تمہیں ایسی بجلی سے ڈرایا ہے جیسی بجلی قوم عاد و ثمود پر آئی تھی۔

١٤۔ جب ان کے پاس پیغمبر آ گئے تھے ان کے سامنے اور پیچھے سے کہ اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو تو وہ کہنے لگے : اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتے نازل کرتا پس جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔

١٥۔ مگر عاد نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا: ہم سے بڑھ کر طاقتور کون ہے ؟ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ جس اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے زیادہ طاقتور ہے ؟ (اس طرح) وہ ہماری آیات کا انکار تے تھے۔

١٦۔ تو ہم نے منحوس ایام میں ان پر طوفانی ہوا چلا دی تاکہ ہم دنیاوی زندگی ہی میں انہیں رسوائی کا عذاب چکھا دیں اور آخرت کا عذاب تو زیادہ رسوا کن ہے اور ان کی مدد بھی نہیں کی جائے گی۔

١٧۔ اور (ادھر) ثمود کو تو ہم نے راہ راست دکھا دی تھی مگر انہوں نے ہدایت کی جگہ اندھا رہنے کو پسند کیا تو انہیں ان کے اعمال کے سبب ذلت آمیز عذاب کی بجلی نے گرفت میں لے لیا۔

١٨۔ اور ہم نے انہیں بچا لیا جو ایمان لے آتے تھے اور تقویٰ اختیار کرتے تھے۔

١٩۔ اور جس دن اللہ کے دشمن جہنم کی طرف چلائے جائیں گے تو انہیں روک لیا جائے گا۔

٢٠۔ یہاں تک کہ جب سب وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی کہ وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔

٢١۔ تو وہ اپنی کھالوں سے کہیں گے : تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی؟ وہ جواب دیں گی: اسی اللہ نے ہمیں گویائی دی ہے جس نے ہر چیز کو گویائی دی اور اسی نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اور تم اسی کی طرف پلٹا جاؤ گے۔

٢٢۔ اور تم (گناہ کے وقت) اپنے کان کی گواہی سے اپنے آپ کو چھپا نہیں سکتے تھے اور نہ اپنی آنکھوں اور نہ اپنی کھالوں کی (گواہی سے ) بلکہ تمہارا گمان یہ تھا کہ اللہ کو تمہارے بہت سے اعمال کی خبر نہیں ہے۔

٢٣۔ اور یہ تمہارا گمان تھا، جو گمان تم اپنے پروردگار کے بارے میں رکھتے تھے اسی نے تمہیں ہلاک کر دیا اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں ہو گئے۔

٢٤۔ پس اگر وہ صبر کریں تو بھی ان کا ٹھکانا آتش ہے اور اگر وہ معذرت کریں تو ان کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔

٢٥۔ اور ہم نے ان کے ساتھ ایسے ہم نشین لگا دیے تھے جو انہیں ان کے اگلے اور پچھلے اعمال کو خوشنما بنا کر دکھاتے تھے اور ان پر بھی وہی فیصلہ حتمی ہو گیا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی امتوں پر لازم ہو چکا تھا، وہ یقیناً خسارے میں تھے۔

٢٦۔ اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ کہتے ہیں : اس قرآن کو نہ سنا کرو اور اس میں شور مچا دیا کرو تاکہ تم غالب آ جاؤ۔

٢٧۔ پس ہم کفار کو ضرور بالضرور سخت عذاب چکھائیں گے اور انہیں ان کے برے اعمال کی بدترین سزا ضرور دیں گے۔

٢٨۔ یہی آتش دشمنان خدا کی سزا ہے۔ اس میں ان کے لیے ہمیشہ کا گھر ہے ، یہ اس بات کی سزا ہے کہ وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔

٢٩۔ اور کفار کہیں گے : اے ہمارے پروردگار! جنوں اور انسانوں دونوں کو ہمیں دکھا دے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تاکہ ہم انہیں پاؤں تلے روند ڈالیں تاکہ وہ خوار ہوں۔

٣٠۔ جو کہتے ہیں : ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں ) نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔

٣١۔ ہم دنیا میں بھی تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی (تمہارے ساتھی ہیں ) اور یہاں تمہارے لیے تمہاری من پسند چیزیں موجود ہیں اور جو چیز تم طلب کرو گے وہ تمہارے لیے اس میں موجود ہو گی،

٣٢۔اس ذات کی طرف سے ضیافت کے طور پر جو بڑا بخشنے والا رحیم ہے۔

٣٣۔ اور اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا: میں مسلمانوں میں سے ہوں

٣٤۔ اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے ، آپ (بدی کو) بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عداوت تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔

٣٥۔ اور یہ (خصلت) صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔

٣٦۔ اور اگر آپ شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ محسوس کریں تو اللہ کی پناہ مانگیں وہ یقیناً خوب سننے والا، جاننے والا ہے۔

٣٧۔ اور رات اور دن اور سورج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں ، تم نہ تو سورج کو سجدہ کرو اور نہ ہی چاند کو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ، اگر تم صرف اللہ کی بندگی کرتے ہو۔

٣٨۔ پس اگر یہ لوگ تکبر کرتے ہیں تو جو (فرشتے ) آپ کے پروردگار کے پاس ہیں وہ رات اور دن اسی کی تسبیح کرتے ہیں اور تھکتے نہیں ہیں۔

٣٩۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ زمین کو جمود کی حالت میں دیکھتے ہیں اور جب ہم اس پر پانی برسائیں تو وہ یکایک جنبش میں آتی ہے اور پھلنے پھولنے لگتی ہے ، تو جس نے زمین کو زندہ کیا وہی یقیناً مردوں کو زندہ کرنے والا ہے ، وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔

٤٠۔ جو لوگ ہماری آیات کا انکار کرتے ہیں وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں کیا وہ شخص جو جہنم میں ڈالا جائے بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن کے ساتھ حاضر ہو گا؟ تم جو چاہو کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے یقیناً خوب دیکھنے والا ہے۔

٤١۔ جو لوگ اس ذکر کا انکار کرتے ہیں جب وہ ان کے پاس آ جائے ، حالانکہ یہ معزز کتاب ہے۔

٤٢۔ باطل نہ اس کے سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے ، یہ حکمت والے اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے۔

٤٣۔ آپ سے وہی کچھ کہا جا رہا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا ہے ، آپ کا رب یقیناً مغفرت والا اور دردناک عذاب دینے والا ہے۔

٤٤۔ اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی زبان میں قرار دیتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیات کو کھول کر بیان کیوں نہیں کیا گیا؟ (کتاب) عجمی اور (نبی) عربی؟ کہہ دیجئے : یہ کتاب ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بھاری پن (بہرا پن) ہے اور وہ ان کے لیے اندھا پن ہے ، وہ ایسے ہیں جیسے انہیں دور سے پکارا جاتا ہو۔

٤٥۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر آپ کے رب کی بات پہلے طے نہ ہوئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ ہو چکا ہوتا اور وہ اس (قرآن) کے بارے میں شبہ پیدا کرنے والے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔

٤٦۔ جو نیک عمل کرتا ہے وہ اپنے لیے ہی کرتا ہے اور جو برا کام کرتا ہے خود اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور آپ کا پروردگار تو بندوں پر قطعاً ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

پارہ : اِلیہ یرد ٢٥

٤٧۔ قیامت کا علم اللہ کی طرف پلٹا دیا جاتا ہے ، اس کے علم کے بغیر نہ کوئی پھل اپنے شگوفوں سے نکلتا ہے اور نہ کوئی مادہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ جنتی ہے اور جس دن وہ انہیں پکارے گا: کہاں ہیں میرے شریک؟ تو وہ کہیں گے : ہم آپ سے اظہار کر چکے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی گواہی دینے والا نہیں ہے۔

٤٨۔ اور جنہیں وہ پہلے پکارتے تھے وہ ان سے ناپید ہو جائیں گے اور وہ سمجھ جائیں گے کہ ان کے لیے کوئی خلاصی نہیں ہے۔

٤٩۔ انسان آسودگی مانگ مانگ کر تو تھکتا نہیں لیکن جب کوئی آفت آ جاتی ہے تو مایوس ہوتا ہے اور آس توڑ بیٹھتا ہے۔

٥٠۔ اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے اپنی رحمت کی لذت چکھائیں تو ضرور کہتا ہے :یہ تو میرا حق تھا اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت آنے والی ہے اور اگر میں اپنے رب کی طرف پلٹایا بھی گیا تو میرے لیے اللہ کے ہاں یقیناً بھلائی ہے ، (حالانکہ) کفار کو ان کے اعمال کے بارے میں ہم ضرور بتائیں گے وہ کیا کچھ کرتے رہے ہیں اور انہیں بدترین عذاب چکھائیں گے۔

٥١۔ اور جب ہم انسان کو نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا اور اکڑ جاتا ہے اور جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔

٥٢۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ کہ اگر (یہ قرآن) اللہ کی طرف سے ہو، پھر تم اس سے انکار کرو تو اس شخص سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اس (کی مخالفت) میں دور تک نکل گیا ہو؟

٥٣۔ ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقیناً وہی (اللہ) حق ہے ، کیا آپ کے پروردگار کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے ؟

٥٤۔ آگاہ رہو! بے شک یہ لوگ اپنے رب کی ملاقات کے بارے میں شک میں ہیں ، آگاہ رہو! یقیناً وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button