مقالات

وجود حضرت حجّت ؑ قرآن وا حادیث کی روشنی میں

        اللہ نے دنیا کا نظام کچھ اس طرح  رکھا ہے کہ یہ دنیا کبھی بھی حجت خدا کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتی ہے جیسا کہ احمد بن حنبل رسول اکرم ؐ سے روایت کرتے ہیں’’یہ زمانہ اور یہ ایام نہیں گزریں گے یہاں تک کہ ایک (اہل) عرب کے ہا تھو ں میں اقتدا ر آجا ئے ۔ ۱۱؎     

اس کے علا وہ قرآن مجید نے بھی اپنی تمام عظمتوں کے ساتھ امام زمانہ ؑ کا مختلف انداز میں تعارف کروایا ہے، جیسا کہ ارشاد با ریٔ تعالیٰ ہو تا ہے کہ ’ خدا وند عالم نے ایسے لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے ا ور نیک عمل انجام دیتے ہیں کہ انہیں آئندہ زمانہ میں ضرورزمین پر اپنا جا نشین بنا ئے گا …‘‘ ۱۲؎اور ایک دوسرے مقام پر فرما تا ہے’’ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ ہما رے لا ئق بندے ہی زمین کے وارث ہونگے ‘‘۱۳؎ اس کے علا وہ روا یتوں میں بھی ہم پڑ ھتے ہیں کہ ’’لولا الحجۃ لساخت الارض باہلھا‘‘۱۴؎  اگر خدا کی حجت نہ ہوتی تو زمین تمام چیزوں کے سا تھ فنا ہو جا تی  اس بنا ء پر خود اس دنیا کا باقی رہنا اس دعوے کی بہترین دلیل ہے کہ ابھی بھی حجت خدا با قی اور موجود ہے ۔

         استقرار حکومت اور عدل الٰہی:

        یہ مسلم ہے کہ صحیح معنوں میں اسلامی حکومت جب بھی تشکیل پا ئے گی توعدالت اسلا می کی بھی پا بندی ہوجا ئے گی ۔ ہم تاریخ میں بخوبی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کے نا م پر بہت سے حاکم بنے، بہت سی حکومتیں بنیں ، انتقام خون حسین ؑ کے نام پرکتنی جنگیں لڑی گئیں اور کتنے حاکموں سے ان کی حکومت چھین لی گئی ،المختصر یہ کہ گر چہ اسلام کے نام پر حکو متیں بنی لیکن چونکہ وہاں عدالت اسلامی کا خیال نہ رکھا گیا لہٰذا انہیں حقیقی معنوں میں اسلامی حکومت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ حکو مت اسلامی ،فساد پھیلا نے والی جنگ کے نتیجہ میں ہا تھ آئی حکومت کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ وہ تو آپس میں صلح و صفا ئی اور امنیت و امان کی ضامن ہے ، جیسا کہ ہمیں رسول کریم ؐ کی حیات طیبہ کے متعلق ملتا ہے کہ ’’ مدینہ میں رہنے وا لے تمام قبا ئل آپس میں اختلافات اورجھگڑوں میں ہی دن  بسر کرتے تھے اور ان اختلافا ت کا غلط فا ئدہ اٹھا تے ہو ئے یہود ی ،  سیاسی طور پر ان پر مسلط ہو گئے تھے ۔پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد لو گوں کی رہبری قبول کرکے ان کے درمیان پیمان اخوت ( بھا ئی چارگی) کے ذریعہ ان کے در میان آپسی میل و محبت کو قا ئم کر دیا ۔۱۵؎

        ’’ ہیکل‘‘  اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ اگر یہ فکر کی جا ئے کہ منافقوں نے اوس و خزرج اور مہا جروانصارکو آپس میں لڑا نے کے لئے اور ان کے درمیان تفرقہ اور دشمنی پھیلا نے کے لئے کتنی کوششیں کیںتو ہم خودہی متوجہ ہو نگے کہ اس طرف سے کتنی دقت نظر اور حسن تشخیص اور دور اندیشی سے استفادہ کیا گیا ہے…۱۶؎  اور اس طرح آپ ؐ نے لوگوں کو فتنہ سے بچا لیا ۔

         اگر ہم اسی طرح سیرت سے سیرت ملا ئیں تو دیکھیں گے کہ نبی اکرمؐ کی رحلت کے بعد ایک بڑا اختلاف امت میں ظاہر ہوا ، لیکن امام علیؑ نے بلندہمت کا مظاہرہ کرتے ہو ئے،خلافت ظاہری سے بھی بلند ذمہ داری کو سنبھال لیا اور بجائے اس کے کہ جنگ و جدال کی  باتیں کریں ، یا خود کو مسلمانوں سے کنارے کرلیں اور سازش کرنے والوں سے مقابلہ کریں آپ ؑنے خدا کے تقوے کے ذریعہ لوگوں کو تفرقہ سے اتحاد کی طرف بلایا اور جو افراد جا نتے بوجھتے ہو ئے یا بغیر سمجھے ہو ئے بیعت کر بیٹھے تھے انہیں نصیحت کی کہ کشتیٔ نجات کے ذریعہ فتنہ کا مقابلہ کریں ۔ (اور اس طرح پیغمبراکرم ؐ کی معروف حدیث کی طرف اشارہ کیا کہ اہل بیت کی مثال کشتیٔ نوح کی طرح ہے ) … پھر آپ ؑنے ایک جملہ فرمایا کہ(فتنہ کے ایسے ماحول میں ) جو تمام قوتیں رکھتے ہو ئے قیام کرے وہ کا میاب ہو گا ، اور جو بحد کا فی قوت نہ رکھنے کے سبب کنا رہ کشی کرلے وہ مومنین کو آرام پہنچائے گا ۔۱۷؎ اور اس طرح آپؑ نے قیام کی مو قعیت کو پوری دنیا کے سامنے واضح کر دیا ،صلح کے موقعوں کو بھی واضح کردیا ،جنگ کے موقعوں کو بھی روشن کردیا ۔ یہیں سے ہم امام زمانہؑ کے قیام کا فلسفہ سمجھ سکتے ہیںچونکہ زمانہ بھی فتنہ کا رہے گا اور آپؑ کے ناصروں کی تعداد بھی کامل رہے گی، اس وجہ سے آپ قیام کریں گے اور کا میابی کے بعد پوری دنیا پر حکو مت کریں گے ۔ جیسا کہ امیر المومنین ؑ فرما تے ہیں کہ ’’جب وہ وقت آئے گا تو دین کا رہبر قیام کرے گا تو مسلمان آپ ؑکے گرد(  آپ کی نصرت کے لئے) خزاں کے بادلوں کی طرح جمع ہو جا ئیں گے‘‘ ۱۸؎ اس وقت کے حالات بیان کرتے ہو ئے مو لا امیر المومنین ؑ فرماتے ہیں ’’ کل کا وہ آنے والا دن جس کی تمہیں کو ئی پہچان نہیں ہے ، اس وقت زمامداری ،حاکمیت کی صورت اپنا لے گی جو آج کل کے حکو متی خاندانوں سے الگ ہے وہ مزدوری اور حکومت کا کام کرنے والوں کو ان کے غلط کا موں پر سزا دیں گے ، زمین اپنے تمام خزانے ان کے لئے ظاہر کردے گی اور اس کے مالک بھی آپ ؑہی ہونگے وہ حقیقی حکو مت کی عادلانہ روش تمہارے درمیان ظاہر کریں گے اور کتاب خدا اور سنت پیغمبرؐ کو زندہ کریں گے …۱۹؎ ایک اور مقام پر آپ ؑکے قیام کا ذکر فرما تے ہیں کہ: پھر فتنوں کو نابود کرنے کے لئے ایک گروہ اٹھے گا ، ان کی تلواریں صیقل کی ہو ئی ہونگی ۔ان کی آنکھیں قرآن کے نور سے منور ہونگی اور ان کے کا نوں میں قرآن کی تفسیریں رچی بسی ہونگی اور پھر صبح و شام حکمت کا ماحول رہے گا۔۲۰؎

         ظہور امام علیہ السلام سے قبل خوفناک حالات : 

        جیسا کہ رسول اکرم ؐفرما تے ہیں ’’ مہدی میری اولاد میں سے ہیں وہ غیبت اختیار کریں گے اور جب وہ ظہور کریں گے تو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہو ئی تھی ۔ ۲۱؎ اس حدیث کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ وہ زمانہ جب امام ؑکا ظہور قریب ہو گا تو کس حد تک ظلم و جور سے بھرا ہوا ہو گا ۔ اس زمانہ کا اگر مزید جا ئزہ لینا ہو تو مولا ئے      کا ئنات کے اس کلام سے بخوبی اندازہ لگایاجا سکتا ہے جس میں آپ ؑفرما تے ہیں:یہ ایسے ایام ہیں جن میں مومن کے لئے تلوار کا وار (برداشت کرنا)حلال چیز حاصل کرنے سے آسان ہے ۔جس میں لینے والے کا اجر دینے والے کے اجر سے زیادہ ہے اور شراب پیئے بغیر ہی تم لوگ مست ہو جا ئو گے ، نعمتوں کی فراوانی کے باوجود بغیرکسی زبردستی کے قسم کھا ئو گے اور بغیر بے چارگی کے جھوٹ بو لو گے یہ ایسے دن ہیں کہ جب بلا ئیں تمہیں ڈسیںگی، جس طریقہ سے پا لان اونٹوں کو زخمی کر دیتے ہیں ۔آہ!وہ رنج اور اندوہ کتنا طولا نی اور گشایش کی امید کتنی دور ہے ۔ ۲۲؎

        ساتھ دینے کی وصیت :

         جب تک کو ئی قوم خود سے کو ئی تبدیلی نہ چاہے اور خود کو تبدیل نہ کرے اللہ بھی اس کی حا لت نہیں بدلتا ہے ۔۲۳؎ لہٰذا اس سنت خدا کی روشنی میں ہم آسانی سے اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ اگر ہم واقعی طور پر اس زمانہ کو بدلنا چاہتے ہیں اور بد بختیوں کو خوش قسمتی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی کچھ کرنا ہو گا، چونکہ یہ ہما ری ذمہ داری ہے، اور اگر ہم لا پرواہ اور تماشائی کی حیثیت سے کھڑے صرف تماشا دیکھتے رہے تو پھر اس گھٹا ٹوپ اند ھیرے زمانہ کا شر لگا تار پھیلتا ہی چلا جا ئے گا اور اس کے ذمہ دار ہم بھی ہونگے ۔

        لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیئے جس کی وجہ سے خدا وند عالم اپنے اس خاص نمایندہ کے ذریعہ ہماری رہنما ئی اور رہبری کرے؟ حضرت سید الاوصیا  ؑاس با رے میں فرما تے ہیں کہ : ’’ اے لوگو! گنا ہوں کے بوجھ سے پر ہیز کرواور اپنے امام ؑ کو تنہا نہ چھوڑدو کہ جس کے سبب تمہیں اپنی ملامت کرنی پڑے ،فتنوں سے دور رہو اور سیدھے راستے پر چلو اور وہ راستے جو فتنوں کی طرف کھینچتے ہیں ان سے اجتناب کرو ۔ میری جان کی قسم !مومن فتنہ کی آگ میں پڑکر نابود ہو جا ئے گا ،لیکن اسلام کا جھوٹا دم بھرنے والے امان میں رہیں گے ۔اور بیشک میں تمہارے درمیان اس چراغ کی مانند ہوں جو تاریکیوں میں روشن رہتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رخ کرتا ہے وہ اس کے نور سے فائدہ اٹھا تا ہے (اور پھر آپؑ نے فرمایا) اے لوگو! میری باتیں سن لو ،اور اچھے سے یاد کرلو ،اپنے دل کے کانوں کو کھول لو تا کہ میری کہی بات سمجھ سکو۔ ۲۴؎

        پرہیز گاری کی سفارش:

        پھر امام ؑ زہد کی جانب متوجّہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں’’اے لوگو ! تمہیں پر ہیز گاری اور نعمتوں، خداداد تحفوں اور ان احسانوں کی بہ نسبت جو تمہیں حاصل ہو ئے ہیں ،بے حساب شکر بجالانے کی وصیت کرتا ہوں … تم نے اپنے عیبوں (کمیوں) کو ظا ہر کیا اور اس نے پردہ پوشی کی ،تم نے خود کو عذاب پا نے والا بنا دیا اور اس نے تمہیں مہلت دی ہے۔ ‘‘۲۵؎     

        موت یاد رکھنے کی اہمیت  :

        انسان اکثر اس بنا ء پر گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کہ وہ موت کو بھول چکا ہوتا ہے ،اور اسے اپناا نجام یاد نہیں ہوتا ہے۔اس بناء پر موت کو یاد رکھنا انسان کو بہت سے گناہوں سے بچا سکتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے ’’وہ کہ جس نے موت و حیات کو اس لئے خلق کیا ہے تاکہ وہ تمہارا امتحان لے سکے (اورجان سکے)کہ تم میں سے کون نیک عمل انجام دینے والاہے …۲۶؎اور اس طرح دوسری آیات بھی ،موت وحیات کا وجود اور اس کا فلسفہ بیان کرتی ہیں جو انسان کی نصیحت اور اسے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے  ۔اس بنا ء پر مولا ء ِکائنات  ؑ نے بھی لوگوں کو اس حقیقت کی یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’لوگو! میں تمہیں موت کو یاد رکھنے کی سفارش کرتا ہوں ،موت سے بہت کم غفلت کرو ۔(تعجب ہے)تم موت کو کیسے بھول جا تے ہو حالانکہ وہ تو تمہیں نہیں بھولتی ہے ؟!اور کس طرح تم لالچ کرتے ہوحالانکہ وہ مہلت بھی نہیں دیتی ہے ؟!!اسلاف کی موتیں تمہارے لئے کا فی ہیں اوروہ جن چیزوں میں مشغول تھے سب چھوٹ گیئں…اب ان کے پاس نہ قدرت ہے کہ برے اعمال سے دوری اختیار کریں اور نہ ہی وہ نیک کا موں میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔ وہ دنیا سے ما نوس ہو نا چا ہتے تھے، جس نے انہیں مغرور کردیا۔ وہ اس پر پو راطمینان کرتے تھے آخر کار اس نے مغلوب کر دیا ۔۲۷؎

        نیکیوں میں جلدی کرنا :

        چونکہ موت کا ایک وقت معین ہے ،لہٰذا وہ اپنے وقت پر ہی آتی ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی تاخیر نہیںہے ،وہ لازم اور ضروری ہے، لہٰذا ٹل بھی نہیں سکتی ہے ،وہ مخفی ہے لہٰذا اس کا وقت بھی معلوم نہیں ہوتا ہے ،ایک حدیث میں سرور کائنات ارشاد فرماتے ہیں’’من مات علیٰ شی ء  بعثہ اللہ علیہ ‘‘۲۸؎ جو جس حالت پر مرتا ہے خدا اسی حالت میںاسے محشور کرتا ہے ۔اس وجہ سے ہمیں اور زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گذر جائے، تواس وقت کفِ افسوس ملنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کارِ خیر میں مشغول رہنا چاہئے اور نصیحت کرنے والے کی نصیحت سننا چاہئے کیونکہ کون سا لمحہ انسان کا آخری لمحہ ہے، اس کا علم اسے بھی نہیں ہے۔

        اسی مطلب کی طرف مولا امیر المومنین ؑاشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’خدا تم پر رحمتیں نازل کرے! اپنی اس منزل کی طرف جانے میں سبقت کرو جسے بسانے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ صبر و استقامت سے خدا کی نعمتیں حاصل کرو اور بغاوت اور نافرمانی نہ کرو چونکہ آنے والا کل ، آج سے بہت نزدیک ہے … ۲۹؎

اور اگر ہم ان تمام نصیحتوں پر عمل کر یں اسی صورت میں ہم امام زمانہ  ؑکے ظہور کے صحیح انتظار کرنے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں 

                                       اللہم ارزقنا توفیق الطاعۃ و بعدالمعصیہ و صدق النیۃ

سید فرحت عباس رضوی

حوالہ جات

(۱۱)  مسند احمد بن حنبل ،ج  ۱، ص  ۳۷۶

(۱۲)نور ؍۵۵

(۱۳)  انبیاء ؍۱۰۵

۱۴) اصول کا فی، ج  ۱ ، باب الحجۃ

( ۱۵)السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ،ج ۱ ص۵۰۱

(۱۶)زندگی ٔ پیامبر ؐ ، ص ۱۷۷

(۱۷) نہج البلاغہ ۔ خطبہ ۵

(۱۸)نہج البلاغہ ،غریب الکلام /۱

(۱۹)خطبہ ،  ۱۳۸/۲

(۲۰)خطبہ ، ۱۵۰/۲

(۲۱)منتخب الاثر ۱؍۲۴۹؍۸

(۲۲)خطبہ؍ ۱۸۸ ؍۱

(۲۳)رعد؍۱۱

۲۴)خطبہ /۱۸۸

(۲۵)خطبہ/۱۸۸

۲۶)الملک/۲

(۲۷)خطبہ/۱۸۸

(۲۸)کنز العمّال۴۲۷۲۱

(۲۹)خطبہ ؍۱۸۸

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button