
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اظہاریہ
قرآن کے بعد اسلامی کتب میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل کتاب نہج البلاغہ ہے کہ جس کے مطالب زمانے میں رونما ہونے والے حالات کے ساتھ باہمی سبازگاری کی وجہ سے آج بھی اتنی تر و تازگی اور جذابیت کے حامل ہیں کہ جو تقریباً چودہ سو سال پہلے تھے۔ ان مطالب کی جاودانی اور جذابیت پرنہ ہی تاریخ میں رونما ہونے والے حالات کے مد و جذر اپنا اثرچھوڑ سکے اور نہ ہی دشمنی اور عداوت کے شعلوں کی تمازت نے اثر ڈالا۔ بلکہ اس کے برعکس ان مطالب میں حقانیت پر مبنی اور موجود اخلاقی، انسانی اور الٰہی اصولوں کی مہکتی خوشبو نے نہ تنھا اپنے گلستان میں بسنے والوں کو معطر کیا بلکہ کوسوں دور بسنے والوں نے بھی بنی آدم کے لیے بنائے جانے والے قانون کی بنیاد اور اساس اسی کتاب کےایک خط کو قرار دیا، کہ جو اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مختلف موضوعات پر موجود مطالب کے بحر عمیق میں ایک موضوع جس پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے مختلف زاویوں سے اس کے خد و خال کو واضح کرکے، انسان کو مطالب کے عظیم سمندر کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، وہ ہے معاشرے کی قیادت اور رہبری۔ امام علی علیہ السلام نے اس موضوع سے متعلق مختلف تعبیروں جیسے امامت، امارت، حکومت، ولایت، قیادت، خلافت اور ان جیسے دوسرے مشتقات کے ذریعے وسیع پیمانے پر بحث کی ہے اور اس موضوع کی اہمیت کو بیان کیا ہے اور ایسے سنہری اصول بیان کیے ہیں کہ اگر کوئی معاشرہ ان پر عمل پیرا ہو جائے تو یقیناً وہ معاشرہ کسی جنت سے کم نہیں ہوگا۔
اس مختصر تحریر میں اسی موضوع پر حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں مختلف زاویوں سے بحث کی گئی ہے اور حضرت علی علیہ السلام کے کلام پر مشتمل جامع اور کامل کتاب یعنی نہج البلاغہ کو تحقیق کا مرکز دیتے ہوئے اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے۔
باب اول
(1): قیادت و رہبری کا معنی
قیادت عربی زبان کا لفظ ہے جو قود سے لیا گیا ہے یعنی کسی کے آگے چلنا، رہبری اور راہنمائی کرنا وغیرہ، جیسے کہا جاتاہے، قیادۃ الجیش یعنی لشکر کی کمانڈ اور رہبری کرنا یا قائد الجیش یعنی آرمی کمانڈر وغیرہ جو ایک آرمی کا کمانڈر، راہنما اور رہبر ہوتا ہے۔
روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے قائد الامۃ الی الجنۃ، یا دوسری تعبیر ہے کہ معراج کے موقع پر پیغمبراکرم ﷺ کو ایک قصر دکھایا گیا اور وحی کی گئی کہ یہ قصر حضرت علی علیہ السلام کا ہے کیونکہ ان میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں۔ ”انہ سید للمسلمین وامام المتقین و قائد الغرالمحجلین“۔ [1]
اور اس مختصر تحریر میں مراد قیادت کا عمومی معنی حکمرانی اور رہبری ہے اورحکمران بھی، یقیناً یہ حکمران اور رہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اور خوش بختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے ہم زیادہ تر رہبر اور حاکم جیسے الفاظ سے استفادہ کریں گے۔ یعنی ایک کلی معنی کرتے ہوئے رہبر اور قائد وہی حاکم اور پیشوا ہیں اور یہ مترادف الفاظ ہیں۔
(2): قیادت و رہبری کی اہمیت امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں
قیادت و رہبری کی ضرورت اتنی واضح اور آشکار ہے کہ جس کا کوئی عقل مند انسان انکار نہیں کرسکتا۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ ”انما انت منذر ولکلّ قوم ھاد“۔ [2] تم صرف ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی اور رہبر ہے۔
اسی طرح قرآن ناطق نے بھی نہج البلاغہ میں اس کی ضرورت اور اہمیت کو تقریبا 69 مقامات پر واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے، حضرت علی علیہ السلام انسانی معاشرے میں صالح رہبری اور قیادت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں: ”انہ لابدللناس من امیر بر او فاجر یعمل فی امرتہ المومن ویستمتع فیھا الکافر ویبلغ اللہ فیھا الاجل ویجمع بہ الفی ء ویقاتل بہ العدو وتامن بہ السبل ویؤخذبہ للضعیف من القوی حتی یستریح بر ویستراح من فاجر“۔ [3]
حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نظام انسانیت کے لیے ایک حاکم کا ہونا بہرحال ضروری ہے چاہے نیک کردار ہو یا فاسق کہ حکومت کے زیر سایہ ہی مومن کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے اور کافر بھی مزے اڑا سکتا ہے اور اللہ ہر چیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے اور مال غنیمت و خراج وغیرہ جمع کیا جاتا ہے اور دشمنوں سے جنگ کی جاتی ہے اور راستوں کو محفوظ کیا جاتا ہے، طاقتور سے کمزور کا حق لیا جاتا ہے تاکہ نیک کردار انسان کو راحت ملے اور بدکردار انسان سے آسایش میں ہوں۔ [4]
اگرچہ امیرالمومنین علیہ السلام کا یہ بیان ظاہراً خوارج کے اس پوچ عقیدہ کی نفی کے لیے بیان کیا گیا جو ان کے ذہن میں تھا کہ ”لاحکم الا للہ“۔ لیکن حقیت یہ ہے کہ علی علیہ السلام نے اس مختصر عبارت میں رہبری اور قیادت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ایک سنہری اصول دیا ہے کہ انسان ایک معاشرتی اور اجتماعی موجود ہے جو رہبری اور قیادت کے بغیر نہیں جی سکتا ہاں حکمرانوں اور رہبروں میں فرق ہے کبھی رہبر اور حاکم صالح افراد ہوتے ہیں اور کبھی فاسق اور فاجر۔ حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
”اماالامرۃ البرۃ فیعمل فیھا التقی واماالامرۃ الفاجرۃ فیتمتع فیھا الشقی“۔ [5] صالح اور نیک قیادت کے سائے میں نیک لوگ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرتے ہیں اور فاجر اور فاسق قیادت میں شقی اور بدبخت لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
مذکورہ بالامطالب کا مطلب یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں رہبری اور قیادت ایک ضروری امر ہے اگر ایک صالح اور ظلم و ستم سے پاکیزہ قیادت میسر نہ ہو تو یقیناً ایک فاسد حکومت قائم ہو جائے گی جس طرح کہ خود خوارج نے امام علی علیہ السلام کی قیادت اور رہبری کو ٹھکرایا اور ذوالثدیہ کی حکمرانی کے چنگل میں پھنس کر برحق امام کے خلاف شورش کر دی اور بعد میں بھی کسی رہبر اورحکمران کے بغیر نہ رہ سکے جو قیادت اور رہبری کی اہمیت کی روشن مثال ہے۔
قیادت و رہبری کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مولائے متقیان کے یہ بیانات کافی ہیں البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں ہے کہ عصر حاضر میں بعض مغربی مفکرین جیسے مارکس وبر، نے حکومت اور سیاسی نظام کے ایک پہلو کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے واضح غلطی کا شکار ہوا ہے اور حکومت اور سیاسی نظام کو سرمایہ داروں کا آلہ اور طبقاتی کشمکش کا سبب جانا ہے۔ [6] درحالانکہ خود یہی لوگ صاحب قدرت اورحکومت رہے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر مارکس کی بات عمومی ہے تو ان کی حکومتیں بھی اس میں شامل ہیں اور تیسری بات یہ کہ خدا پرست اور الٰہی لوگ جیسے حضرت علی علیہ السلام جنہوں نے واشگاف الفاظ میں تمام مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے، جہاں حکومت کی ضرورت اور اہمیت کو بیان کیا ہے وہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حکومت اور حکمرانی صالح اور ظلم و ستم سے پاک بھی ہو سکتی ہے اور فاسد بھی، ایک صالح حکمران اور رہبر کی صفات کیا ہے اور اس کے برعکس ایک فاسد اور فاجر حکمران کی خصوصیات کیا ہیں درحالانکہ دوسروں کی باتیں ان مطالب سے عاری ہیں۔
(3): قیادت اور رہبری کا فلسفہ
اگر انسان خطبہ شقشقیہ کو غور سے پڑھے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیادت اور رہبری کا فلسفہ کیا ہے۔ کیوں ایک معاشرہ بغیر رہبر کے نہیں رہ سکتا اگرچہ چند ایک حکمرانوں کے علاوہ باقی تمام نے اس فلسفہ کو بھلا کر اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ قیادت و رہبری کا فلسفہ وہی ہے جو امام علی علیہ السلام نے مدینہ کے لوگوں کے ہجوم کے بعد فرمایا کہ جو تیسرے خلیفہ کے قتل کے بعد جمع ہوا تھا: ”أماوالّذی فلق الحبۃ، وبرا النسمۃ، لولاحضورالحاضر، وقیام الحجۃ بوجود الناصر، ومااخذ اللہ علی العلماء الایقاروا علی کظۃ ظالم، لاسغب مظلوم، لالقیت حبلھا علی غاربھا“۔ آگاہ ہو جاؤ وہ خدا گواہ ہے جس نے دانہ کو شگافتہ کیا ہے اور ذی روح کو پیدا کیا ہے کہ اگر حاضرین کی موجودگی اور انصارکے وجود سے حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور اللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پر چین سے نہ بیٹھنا تو میں آج بھی اس خلافت کی رسی کو اسی کی گردن پر ڈال کر ہنکادیتا۔ [7]
جی ہاں اگر مارکس جیسے لوگ اس قیادت اور رہبری کے فلسفہ کو جان لیں تو کبھی بھی اس کو سرمایہ داروں کا آلہ کار نہ کہتے، کیونکہ امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں حکومت کو قبول کرنا یعنی ایک سنگین ذمہ داری کو اپنے عہدہ لینا ہے اگروہ ذمہ داری انسان قبول نہ کرے یا نہ کرسکتا ہو تو خود حکومت کی وقعت امام کی نظر میں امام کا اسی خطبے کا اگلا جملہ ہے کہ فرمایا: ”ولالفیتم دنیاکم ھذہ ازھدعندی من عفطۃ عنز!“۔ اور تم دیکھ لیتے کہ تمھاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے۔ [8]
(4): حکمرانوں کی اقسام
جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے کہ انسان ایک معاشرتی موجود ہے کہ جو کسی حکومت اور رہبری کے بغیر نہیں رہ سکتا اور اسی پیاس کو بجھانے کی خاطر کبھی اسے اچھے اور نیک رہبر نصیب ہوتے ہیں کہ جو انسانوں کو اخلاقی کمالات کے ساتھ ساتھ دنیوی عروج بھی نصیب کرتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جو انسان کی زندگی میں تاریکیوں کے اضافہ کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ اور یہ دونوں برابر نہیں ہیں، خود امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ”فانه لا سواء امام الهدی و امام الردی“۔ [9] کہ ہدایت اور سیدھا راستہ دکھانے والا رہبر اور امام، اور گمراہ کرنے والا امام ہرگز برابر نہیں ہو سکتے۔ بعض رہبر اور قائد سخت مشکلات کو بھی برداشت کرکے لوگوں کی دنیا اور آخر ت سنوارتے ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم ﷺ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ”ولیھم وال فاقام واستقام حتی ضرب الدین بجرانہ“۔ [10]
لوگوں کے امور کا ذمہ دار ایسا حاکم بنا جو خود بھی سیدھے راستہ پر چلا اور لوگوں کو بھی اسی راستہ پر چلایا یہاں تکہ دین محکم اور پائیدار ہوگیا۔
ایک اورخطبہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”امام من اتقی وبصیرۃ من اھتدی“۔ [11] (پیغمبر اکرم ﷺ) متقین کے امام اور طلب گاران ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے۔
خود امیرالمومنین علیہ السلام کہ جس نے عدل و انصاف کی جنگ لڑی اور پورے درد مندانہ طریقے سے حکومت کی باگ ڈور صرف اس لیے سنبھالی تاکہ مظلوم کو اس کا حق واپس دلایا جاسکے، ایسے رہبر کی مظلومیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ جو معاشرے میں حق و انصاف کی بنیادوں کو مستحکم کرنے اور مظلوموں کی مدد کرنے میں اپنا سب کچھ قربان کردے۔ جس کی سیرت اس کے قول کی بڑھ کر تصدیق کرے لیکن لوگ اس کے وجود کی نعمت سے غفلت کریں یقیناً بدبختی ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اس عظیم نعمت کا کفران کیا اور بالآخر حجاج بن یوسف ثقفی جیسے ظالم حکمران کا دور دیکھا۔ حضرت علی علیہ السلام اپنے حکومتی ہدف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”اللهم اِنّك تعلم اَنّه لم يكن الذى كان مِنّا منافسةً في سلطان و لَاالتِماس شى ءٍ من فضول الحُطام و لكن لنَرُدَّ المَعالم مِن دينك و نُظهِر الاِصلاح في بلادك، فيأمن المظلومون مِنْ عبادك و تقامُ المعطَّلةُ مِن حدودك“۔ [12]
خدایا! تو جانتا ہے کہ قیام اورحکومت سے ہمارا مقصد، قدرت کا عشق اور مال و دولت کا حصول نہیں ہے بلکہ ہدف صرف یہ ہے کہ تمہارے دین کو اس جگہ پر کہ جہاں تھا لوٹا سکیں اور تیرے شہروں میں اصلاح کرسکیں تاکہ تیرے مظلوم بندے امان میں رہیں اور تیری جن حدود کر ترک کر دیا گیا ہے ان کو قائم کر سکیں۔
اور دوسری طرف فاسد حکمران بھی ہیں جو صرف دنیا پرستی کے اسیر ہیں جنہوں نے حکمرانی کو ہدف قراردیتے ہوئے اس تک پہنچنے میں سب جائز و ناجائز کو انجام دیا۔ وہ تمام کام جن کی دین اسلام کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار بھی اجازت نہیں دیتیں ان کو بھی کر گزرنے میں ذرا برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کی اور زندگی کے چار روز اسی غفلت میں گزار دیئے۔ جنہوں نے نہ صرف لوگوں پر ظلم کیا بلکہ اپنے اوپر بھی ظلم و ستم کیا۔
امیرالمومنین ایسے ظالم اور جابر حاکم کے بارے میں رسول اکرم ﷺ سے نقل کرتے ہوئے، ارشاد فرماتے ہیں: ”یؤتی یوم القیامۃ بالامام الجائر ولیس معہ نصیر ولاعاذرفیلقی فی نار جھنم فیدورفیھا کما تدورالرحی ثم یرتبط فی قعرھا“۔ [13] قیامت کے دن ظالم رہبر کا پیش کیا جائے گا جس کا اس دن کوئی مددگار نہیں ہوگا اور نہ ہی عذر خواہی قبول کرنے والا، اس کو جہنم کے شعلوں میں جھونک دیا جائے گا اور وہاں چکی کی طرح چکر کھائے گا اور اس کے بعد اس کو قہر جھنم میں جکڑ دیا جائے گا۔
حضرت علی علیہ السلام کا اصلی درد اور غم یہ تھا کہ افسوس ہے کہ لوگ نیک اور صالح رہبری اور قیادت کو نہ صرف قبول نہ کریں بلکہ اس کو کمزور بنانے کے لیے کمر باندھ لیں جس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ فاسق اور فاجر حکمران مسلط ہو جائیں گے۔ امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔ ”ولکننی آسی ان یلی امرھذہ الامۃ سفھاؤھاوفجارھا فیتخذوا مال اللہ دولاوعبادہ خولا و الصالحین حربا والفاسقین حزبا“۔ [14]مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ امت کی زمام احمقوں اور فاسقوں کے ہاتھ چلی جائے وہ مال خدا کو اپنی املاک اور بندگان خدا کو اپنے غلام بنا لیں، نیک لوگوں سے جنگ کریں اور فاسق لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرلیں۔
شاید یہاں پر یہ سوال پیدا ہو کہ حقیقتاً صالح اور نیک رہبری تو امام معصوم انجام دے سکتا ہے کہ جس کی حکمرانی اورر ہبری میں عدل و انصاف قائم ہو سکتا ہے ایک عام انسان کیسے ایسی حکومت قائم کرسکتا ہے؟ جواب بہت سادہ ہے ہر حکمران جو عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے اپنی قدرت کو وسیلہ بنائے وہ ایسا کر سکتا ہے جس کے دل میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ ہو۔ یقیناً شریر اور مفسد لوگ اس کی حکومت میں ختم نہیں ہو سکتے لیکن ان کے خاتمے کے لیے اور عدل و انصاف کو قائم کرنے کے لیے کوشش تو کر سکتا ہے اور وہ صفات جو ایک رہبر میں ہونی چاہییں اگر ان کو اپنا لے تو اس کی شہرت بھی ایک عادل بادشاہ کے طورپر ہو سکتی ہے مسلمان تو دور کی بات آغاز اسلام میں نجاشی بادشاہ کے لیے پیغمبر اکرم ﷺکی زبانی یہ الفاظ کہ تم (مسلمانو) حبشہ چلے جاؤ وہاں کا حاکم عادل اور مہربان ہے نجاشی مسلمان نہیں تھا لیکن انسانی اصولوں کا پابند تھا۔
باب دوم
ایک رہبر اورحکمران کی صفات
یقینا ایک رہبر اورحکمران جو لوگوں کو دنیا اورآخرت کی سعادت دینا چاہتا ہے ان کی مشکلات کو دورکرنا چاہتاہے اس میں چند ایک ایسی صفات ہونی چاہییں جو اس کے عمل کی تصدیق کریں اورلوگوں کااعتماد اس پرباقی رہے ہم یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں ان صفات کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک وہ جو خود حاکم کی شخصی صفات ہیں اوردوسری وہ جو اس کے اوراسکی رعیت کے باہمی ارتباط کو بیان کرتی ہیں۔
الف: ذاتی صفات
(1) تذکیہ نفس
تذکیہ نفس کی افادیت کا کوئی منکر نہیں ہے کیونکہ جس موضوع کو خداوند نے گیارہ قسمیں کھانے کے بعد ذکر کیا ہو ”قد افلح من زکّٰھا وقدخاب من دسّٰھا“۔ [15] کہ سعادت اور کامیابی صرف اس کا مقدر بنے گی جو تذکیہ نفس کے زیور سے آراستہ ہوگا اس کی اہمیت میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں رہتی۔ تذکیہ نفس ہر انسان کے لیے ضروری ہے لیکن ایک رہبر اور راہنما کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت دوسروں کی نسبت بڑھ جاتی ہے کیونکہ انسان کی زندگی نشیب و فرازکا نام ہے اور تذکیہ نفس انسان کو اس سعادت اور شقاوت کے نشیب و فراز سے ڈھکی وادی سے نکال کر سعادت کے ساحل پر لاکھڑا کرتا ہے۔ کیونکہ انسان کا نفس ایک سرکش گھوڑے کی مانند ہے اگر تذکیہ نفس کے تازیانوں سے رام نہ کیا جائے تو انسان کے دامن میں بدبختی اور تباہی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ خصوصاً ایک رہبر اور راہنما کے لیے کہ جس کے کاندھے پر اپنے بوجھ کے ساتھ عوامی قافلے کی مہار بھی موجود ہے اسی لیے مولائے کائنات امیرالمومنین علیہ السلام مالک اشتر کو لکھے گئے خط میں ارشاد فرماتےہیں کہ: ”فلیکن احب الذخائر الیک ذخیرۃ العمل الصالح، فاملک ھواک، وشح ّ بنفسک عما لایحل لک“۔ [16] ؛ تمہارا محبوب ترین ذخیرہ عمل صالح کو ہانا چاہیے، خواہشات کو روک کر رکھو اور چیز حلال نہ ہو اس کے لیے نفس کو صرف کرنے سے بخل کرو۔
حضرت علی علیہ السلام نے اس بیان میں تذکیہ نفس پر بہت زور دیا ہے اور اس پر اصرار فرمایا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی کی سعادت میں قانون نافذ کرنے والوں کی لیاقت اور اہلیت خود قانون کی نسبت زیادہ مؤثر اور اثرانداز ہوتی ہے۔
امام علی علیہ السلام محمد بن ابی بکر کو مخاطب کرتے ہوئے ان لوگوں کے امتیازات کی طرف اشارہ فرماتےہیں جنہوں نے اپنے روحوں کو تذکیہ نفس اور تقویٰ کے زیور سے آراستہ کیا۔ امام فرماتے ہیں: ”واعلموا عباداللہ ان المتقین ذھبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرۃ فشارکوا اھل الدنیا فی دنیاھم، ولم یشارکوا اھل الدنیا فی آخرتھم، سکنوا الدنیا بافضل ماسکنت“۔ بندگان خدا! یاد رکھو کہ پرہیزگار لوگ دنیا اور آخرت کے فوائد لے کر آگے بڑھ گئے وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے، وہ دنیا میں بھی بہترین زندگی گزارتے رہے۔ [17] حضرت علی علیہ السلام مالک کو واجبات کی ادائیگی اور ان پر توجہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”امرہ بتقوی اللہ ،وایثارطاعتہ ،واتباع ما امر۔۔۔۔۔۔لایسعد احدالاباتباعھا ولایشقی الامع جحودھا واضاعتھا“۔ سب سے پہلا امر یہ ہے کہ اللہ سے ڈرو، اس کی اطاعت کرو اور جن فرائض و سنن کا اپنی کتاب میں حکم دیا ہے ان کا اتباع کرو کہ کوئی شخص ان کی اتباع کے بغیر نیک بخت نہیں ہو سکتا اور کوئی ان کے انکار اور ضائع کرنے کے بغیر شقی اور بد بخت نہیں ہو سکتا۔ [18]
حضرت علی علیہ السلام واجبات کی ادائیگی کو خاص اہمیت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”ولیکن فی خاصۃ ما تخلص بہ للہ دینک اقامۃ فرائضہ التی ھی لہ خاصۃ“۔ اور تمہارے وہ اعمال جنھیں صرف اللہ کے لیے انجام دیتے ہو ان میں سے سب سے اہم کام فرائض کی انجام دہی ہے خالصاً خدا کے لیے۔ [19]
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام اپنی فوج کے کمانڈر شریع بن ھانی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: ”اتق اللہ فی کل صباح ومساء۔ ۔۔۔۔۔سمت بک الاھواء الی کثیر من الضرر فکن لنفسک مائعا رادعا“۔ صبح و شام اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے نفس کو اس دھوکہ باز دنیا سے بچائے رہو اور اس پر کسی حال میں اعتبار نہ کرنا اور یہ یاد رکھنا کہ اگر تم نے کسی ناگواری کے خوف سے اپنے نفس کو بہت سی پسندیدہ چیزوں سے نہ روکا، تو خواہشات تم کو بہت سے نقصان دہ امور تک پہنچا دیں گی لٰہذا ہمیشہ اپنے نفس کو روکتے ٹوکتے رہو۔ [20]
2: علم و بصیرت
ایک رہبر اور راہنما کے لیے علم و بصیرت شرط ہے اور اسلامی تعلیمات میں اس کو ایک اصل کے طور پر قبول کیا گیا ہے اور مختلف مقامات پر اس بات کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ حکومتی امور ان اشخاص کے ذمہ لگائے جائیں جو ان کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہوں، اصول کافی میں مرحوم کلینی، شیخ صدوق اور شیخ طوسی نے عمر بن حنظلہ کے ذریعے امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ جس میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”مَنْ کانَ مِنکُمْ مِمَّنْ قَدْ رَوَی حَدیثَنا ونَظَرَ فی حَلالِنا وَحَرامِنا وعَرَفَ اَحْکامَنا فَلْیَرْضَوا بِهِ حَکَماً فَاِنّی قد جَعَلتُهُ عَلَیْکُم حاکماً“۔ [21] امام فرماتے ہیں کہ جو شخص تم میں سے ہماری حدیث کو بیان کرتا ہو اور ہمارے حلال و حرام میں صاحب نظر اور توجہ کرتا ہو اور ہمارے احکام کو جانتا ہو تو اس کو اپنا حاکم قرار دینا کہ تحقیق میں نے اسے تم پرحاکم قرار دیا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام ایک رہبر کے لیے علم اور آگاہی کے سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں: ”ثم انظر فی امورعمالک فاستعملھم اختبارا ولاتولھم محاباۃ واثرۃ فانھما جماع من شعب الجور والخیانۃ وتوخ منھم اھل التجربۃ والحیاء“۔ اس کے بعد اپنے عاملوں کے معاملات پر بھی نگاہ رکھنا اور انہیں امتحان کے بعد کام سپرد کرنا اور خبردار تعلقات یا جانبداری کی بنا پر عہدہ نہ دے دینا کہ یہ باتیں ظلم اور خیانت کے اثرات میں شامل ہیں اور دیکھو کہ جو تجربہ کار اور حیاء والے ہوں ان کو اختیار کرنا۔ [22]
کیونکہ ملکی سرمایہ کو اصراف سے بچانے کا ایک راستہ یہی ہے کہ حکومتی عہدے انہیں کے سپرد کیے جائیں جو اس کا عالم اور ماہر ہو ورنہ انجان وزیر حد سے زیادہ امکانات کو استعمال کرے گا اور اس کا نتیجہ بھی کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے بہت ضعیف ہوگا۔ ایک وزیر صنعت و تجارت اور دوسرے شعبوں میں اپنے قیمتی تجربات کے ذریعے بہت سی ملکی مشکلات کو حل کرسکتا ہے اور ضروری ہے کہ کسی کو ایک عہدے کے لیے منتخب کرنے سے پہلے اس کے سابقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا امتحان کیا جائے کہ وہ کتنا تجربہ رکھتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”والقدم فی الاسلام المتقدمۃ ،فنھم اکرم اخلاقا واصح اعراضا“۔ (مال عہدہ ان کو دینا) جن کو پہلے اسلام کے مورد میں خدمات ہوں کہ ایسے لوگ خوش اخلاق اور بے داغ عزت والے ہوتے ہیں۔ ان کے اندر فضول خرچی کی لالچ کم ہوتی ہے۔ [23]
(3): سادگی کے ساتھ زندگی بسر کرنا
رہبری اور حکمرانی کے عہدے کو قبول کرنے سے ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جو انسان کو ابھارتی ہیں کہ نچلے طبقہ کی طرح زندگی گزارے تاکہ ان کے درد کو سمجھ سکے اور پھر ان کی مشکلات کو دورکرنے کی کوشش کرسکے۔
حضرت علی علیہ السلام اس مقام پر اپنے عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں: ”وان امامکم قد اکتفی من دنیاہ بطمریہ ،ومن طعمہ بقرصیہ۔ الاوانکم لاتقدرون علی ذلک ،ولکن اعینونی بورع واجتہاد“۔ یاد رکھ کہ تیرے امام نے اس دنیا سے دو پرانے کپڑے اور دو روٹیوں پر راضی رہا ہے خدا کی قسم تم اس پر قدرت نہیں رکھتے لیکن پرہیز گاری اور کوشش کے ذریعے میری مددکرو۔ [24]
نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 209 میں امام علی علیہ السلام عاصم بن زیاد جو رہبانیت اختیار کر چکا تھا امام علیہ السلام نے اس کو نصیحت کی تو وہ حیران ہو گیا کہ امام علی علیہ السلام جیسا زاہد مجھے رہبانیت سے روک رہا ہے تو امام علی علیہ السلام نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ جس سے قیادت اور حکمرانی کا فلسفہ روز روش کی طرف آشکار ہے امام نے فرمایا: ”ان اللہ تعالی فرض علی آئمۃ العدل ان یقدروا انفسھم بضعۃ الناس کیلایتبیع بالفقیر فقرہ“۔ پروردگار نے آئمہ حق پر فرض کر دیا ہے کہ اپنی زندگی کا پیمانہ کمزور ترین انسانوں کو قرار دیں تاکہ فقیر اپنے فقر کی بنا پر کسی پیچ و تاب کا شکار نہ ہو۔ [25]
(4): ذہانت اور سیاسی بصیرت
رہبر کی صفات میں سے ایک جو اپنی جگہ پر حائز اہمیت ہے رہبر کی ذہانت اور سیاسی بصیرت ہے جس کی وجہ سے رہبر حسن تدبیر کے بغیر کاموں کو انجام نہیں دیے گا اور اہداف تک پہنچنے کے لیے چارہ جوئی کرے گا اور کاموں کو درست سمت میں چلائے گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی حسن تدبیر سے مصرکے حاکم سے کہا کہ جو سات سال خوشحالی کے ہیں ان میں کھانے کی اشیاء کو بچایا جائے۔ ان سات سالوں کے لیے جو آئندہ آئیں گے اورحضرت علی علیہ السلام کے کلام میں بھی ایسی چیز ملتی ہے کہ ایک حاکم ان صفات سے آراستہ ہونا چاہیے۔ غررالحکم میں حسن تدبیر کو حکمرانی کے قوام سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”من حسنت سياسته دامت رياسته“۔ [26] اسی طرح اگر حسن تدبیر نہ ہو تو اس کا لازمہ حکومت اور حکمرانی کا نابود ہونا ہے: ”سوء التدبير سبب التدمير“۔ [27]
اسی طرح جب مصر کی حکومت کے لیے مالک اشتر کا انتخاب کیا تو مختلف وزراء کو انتخاب کرنے کے بارے میں فرمایا: ”و اجعل لراس کل امر من امورک راسا منهم لا يقهره کبيرها و لا يتشتت عليه کثيرها“۔ اپنے ہر حکومتی کاموں کے لیے وزراء کو انتخاب کرنا کہ جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں ایک یہ کہ کام کا زیادہ ہونا اسے مغلوب اور ناتوان نہ کر دے اور دوسرا یہ کہ کام کا زیادہ ہونا اس کو غمگین نہ کردے۔ [28]
یقیناً حسن تدبیر رکھنے والا حکمران کبھی پریشان نہیں ہوگا اور ہر کام کو احسن طریقے سے انجام دے گا۔ اس شرط کی اہمیت عصر حاضر میں زیادہ روشن ہو جاتی ہے جہاں داخلی اور خارجی دشمنوں اور ایجنسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حسن تدبیر سے آراستہ حاکم کبھی مغلوب نہیں ہوگا اور بہت سی مشکلات کا مقابلے کے وقت اپنے حواس اور نفس پر مسلط رہے گا۔
(5): شجاعت اور پائیداری
رہبر کی صفات میں سے جس کی اپنی جگہ پر بہت اہمیت ہے شجاعت اور مستحکم ارادہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو نصیحت فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے حکومتی ڈھانچے میں ان لوگوں کو شامل کریں جو شجاع ہوں اور دشمن کا شجاعت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کریں نہ یہ کہ خود ہی بھاگ جائیں یا قدرت مند لوگوں کے ڈر کی وجہ سے ان کے تابع ہو جائیں۔ جو حکومت اور عوام کے نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا ”ثم اھل النجدۃ والشجاعۃ“۔ پھر وہ جو رحم دل اور قدرت مند و دولت مند لوگوں کے ساتھ، سختی اور بہادری سے پیش آئیں۔ [29]
اسی طرح اگر حکمران اور رہبر مستحکم ارادہ کا مالک ہوگا تو اپنی حکمرانی اور حکومت کے تمام ایام اور خصوصاً مشکل دنوں میں اپنی پالیسیوں کو واضح اور بلا روک ٹوک جاری کر سکتا ہے جس کا اچھا اثر نہ صرف عوام پر پڑے گا بلکہ اس کے حکومتی ڈھانچہ میں بھی کوئی تزلزل پیدا نہیں ہوگا۔
علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ”لاتجعلوا علمکم جھلا،ویقینکم شکا؛اذاعلمتم فاعملوا،واذا تیقنتم فاقدموا“۔
خبردار اپنے علم کو جہل نہ بناؤ اور اپنے یقین کو شک قرار نہ دو، جب جان لو تو عمل کرو اور جب یقین ہو جائے تو قدم آگے بڑھاو۔ [30]
(6): امانتداری
بلاشبہ امانت ایسی صفت ہے کہ جس کی اسلامی تعلیمات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور جب اسی صفت کا ذکر رہبری اور قیادت اور نہج البلاغہ میں حکمرانوں کے بارے میں کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ قیادت اور رہبری ایک قسم کی الہی امانت ہے۔ صحیح طریقے سے رہبری کرنا اور اسلامی قوانین کا جاری کرنا ہی امانت داری ہے، امام علی علیہ السلام اشعث بن قیس کو مخاطب کرتے ہوئے اسی بات کی طرف اشارہ کرتےہیں کہ: یاد رکھ وزارت کا عہدہ تیرے کھانے اور پینے کا وسیلہ نہیں ہے بلکہ ایک امانت ہے جو تیری گردن پر ہے۔
امانتداری کا دوسرا رخ بیت المال کے حوالے سے ہے کہ حاکم اس میں خیانت نہ کرے اور اس کو صحیح طریقے سے خرچ کرے اس حوالے سے حضرت علی علیہ السلام نے بہت سخت اور محکم رویہ اپنایا حتیٰ کہ بعض لوگ مخالف بھی ہوگئے۔ حضرت علی علیہ السلام نے ہر اس شخص کو حکومتی ڈھانچے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا کہ جس کی شہرت خیانت کے حوالے سے رہی ہو۔ اگر کوئی پہلے حاکم تھا اور خائن تھا تو سب سے پہلا کام اس کو عزل کرنا تھا جس کی وجہ سے بہت سی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ لیکن بیت المال کا تعلق عوام سے ہے جس کو قطعاً برداشت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مولائے کائنات کی نگاہ میں بدترین خیانت وہ ہے جو لوگوں کے ساتھ ہو۔
امیرالمومنین (علیہ السلام) مکتوب نمبر 26 میں اپنے بعض وزراء کو خط لکھتے ہوئے یہی چیز بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”ومن استھان بالامانۃ ورتع فی الخیانۃ“۔ [31] جس شخص نے بھی امانت کو معمولی تصور کیا اور خیانت کی چراگاہ میں داخل ہو گیا اور اپنے نفس اور دین کو خیانت کاری سے نہیں بچایا۔ اس نے دنیا میں بھی اپنے کو ذلت اور رسوائی کی منزل میں اتار دیا اور آخرت میں تو ذلت و رسوائی اس سے بھی زیادہ ہے اور یاد رکھو کہ بدترین خیانت امت کے ساتھ خیانت ہے۔
یہانتکہ امام علی علیہ السلام مالک اشترؓ کو واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی امانت میں خیانت کرے اور اس کی خیانت ثابت ہو جائے تو اس سے مال واپس چھیننے کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی سزا دینا اور اس کو معاشرے میں بھی ذلیل و خوار کرنا تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔ ”فبسطت علیہ العقوبۃ فی بدنہ ،اخذتہ بما اصاب من عملہ ،ثم نصبتہ بمقام المذلۃ ،ووسمتہ بالخیانۃ ،وقلدتہ عارالتھمۃ“۔ اور اسے جسمانی اعتبار سے بھی سزا دینا اور جو مال حاصل کیا ہے اسے چھین بھی لینا اور معاشرے میں ذلت کے مقام پر رکھ کر خیانت کاری کے مجرم کی حیثیت سے پہچنوانا اور ننگ و رسوائی کا طوق اس کے گلے میں ڈال دینا۔ [32] اسی طرح اسی خطبہ میں ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی عہدے کی کرسی حاصل کرنے کےلیے اپنے آپ کو امین اور نیک ظاہر کرتے ہیں خبردار ان کا ظاہری پن تجھے دھوکہ نے بلکہ پہلے ان کا امتحان لینا کہ واقعی وہ امانتدار ہیں ان کا آپ سے پہلے حکمرانوں کے ساتھ سلوک کیسا تھا۔ [33]
(7): صداقت
صداقت کی صفت کی اہمیت رسول اکرم ﷺ کی اس حدیث سے لگائی جا سکتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”لاتنظروا الی کثرۃ صلاتھم وصومھم وکثرۃ الحج والمعروف،وطنطنھم باللیل ،ولکن انظروا الی صدق الحدیث واداء الامانۃ“۔ کہ لوگوں کی زیادہ نمازیں، ان کے روزے، ان کے حج اور نیکیاں اور رات کو ان کی مناجات کو نہ دیکھو بلکہ ان کی صداقت اور امانت کی طرف نگاہ کرو۔ [34]
امام علی علیہ السلام نے بھی نہ صرف صداقت سے حکومت کرنے کی سفارش کی بلکہ خود صداقت پر مبنی ایک ایسی الٰہی حکومت قائم کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ اور اسی وجہ سے علی علیہ السلام کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ استاد شہید مطہری لکھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت میں تیسری مشکل امام کی سیاست میں صداقت اور صراحت کا ہونا تھا کہ حتیٰ بعض اپنے لوگ بھی اس کو پسند نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سیاست میں اتنی صداقت نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ سیاست کی چاشنی تو جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ اسی وجہ سے علی علیہ السلام کو اچھا سیاستدان نہیں سمجھتے تھے اسی وجہ سے امیر کائنات (علیہ السلام) نے بھی واضح الفاظ میں فرمایا:
”واللہ مامعاویہ بادھی منی ولکنہ یغدرویفجرولو لا کراھیۃ الغدرلکنت من ادھی الناس ولکن کل غدرۃ فجرۃ وکل فجرۃ کفرۃ“۔
معاویہ مجھ سے بڑا سیاستدان اور ذہین نہیں ہے لیکن وہ دھوکا اور فریب دیتا ہے اور گناہ کرتا ہے اگر دھوکا اور فریب گناہ نہ ہوتا تو میں زیادہ ذہین اور سیاستمدار ہوتا لیکن ہر مکر و فریب گناہ ہے اور ہ رگناہ کفر ہے۔ [35]
مذکورہ بالا مطلب سے واضح ہوگیا کہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت صداقت کے عنصر پر قائم تھی اور صداقت کی اہمیت کے پیش نظر مالک اشتر کو بھی ارشاد فرماتےہیں کہ: ”وایاک والمن علی رعینک باحسانک او التزید فیما کان فعلک اوان تعدھم فتع موعدک بخلفک ان المن یبطل الاحسان والتزید یذھب بنورالحق ،والخلف یوجب المقت عنداللہ“۔ [36]
اس مطلب سے واضح ہوتا ہے کہ حاکم صرف حکومت کی سیٹ تک پہنچنے کے لیے جھوٹے وعدے اور لوگوں کو فریب نہ دے لیکن آج کی سیاست میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی لوگ اپنے مذموم اہداف تک پہنچنے کےلیے جھوٹے وعدے، فریب اور دھوکے کا سہارا لیتے ہیں اور سیاست کو اسی چیز کا نام دیتے ہیں۔
(8): حسن سابقہ
امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں ایک وزیر کا حسن سابقہ رکھنا بہت اہم ہے اگر اس کا ماضی اس کے برے اعمال، ظلم وستم، خیانت اور فریب کو آشکار کرنے والا ہے تو وہ رہبری اور قیادت کے لائق نہیں ہے اور اس سلسلے میں علی علیہ السلام کا مؤقف سخت تھا اور بہت سی مشکلات اسی وجہ سے پیدا ہوئی امام کی نگاہ میں بہت سے فرمانروا ایسے تھے جو فرمانروائی کے قابل نہیں تھے۔ علی علیہ السلام نے ایک لحظہ بھی انہیں ان کے مقام پر برداشت کرنا گوارا نہ سمجھا اور دوسرا اپنے وفادار ساتھیوں کو بھی اسی چیز کی تاکید فرماتے۔ مالک اشتر کو فرماتے ہیں: ”ان شرّوزرائک من کان لاشرار قبلک وزیرا ،ومن شرکھم فی الاثام فلایکونن لک بطانۃ“۔ بدترین وزراء وہ لوگ ہیں کہ جو پہلے برے لوگوں کے وزیر تھے اور ان کے گناہوں میں شریک تھے پس ایسا نہ ہو کہ ایسے افراد تمہارے ہم راز بن جائیں کیونکہ گناہگاروں کے یاور تھے اور ظالم لوگوں کی مدد کرنے والے تھے۔ پس تم ایسے افراد تلاش کرو جو فکری حوالے سے قوی اور معاشرے میں جانی پہچانی شخصیات ہوں جنہوں نے کسی ظالم کی مدد نہیں کی۔ ایسے لوگ تیری نسبت مہربان تر ہوں گے۔ ان کو اپنی نجی اور سرکاری محفلوں میں دعوت کرو۔ [37]
(9): ریاست طلبی سے پرہیز
ریاست طلبی ایک ھوای نفسانی ہے اس لیے امام علی نے مالک کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : ولاتقولن : انی مومر آمرفاطاع فان ذلک ادغال فی القلب ومنھکۃ للدین۔ اورنہ کہنا : میں حاکم ہوں اورحکم دیتا ہوں اورحتما حکم جاری ہو ؛کیونکہ ایسی صفات دل کے فاسد اوردین اورحکومت کی نابودی کا سبب بنتا ہے۔ [38]امام علی مالک کو فرماتے ہیں کہ خدا کی قدرت اورعظمت کو ذہن میں رکھ اورجب حاکم ہونا تجھے مغرور بنانے لگے تو خدا کی قدرت اورعظمت کی طرف نگاہ کرنا۔ اسی طرح امام مالک کو ارشاد فرماتے ہیں کہ اس حکومت کو ایک اورنگاہ سے دیکھ اوروہ یہ ہے کہ یہ حکومت ایک امتحان ہے کہ خدا نے اس کے ذریعے لوگوں پر اس کو حاکم بنا کر اس کا امتحان لیتا ہے۔ [39]
ب: اجتماعی صفات
1: خوش خلقی:
خوش خلقی کی اہمیت کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت کافی ہے کہ فرمایا: ”لوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوا من حولک“۔ [40]
اور خود امام علی علیہ السلام کا یہ فرمان بھی اس کی اہمیت کو دو چندان کردیتا ہے کہ فرمایا: ”لاقرین کحسن الخلق“۔ خوش خلقی جیسا کوئی ساتھی نہیں۔ [41]
نہج البلاغہ میں اس صفت کو ایک انسان کا امتیاز خاص بیان کیا گیا ہے امام علی علیہ السلام محمد بن ابو بکر اور مالک اشتر کو فرماتے ہیں کہ محبت، مہربانی اور شاداب چہرے کے ساتھ لوگوں سے ملیں اور ان کے مسائل سے آگاہی پیدا کریں۔ امام علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”وأشعرقلبک الرحمۃ للرعیۃ، والمحبۃ لھم، واللطف بہم، ولاتکونن علیہم سبعاضا ریاتغتنم اکلھم“۔ (نامہ 53، ص 403، 404 ترجمہ دشتی)
2: تواضع و فروتنی
تواضع اور فروتنی ایسی صفات ہیں کہ جو ہر شخص کے لیے پسندیدہ ہیں حضرت علی علیہ السلام خطبہ نمبر 192 میں تواضع اور فروتنی کو انسان کی دنیوی اور اخروی کامیابی کا راز بتاتے ہوئے لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ اگر غرور اور تکبر کوئی اچھی چیز ہوتی تو خدا اپنے پیغمبروں کے لیے اسے انتخاب کرتا در حالانکہ خدا نے پیغمبروں کو تکبر اور غرور سے منع فرمایا ہے۔ پیغمبران خود مومنین کے آگے تواضع اور فروتنی کرتے امام فرماتے ہیں: ”ورضی لھم التواضع“۔ [42] خداوند متعال نے انبیاء علیہم السلام کے لیے تواضع کو انتخاب کیا ہے اسی طرح حکمت 113 میں امام تواضع کو انسان کی شخصیت کے عنوان سے یاد کرتے ہیں کہ تکبر اور غرور سے انسان کی شخصیت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ تواضع سے ہوتی ہے فرماتے ہیں کہ ”لاحسب الاالتواضع“۔ [43]
ممکن ہے بعض لوگ جیسے رہبر اور حاکم ہیں کہ کسی عہدے پر پہنچ کر تکبر جیسی بیماری میں مبتلاء ہو جائیں جو ان کی بربادی اور نابودی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اسی لیے امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو ارشاد فرماتے ہیں: اپنی رعیت کے سامنے تواضع اور انکساری سے پیش آنا۔ [44] اور اسی طرح اگر کوئی سخت بات کہہ دے تو اس کو برداشت کرنے کی طاقت ایک حاکم میں ہونی چاہیے امام فرماتے ہیں: ”ثم احتمل الخرق منھم والعی، ونح عنھم الضیق والانف یبسط اللہ علیک بذلک اکناف رحمتہ“۔ ان میں سے اگر کوئی بدکلامی کا مظاہرہ کرے تو اسے برداشت کرو اور دل تنگی اور غرور کو دور رکھو تاکہ خدا تمہارے لیے رحمت کے دروازے کھول دے۔ [45]
3: لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا
حضرت امیر علیہ السلام کے نورانی کلام سے ایک اور صفت جو ایک رہبر اور حاکم کے لیے ضروری ہے اور جس کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے وہ ہے لوگوں کے عیبوں پر پردہ ڈالنا۔ کیونکہ انسان خطا کا پتلا ہے جس سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں جن میں عیب بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ صرف معصوم ہستیاں ہی ایسی ہے اس دنیا پر جن میں کوئی عیب نہیں ورنہ دوسرے لوگ عیبوں سے بالکل پاک نہیں ہیں۔ اسی لیے حاکم خدا کی اس (ستارالعیوب) صفت کا مظہر ہونا چاہیے جس طرح وہ خود امید رکھتا ہے کہ خدا اس کے عیبوں کو چھپائے رکھے تو وہ خدا کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالے۔ صرف یہ نہیں بلکہ مولائے کائنات کی نگاہ میں ایک حاکم ایسا ہونا چاہیے جو نہ خود عیب لوگوں کے بیان کرے اور نہ ایسے لوگوں کو اپنے پاس بیٹھنے دے جو دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرکے انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”فان فی الناس عیوبا،الوالی احق من سترھا ،فلاتکشفن عماغاب عنک منھا ،فانما علیک تطھیرما ظھرلک۔ ۔۔۔۔فان الساعی غاش،وان تشبہ بالناصحین“۔ بہرحال لوگوں میں کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری خود والی پر ہے لہذا خبر دار جو تمہارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا۔ جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو جن اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگار سے تمنا رکھتے ہو۔ ہر چغل خور کی تصدیق میں عجلت سے کام نہ لینا کہ چغل خور ہمیشہ خیانت کار ہوتا ہے چاہے وہ مخلصین ہی کے بھیس میں کیوں نہ ہو۔ [46]
باب سوم
رہبر اورحاکم کی ذمہ داریاں
1: عدل و انصاف کا قیام
عدالت ایک ایسا مقولہ ہے جو اس دور میں زیادہ تر حضرت علی علیہ السلام کی سیرت اور خلافت سے مربوط سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کے قیام کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور اس راستے میں اتنی مشکلات اٹھائیں کہ جو عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔
عدالت ایک چیز ہے کہ جو خدا کو پسند ہے اور خدا نے حکمرانوں پر یہ بات بھی فرض کی ہے کہ وہ عدالت کے قیام میں کوشش کریں حضرت علی علیہ السلام عدل کے قیام کو رہبروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک سے تعبیر کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ: ”وان افضل قرۃ عین الولاۃ استقامۃ العدل فی البلاد“۔ [47] کہ تحقیق والیوں کے حق میں بہترین آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان یہ ہے کہ ملک بھر میں عدل وانصاف کا قیام ہے۔ البتہ رہبروں اور حکمرانوں کا اولین فریضہ بھی ہے تاکہ ظلم و ستم سے نجات پاتے ہوئے عوام اور لوگوں تک ان کے حقوق پہنچتے رہیں۔ چاہے اس سے بعض خواص کا طبقہ ناپسندیدگی کا اظہار ہی کیوں نہ کرے۔ اگر انصاف کا دامن پکڑا ہوا ہے تو اس کو انجام دو۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
”ولیکن احب الامور الیک اوسطھا فی الحق واعمھا فی العدل اجمعھالرضی الرعیتہ“۔ تمہارے لیے پسندیدہ کام وہ ہونا چاہیے جو حق کے اعتبار سے بہترین، انصاف کے لحاظ سے سب کو شامل اور رعایا کی مرضی سے اکثریت کے لیے پسندیدہ ہو کہ عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے۔ [48] اسی طرح فرماتے ہیں کہ ”انصف اللہ، وانصف الناس من نفسک ومن خاصۃ اھلک، ومن لک فیہ ھوی من رعیتک فانک لاتفعل تظلم۔ اپنی ذات اپنے اہل و عیال اور رعایا میں جن سے تمہیں تعلق خاطر ہے سب کے سلسلہ میں اپنے نفس اور اپنے پروردگار سے انصاف کرنا کہ ایسا نہ کرو گے تو ظالم ہو جاؤ گے۔ [49]
حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو خطاب کرتےہوئے رسول اللہ ﷺ کی زبانی ارشاد فرماتےہیں کہ: ”لن تقدس امۃ لایوخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیرمتتعتع“۔ وہ امت پاکیزہ کردار نہیں ہو سکتی جس میں کمزور کو آزادی کے ساتھ طاقتور سے اپنا حق لینے کا موقع نہ دیا جائے۔ [50]
2: اقرباء پروری سے پرہیز
ایک حاکم کے لیے بہت ہی خطرناک چیز یہی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں اور قریبی ساتھیوں کو اہمیت دے اور ان میں ہی عہدے تقسیم کرے چاہے ان میں لیاقت ہو یا نہ؟ اگر وہ اس لائق ہیں تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے. لیکن نالائق لوگوں کو عہدے دینا اس بنا پر کہ وہ حاکم کے رشتہ دار اور اس کے قریبی ہیں اور انہیں میں بیت المال تقسیم کرکے دوسرے لوگوں میں فرق کرنا یہ درست نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی ایسا کیا چاہے وہ خلیفہ ہی کیوں نہ تھا لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دکھائی دیا۔ اس لیے امامؑ ایک رہبر کی ذمہ داریوں میں سے شمار کرتے ہیں کہ وہ اقربا پروری سے پرہیز کرے۔
حضرت علی علیہ السلام کو مصقلہ بن ہبیرہ الشیبانی کی شکایت ملی کہ وہ بیت المال کو اپنے رشتہ داروں اور قریبی آدمیوں میں تقسیم کرتا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے جب یہ سنا تو بہت سخت الفاظ میں ایک خط لکھا۔ جس میں فرماتے ہیں: ”انک تقسم فی ء المسلمین الذی حازتہ رماحھم وخیولھم۔ ۔۔۔۔۔ولتخفن عندی میزانا“۔ (مجھے خبر ملی ہے کہ) تم مسلمانوں کے مال غنیمت کو جسے ان کے نیزوں اور گھوڑوں نے جمع کیا ہے اور جس کی راہ میں ان کا خون بہایا گیا ہے اپنی قوم کے ان بدوؤں میں تقسیم کر رہے ہو جو تمھارے خیرخواہ ہیں۔ قسم اس ذات کی جس نے دانہ شگافتہ کیا ہے اور جانداروں کو پیدا کیا ہے اگر یہ بات صحیح ہے تو تم میری نظروں میں انتہائی ذلیل ہو گئے اور تمہارے اعمال کا پلہ ہلکا ہو جائے گا۔ [51]
3: مشورت
حضرت امام علی علیہ السلام مالک اشتر کے وظائف میں سے ایک مشورت کو شمار کرتے ہیں کہ علماء اور حکماء کے ساتھ بیٹھ کر ان سے مشورہ لے تاکہ جو چیز ملک کی مصلحت اور فائدے میں ہے اس کو انجام دے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جو حکمران اپنے آپ کو مشورت سے بے نیاز سمجھتے ہیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ امام علی علیہ االسلام عہدنامہ مالک میں بعض لوگوں کی صفات بیان کرکے مالک کو منع فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں کے ساتھ مشورہ مت کرنا فرمایا: ”ولاتدخلن فی مشورتک بخیلا یعدل بک عن الفضل ویعدک الفقر،ولا جبانا یضعفک عن الامور ولا حریصایزین لک الشرۃ بالجور“۔ دیکھو اپنے مشورہ میں کسی بخیل کو شامل نہ کرنا کہ وہ تم کو فضل و کرم کے راستہ سے ہٹا دے گا اور فقر و فاقہ کا خوف دلاتا رہے گا۔ اسی طرح بزدل سے مشورہ نہ کرنا کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور بنا دے گا اور حریص سے بھی مشورہ نہ کرنا کہ وہ ظالمانہ طریقہ سے مال جمع کرنے کو بھی تمہاری نگاہوں میں آراستہ کردے گا۔ [53]
4: عوام کی طرف توجہ کرنا اور ان سے اچھا سلوک
ایک اہم وظیفہ اور ذمہ داری جو حاکم اور رہبر پر آتی ہے اور ایسا موضوع ہے کہ جس پر مستقل طورپر بحث کی جا سکتی ہے اور حضرت علی علیہ السلام نے مختلف زاویوں سے اس پر بحث کی ہے مثلاً ان پر ظلم نہ ہونے دینا، ان سے رابطہ رکھنا اور نگہبانو ں کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی نہ کرنا، عوام سے زیادہ دنوں تک پوشیدہ نہ رہنا، ان سے ٹیکس لیتے وقت ان کے حالات کو دیکھنا، ان کی مشکلات کو حل کرنے کے بارے میں سوچنا، اگر غلطی ہوجائے تو عوام سے معافی وغیرہ مانگنا وغیرہ۔ یہ وہ اشارے ہیں کہ جن پر حضرت علی علیہ السلام نے اپنے کلام میں نہ صرف ان کے مثبت اثرات کو بیان کیا ہے وہاں ان کی طرف توجہ نہ کرنے سے جو ایک رہبر کےلیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ان کوبھی بیان کیا ہے ہم یہاں صرف اشارہ کے طورپر ذکر کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام بر خلاف دنیوی سیاستدانوں کے جو چند اثر و رسوخ والے لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں اور اپنی ناقص عقل کے مطابق سوچتے ہیں کہ یہ حکمرانی کی کرسی ان کی وجہ سے ہے۔ جب تک یہ راضی ہیں اس کی اس کرسی کو کوئی نہیں چھین سکتا۔ امام اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ خاص اثر و رسوخ والے لوگ سب سے زیادہ تیری حکومت کو نقصان پہنچائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عدالت برقرار کرنے کے مخالف ہیں، جتنا بھی دو اتنا ان کے لیے کم ہے، مشکلات کے وقت سب سے پہلے متزلزل نظر آتے ہیں یہاں تک کہ عوام کی خصوصیات تک پہنچتے ہیں اور فرماتے ہیں:
”و انما عمادالدین، واجماع المسلمین، والعدۃ للاعداء،العامۃ من الامۃ، فلیکن صغوک لھم، ومیلک معھم“۔ دین کا ستون، مسلمانوں کی اجتماعی طاقت، دشمنوں کے مقابلہ میں سامان دفاع عوام الناس ہی ہوتے ہیں۔ لہذا تمہارا جھکاؤ انہیں کی طرف ہونا چاہیے اور تمہارا رجحان انہیں کی طرف ضروری ہے۔ [54]
جی ہاں عوام ہی رہبر کی اصل طاقت ہے۔ عوام کو مطمئن رکھنا ان کی ضروریات کو پوری کرنا، ان کے مسائل کو سننا رہبر کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہییں تاکہ ضرورت مند اور مظلوم کھلم کھلا اور بغیر ہچکچاہٹ کے اپنا مدعا بیان کرسکے۔ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”وتجلس لھم مجلسا عاما۔۔۔۔حتی یکلمک متکلمھم“۔ (فریادیوں کی فریاد اور عوام کے مسائل سننے کے لیے) ایک عمومی مجلس کا انعقاد کرو اور اس خدا کے سامنے متواضع رہو کہ جس نے تجھے پیدا کیا ہے اپنے تمام نگہبان، پولیس، فوج، اعوان و انصار سب کو دور بٹھا دو تاکہ بولنے والا آزادی سے بول سکے اور کسی طرح کی لکنت کا شکار نہ ہو۔ [55] رعایا سے محبت اور نرمی سے پیش آنا ایک رہبر کا اولین فریضہ ہونا چاہیے۔ مولائے کائنات اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”و اشعر قلبک الرحمۃ للرعیۃ، والمحبۃ لھم واللطف بھم ولا تکونن علیھم سبعاضاریا“۔رعایا کے ساتھ مہربانی اور محبت و رحمت کو اپنے دل کا شعار بنا لو اور خبر دار ان کے حق میں پھاڑ کھانے والے درندے کی مثل نہ ہو جانا جو انہیں کھا جانے ہی کو غنیمت سجھے۔ [56]
عوام میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کی بہت سی کمزوریاں بھی ہوتی ہیں یہ رہبر اور حاکم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی کمزوریوں اور ان کے عیبوں پر پردہ ڈالے امام علی علیہ السلام مالک کو مخاطب کرتے ہوئے مکتوب 53 میں ارشاد فرماتےہیں کہ: لوگوں کے ان تمام عیبوں کی پردہ پوشی کرتے رہو کہ جن عیبوں کی پردہ پوشی کا اپنے لیے خدا سے تمنا رکھتے ہو۔
اسی طرح ایک اور اہم مورد جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے وہ ہے ٹیکس لینا۔ امام علی علیہ السلام اس مورد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھو ٹیکس کا تعلق زمینوں کی آباد کاری سے ہے۔ ایک حاکم ٹیکس کا حقدار اس وقت ہوسکتا ہے جب اس نے زمینوں کی آبادکاری میں مدد کی ہو، ان کی مشکلات کو دورکیا ہو۔ جس نے زمینوں کو آباد کیے بغیر ٹیکس لینے پر اصرار کیا اس نے شہروں کو برباد کیا۔ [57]
5: دنیا کو ذخیرہ نہ کرنا
آج کے حکمرانوں کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ حکمرانی یا کسی عہدے کو غنیمت شمار کرتے ہیں اور یہی سوچتے ہیں کہ انہی دنوں میں کئی سالوں کے لیے دولت جمع کر لیں لیکن حضرت علی علیہ السلام معاشرے میں فقر اور غربت کے سبب کو یہی طرز عمل بتاتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں کہ: جہاں بھی غربت اور فقر آ جائے نابودی بھی حتمی ہے اور غربت معاشرے میں اس وقت آتی ہے جب حکمران دولت جمع کرنے میں لگ جائیں۔ اپنی کرسی کے جانے کا خوف پیدا ہو جائے۔ حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”وانما یوتی خراب الارض من اعواز اھلھا وانما یعوز اھلھا لاشراف انفس الولاۃ علی الجمع“۔ زمینوں کی بربادی اہل زمین کی تنگ دستی سے پیدا ہوتی ہے اور تنگ دستی کا سبب حکام کے نفس کا جمع آوری کی طرف رجحان ہوتا ہے۔ ان کی یہ بدظنی ہوتی ہے کہ حکومت باقی رہنے والی نہیں ہے اور وہ دوسرے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ [58]
6: وزراء کی تشویق
حکومت ایک مشینری کی مانند ہے کہ جس کا ہر وزیر حکومت کی اس مشینری کو چلانے میں حصہ دار ہے۔ امام علی علیہ السلام کی نظر میں ایک حاکم کے لیے جو حکومت کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، ایک وظیفہ یہ بھی ہے کہ وزراء کی تشویق کرے۔ جس کے دو اہم فائدے ہیں، ایک یہ جن وزراء کی تشویق ہوئی ہے ان کو حوصلہ ملے گا کہ ان کی محنت رائیگان نہیں گئی اور دوسرا فائدہ یہ کہ باقی وزراء اور حکومتی اہل کار بھی دیکھیں گے تو رشک کریں گے کہ ہمیں بھی ایسا کرنا چاہیے۔
امام علی علیہ السلام مالک اشتر کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”و واصل فی حسن الثناء علیھم، وتعدیدما ابلیٰ ذوو البلاء منھم، فانّ کثرۃ الذکر لحسن افعالھم تھزالشجاع، وتحرص الناکل، ان شاء اللہ تعالی“۔ اوربرابر (جوانوں اور وزراء کے) کارناموں کی تعریف کرتے رہنا بلکہ ان کےعظیم کارناموں کا شمار کرتے رہنا کہ ایسے کارناموں کے تذکرے بہادروں کو جوش دلاتے ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو ابھارتے ہیں۔ [59]
7: مصاحبت کے لیے اچھے لوگوں کا انتخاب کرنا
ایک اور اہم وظیفہ جو ایک رہبر اور حاکم کا بنتا ہے وہ اپنے آس پاس بیٹھے لوگوں پر توجہ ہے۔ کیونکہ بسا اوقات ایک رہبر کی شکست اور اس کی حکومت کا تختہ الٹنے کا سبب یہی لوگ بنتے ہیں۔ لوگوں میں رہبر کی بدنامی کا سبب بھی یہی لوگ ہوتے ہیں۔ اسی لیے رہبر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد کے لوگ متقی اور پرہیزگار ہونے چاہییں۔ امام علی علیہ السلام نے مالک کو خبردارکرتے ہوئے ارشادفرمایا: ”والصق باھل الورع والصدق،ثم رضھم علی الایطروک ولایبححوک بباطل لم تفعلہ“۔ اپنا قریبی رابطہ اہل تقویٰ اور اہل صداقت رکھنا اور انہیں بھی اس امر کی تربیت دینا کہ بلا سبب تمہاری تعریف نہ کریں اور کسی ایسے بے بنیاد عمل کا غرور نہ پیدا کرائیں جو تم نے انجام نہ دیا ہو کہ زیادہ تعریف سے غرور پیدا ہوتا ہے۔ [60]
رہبر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اردگرد رہنے والے لوگ سب برابر نہیں ہونے چاہییں۔ بلکہ نیک اور بد میں فرق ہونا چاہیے۔ اس کی رفتار، اس کے کردار وغیرہ میں یہ چیز ظاہر ہونی چاہیے امام فرماتے ہیں: ”ولایکونن المحسن والمسی ء عندک بمنزلۃ سواء ،فان فی ذلک تزھیدا لاھل الاحسان فی الاحسان ،وتدریبا لاھل الاساء ۃ علی الاساء ۃ!“۔ دیکھو خبردار نیک اور بدکردار تمہارے نزدیک یکساں نہیں نہ ہونے پائیں کہ اس طرح نیک کرداروں میں نیکی سے بددلی پیدا ہوگی اور بدکرداروں میں بدکرداری کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ [61]
باب چہارم : صالح رہبری اور قیادت کے آثار و برکات
اگرچہ اس موضوع پر سیرحاصل بحث نہیں جا سکتی۔ البتہ صرف اس لیے کہ یہ عنوان بھی تشنہ کام نہ رہے صرف اشارہ کرتے ہیں۔ خطبہ نمبر 40 میں امام علی علیہ السلام خوارج کے اعتراض کے جواب میں فرماتےہیں: آؤ میں بتاؤں کہ حکومت اسلامی کے آثار و برکات کیا ہیں فرمایا:
1: مومنین کے لیے امنیت اور آزادی کاحاصل ہونا تاکہ اپنے واجبات کو اچھے طریقے سے انجام دے سکیں۔ (یعمل فی امرتہ المومن) [62] 2: کافر اور مشرک لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اور ان پر کوئی جبر نہ ہوگا۔ (ویستمتع فیھا الکافر) [63] 3: بیت المال کو ایمان داری سے جمع کیا جائے گا۔ جو لوگوں کی خوشحالی اور ان کی مشکلات کے کم ہونے کا سبب بنے گا۔ (یجمع بہ الفیء) [64] 4: نیک رہبر کی بدولت معاشرتی امنیت حاصل ہو گی۔ (تامن بہ السبل) [65] 5: مظلوم کا حق ایک ظالم سے فوراً لے لیا جائے گا۔ مظلوم کی فریاد کو سنا جائے گا چاہے ظالم کتنا ہی طاقتورکیوں نہ ہو۔ (یوخذبہ للضعیف من القوی) [66]
حالانکہ دنیوی اور غیر الٰہی حکومتوں میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایسا تب ہوگا جب رہبر اور قائد صالح ہوگا اسی طرح عہدنامہ مالک اشتر میں اگر غور کریں تو امامؑ نے خط کے شروع میں الٰہی اور اسلامی حکومت کہ جس کا رہبر صالح اور نیک ہو اس کی برکات کی طرف اشارہ کیا ہے مثلاً
1: شہروں کی آباد کاری صرف صالح اور نیک رہبری کا شاخسانہ ہے۔ (جبایۃ خراجھا) [67] 2: خدا کے دشمنوں سے جنگ کرنا نہ کہ ان کے آگے سر جھکانا۔ (جھاد عدوھا) [68] 3: لوگوں کی اصلاح، اچھی تربیت اور ان کے رشد کی طرف توجہ کرنا۔ (واستصلاح اھلھا) [69]
یہ مختصر سی تحریر یقیناً اس موضوع کا حق ادا نہیں کرسکتی۔ کیونکہ مطالب کے بحر عمیق نہج البلاغہ سے صرف چند سطور کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرنے کےلیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے لیکن صرف اس موضوع کا تعارف کرانے کے لیے یہ مختصر تحریر لکھی گئی ہے۔
حوالہ جات
[1] شیخ طوسی، الامالی، ج1،ص215،ح328[2] سورہ رعد،آیت 7
[3] نہج البلاغہ، خطبہ 40
[4] ترجمہ، سید ذیشان حیدرجوادی، ص 93
[5] نہج البلاغہ، خطبہ 40
[6] ارسنجانی، حسن۔حاکمیت دولتھا، ص63
[7] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان جوادی، خطبہ، 3،ص43
[8] ایضا
[9] نہج البلاغہ، نامہ 27
[10] نہج البلاغہ، کلمات قصار467
[11] ایضا،خطبہ، 116
[12] نهج البلاغه، ترجمہ فيض الاسلام، خ131، ص406 407
[13] نہج البلاغہ، خطبہ 164
[14] ایضا، نامہ 62
[15] سورہ شمس، آیت 9اور10
[16] نہج البلاغہ، نامہ 53
[17] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، نامہ 27ص513
[18] ایضا، نامہ 53،ص573
[19] ایضا، ص 591
[20] ایضا، مکتوب 56،ص 600۔601
[21] اصول کافی، کلینی، ج3،ص153
[22] ایضا، مکتوب 53،ص 583
[23] ایضا
[24] نہج البلاغہ، ترجمہ دشتی، مکتوب 45،ص393۔394
[25] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، خطبہ، 209،ص429
[26] غررالحکم، حدیث نمبر 8438
[27] ایضا،حدیث نمبر 5571
[28] نہج البلاغہ، مکتوب 53
[29] ایضا،ترجمہ دشتی، مکتوب 53،ص409
[30] ایضا،ترجمہ ذیشان حیدرجوادی، کلمات قصار274
[31] نہج البلاغہ ترجمہ ذیشان حیدرجوادی مکتوب 26ص511
[32] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، مکتوب، 53،ص585
[33] ایضا،ص587
[34] مجلسی، بحارالانوار،ج70،ص9
[35] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدرجوادی،خطبہ 200،ص421
[36] نہج البلاغہ، مکتوب 53
[37] ایضا،ص577
[38] ایضا، مکتوب 53،ص574
[39] ایضا،
[40] سورہ آل عمران آیت 159
[41] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، کلمات قصار 113،ص670
[42] ایضا،خطبہ 192
[43] ایضا، کلمات قصار113
[44] ایضا، مکتوب 53
[45] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، مکتوب 53،ص589
[46] ایضا،ص577
[47] ایضا،ص581
[48] ایضا،ص575
[49] ایضا
[50] ایضا۔
[51] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، مکتوب 43،ص555
[52] ایضا،کلمات قصار113
[53] ایضا،مکتوب 53،ص577
[54] ایضا
[55] ایضا، ص 589
[56] ایضا،ص573
[57] ایضا،ص585
[58] ایضا، ص585
[59] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، مکتوب 53
[60] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدرجوادی، مکتوب نمبر53،ص577
[61] ایضا
[62] خطبہ 40،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، ص92
[63] ایضا
[64] ایضا
[65] ایضا
[66] ایضا
[67] مکتوب 153،ترجمہ ذیشان حیدر جوادی، ص572
[68] ایضا
[69] ایضا
مصادر
[1] قرآن کریم[2] نہج البلاغہ، ترجمہ ذیشان حیدرجوادی، انصاریان پبلیکیشنز، ۲۰۰۷ء
[3] نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتی، موسسہ فرھنگی تحقیقاتی امیرالمومنین علیہ السلام
[4] امالی، محمد بن حسن، طوسی، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۱
[5] غررالحکم و دررالکلم یا مجموعہ کلمات قصار امام علی علیہ السلام، ناشر محمد علی انصاری قمی
[6] اصول کافی، کلینی، محمد بن یعقوب، دارالاضواء للطباعۃ والنشر والتوزیع
[7] تہذیب الاحکام، شیخ طوسی، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت
[8] علل الشرائع، شیخ صدوق، محمد بن علی، منشورات مکتب الداوری
[9] حاکمیت دولتھا۔ کلانتری ارسنجانی، علی اکبر، کتابفروشی نجفی
[10] بحارالانوارالجامعۃ لدررالاخبارالائمہ الاطھار، علامہ مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی، داراحیاء التراث العربی




