شمع زندگی

194۔ زبان کے خطرات

اَللِّسَانُ سَبُعٌ اِنْ خُلِّيَ عَنْهُ عَقَرَ۔ (نہج البلاغہ حکمت ۶۰)
زبان ایک ایسا درندہ ہے کہ اگر اُسے کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھاڑ کھائے۔

انسان کی پہچان اُس کی زبان ہے۔ یہی اسے حیوانات سے افضل بنائے ہوئے ہے۔ اللہ سبحانہ نے نعمتوں کے تذکرہ والی سورۃ رحمان میں انسانی خلقت کے ساتھ جس نعمت کو بیان فرمایا ہے وہ بیان یا کلام کا علم ہے۔ زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کبھی زخمی دلوں کے لیے مرہم بن جاتے ہیں تو کبھی الفاظ ہی زخمی دل پر نمک چھڑک جاتے ہیں۔ امیرالمومنینؑ نے مختلف مقامات پر زبان کے خطرات سے آگاہ فرمایا ہے۔ یہاں زبان کو درندے کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اگر اسے کھلا چھوڑ دیا گیا تو درندوں کی طرح چھیڑ پھاڑ کھائے۔ اس شباہت سے امام علیؑ زبان کے خطرات سے آگاہ فرما رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اسے کھلا نہ چھوڑا جائے بلکہ اس پر عقل کا پہرا ہونا چاہیے۔ اس زبان پر عقل کا پہرا ہوگا تو انسان سوچ بچار کے بعد کچھ کہے گا اس طرح زبان اور کلام خوشگوار زندگی کا سبب، لوگوں کو جوڑنے کا ذریعہ، دکھی انسانوں کا سہارا بنے گی اور اگر زبان آزاد ہو جائے تو خود اس شخص کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی خطرے کا سبب بن جائے گی۔ اس زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ کبھی بڑی بڑی جنگیں کروا دیتا ہے، آگ کے شعلے بھڑکا دیتا ہے، خون کی ندیاں بہا دیتا ہے اور اسی زبان سے نکلے ہوئے جملات فتنہ و فساد کی بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈالنے کا کام دیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button