منظوم نہج البلاغہ

منظوم نہج البلاغہ خطبہ 52

دنیا کے زوال و فنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا

منظوم ترجمہ: شاعر نہج البلاغہ مولانا سلمان عابدیؔ

یہ دنیا جارہی ہے کر چکی اعلان رخصت بھی

اور اس کی ہوگئیں معروف چیزیں مضمر و مخفی

نہایت تیز رفتاری سے منہ نیوڑھا رہی ہے یہ

اور اپنے اہل کو سوئے فنا لے جارہی ہے یہ

یہ ہمسایوں کو لیکر جارہی ہے موت کی جانب

(اماں پائے بھلا کیونکر یہاں اس کا کوئی طالب)

اور اس کی ہوچکیں شیرینیاں سب تلخ اے لوگو

مکدر ہوچکا ہے اس کا ہر اک صاف گر سمجھو

بس اتنا رہ گیا ہے جتنا پانی تہ میں ہوتا ہے

جسے مقدار میں اک گھونٹ یا کہئے کہ جرعہ ہے

جسے پیاسا اگر پی لے تو تب بھی پیاس رہ جائے

فقط سیرابی کی اک آرزو اک آس رہ جائے

خدا کے بندو اس سے کوچ کی تیاریاں کر لو

زوال اس کا مقدر ہے ذرا آگاہ ہو جاؤ

کہیں ایسا نہ ہو تم خواہشوں کو سر پہ چڑھ والو

اور اس کوتاہ مدت کو ہی طولانی سمجھ بیٹھو

قسم رب کی تم ان ناقوں کی صورت بھی کرو فریاد

جو بچے کھو چکی ہیں ہو چکی ہے جن کی گم اولاد

اور اپنے جھنڈ سے بچھڑے کبوتر کی طرح روؤو

اور ان سب راہبوں کی طرح چیخو اور چلاؤ

گھروں کو چھوڑ کر جو بس چکے ہوں کنج خلوت میں

جو ہر اک شئی سے کٹ کر ہوچکے ہوں گم عبادت میں

تقرب کے لئے یا اپنے درجے کی بلندی کو

یا اپنے ان گناہوں اور خطاؤں کی معافی کو

کراما کاتبیں نے لکھ دیا ہے جن کو دفتر میں

فرشتوں نے جنہیں محفوظ کر ڈالا ہے محضر میں

اٹھا لو ہاتھ بھی گر اپنے مال اور اپنے بچوں سے

الگ ہو جاؤ گھر سے اور اپنے بھائی بندوں سے

تو یہ اس اک جزاء سے کم ہے اس اک اجر سے کم ہے

تمہارے واسطے جس کی مجھے امید پیہم ہے

اور اس کل کے عذاب و انتقام رب سے کمتر ہے

تمہارے بارے میں جس کا مجھے اندیشہ اور ڈر ہے

قسم رب کی تمہارے دل اگر بالکل پگھل جائیں

اور آنکھوں سے تمہاری خون کے قطرے بھی ڈھل جائیں

اسی حالت میں پھر باقی رہو تم رہتی دنیا تک

تو پھر بھی یہ تمہارے بے کسر اعمال سب بیشک

جو نعمت دی گئی ہے اس کا ‘ ایماں کی ہدایت کا

چکا سکتے ہیں قرضہ اور نہ ہی ہو سکتے ہیں بدلہ

ختم شد

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button